پٹرول کی قیمت میں 50 روپے فی لیٹر فوری کمی کی جائے، حافظ نعیم کا مطالبہ

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں کم از کم 50 روپے فی لیٹر کمی کا فوری اعلان کیا جائے۔ جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں مسلسلہ کمی ہو رہی ہے۔ گذشتہ 50 دنوں کے اندر 12 ڈالرز فی بیرل سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔ قیمت 82 ڈالر سے کم ہوکر 69.3 ڈالر پر آگئی ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے ہی عوام پر لیوی چارجز کا ناجائز بوجھ ڈالا ہوا ہے، پیٹرولیم لیوی کو فی الفور ختم ہونا چاہیے۔ عالمی منڈی میں قیمتوں میں ایک ڈالر اضافے سے قیمتیوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ مزید پڑھیں: لاہور کی سڑکوں پر دوڑتی گرین بسیں، خاص بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں مسلسل کمی کا عوام کو فائدہ ملنا چاہیے، مہنگائی نے رمضان میں عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری پیٹرول کی قیمت میں 50 روپے فی لیٹر کی کمی کا اعلان کرے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے مہنگائی کم کرنے کے دعوے قوم کے ساتھ مذاق ہے، اشیاء ضروریہ دن بدن عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہوتی جا رہی ہیں۔
‘ٹرمپ کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملا’ ایران کا خط ملنے سے انکار

ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھیجے گئے کسی بھی خط کی موصولی سے انکار کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایران کی قیادت کو جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے پیغام بھیجا ہے۔ ایرانی حکومت نے کہا ہے کہ امریکا کی سخت پابندیاں ایک بڑی رکاوٹ ہیں، اس لیے وہ مذاکرات نہیں کرے گا۔ ایرانی سفارت خانے کے ترجمان نے تصدیق کی کہ تہران کو ٹرمپ کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملا۔ یہ بیان ٹرمپ کے ایک انٹرویو کے بعد آیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا۔ ٹرمپ کے مطابق، خط میں کہا گیا تھا کہ اگر ایران مذاکرات نہیں کرے گا، تو فوجی کارروائی ہو سکتی ہے، جو ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دے گی۔ وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے جیسا ایک نیا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا کہ جب تک امریکہ اپنی پابندیاں اور دباؤ کی پالیسی ختم نہیں کرتا، کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکا نے ایران پر سخت پابندیاں لگائیں، خاص طور پر اس کے تیل کے شعبے پر۔ امریکہ کا مقصد ایران کو مذاکرات پر مجبور کرنا ہے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اگست 2024 میں خامنہ ای نے کہا تھا کہ دشمن سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بعد میں انہوں نے امریکا سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا۔ اس سے پہلے بھی خامنہ ای نے ٹرمپ کی طرف سے بھیجے گئے پیغامات کو نظر انداز کیا تھا، جن میں 2019 میں جاپانی وزیر اعظم کے ذریعے بھیجا گیا خط بھی شامل تھا۔ اسرائیل اور امریکا دونوں کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق، ایران نے باضابطہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ نہیں کیا، لیکن وہ ایسے اقدامات کر رہا ہے جو مستقبل میں اسے یہ صلاحیت دے سکتے ہیں۔ حالات کشیدہ ہیں کیونکہ ایران اپنی یورینیم افزودگی جاری رکھے ہوئے ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے قریب سمجھی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بات چیت کا دوبارہ آغاز ہونا چاہیے تاکہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو پرامن رکھا جا سکے۔
’عورت کے حقوق اس کی دہلیز پر ملنے چاہئیں‘ خواتین مارچ کا مطالبہ

سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر حمیر اطارق نے کہا ہے کہ “خواتین کے حقوق کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کالائحہ عمل یہ ہے کہ خواتین کو ان کے شرعی، قانونی اور سماجی حقوق ان کی دہلیز پر ملنے چاہئیں۔ وراثت کا مسئلہ ہو، یا تعلیمی مواقع کی عدم دستیابی کام کی جگہ پر استحصال، یا فرسو دور سومات کا خاتمہ۔ جماعت اسلامی ان مسائل پر پر زور آواز بلند کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ جماعت اسلامی پارلیمان میں، عدالت میں تھانے کچہری ہر جگہ عورت کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “جماعت اسلامی کی قیادت خواتین کو ان کے اصل اسلامی حقوق سے آگاہی دینے اور عملی طور پر ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کام کر رہی ہے، تاکہ وہ عزت، وقار اور تحفظ کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار سکیں”۔ ڈپٹی سیکرٹری حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ “پاکستان کے قبائلی و دیہاتی علاقوں میں رائج رسومات در اصل ہندوانہ اور جاگیر دارانہ سوچ کا نتیجہ ہیں، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ صدیوں سے جاری ان غیر اسلامی روایات کو طاقتور طبقات نے اپنے مفادات کے لیے زندہ ر کھا ہوا ہے۔ اسلام نے عورت کو مکمل انسانی وقار دیا اور اس کے حقوق کا تعین کیا، لیکن ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں طاقتور عناصر نے اپنے فائدے کے لیے ان حقوق کو چھین لیا۔ ریاست اور سول سوسائٹی کو ان غیر انسانی رسومات کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے”۔ سیکرٹری ثمینہ سعید نے کہا کہ “آج کا دن فلسطین اور کشمیر کی مظلوم عورت کے لیے آواز بلند کرنے کا دن ہے اور فلسطین اور کشمیر کی عورت پر ہونے والے ظلم کے خلاف سب کو مل جد وجہد کرنا ہو گی۔ ان مظلوم عورتوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے”۔ صدر ضلع لاہورعظمٰی عمران نے کہا کہ “یوم خواتین پر دنیا بھر میں خواتین کے حقیقی مسائل پر بات کرنی چاہئے، وراثت میں خواتین کا حق دین اسلام نے واضح طور پر مقرر کر دیا ہے، لیکن عملی طور پر انہیں جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے”۔ لاہور میں ہونے والے مارچ میں گھریلو خواتین، طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔
ٹرمپ کی جانب سے انسانی جان بچانے کی تحقیق روکنے کے خلاف سائنسدان سڑکوں پر

ٹرمپ حکومت کی جانب سے انسانی جان بچانے کی تحقیق روکنے اور تحقیقاتی فنڈز میں کٹوتیوں کے خلاف سائنسدانوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر آگئی۔ اس کے علاوہ انتظامیہ عالمی ادارۂ صحت اور پیرس موسمیاتی معاہدے سے دستبردار ہوئی جبکہ صحت اور موسمیاتی تحقیق پر کام کرنے والے سینکڑوں وفاقی کارکنوں کو برطرف کرنے کی کوشش کی۔ محققین، ڈاکٹروں، انجینئرز، طلباء اور منتخب عہدیداروں نے نیویارک، واشنگٹن، بوسٹن، شکاگو، وسکونسن کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں اور حکومتی اقدامات کو ’سائنس پر حملہ‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔ بوسٹن کے میساچوسٹس جنرل ہسپتال کے ایک محقق جیسی ہیٹنر نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ مجھے اتنا غصہ کبھی نہیں آیا، وہ ہر چیز کو آگ لگا رہے ہیں۔ انہوں نے صحت اور انسانی خدمات کے محکمے کے سربراہ کے طور پر مشہور ویکسین شکی رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی تقرری پر ناگواری کا اظہار کیا اگر آپ کسی کو ناسا کا انچارج لگاتے ہیں جو اس تھیوری پر یقین کرتا ہے کہ زمین چپٹی ہے تو یہ ٹھیک نہیں۔ واشنگٹن میں مظاہروں کے دوران کچھ ایسے پلے کارڈز پڑھنے کا ملے جن پر لکھا تھا کہ سٹینڈ اپ فار سائنس۔ سائنس پر فنڈز لگائیں، ارپ پتیوں پر نہیں، یونیورسٹی کے محقق گروور جو عمر کے 50ویں حصے میں ہیں، نے کہا کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ میں 30 برسوں سے تحقیق کر رہا ہوں اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ کبھی نہیں ہوا، وفاقی حکومت کے ناقابل معافی اقدامات کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ بہت سے محققین نے اے ایف پی کو اپنی گرانٹس اور دیگر فنڈنگ کے مستقبل کے حوالے سے اپنے خدشات بتائے۔ نیورو سائنس میں ڈاکٹریٹ کی 28 سالہ طالبہ ربیکا گلیسن نے بتایا کہ مجھے گھر پر تعلیم حاصل کرنی چاہئے، بجائے اس کے کہ میں یہاں نوکری حاصل کرنے کے اپنے حق کا دفاع کروں۔ شارک کے تحفظ پر کام کرنے والی 34 سالہ ماحولیاتی سائنس دان چیلسی گرے نے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن سے منسلک ہونے کا خواب دیکھا تھا تاہم انہوں نے آئرش پاسپورٹ کی حصولی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
ایکواڈور میں منشیات فروشوں کی فائرنگ سے 22 افراد ہلاک ہوگئے

ایکواڈور کے شہر گویاکیل میں دو گروہوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ پولیس کے مطابق، جمعہ کو مرنے والوں کی تعداد 19 سے بڑھ کر 22 ہو گئی، جبکہ مزید تین افراد زخمی ہوئے۔ یہ تصادم جمعرات کو اس وقت شروع ہوا جب منشیات اسمگلنگ میں ملوث گروپ لاس ٹائیگورونز کے مخالف گروہوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ مقامی اخبار ایل یونیورسو نے اس واقعے کو “قتل عام” قرار دیا اور بتایا کہ یہ گروہ ان علاقوں پر قابض ہونے کے لیے لڑ رہے تھے جنہیں وہ کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، شہر کے سوشیو ویویندا نامی علاقے میں کم از کم 20 مسلح افراد نے کئی گھروں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کئی افراد جان سے گئے۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں حملے کے دوران بھاری ہتھیاروں سے لیس افراد کو علاقے میں دوڑتے دیکھا گیا۔ زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ہنگامی عملہ متحرک تھا، جبکہ سرکاری سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں تعیناتی بڑھا دی۔ مقامی اخبار کے مطابق، اس علاقے میں حالیہ مہینوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایکواڈور میں تقریباً 20 جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہیں، جو منشیات کی اسمگلنگ، اغوا اور بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ یہ ملک پیرو اور کولمبیا کے درمیان واقع ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے کوکین پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ گزشتہ برسوں میں، بین الاقوامی کارٹیلز کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے ایکواڈور میں تشدد میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ خاص طور پر اس کی بندرگاہوں کو امریکہ اور یورپ تک منشیات پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں، ہر ایک لاکھ افراد میں قتل کی شرح چھ تھی، جو 2023 میں بڑھ کر 47 تک پہنچ گئی۔ ماہرین کے مطابق، یہ گروہ مسلسل اپنے طریقے بدل رہے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی دولت سے مزید طاقتور ہو رہے ہیں۔ گویاکیل صوبہ گوایاس کا دارالحکومت ہے۔ یہ ان سات علاقوں میں شامل ہے جہاں پچھلے دو ماہ سے ہنگامی حالت نافذ ہے۔ حکومت منشیات کے گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہی ہے۔ پچھلے مہینے، صدر ڈینیئل نوبوا نے کہا تھا کہ وہ اتحادی ممالک سے مدد لیں گے اور خصوصی دستے بھیجنے کی درخواست کریں گے۔ ملک میں تشدد جاری ہے جبکہ 13 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔ اس انتخاب میں نوبوا کا مقابلہ بائیں بازو کی امیدوار لوئیسا گونزالیز سے ہوگا۔ نوبوا نے پرتشدد جرائم پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے، جن میں ہنگامی حالت کا اعلان اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کرنا شامل تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ فوج کے سخت اقدامات کے نتیجے میں بدسلوکی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ حال ہی میں چار لڑکوں کی جلی ہوئی لاشیں ایک فوجی اڈے کے قریب ملی ہیں، جس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کا قرض پالیسی پر اعتراض، ممکنہ معاہدہ توانائی اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے سے مشروط

انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈز نے حکومت کی جانب سے بینکوں سے 1250 ارب روپے ادھار لینے کی حکمت عملی پر اعتراض عائد کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے اعتراض کا مقصد بجلی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کے بڑے مسئلے کو حل کرنا ہے۔ آئی ایم ایف نے استفسار کیا ہے کہ اگر مستقبل میں بجلی کی طلب میں کمی واقع ہوتی ہے تو سی پی پی اے سود اور اصل رقم کی ادائیگی کیسے کرے گا؟ دوسری جانب آئی ایم ایف نے بجلی ڈویژن کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسوں میں کمی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان پہلے مرحلے کے مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں۔ معاشی ماہر اور ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری نے ممکنہ معاہدے کو توانائی کے شعبے پر کام اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے سے مشروط کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی آئی ایم ایف سے توقعات میں ادائیگی کے عدم توازن کو عبور کرنا ہے، آئندہ تین مالی سالوں میں پاکستان کو تقریبا 22 ارب ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری چاہئے ہوگی. یہ اس وقت تک نہیں مل سکے گی جب تک ملک کے پاس آئی ایم ایف کا لیٹر آف کمفرٹ نہ ہو۔ اس کا مطلب ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بڑھ جائیں۔ عابد سلہری نے کہا انہیں نہیں لگتا اس وقت ملک اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کو لے کر کوئی بڑا چیلنج ہے۔جون کے آخر یا جولائی کے اوائل میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا جانا چاہئے۔ معاشی ماہر خالد ولید نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ مشکل ہوگا جس میں عمومی سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کی توقعات میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی پروگرام چار سے پانچ سال رہنا ہے۔ سماجی بہبود کے پروگرام کی اجازت دینا شامل ہے جس سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دی جائے گی، ساتھ ہی اس سے دیگر ممالک کا پاکستان میں اعتماد بڑھنے کی توقع ہے۔ قرض کے نئے پروگرام کے لیے درکار وقت سے متعلق خالد ولید نے کہا وزیر خزانہ کے امریکہ دورے کے بعد معاملات حتمی صورت اختیار کر جائیں گے، جس کے بعد ممکنہ طور پر جولائی یا اگست میں پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ ممکنہ معاہدے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے خالد ولید نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ ایک مشکل بجٹ ہوگا جس میں عمومی سبسڈی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، اس سے صارفین پر بوجھ بڑھے گا تاہم ساتھ ہی جامع بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بھی مذاکرات کیے جا رہے ہوں گے۔ معاہدے سے قبل اصلاحات کرنے سے متعلق انہوں نے کہا پاکستان نے سٹینڈ بائے ارینجمنٹ پروگرام پر کام کیا اور گردشی قرضے نہیں بڑھنے دیے، اس کے علاوہ سبسڈی کو کم کرنا اور نجکاری شامل ہیں۔
