جنوبی کوریا کے شہر پچھون میں جنگی طیاروں کے بم گرنے سے 29 افراد زخمی

جنوبی کوریا کے شہر ‘پچھون’ میں ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جب دو جنگی طیاروں نے معمولی غلطی کے سبب 500 پاؤنڈ کے آٹھ بم شہری علاقے میں گرا دیے جس کے نتیجے میں 29 افراد زخمی ہوگئے۔ اس حادثے میں 15 شہریوں اور 14 فوجیوں کو شدید نوعیت کی چوٹیں آئیں جن میں کانوں کی سماعت متاثر ہونے مائگرین اور بے چینی جیسے مسائل شامل ہیں۔ یہ حادثہ جمعرات کے روز اس وقت ہوا جب جنوبی کوریا کے جنگی طیارے معمول کے مطابق فوجی مشقوں میں حصہ لے رہے تھے۔ یہ طیارے جو جنوبی کوریا اور امریکا کی مشترکہ فوجی مشقوں کا حصہ تھے ایک غلط کوآرڈینیٹ کے باعث اپنے مخصوص تربیتی علاقے سے باہر بم گرا بیٹھے جس سے علاقے میں زوردار دھماکہ ہوا اور عمارتوں اور گھروں میں شدید نقصان پہنچا۔ اس واقعے کا مرکز پچھون تھا جو سیول سے تقریبا 40 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے اور یہ وہ علاقہ تھا جو شمالی کوریا کے ساتھ سرحد کے قریب ہونے کے باعث زیادہ حساس سمجھا جاتا ہے۔ بم دھماکے کی شدت اتنی تھی کہ کئی گھروں میں دراڑیں پڑ گئیں اور مختلف مکانات کا انفراسٹرکچر شدید متاثر ہوا۔ وزارت دفاع کے ترجمان ‘جیون ہا کیو’ کے مطابق زخمیوں میں سے نو افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے جن میں دو افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ ایک ہفتے کی مدت کے لئے جنوبی کوریا نے تمام فوجی مشقوں کو معطل کر دیا ہے تاکہ اس واقعے کی تحقیقات کی جا سکیں۔ تاہم، جنوبی کوریا اور امریکا کے مشترکہ فوجی مشقوں پر اس حادثے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا جو پیر سے شروع ہونے والے ہیں۔ اس حادثے نے پچھون کے شہریوں میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ شہر کے باشندوں اور مقامی سرگرم کارکنوں نے فوجی مشقوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں سے ایک شخص جس کا نام ‘لی میونگ وون’ ہے اس نے کہا کہ “ہمیں واضح طور پر نہیں سمجھ آ رہا کہ یہ مشقیں کس کے تحفظ کے لیے کی جا رہی ہیں اور ہم پر ان کے اثرات کیوں پڑ رہے ہیں۔” یہ واقعہ نہ صرف فوجی مشقوں کی نوعیت پر سوالات اٹھاتا ہے بلکہ شہریوں کی زندگیوں پر ان مشقوں کے اثرات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: میکرون 2027 کے بعد ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گے، سابق روسی صدر کی پیشگوئی
جنوبی افریقہ میں گینڈوں کے شکار میں 16 فیصد کمی، مگر مسائل برقرار

جنوبی افریقہ نے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ سال گینڈے کے شکار میں 16 فیصد کی کمی آئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں 420 گینڈے کو ان کے سینگوں کی خاطر قتل کیا گیا جبکہ اس سے پہلے سال میں یہ تعداد 499 تھی۔ یہ کمی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوتی ہے کیونکہ ‘جنوبی افریقہ’ افریقہ میں سفید گینڈوں کی سب سے بڑی آبادی کا حامل ہے اور یہ دنیا بھر میں تقریبا نصف بلیک رائنوں کی آبادی کو بھی پناہ دیتا ہے۔ یہ جاندار نہ صرف قدرتی ورثہ ہیں بلکہ ان کے سینگوں کا عالمی سطح پر غیر قانونی تجارت بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ گینڈے کے سینگ بنیادی طور پر کیراٹن سے بنے ہوتے ہیں جو کہ انسان کے ناخن اور بالوں میں بھی پایا جاتا ہے اور انہیں بعض مشرقی ایشیائی ممالک میں جواہر یا روایتی دواؤں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان گینڈوں کے شکار میں کمی کی ایک وجہ صوبہ ‘کوازولو-ناتال’ میں شروع کیا گیا ڈی ہارنینگ پروگرام بھی ہے جس نے اس خطے میں شکار کے واقعات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، وزیر ماحولیات، ‘ڈایون جارج’ کے مطابق انہیں ‘کرُوگر نیشنل پارک’ میں شکار کی تعداد میں حالیہ اضافہ پر تشویش ہے۔ 2023 میں کرُوگر پارک میں 78 رائنوں (گیندے) کا شکار ہوا تھا جب کہ 2024 میں یہ تعداد 88 تک پہنچ گئی ہے۔ اس علاقے کا زیادہ تر حصہ دور دراز اور پولیسنگ کے لیے مشکل ہے جو کہ شکار کی روک تھام میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت نے اس صورتحال کو قابو پانے کے لیے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے۔ ان میں سے ایک اہم اقدام یہ ہے کہ کرُوگر اور ہلوہلووِے-ایمفولوزی پارک جیسے حساس علاقوں میں عملے سے پولیگراف ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں تاکہ ان کے درمیان کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کا پتہ چلایا جا سکے۔ اگرچہ جنوبی افریقہ میں رائنوں کے شکار میں کمی آئی ہے مگر پڑوسی ملک نیمیبیا میں 2024 میں شکار کی تعداد 83 تک پہنچ گئی ہے جو کہ 2023 میں 69 تھی۔ جانوروں کی نسل کی بقا کا یہ بڑھتا ہوا مسئلہ پوری افریقی خطے کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے جسے روکنے کے لیے عالمی سطح پر مزید تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ رپورٹ ایک اہم یاددہانی ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے جاری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور ہمیں گینڈوں کی نسل کی بقا کے لیے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید پڑھیں: امریکہ عالمی نظام کو ‘تباہ’ کر رہا ہے، یوکرینی سفیر کا دعویٰ
قرض کا مرض لادوا، کیا پاکستانی معیشت سنبھل پائے گی؟

