نشے کی حالت میں پب میں فائرنگ کر دی: ٹورنٹو میں 12 افراد شدید زخمی

کینیڈا میں ایک فائرنگ کے واقعے میں 12 افراد زخمی ہوگئے۔ جمعہ، 7 مارچ 2025 کو رات تقریباً 10:40 بجے ٹورنٹو کے علاقے سکاربرو میں پروگریس ایونیو اور کارپوریٹ ڈرائیو کے قریب ایک پب میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس میں کم از کم 12 افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق، چار افراد کو معمولی زخم آئے ہیں، جبکہ باقی متاثرین کی چوٹوں کی شدت معمولی سے لے کر سنگین تک بتائی جا رہی ہے، جیسا کہ ٹورنٹو پیرامیڈکس نے تصدیق کی ہے۔ مشتبہ شخص تاحال فرار ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق، مشتبہ شخص جو کہ ایک سیاہ ماسک پہنے ہوئے تھا، ایک چاندی رنگ کی کار میں موقع سے فرار ہو گیا۔ ٹورنٹو پولیس نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ اس علاقے سے دور رہیں کیونکہ تفتیش جاری ہے۔ حکام نے ابھی تک حملہ آور کے ممکنہ مقصد یا اس کی مزید تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں۔ ٹورنٹو کی میئر اولیویا چاؤ نے اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور بتایا کہ انہوں نے پولیس چیف مائرون ڈیمکیو سے بات کی ہے، جنہوں نے یقین دلایا کہ تمام ضروری وسائل تعینات کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کیا، “میں سکاربرو کے ایک پب میں فائرنگ کے واقعے کی خبر سن کر بہت پریشان ہوں،” اور مزید کہا کہ ان کی ہمدردیاں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ یہ واقعہ ٹورنٹو میں حالیہ پرتشدد حملوں کی کڑی کا حصہ ہے، جس سے شہر میں عوامی تحفظ اور اسلحے سے متعلق جرائم پر نئے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ پولیس حملہ آور کی شناخت اور گرفتاری کے لیے تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا خواتین کو عزت اور حقوق دینے کے عزم کا اعادہ

وزیراعظم شہباز شریف نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر انہیں زیادہ بااختیار بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جاری اپنے پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم اس امر کی تجدید کرتے ہیں کہ خواتین ہمارے معاشرے کی معمار، ہمارے گھروں کا ستون، اور ہمارے مستقبل کو استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری زندگیوں میں خواتین کا انتہائی اہم کردار ہے، کلاس رومز سے لے کر بورڈ رومز تک، میدانوں سے لے کر فرنٹ لائنز تک، پاکستانی خواتین ہماری قوم کے روشن مستقبل کو سنوار رہی ہیں۔ اس سال خواتین کے عالمی دن کا تھیم “تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے حقوق، مساوات اور انہیں بااختیار بنانا، دراصل ایک عزم کا اعادہ ہے جو ایک ایسا معاشرہ بنانے کی ہماری مشترکہ ذمہ داری کی یاد دلاتا ہے جس میں خواتین کا اہم کردار ہو۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہمارا مذہب اسلام خواتین کی عزت اور حقوق پر بہت زور دیتا ہے۔ حکومت پاکستان نے پالیسی سطح پر مداخلت، قانونی اصلاحات اور ادارہ جاتی تعاون کے ذریعے خواتین کے حقوق کو آگے بڑھانے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی صنفی مساوات کی طرف ہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ خواتین کو بااختیار بنانا پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ جب ہم خواتین کی تعلیم، صحت اور معاشی آزادی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو ہم نہ صرف افراد بلکہ آنے والی نسلوں کو ترقی دیتے ہیں۔ آئیے! آج کے دن ہم خواتین کے حقوق کے احترام کو مزید آگے بڑھانے اور ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنے کے اپنے اجتماعی عزم کا اعادہ کریں جہاں ہر عورت کی صلاحیتوں کا ادراک ہو اور ہر بیٹی کا خواب اس کی پہنچ میں ہو۔
لاہور کی سڑکوں پر دوڑتی گرین بسیں، خاص بات کیا ہے؟