غزہ کی ناکہ بندی نہ ہٹائی تو سمندری حملے دوبارہ شروع کر دیں گے: حوثیوں کی اسرائیل کو وارننگ

یمن کے حوثی گروپ نے اسرائیل کو چار دن کی مہلت دی ہے کہ وہ غزہ پر عائد خوراک، ادویات اور امداد کی ناکہ بندی ختم کرے، بصورتِ دیگر وہ اسرائیل کے خلاف سمندری حملے دوبارہ شروع کر دیں گے۔ یہ الٹی میٹم عندیہ ہے کہ حوثیوں کی جانب سے حملوں میں دوبارہ شدت آ سکتی ہے۔ قبل ازیں، جنوری میں اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے بعد حوثیوں کے حملے تھم گئے تھے۔ گروپ کے رہنما عبدالملک الحوثی نے ایک ویڈیو بیان میں واضح کیا کہ عالمی برادری کو اس بارے میں متنبہ کیا جا رہا ہے اور وہ صرف چار دن کی مہلت دے رہے ہیں تاکہ ثالثی کی کوششیں جاری رہ سکیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل اس مدت کے بعد بھی غزہ میں انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا، بارڈر کراسنگ کو بند رکھا اور خوراک و ادویات کی ترسیل نہ ہونے دی تو حوثی اپنے سمندری حملے بحال کر دیں گے۔ ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف کئی حملے کر چکے ہیں۔ انہوں نے غزہ پر جنگ کے بعد بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں 100 سے زائد حملے کیے، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے کیے گئے تھے۔ ان حملوں کے دوران حوثیوں نے دو بحری جہازوں کو تباہ کیا، ایک کو قبضے میں لے لیا اور کم از کم چار ملاحوں کو ہلاک کر دیا۔ ان حملوں کی وجہ سے عالمی تجارتی بحری نقل و حمل شدید متاثر ہوئی اور کئی کمپنیوں کو طویل اور مہنگے متبادل راستے اختیار کرنے پڑے۔ حوثی جنگجوؤں نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے بھی کیے، جن میں تل ابیب کے ایک اسکول سمیت کئی عمارتیں نقصان کا شکار ہوئیں اور کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے چند روز قبل حوثیوں کو دوبارہ “دہشت گرد تنظیم” قرار دیا، تاہم اس بارے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے حوثیوں کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ حوثیوں کی جانب سے غزہ کے مظلوم عوام کے لیے جاری 15 ماہ کی مزاحمت کا تسلسل ہے۔ حوثیوں نے اس سے قبل فروری میں بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر اسرائیل یا امریکہ نے فلسطینیوں کو زبردستی بےدخل کرنے کی کوشش کی تو وہ عسکری ردعمل دیں گے۔ ان کی تازہ وارننگ ایسے وقت میں آئی ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امدادی سامان کی مکمل بندش کو سات دن گزر چکے ہیں۔ یہ محاصرہ 2 مارچ کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس کے پہلے مرحلے میں توسیع کرتے ہوئے جنگ بندی کے مکمل خاتمے کے وعدے سے انحراف کیا۔ اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے ممالک نے اسرائیلی ناکہ بندی کو ممکنہ جنگی جرم قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کی اس کارروائی کے نتیجے میں غزہ میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جبکہ شہریوں میں دوبارہ شدید بمباری اور قحط کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سخت ناکہ بندی کے نتیجے میں سرد موسم کے باعث کم از کم آٹھ نومولود بچے ہلاک ہو چکے ہیں، جن کے اہلِ خانہ عارضی خیموں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسے فلسطینیوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ ادارے نے خبردار کیا کہ اگر شہریوں کو جان بوجھ کر بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا تو یہ اجتماعی سزا کے زمرے میں آ سکتا ہے، اور قحط کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنا ایک جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ محاصرہ جاری رہنے کے باعث غزہ میں طبی ساز و سامان کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، اور اسپتال زخمیوں کی دیکھ بھال میں مشکلات کا شکار ہیں۔ خان یونس میں موجود الجزیرہ کے نمائندے طارق ابو عزوم کے مطابق، صحت کے شعبے سے وابستہ افراد تمام مشکلات کے باوجود طبی خدمات جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن صورتحال بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ “غزہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد اسرائیلی حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں، اور اب ایندھن اور طبی سامان کی عدم دستیابی کے سبب ان کے علاج معالجے کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ اسپتالوں کا زیادہ تر انحصار ایمرجنسی جنریٹرز پر ہے، لیکن چونکہ اسرائیل نے ایندھن کی ترسیل بھی روک دی ہے، اس لیے آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔” اسرائیل کی جاری جنگی کارروائیوں میں اب تک 48,440 فلسطینی جاں بحق اور 111,845 زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد 61,709 سے تجاوز کر سکتی ہے، کیونکہ ہزاروں فلسطینی تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور مردہ قرار دیے جا چکے ہیں۔
کرپٹو سمٹ: ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ڈیجیٹل کرنسی کے رہنماؤں کو اکٹھا کر لیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرپٹو کرنسی انڈسٹری کے اعلیٰ ترین افراد کو ایک تاریخی سمٹ میں وائٹ ہاؤس مدعو کیا، جہاں حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل اثاثوں کے ذخیرے کے قیام کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس منفرد اجلاس میں کرپٹو مارکیٹ کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کی گئی، تاہم یہ اجلاس کچھ سرمایہ کاروں کے لیے مایوس کن بھی ثابت ہوا، کیونکہ انہیں حکومت کی جانب سے نئے کرپٹو ٹوکنز خریدنے کے واضح منصوبے کی امید تھی، جو پورا نہیں ہو سکا۔ وائٹ ہاؤس کے کرپٹو امور کے سربراہ ڈیوڈ سیکس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کو بہت پہلے ہی بٹ کوائن کا ذخیرہ قائم کر لینا چاہیے تھا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ٹیکس دہندگان کے فنڈز کو ڈیجیٹل اثاثے خریدنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور صارفین کو کرپٹو سرمایہ کاری کے ممکنہ نقصانات سے بچانے کے لیے موجودہ حفاظتی اقدامات کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد کرپٹو مارکیٹ میں قدرے مایوسی پائی گئی اور بٹ کوائن کی قیمت میں 3.4 فیصد کمی دیکھی گئی، جو 86,394 ڈالر تک آ گئی۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو کرپٹو انڈسٹری کے کچھ حلقوں کی حمایت حاصل ہے، تاہم کچھ ماہرین اس میں شامل دیگر چار کرپٹو کرنسیز کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ایکسڈس کے شریک بانی اور سی ای او جے پی رچرڈسن نے ان کرنسیز کی غیر مستحکم قیمتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف بٹ کوائن پر مشتمل ذخیرہ زیادہ مستحکم ہوگا۔ کوائن بیس کے سی ای او برائن آرمسٹرونگ نے بھی اسی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر بٹ کوائن پر مبنی ذخیرے کو “شاید سب سے بہترین آپشن” قرار دیا۔ دوسری جانب، رپل کے سی ای او بریڈ گارلنگ ہاؤس نے ٹرمپ کے “ملٹی چین ورلڈ” یعنی ایک سے زائد بلاک چین پر مشتمل معیشت کے اعتراف کا خیرمقدم کیا اور اس ذخیرے میں ایکس آر پی کرنسی کو شامل کرنے کے فیصلے کی حمایت کی۔ اس بیان کے بعد کرپٹو مارکیٹ میں مزید بحث چھڑ گئی کہ آیا حکومت کو ایک سے زائد ڈیجیٹل کرنسیز کو اپنے ذخیرے میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سمٹ کرپٹو انڈسٹری کے لیے ایک اہم موقع ہے، کیونکہ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مستقبل میں ڈیجیٹل اثاثوں کے حوالے سے کس قسم کی ریگولیٹری پالیسی اپنائے گی۔ خاص طور پر، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے کرپٹو سے متعلق ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈز کی منظوری کے حوالے سے پالیسی سازی پر بھی اس اجلاس میں بحث کی گئی۔ ٹرمپ کی ذاتی حیثیت میں کرپٹو سیکٹر میں شمولیت بھی ایک متنازع معاملہ بنی ہوئی ہے۔ ان کے خاندان کی جانب سے مختلف “میم کوائنز” متعارف کرائے جانے اور ان کے ورلڈ لبرٹی فنانشل میں حصے داری کے باعث مفادات کے ٹکراؤ کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے معاونین نے اس معاملے پر وضاحت دی کہ ٹرمپ نے اپنے کاروباری مفادات سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور ان کی سرمایہ کاری کو ایک جانچ کے عمل سے گزارا جا رہا ہے۔ کرپٹو ماہرین اور سرمایہ کاروں کی نظر اب اس بات پر ہے کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کرپٹو انڈسٹری کے لیے مزید سازگار پالیسیوں کا اعلان کرے گی یا نہیں۔ اس سمٹ کے بعد مارکیٹ میں ملے جلے ردعمل دیکھنے میں آ رہے ہیں، جہاں کچھ لوگ اسے ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں، تو کچھ حکومت کی جانب سے مزید واضح حکمت عملی کے منتظر ہیں۔
یوکرین پر روس کے ایک اور حملے میں پانچ بچوں سمیت 14 افراد ہلاک

یوکرین کی وزارت داخلہ کے مطابق، ہفتے کے روز روسی میزائل اور ڈرون حملوں میں مشرقی شہر ڈوبروپیلیا میں پانچ بچوں سمیت کم از کم 14 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہو گئے۔ وزارت نے مزید بتایا کہ شمال مشرقی خارکیو کے علاقے میں ہونے والے ایک اور ڈرون حملے میں تین شہری مارے گئے۔ وزارت کے بیان کے مطابق، روسی افواج نے بیلسٹک میزائلوں، متعدد راکٹوں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے ڈوبروپیلیا کو نشانہ بنایا، جس سے آٹھ کثیر المنزلہ عمارتوں اور 30 کاروں کو شدید نقصان پہنچا۔ حملے کے بعد امدادی کارروائیاں جاری تھیں کہ روسی فوج نے دوبارہ حملہ کیا، جس سے فائر ٹرک کو نقصان پہنچا۔ وزارت نے جلتی ہوئی عمارتوں اور امدادی کارکنوں کی ملبہ ہٹاتے ہوئے تصاویر بھی جاری کیں۔ ڈوبروپیلیا، جو جنگ سے پہلے تقریباً 28,000 افراد کا گھر تھا، مشرقی ڈونیٹسک علاقے میں واقع ہے اور فرنٹ لائن سے 22 کلومیٹر دور ہے۔ یہ علاقہ پوکروسک کے قریب ہے، جہاں روسی فوج کئی ہفتوں سے حملے کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں، یوکرین کی وزارت داخلہ کے مطابق، خارکیو کے علاقے میں رات گئے ایک الگ ڈرون حملے میں تین شہری ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔ یوکرینی فوج نے کہا کہ روس نے گزشتہ رات یوکرین پر دو اسکندر ایم بیلسٹک میزائل، ایک اسکندر کے کروز میزائل اور 145 ڈرونز حملے کیے۔ یوکرینی فضائیہ نے 79 ڈرون مار گرائے، ایک کروز میزائل کو تباہ کیا، جبکہ الیکٹرانک جوابی اقدامات کی بدولت 54 ڈرون ممکنہ طور پر اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ حالیہ حملے یوکرین میں بڑھتے ہوئے روسی دباؤ اور جنگی صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور پر مشرقی اور شمال مشرقی محاذ پر۔
تربیلا اور منگلا ڈیمز خشک ہونے کے قریب، ارسا نے وارننگ جاری کر دی

تربیلا اور منگلا ڈیم تیزی سے اپنے ڈیڈ لیول کے قریب پہنچ رہے ہیں، جس کے باعث انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب اور سندھ کو موجودہ فصل کے آخری مرحلے میں 30 سے 35 فیصد تک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ارسا نے چاروں صوبوں کے آبپاشی سیکرٹریوں کو ارسال کیے گئے ایک خط میں واضح کیا ہے کہ دونوں بڑے آبی ذخائر پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں اور جلد ہی اپنے ڈیڈ لیول تک پہنچ سکتے ہیں۔ ارسا کے ڈائریکٹر ریگولیشن خالد ادریس رانا کے مطابق، “یہ امکان ہے کہ پنجاب اور سندھ کو 30 سے 35 فیصد پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ڈیمز کو کم از کم سطح پر یا اس سے بھی نیچے چلانے کی نوبت آ سکتی ہے۔” ارسا کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، تربیلا ڈیم میں صرف 73,000 ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہے اور اس کی سطح 1,409 فٹ پر ہے، جو کہ ڈیڈ لیول 1,400 فٹ سے محض 9 فٹ زیادہ ہے۔ تربیلا ڈیم کی زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1,550 فٹ ہے، مگر اس وقت وہاں 17,000 کیوسک پانی آ رہا ہے جبکہ اخراج 20,000 کیوسک ہو رہا ہے، جس سے پانی کی تیزی سے کمی کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح، منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ 235,000 ایکڑ فٹ ہے اور اس کی سطح 1,088 فٹ پر پہنچ چکی ہے، جو کہ اس کے ڈیڈ لیول 1,060 فٹ سے محض 28 فٹ زیادہ ہے۔ منگلا ڈیم میں زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1,242 فٹ ہے، مگر اس وقت اس میں 16,400 کیوسک پانی آ رہا ہے جبکہ اخراج 18,000 کیوسک ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کے بھی جلد خشک ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں بڑے ڈیمز تیزی سے خشک ہو رہے ہیں۔ ارسا نے صوبوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزانہ کے اخراج کے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم چند دنوں میں ڈیڈ لیول تک پہنچ سکتے ہیں، جیسا کہ ادارے نے پہلے ہی رواں ربیع سیزن کے آغاز یعنی 2 اکتوبر 2024 کو پیش گوئی کر دی تھی کہ مارچ 2025 کے ابتدائی دس دنوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک گر سکتی ہے۔ اگرچہ آبی ذخائر کا ڈیڈ لیول تک پہنچنا ایک معمول کی بات ہے اور یہ سال میں دو مرتبہ ہو سکتا ہے، لیکن اس بار گندم کی فصل خاص طور پر خطرے میں ہے۔ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں اور حکومتی پالیسیوں میں عدم استحکام کے باعث گندم کی بوائی ہدف سے کم رہی ہے اور اب جب کہ یہ فصل اپنی آخری آبپاشی کے نازک مرحلے میں ہے، پانی کی شدید قلت سے اس کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ گندم کی فصل مارچ کے آخر تک پک کر تیار ہو جانی چاہیے، لیکن اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو پیداوار میں واضح کمی واقع ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب، ارسا نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ حالیہ بارشوں نے کھڑی فصلوں پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ ادارے کے مطابق، “خوش قسمتی سے، حالیہ بارشوں نے انڈس بیسن اریگیشن سسٹم کو تقویت دی ہے اور اس وقت صوبوں کو ان کے تخمینے کے مطابق پانی کی فراہمی جاری ہے، جبکہ پانی کی کمی کے اثرات کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے۔” ارسا کے پانی کی دستیابی سے متعلق اکتوبر 2024 سے فروری 2025 تک کے اعداد و شمار کے مطابق، پنجاب کو اس عرصے کے دوران 20 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ سندھ کو 14 فیصد کمی کا سامنا ہوا، جو کہ ارسا ایڈوائزری کمیٹی کی جانب سے پیشگی اندازے کے مطابق 16 فیصد کمی سے کچھ کم ہے۔ ارسا کو امید ہے کہ آئندہ متوقع بارشیں پانی کے نظام میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ادارے نے تمام صوبوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پانی کی ممکنہ قلت سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کریں تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے بچا جا سکے۔ تاہم، اگر بارشیں متوقع مقدار میں نہ ہوئیں اور ڈیمز میں پانی کی سطح مزید کم ہوئی تو گندم سمیت دیگر فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، جس کے نتیجے میں غذائی تحفظ پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