پاکستانی معیشت گزشتہ ایک عرصے سے مختلف مسائل سے گھری ہوئی ہے، جن میں مالیاتی خسارہ، کمزور زر مبادلہ کے ذخائراور بڑھتی ہوئی مہنگائی شامل ہیں۔ ان مسائل نے ملکی معیشیت کو اس قدر محتاج کیا ہے کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے فیصلے کا لائحہ عمل آئی ایم ایف بنا تا ہے۔ دوسرے ممالک آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہیں، تاکہ ملکی معیشیت مستحکم ہو، مگر پاکستان میں متعدد بار بار پچھلے قرض کی ادائیگی کے لیے نیا قرض لیا گیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان تعلقات کی تاریخ طویل ہے۔ 1958 سے اب تک پاکستان نے 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیجز حاصل کیے ہیں۔ 2024 میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ پر مشتمل قرض پروگرام پر اتفاق ہوا، جس کا مقصد معیشت کو استحکام دینا تھا۔ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام معیشت کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے اور اس سے مالیاتی استحکام حاصل ہوگا، جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا آئی ایم ایف سے نئی قسط نہ لے کر پاکستان اپنی معیشیت کو سنبھال سکتا ہے؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر جہانزیب نے کہا کہ اگر حکومت سخت مالیاتی اصلاحات، برآمدات کے فروغ اور محصولات میں اضافے پر کام کرتی ہے تو آئی ایم ایف کی قسط کے بغیر بھی معیشت سنبھل سکتی تھی۔ تاہم کمزور مالیاتی نظم و ضبط اور درآمدی انحصار کے باعث حکومت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ معیشت کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، مگر عوامی سطح پر ان شرائط پر مہنگائی اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سےتشویش پائی جاتی ہے۔ ستمبر 2024 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دی تھی ، جس میں سے 1 ارب ڈالر کی پہلی قسط فوری جاری کی گئی۔ یہ قرض 37 ماہ کی مدت پر محیط ہے اور اقساط میں جاری کی جائے گی۔ ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ نئی شرائط سے عوام پر مہنگائی کا مزید دباؤ بڑھے گا۔ سبسڈی میں کمی سے بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا ہوگا۔ کاروباری طبقے کو بلند شرحِ سود اور زیادہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔ 3 مارچ کو پاکستان کو 7 ارب ڈالر بیل آؤٹ پیکج میں سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کی ادائیگی کے حوالے سے اقتصادی جائزے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچا، جہاں سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میں وفد نے آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کی اور امور پر بات چیت کی گئی۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس نیٹ میں توسیع، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور مالیاتی خسارے میں کمی شامل ہیں۔ حکومت نے زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی میں کمی کی شرائط بھی شامل ہیں۔ ان شرائط کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ اور عوام کی قوت خرید میں کمی کا خدشہ ہے، لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ ماہرِ معاشیات پروفیسر امبرین احمد کے مطابق اگر حکومت ٹیکس نیٹ بڑھائے، غیر ضروری درآمدات کم کرے، برآمدات کو فروغ دے اور زراعت و صنعتی شعبے کو ترقی دے تو آئی ایم ایف پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے سخت پالیسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے روپے پر دباؤ کم ہوا ہے۔ ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ مسلسل قرض لینا خطرناک ہے کیونکہ اس سے خودمختاری محدود ہو جاتی ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ ناگزیر تھا۔ مسئلہ قرض لینا نہیں بلکہ اس کا درست استعمال نہ ہونا ہے۔ اگر قرض ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو تو معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی میں کمی کے باعث مہنگائی میں اضافہ متوقع ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی خبردار کیا ہے کہ مہنگائی ہدف سے زیادہ رہ سکتی ہے۔ امبرین احمد کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبات میں زیادہ تر ٹیکس اصلاحات شامل ہوتی ہیں۔ لہٰذا بجٹ میں مزید ٹیکسز اور سبسڈی میں کمی کا قوی امکان ہے۔ بجلی اور گیس پر سبسڈی کم ہونے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ مہنگائی میں اضافے سے عام شہریوں کی قوت خرید متاثر ہو سکتی ہے، جس سے روزمرہ زندگی میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ڈاکٹر جہانزیب نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کیونکہ حکومت کو کرنسی کو مصنوعی سہارا دینے سے روک دیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی اور خاص طور پر درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے کاروباری طبقے کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ زراعت اور تعمیرات کے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے سے ان شعبوں میں سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام سے معیشت میں استحکام کی توقع ہے، جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کر سکتا ہے۔ تاہم سخت شرائط اور مہنگائی میں اضافے سے سرمایہ کاری کے فیصلوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ پروفیسر امبرین احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے نئے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جیسے آئی ٹی برآمدات، زرعی اصلاحات، اور نجکاری کے ذریعے سرکاری اداروں کے نقصانات کم کرنا۔ اس سے قرضوں کے بوجھ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ نجی سیکٹر کو ٹیکس اصلاحات اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سبسڈی میں کمی کے باعث بجلی