لاہور، جو پاکستان کا ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں عوام کو معیاری، آرام دہ اور سستی سفری سہولیات فراہم کرنا ایک بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ اسی مقصد کے تحت گرین بس سروس کا آغاز کیا گیا، جو لاہور کے شہریوں کے لیے جدید اور ماحول دوست سفری سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ بسیں نہ صرف سستی کرایوں پر چلتی ہیں بلکہ ماحولیات کے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں، کیونکہ یہ کم دھواں خارج کرنے والی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ گرین بس سروس کا آغاز شہریوں کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے، جو انہیں ٹریفک کے جھنجھٹ سے نکال کر آرام دہ اور تیزرفتار سفری سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ سروس لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنانے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، جو نہ صرف سفری مشکلات کم کرے گی بلکہ شہر میں آلودگی کے خاتمے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔
بلوچستان میں آٹھ لاکھ گندم کی بوریاں خراب ہونے کا خدشہ

بلوچستان میں محکمہ خوراک کے گوداموں میں ذخیرہ شدہ لاکھوں بوری گندم خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، جس کے باعث حکومت نے فوری اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ خوراک بلوچستان نے دو سال قبل زمینداروں سے تقریباً 10 لاکھ بوری گندم خرید کر ذخیرہ کی تھی تاکہ کسی بھی ممکنہ قلت کے دوران فلور ملز کو فراہم کی جاسکے۔ تاہم، گزشتہ سال گندم کی اچھی پیداوار کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے اور گندم کی وافر مقدار دستیاب رہی، جس کے باعث سرکاری ذخائر میں رکھی گئی گندم استعمال نہ ہو سکی۔ محکمہ خوراک کے گوداموں میں سہولیات کی کمی کے باعث 8 لاکھ بوریاں خراب ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ گوداموں میں درجہ حرارت اور نمی کے مسائل کی وجہ سے سرکاری گندم کے خراب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جس سے عوامی خزانے کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حکومت بلوچستان نے اس سنگین صورتحال کے پیش نظر فوری طور پر گندم کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ دو سال قبل خریدی گئی گندم کی قیمت موجودہ مارکیٹ ریٹ سے کہیں زیادہ تھی، جس کے نتیجے میں محکمہ خوراک کو بھاری مالی نقصان اٹھانے کا اندیشہ ہے۔ اگر بروقت فیصلہ نہ کیا گیا تو خراب ہونے والی گندم مکمل طور پر ضائع ہوسکتی ہے، جس سے صوبے کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہوگا۔ اس معاملے پر محکمہ خوراک اور دیگر متعلقہ ادارے غور و فکر کر رہے ہیں کہ گندم کی فروخت کا ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس سے مالی نقصان کم سے کم ہو اور گندم ضائع ہونے سے بچائی جاسکے۔ زمیندار تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر گندم ذخیرہ کرنے کے بہتر انتظامات کیے جاتے تو آج یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ فلور ملز مالکان کا بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت نے پہلے ہی سبسڈی پر گندم جاری کردی ہوتی تو مارکیٹ میں استحکام آتا اور حکومت کو بھی نقصان نہ ہوتا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے تحت جلد ہی اوپن مارکیٹ میں گندم کی فروخت کا طریقہ کار طے کیا جائے گا تاکہ مالی نقصان کو کم کیا جاسکے اور عوام کو سستی قیمت پر گندم اور آٹا فراہم کیا جا سکے۔
ٹرمپ کی خامنہ ای کو جوہری پروگرام پر مذاکرات کی پیش کش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط ارسال کیا ہے، جس میں ایران کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور ایک نیا معاہدہ طے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس خط کی خبر منظر عام پر آتے ہی ایرانی سرکاری میڈیا نے اسے نمایاں کوریج دی، تاہم خامنہ ای کے دفتر کی جانب سے اس کی وصولی کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔ یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے اس نوعیت کا اقدام کیا ہو۔ سابق صدر باراک اوباما نے بھی 2015 کے جوہری معاہدے سے قبل خامنہ ای کو متعدد خفیہ خطوط ارسال کیے تھے، تاہم ایران نے ہمیشہ امریکی پیشکشوں پر سخت مؤقف اپنایا۔ ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس خط کا براہ راست ذکر نہیں کیا، مگر یہ عندیہ ضرور دیا کہ ایران کے ساتھ جاری کشیدگی جلد کسی بڑے اقدام کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم ایران کے حوالے سے ایک اہم صورتحال سے گزر رہے ہیں، اور بہت جلد کچھ ہونے والا ہے، بہت، بہت جلد۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک “امن معاہدہ” چاہتے ہیں، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو دیگر راستے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے اس بیان سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اگر سفارتی راستہ کامیاب نہ ہوا تو امریکہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے بھی تیار ہو سکتا ہے۔ امریکی صدر کا یہ سخت مؤقف اس پس منظر میں سامنے آیا ہے جب واشنگٹن اور تل ابیب بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ٹرمپ نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تصدیق کی کہ انہوں نے ایران کو براہ راست ایک خط بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کریں، کیونکہ اگر ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود نہ کیں تو ممکنہ فوجی کارروائی کے نتائج “خوفناک” ہوں گے۔ ان کے اس بیان کے بعد اقوام متحدہ نے بھی امریکی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ “سفارت کاری ہی ایران کے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کا بہترین طریقہ ہے، اور ہم اس مقصد کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔” دوسری جانب، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “ایران امریکہ کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات نہیں کرے گا۔ ہمارا جوہری پروگرام کسی فوجی کارروائی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہمارے سائنسدانوں کے دماغ میں ہے، اور ذہنوں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔” ایرانی قیادت کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ تہران کسی بھی امریکی دباؤ کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ سفارتی پیش رفت ٹرمپ کے اس طرزِ عمل کی یاد دلاتی ہے جب انہوں نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو خطوط ارسال کیے تھے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں دونوں رہنماؤں کے درمیان براہ راست ملاقاتیں بھی ہوئیں، مگر پیانگ یانگ کے جوہری اور میزائل پروگرام پر کوئی حتمی معاہدہ نہ ہو سکا۔ اب ایران کے ساتھ بھی امریکہ ایک مرتبہ پھر سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن تہران کا اب تک کا ردعمل اس حوالے سے کسی بڑی پیش رفت کے امکانات کو کمزور کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایران طویل عرصے سے یہ مؤقف اپنائے ہوئے ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم مغربی ممالک اور اسرائیل کی جانب سے متعدد بار یہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایران نے اپنی یورینیم افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھا دیا ہے، جو کہ ہتھیاروں کے معیار (90 فیصد) تک پہنچنے کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ اس پیش رفت کے بعد امریکہ نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ٹرمپ کی ایران پالیسی ہمیشہ سخت گیر رہی ہے۔ 2018 میں انہوں نے امریکہ کو یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے نکال لیا تھا، جس کے بعد تہران پر کڑی اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں اور ایرانی معیشت شدید بحران کا شکار ہو گئی۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو 3.67 فیصد کی سطح تک یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی، لیکن اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایران کے یورینیم ذخائر 8,294.4 کلوگرام تک پہنچ چکے ہیں، جن میں سے کچھ مقدار 60 فیصد خالصیت تک افزودہ کی جا چکی ہے۔ ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی میں اضافے کے بعد خطے میں کشیدگی مزید بڑھ رہی ہے، اور اس تمام صورتحال نے ٹرمپ پر بھی سفارتی دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔ امریکی صدر بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے خواہشمند ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کے تحت ایرانی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے سخت اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ماضی میں کہا تھا کہ “دشمن کے ساتھ مذاکرات میں کوئی نقصان نہیں”، لیکن حالیہ دنوں میں ان کے بیانات سخت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو “بے وقوفی اور غیر دانشمندانہ” قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ٹرمپ کی جانب سے جوہری مذاکرات کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی یہ سفارتی چال کامیاب ہوگی یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اگر ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز رکھیں تو خطے میں ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کھلی جنگ میں
خواتین کے عالمی دن پر اسلام آباد میں خصوصی تقریب، صنف نازک کو بااختیار بنانے کا عزم

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خصوسی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صنف نازک کو بااختیار بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا، تقریب میں وزیراعظم شہبا شریف، سمیت وفاقی وزرا اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج کی تقریب شاندار ہے، خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں، خواتین کی تعلیم ہمارے لیے چیلنج تھا خاص طور پر جنوبی پنجاب میں خواتین کو شدید مسائل درپیش تھے جن کو حل کیا۔ انھوں نے کہا کہ خواتین ملک کے ہر شعبے میں بہترین کردار ادا کر رہی ہیں، پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں خواتین کا کردار اہم ہے، شہباز شریف نے کہا کہ میرے دور میں پنجاب میں چائلڈ لیبر بہت بڑا چیلنج تھا جس پر قابو پایا۔ اس موقع پر فاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئندہ نسلوں کے لیے خواتین کو خودمختار بنائیں گے، خواتین قوم کی معمار ہیں، کسی بھی معاشرے میں خواتین کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خواتین نے پاکستان کی ترقی میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ خواتین ججز کی تعداد بڑھ رہی ہے جوکہ خوش آئند بات ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ خواتین کے حقوق کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی سرحدی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ فورسز نے ناکام بنا دیا

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقے میں واقع لکھانی چیک پوسٹ پر خوارجی دہشت گردوں کا دوسرا بڑا حملہ سیکورٹی فورسز نے بہادری سے ناکام بنا دیا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مستعدی کے باعث دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے اور پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق 15 سے 20 خوارجی دہشت گردوں نے سحری کے وقت لکھانی چیک پوسٹ پر اچانک حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے مختلف اطراف سے چیک پوسٹ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اور راکٹ لانچرز سمیت بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ تاہم، چیک پوسٹ پر تعینات جوان پہلے ہی الرٹ تھے، اور جدید تھرمل امیج کیمروں کے ذریعے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کا بروقت پتا چلا لیا گیا۔ پولیس اہلکاروں نے فوری طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے مشین گنز اور مارٹر گنز سے بھرپور فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں دہشت گرد چیک پوسٹ کے قریب پہنچنے میں ناکام رہے اور شدید جانی نقصان اٹھانے کے بعد فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق، جوابی کارروائی میں حملہ آوروں کو بھاری نقصان پہنچا ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب چھ روز قبل بھی دہشت گردوں نے اسی چیک پوسٹ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، لیکن سیکورٹی فورسز نے اس وقت بھی ان کے عزائم خاک میں ملا دیے تھے۔ پولیس کے مطابق پنجاب میں حالیہ برسوں میں خوارجی دہشت گردوں کے 19 سے زائد حملے ناکام بنائے جا چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف پوری طرح مستعد اور متحرک ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف اس کامیاب آپریشن کی قیادت ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) ڈیرہ غازی خان کیپٹن (ر) سجاد حسن خان نے کی، جبکہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ڈیرہ غازی خان سید علی کی ہدایت پر کوئیک ریسپانس فورس (کیو آر ایف) کی اضافی نفری فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ کر سیکورٹی حصار مزید سخت کر دیا۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب، ڈاکٹر عثمان انور نے چیک پوسٹ پر تعینات جوانوں کی بہادری اور مستعدی کو سراہتے ہوئے انہیں شاباش دی اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خلاف ہر ممکن کارروائی جاری رکھیں گے اور دشمن عناصر کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی فورسز دشمن کی ہر چال کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے مکمل تیار ہیں اور ملک دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمہ وقت الرٹ ہیں۔
روس میں موجود یوکرینی فوجی روسی فوج کے حصار میں آچکے ہیں

یوکرین کے ہزاروں فوجی، جو گزشتہ موسم گرما میں روس کے کرسک کے علاقے میں ایک اچانک کارروائی کے بعد موجود تھے، اب تقریباً روسی افواج کے گھیرے میں آ چکے ہیں۔ یہ پیشرفت کیف کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہے، جو اس علاقے میں اپنی موجودگی کو ماسکو کے ساتھ ممکنہ امن مذاکرات میں ایک فائدے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ اوپن سورس نقشوں کے مطابق، کرسک میں یوکرینی فوج کی صورتحال گزشتہ تین دنوں میں تیزی سے بگڑی ہے۔ روسی افواج نے ایک وسیع جوابی کارروائی کرتے ہوئے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا، یوکرینی فورسز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور مرکزی گروہ کو اس کی بنیادی سپلائی لائنوں سے کاٹ دیا۔ یہ بحران ایسے وقت میں شدت اختیار کر رہا ہے جب واشنگٹن نے کیف کے ساتھ اپنی انٹیلی جنس شیئرنگ معطل کر دی ہے، جس سے یوکرینی فوجیوں کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے—وہ یا تو واپس جانے پر مجبور ہوں گے، یا پھر پکڑے جانے یا مارے جانے کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔ یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ کیف پر روس کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، جبکہ روسی افواج فرنٹ لائن کے کئی حصوں پر مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں۔ فن لینڈ میں قائم بلیک برڈ گروپ کے ایک فوجی تجزیہ کار، پاسی پیروینن، نے رائٹرز کو بتایا کہ کرسک میں یوکرینی افواج کی صورتحال “انتہائی نازک” ہے۔ انہوں نے کہا، “اب زیادہ وقت باقی نہیں بچا ہے۔ یا تو یوکرینی فورسز کو مکمل طور پر گھیر لیا جائے گا یا پھر وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ اور اگر انخلاء کی کوشش کی گئی تو یہ ایک انتہائی خطرناک عمل ہوگا، جہاں فوجیوں کو روسی ڈرونز اور توپ خانے کے مسلسل خطرے کا سامنا رہے گا۔” انہوں نے مزید کہا، “اگر یوکرینی فوج جلد صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام رہتی ہے، تو کرسک کی موجودہ پوزیشن ایک مکمل گھیرا بندی میں بدل سکتی ہے۔” تاہم، روسی وزارت دفاع اور یوکرینی فوج کی جانب سے اس صورتحال پر کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی، کیونکہ دونوں فریقین عام طور پر میدان جنگ میں ہونے والی تبدیلیوں کی رپورٹنگ میں تاخیر کرتے ہیں۔ ایک اور فوجی تجزیہ کار، یان ماتیو، نے ٹیلی گرام پر کہا کہ یوکرین کے پاس ایک مشکل فیصلہ ہے: “برج ہیڈ (فوجی پوزیشن) کو برقرار رکھنے کی واحد دلیل سیاسی ہو سکتی ہے، تاکہ اسے مستقبل میں سودے بازی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیچھے ہٹنا پسپائی کہلائے گا… اور یہ ایک مشکل انتخاب ہوگا۔”
سٹیزن کارڈ رکھنے والے افغانوں کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کا حکم

پاکستان کی وزارت داخلہ نے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے تمام افغان شہریوں کو 31 مارچ 2025 تک ملک چھوڑنے کی ہدایت دے دی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق، جو افغان شہری اس مدت کے دوران رضاکارانہ طور پر واپس نہیں جائیں گے، انہیں یکم اپریل 2025 سے جبری ملک بدری کے عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے، جو یکم نومبر 2023 سے نافذ العمل ہے۔ وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ پاکستان نے افغان شہریوں کو باعزت واپسی کے لیے کافی وقت دیا ہے اور اس عمل میں کسی بھی فرد کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ وطن واپسی کے دوران خوراک اور طبی سہولیات کے انتظامات کر دیے گئے ہیں، تاکہ افغان شہریوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وزارت داخلہ نے زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر افغان شہریوں کی مہمان نوازی کی اور اپنے تمام وعدے اور ذمہ داریاں پوری کیں، لیکن ملک میں مقیم ہر فرد کو پاکستان کے آئین اور قانون کی مکمل پاسداری کرنا ہوگی۔ رواں برس 29 جنوری کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے اور سفری دستاویزات کے بغیر رہائش پذیر افغان باشندوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے بے دخل کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کے کیسز کا جائزہ لیا جائے گا، جن کے کارڈز کی مدت 30 جون 2025 تک ہے۔ تاہم، انہیں بھی اسلام آباد اور راولپنڈی چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مزید برآں، وہ افغان شہری جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں، انہیں 31 مارچ تک پاکستان میں قیام کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سے قبل، پاکستانی حکام نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں رہائش پذیر افغان شہریوں کو 28 فروری تک شہر چھوڑنے کا حکم دیا تھا، جس پر افغان سفارت خانے نے اعتراض اٹھاتے ہوئے اس فیصلے کو یکطرفہ قرار دیا تھا اور دی گئی مہلت کو بھی بہت کم قرار دیا تھا۔ افغان سفارت خانے نے پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی گرفتاریوں اور چھاپوں کی شکایات بھی کی تھیں اور کہا تھا کہ پاکستانی حکام نے اس فیصلے پر کابل حکومت سے رسمی سطح پر کوئی بات چیت نہیں کی۔ تاہم، پاکستان نے افغان سفارت خانے کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلام آباد افغان شہریوں کی وطن واپسی کو آسان بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے کئی دہائیوں تک لاکھوں افغان شہریوں کو عزت و وقار کے ساتھ پناہ دی اور اپنے محدود وسائل کے باوجود انہیں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2023 میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ملک بدری کے لیے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا، تاکہ وطن واپسی کے دوران کسی کے ساتھ بدسلوکی یا ناروا سلوک نہ ہو۔ پاکستانی حکام نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرے، تاکہ واپس جانے والے افغان مہاجرین آسانی سے اپنے معاشرے میں ضم ہو سکیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان حکام کے لیے اصل امتحان یہ ہوگا کہ وہ واپس جانے والے افغان شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں کونسے 5 کرکٹرز فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں

پاکستان کی میزبانی میں کھیلی جانے والی چیمپئنز ٹرافی کے کل دبئی میں کھیلے جانے والے فائنل میں انڈیا اور نیوزی لینڈ کے پانچ کھلاڑی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے فاسٹ باولر میٹ ہنری اس 50 اوور کے ٹورنامنٹ میں 10 وکٹوں کے ساتھ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باولر ہیں، جن میں پانچ وکٹیں انڈیا کے خلاف گروپ میچ میں حاصل کی تھیں۔ ہنری نے دبئی میں ہونے والے گروپ میچ میں شبھمن گل اور وراٹ کوہلی کو آؤٹ کر کے انڈیا کو 30-3 پر پہنچا دیا تھا، تاہم روہت شرما کی ٹیم نے مڈل آرڈر کی عمدہ کارکردگی کے باعث 9 وکٹوں کے نقصان پر 249 سکور بنائے۔ 42 رنز کے عوض پانچ وکٹوں کی شاندار کارکردگی کے باوجود ہنری کی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، مگر فائنل میں ان کا ابتدائی سپیل نیوزی لینڈ کے لیے برتری حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انڈین سپنر ورون چکرورتی کو ٹورنامنٹ کے لیے آخری لمحات میں سکواڈ میں شامل کیا گیا تھا، لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف انہوں نے 42 رنز کے بدلے پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے اور ناقابل یقین کارکردگی دکھا کر حریف بلے بازوں کو چکرا دیا۔یہ ٹورنامنٹ میں ان کا پہلا اور مجموعی طور پر دوسرا ون ڈے میچ تھا، انہوں نے اپنا ڈیبیو رواں سال فروری میں انگلینڈ کے خلاف کیا تھا۔ 33 سالہ چکرورتی، جو کئی قسم کی سپن گیندیں کروانے کی مہارت رکھتے ہیں، نے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف مزید دو وکٹیں حاصل کیں اگر انہیں فائنل میں ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ انڈیا کی جیت کے لیے کلیدی کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ان پچوں پر جو سپنرز کے لیے مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ ابھرتے ہوئے سٹار رچن رویندرا اور تجربہ کار کین ولیمسن سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے خلاف سنچریاں بنا کر فائنل میں پہنچے ہیں۔ لیفٹ ہینڈڈ رویندرا اور ولیمسن نے 164 رنز کی شراکت قائم کر کے نیوزی لینڈ کو فتح دلائی اور وہ انڈین سپنرز کے خلاف بھی اعتماد سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 34 سالہ ولیمسن نے گروپ میچ میں انڈیا کے خلاف 81 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی اور 25 سالہ رویندرا کے ساتھ مل کر وہ ایک بار پھر انڈین بولنگ کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔نیوزی لینڈ کے کپتان اور لیفٹ آرم سپنر مچل سینٹنر نے کہا کہ ’ولیمسن اور رویندرا کی موجودگی سے باؤلرز کے لیے کھیل تھوڑا آسان ہو جاتا ہے۔ انڈین کپتان روہت شرما نے اس ٹورنامنٹ میں ابھی تک بڑی اننگز نہیں کھیلی، ان کا سب سے زیادہ سکور 41 رنز بنگلہ دیش کے خلاف افتتاحی میچ میں رہا ہے تاہم، پاکستان اور آسٹریلیا کے خلاف ان کے 20 سے زائد رنز کے سکورز نے انڈیا کو تیز آغاز فراہم کیا، جس کا باقی بلے بازوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ناقدین نے روہت پر تنقید کی ہے کہ وہ ان اچھے آغاز کو بڑی اننگز میں تبدیل نہیں کر پا رہے، مگر ہیڈ کوچ گوتم گمبھیر نے کہا کہ روہت کا اثر صرف اعداد و شمار سے نہیں جانچا جا سکتا۔ گمبھیر نے روہت کی فارم پر سوال کرنے والے صحافی کو جواب دیا: ’آپ کارکردگی کو رنز کی بنیاد پر جانچتے ہیں، ہم اس کے اثرات کو دیکھتے ہیں۔ یہی فرق ہے۔ دبئی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم کی پچیں مسلسل زیر بحث رہی ہیں، کیونکہ انڈیا نے تمام میچز اسی مقام پر کھیلے ہیں۔ انڈیا نے سیاسی وجوہات کے سبب پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں دبئی میں کھیلنے کا موقع ملا۔ دبئی کی وکٹیں سست رہی اور سپنرز کے لیے سازگار رہی ہیں، جبکہ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ سکور آسٹریلیا نے 264 رنز بنا کر کیا تھا، جسے انڈیا نے 11 گیندیں قبل حاصل کر لیا تھا۔ دوسری جانب، پاکستان میں وکٹیں بلے بازوں کے لیے سازگار ثابت ہوئیں، جہاں نیوزی لینڈ نے 362-6 کا چیمپیئنز ٹرافی ریکارڈ سکور بنایا اور لاہور میں جنوبی افریقہ کو 312-9 تک محدود کر دیا۔ اگرچہ انڈیا فائنل میں بھی اپنے ’عارضی ہوم گراؤنڈ‘ دبئی میں ہی کھیلے گا، نیوزی لینڈ کے راویندرا نے کہا کہ ’ہم خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے اور سامنے آنے والی صورت حال کے مطابق کھیلنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