یونان میں لاکھوں لوگوں کا احتجاج: حکومت عدم اعتماد ووٹ سے بچ گئی

یونان کی مرکزی دائیں بازو کی حکومت جمعہ کے روز 2023 کے خوفناک ٹرین حادثے پر عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئی، جب کہ ملک میں سیاسی احتساب کے مطالبے کے ساتھ مظاہرے شدت اختیار کر گئے۔ سینٹر لیفٹ، بائیں بازو اور آزاد قانون سازوں نے بدھ کے روز ایک تحریک پیش کی، جس میں کہا گیا کہ حکومت اپنا مقبول مینڈیٹ کھو چکی ہے۔ یہ تحریک ایک ہفتے بعد پیش کی گئی جب لاکھوں افراد حادثے میں 57 متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے، جن میں زیادہ تر طالب علم تھے۔ یہ یونان میں کئی برسوں میں سب سے بڑا احتجاج تھا۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم کیریاکوس میتسوتاکس کی حکومت پر حادثے کی ذمہ داری سے گریز کرنے، ریلوے کے خستہ حال نظام کو بہتر بنانے میں ناکامی اور شواہد کو چھپانے کا الزام لگایا جو تباہی کے اسباب پر روشنی ڈال سکتے تھے۔ حکومت، جو 2023 میں ٹرین حادثے کے بعد دوبارہ منتخب ہوئی اور 300 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 156 سیٹوں پر کنٹرول رکھتی ہے، نے کسی بھی غلطی سے انکار کیا۔ جمعہ کی رات 157 قانون سازوں کی اکثریت نے اس تحریک کو مسترد کر دیا۔ ووٹ سے پہلے، مٹسوٹاکس نے قبل از وقت انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک، جو قرضوں کے بحران سے نکل رہا ہے، حکومت کی اقتصادی پالیسی کو فائدہ دے گا۔ انہوں نے کہا، “2027 میں، یونانی عوام ایک بار پھر ہماری حکومت پر اپنے اعتماد کی تصدیق کریں گے، جیسا کہ آج ہمارے پارلیمانی گروپ نے کیا۔” وسطی ایتھنز میں ہزاروں افراد نے پرامن ریلی نکالی، لیکن جب مٹسوٹاکس نے پارلیمنٹ میں خطاب کیا تو تین افراد نے “گیٹ آؤٹ!” لکھے فلائرز ہوا میں اچھالے اور سیکیورٹی نے انہیں باہر نکال دیا۔ کچھ افراد نے “شرم کرو” کے نعرے بھی لگائے۔ پارلیمنٹ کے باہر، پولیس پر پیٹرول بم پھینکنے والے مظاہرین سے جھڑپیں ہوئیں، جس پر پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ یونانی پولیس کے مطابق، 61 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ حادثہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے اور اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس نے سیاستدانوں کے لیے آئینی استثنیٰ پر عوامی غصے کو بھی ہوا دی ہے۔ ٹرین حادثے کی عدالتی تحقیقات جاری ہیں۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے، مٹسوٹاکس نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ وہ ایک آئینی ترمیم کی تجویز پیش کریں گے جو سیاستدانوں کو قانونی کارروائی سے بچانے والے آرٹیکل میں ترمیم کرے گی۔ انہوں نے اجرتوں میں اضافے کے عزم کا اعادہ بھی کیا اور 2027 تک ریلوے کو جدید بنانے کا وعدہ کیا۔

اسلام آباد میں نئی دہلی کی طرز پر جمہوری حکومت بنانے کی سفارش، میئر کا انتخاب کیسے ہوگا؟

اسلام آباد میں نئی دہلی کی طرز پر اسمبلی اور منتخب جمہوری حکومت بنانے کی سفارش کی گئی ہے جس میں اسمبلی اپنا لیڈر منتخب کرے گی جو میئر کہلائے گا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامی اصلاحات کے لیے تشکیل سب کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اسلام آباد میں نمائندہ حکومت اور جمہوری کنٹرول قائم کیا جائے، وفاق سے اسلام آباد حکومت کو اختیارات منتقل کیے جائیں، بکھرے ہوئے محکموں کی بجائے مربوط انداز میں ادارے بنائے جائیں۔ وفاق کے ایک یونٹ کے طور پر ایم موزوں انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے، یہ ڈھانچہ گلگت بلتستان کی طرز پر صوبائی حکومت کا ہو، یہ سفارش سب کمیٹی کی عبوری رپورٹ میں کی گئی۔ سب کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ اسلام آباد میں نئی دہلی کی طرز پر اسلام آباد کیپٹل ٹیرژی ( آئی سی ٹی ) گورنمنٹ بنائی جا ئے۔آئی سی ٹی کی منتخب اسمبلی ہوگی جس کے نمائندے براہ راست منتخب کیے جائیں گے۔ صو بائی اسمبلی کے پاس ہوم، پولیس اور ماسٹر پلاننگ کے سبجیکٹس نہیں ہوں گے،اسلام آباد اسمبلی اپنا لیڈر منتخب کرے گی جو میئر کہلائے گا، میئر اسمبلی کو جوابدہ ہوگا۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ آئی سی ٹی کے محکمے صوبائی محکموں کی طرز پر ہوں گے،ان کی تعداد کم ہوگی، انہیں چارگروپس میں سوشل، اکنامک، ڈویلپمنٹ اور جنرل کے نام سے تقسیم کیا جا ئے گا، داخلہ ، پولیس اور ماسٹر پلاننگ کے علاوہ تمام محکمے میئر کے ماتحت کام کریں گے۔ داخلہ ،پولیس اور ماسٹر پلاننگ کے محکمے وفاقی حکومت کے ماتحت ہوں گے، ان کے انچارج متعلقہ وزیر ہوں گے، سی ڈی اے سمیت تمام ادارے آئی سی ٹی گورنمنٹ کے ماتحت کام کریں گے ، چیف کمشنر کی بجائے چیف سیکرٹری ہوگا،آئی جی پولیس ہوں گے۔ سب کمیٹی نے تجویز کیا کہ تمام محکموں کے سر براہ سیکرٹری ہوں گے، داخلہ ،پولیس اور ماسٹر پلاننگ کے محکمے چیف سیکرٹری کے توسط سے وفاقی حکومت کو جوابدہ ہوں گے۔ آئی سی ٹی گورنمنٹ کو گلگت بلتستان کی طرح مکمل انتظامی اور مالی خود مختاری حاصل ہوگی، آئی سی ٹی گورنمنٹ اپنے معاملات چلانے کے لیے رولز وضع کرے گی۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اسلام آ باد کیپٹل ٹیرثری ایکٹ 2025 منظور کیا جا ئے گا، عبوری انتظام کے لیے وفاقی حکومت کی ایڈوائس پر صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 258 کے تحت حکم نامہ جاری کر سکتے ہیں جیسا کہ جی بی آرڈر 2028 جاری کیا گیا تھا۔ رولز آف بزنس1973میں بھی اس کے مطابق تبدیلی کی جائے گی، مجوزہ قانونی ڈرافٹ ایک ماہ میں تیار کیا جا سکتا ہے ، نئے مالی انتظام کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ زیادہ تر آئی سی ٹی کے موجودہ اداروں کی ری اسٹرکچرنگ ہی کی جائے گی ۔ آئی سی ٹی حکومت کے دو شیڈول ہوں گے۔ شیڈول اے میں داخلہ ،پولیس اور ماسٹر پلاننگ کے محکمے ہوں گے جو وفاقی حکومت کے ما تحت ہوں گے، شیڈول بی میں 26 محکمے ہوں گے جو آئی سی ٹی حکومت کے ما تحت کام کریں گے۔ ذرائع کے مطابق یہ عبوری رپورٹ بیرسٹر ظفر اللہ کی سر براہی میں قائم سب کمیٹی نے تیار کی ہے، کمیٹی کے دیگر ممبران میں وفاقی وزیر پار لیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ، ایم این اے خرم شہزاد، انجم عقیل ایم این اے، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ،چیف کمشنر اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آ باد اور سی ڈی اے کا ایک نمائندہ شامل ہیں۔ سب کمیٹی کا جلاس اگلے ہفتے ہوگا جس میں سفارشات کو حتمی شکل دی جائے گی، سب کمیٹی اپنی سفارشات وزارتی کمیٹی کو دے گی جو وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے۔

فرق کہاں سے پڑتا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جس پر میں اکثر غور کرتارہتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے، کیا ایکس فیکٹر ہے جو ایک شخص،تنظیم یا ادارے کو ٹاپ پر لے جاتا ہے۔ اسے دوسروں سے مختلف اور منفرد بنا دیتا ہے۔ ہم بہت بار دیکھتے ہیں کہ ایک ساتھ سٹارٹ لیا جاتا ہے اور پھر چند برسوں کے اندر ایک جیسی صلاحیت اور ٹیلنٹ رکھنے والے بعض لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں، ان میں سے ہی کوئی ایک یا دو تین لوگ آگے نکل جاتے ہیں، بہت آگے۔ یہ معاملہ کاروبار کا بھی ہے۔ ایک ساتھ کمپنی بنانے والے، دکان شروع کرنے یا کوئی اور کاروبار کرنے والے لوگوں میں سے بھی بعض آگے دوڑے چلے جاتے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ لوگ ٹھوکر کھا کر گر جاتے اور کبھی تو کاروبار تک سے باہر ہوجاتے ہیں، چند ایک البتہ درمیانی رفتار سے لگے رہتے ہیں اور اوسط درجے کی کامیابیاں لے لیتے ہیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا چیز ہے جو ان میں فرق ڈالتی ہے، کسی ایک کو آگے اور دوسروں کو پیچھے رہ جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس اہم سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ ہر ایک کا معاملہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، بعض شعبے بھی دوسروں سے الگ اور منفرد ہوتے ہیں۔ سیلف ہیلپ لٹریچر میں بہت سی کامیابیوں اور ناکامیوں کی کہانیاں ملتی ہیں۔ ماہرین نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کا جائزہ لے کر اپنے نوٹس بنائے اور پھر انہیں کتابی شکل میں شائع کئے۔ ان سب کی افادیت ہے، مگر میں اس وقت ان تفصیلات میں نہیں جاناچاہتا، مختصر سپیس میں نمایاں اور اہم ترین نکات پر رہوں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ فطری ٹیلنٹ یعنی ذہانت ضروری ہے، یہ آدمی کو دوسروں سے مختلف اور ممتاز بناتی ہے۔ طبعی رجحان کی بھی اہمیت ہے۔ آدمی اگر اپنی مرضی اور پسند کے پروفیشن میں ہو تو وہاں محنت کرنے کا جی بھی چاہتا ہے ۔ مواقع ملنا بھی بہت زیادہ اہم ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ظالمانہ، استحصالی سسٹم ہے ، جو ٹیلنٹ کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے۔ وہاں پر مواقع ملنا، بریک تھرو مل جانا بھی بہت اہم ہے۔ یہ ایک طرح سے خوش قسمتی کا عنصر ہے۔ آپ کا ہاتھ کوئی پکڑ لیتا ہے، کہیں سے ایسی رہنمائی، مدد مل جاتی ہے کہ راستہ نکل آئے، سفر آسان ہوجائے۔ ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے۔ بعض لوگ اپنے وقت سے دس بیس سال پہلے یا بعد میں پیدا ہوجاتے ہیں، وہ اگر کچھ پہلے آتے یا کچھ بعد میں تو شائد بہتر رہتا۔ یہ مگر قسمت کا عنصر ہے جس کا اپنا ایک خاص کردار ہے۔ ایک بڑا فیکٹر ویژن کا بھی ہے، آپ مستقبل پر کتنی نظر رکھتے ہیں، آنے والے حالات، واقعات کا کس قدر اندازہ لگا پائیں گے ؟ یہ بھی بہت اہم ہے۔ ہم نے وہ کہانیاں پڑھ رکھی ہیں، جب بڑی اور کامیاب کمپینوں نے مستقبل پر نظر نہ رکھی، بدلتے ٹرینڈز کا ادراک نہیں کیا اور پھر وہ مٹ گئیں، مارکیٹ ہی سے آوٹ ہوگئیں۔ کوڈک فلم کمپنی ہو یا نوکیا فون اور پھر بلیک بیری، یہ سب ایسی مثالیں ہیں جن سے عبرت سیکھنی چاہیے۔ خود مائیکرو سافٹ بھی کئی حوالے سے گوگل وغیرہ سے پیچھے رہ گیا۔ اس کا فون بیکار رہا، سرچ انجن بھی ۔ یہ سب اپنی جگہ مگر کامیابی اور ایکسٹرا آرڈنری کامیابی صرف ان سے نہیں ملتی۔ مجھے سینئر صحافی ،اینکر حسن نثار صاحب کی بات یاد آئی۔ چار پانچ سال قبل ان کے گھر بیٹھے تھے، باتوں میں حسن نثار کہنے لگے کہ میرا بیٹا ایک روز میرے پاس آ کر بیٹھا اور پوچھنے لگا، بابا ایکسٹرا آرڈنری بننے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ حسن نثار کہتےہیں، میں نے اسے مسکرا کر کہا تمہارے سوال ہی میں جواب ہے۔ ایکسٹرا آرڈنری بننے کے لئے ایکسٹرا کوشش کرنا پڑتی ہے۔ عام ، روٹین کی کوشش کریں گے تو آرڈنری ہوں گے، جبکہ اگر ایکسٹرا آرڈنری کوشش ہوگی تو آدمی ایکسٹرا آرڈنری (غیر معمولی )کامیابی حاصل کر لےگا۔ یہی ایکسٹرا آرڈنری کوشش ہی آخری تجزیے میں فرق ڈالنے والی چیز ہے۔ اپنی ذات، کام اور کاروبار وغیرہ میں ڈسپلن کے ساتھ درست سمت میں کی گئی بے پناہ محنت۔ آخر کار یہی رنگ لاتی ہے۔ خاص کر لمبا کھیلنے کے لئے، اپنی کامیابیوں کا سلسلہ دراز کرنے کے لئے تو یہ بہت ضروری ہے۔ آپ اپنے ٹیلنٹ، موقعہ محل کی مناسبت، حالات وغیرہ کی بنا پر کامیابی کا ایک فیز تو نکال سکتے ہیں، زیادہ نہیں۔ آج کل کھیلوں کا سیزن ہے، ہر طرف کرکٹ چل رہی ہے، اسے لے لیتے ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ کامیابی کے لئے صرف ٹیلنٹ کافی نہیں۔ ہم نے بہت سے ٹیلنٹیڈ کھلاڑی دیکھے، جن میں غیر معمولی صلاحیت تھی، وہ بطور بلے باز گیند کو جلد دیکھ سکتے تھے، ان کی ٹائمنگ اچھی تھی، سٹروکس کھیلنے کی صلاحیت کمال تھی ۔ بطور باولر بھی ان کے پاس ٹیلنٹ تھا،تیز رفتار ، لمبا قد، سوئنگ کرانے کی نیچرل صلاحیت، سمجھ بوجھ وغیرہ۔ سپنرز میں بھی کئی گاڈ گفٹڈ قسم کے سپنر ہوتے ہیں، ان میں فطری صلاحیت ہوتی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم نے ان میں سے بہت سوں کو ناکام ہوتے، ٹیموں سے ڈراپ ہوتے دیکھا ہے۔ وہ بعد میں اپنی نالائقی، کمزوریوں کا تجزیہ کرنے کےبجائے سسٹم سے شاکی رہتے اور دوسروں پر الزام تھوپتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کے پچھلے پندرہ برسوں کو دیکھا جائے تو عمر اکمل، احمد شہزاد ایسے کھلاڑی نظر آتے ہیں۔ عمر اکمل میں بہت ٹیلنٹ تھا، اچھا سٹروک پلیئر تھا، اس کی خوش قسمتی کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ شروع ہوگئی تھی جو اسے سوٹ کرتی تھی، مگر اپنی سستی، فٹنیس پر توجہ نہ دینے، فوکس کم کرنے اور اپنے ٹمپرامنٹ کے ایشوز کے باعث یہ ٹیم سے باہر ہوگیا۔ یہی حال احمد شہزاد کا ہے۔ اب وہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر سب پر تند وتیز گھٹیا ذاتی حملے کر کے بھڑاس نکال رہا ہے۔ حسن علی کی مثال بھی لے سکتے ہیں، حیدر علی بھی ایک نمایاں مثال ہے۔ جادوگر سپنر عبدالقادر کا بیٹا عثمان قادر اب پاکستانی سسٹم کا شاکی ہوگا، وہ آسٹریلیا شفٹ ہو

ٹرمپ فارمولا مسترد، اوآئی سی نے غزہ بحالی کا پانچ سالہ منصوبہ منظور کرلیا

او آئی سی نے ٹرمپ منصوبے کے خلاف تجاویز کو منظور کرتے ہوئے غزہ کی بحالی کے لیے پانچ سالہ منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ غزہ کی صورت حال پر بحث کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس جدہ میں ہوا، جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی۔ مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی وزارتی اجلاس میں مصری منصوبے کو منظور کر لیا گیا، جو اب ایک عرب-اسلامی منصوبہ بن چکا ہے۔ ان کے اس بیان کی سوڈانی وزیر خارجہ نے بھی توثیق کی ہے۔ اجلاس میں پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم بند کرے، اور اس سخت وقت میں پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے باہر مستقل طور پر آباد کیا جائے جبکہ امریکہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے ’ملکیت‘ لے۔ ٹرمپ کی اس تجویز کو عالمی برادری خاص طور پر عرب ممالک کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب اجلاس کے حوالے سے او آئی سی کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں مجوزہ نقل مکانی، الحاق، جارحیت اور تباہی کی پالیسیوں کو سختی سے مسترد کرنے کے علاوہ اور اس بات کا اعادہ کیا جائے گا کہ فلسطین کاز اب بھی اسلامی اُمت کا مرکزی مسئلہ ہے۔ عرب ممالک کی جوابی تجاویز تین مراحل پر مشتمل ہیں جنہیں پانچ سال میں عملی شکل دی جائے گی تاکہ غزہ کی مکمل بحالی ممکن ہو سکے۔   پہلا مرحلہ، جسے مکمل ہونے میں دو سال لگیں گے، 20 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔ اس مرحلے میں غزہ میں دو لاکھ مکانات کی تعمیر شامل ہوگی۔ منصوبے کے مطابق ابتدائی بحالی چھ ماہ میں مکمل کی جائے گی جس میں ملبہ ہٹانے اور عارضی رہائش کی سہولت فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہوں گے۔ دوسرا مرحلہ جو تقریباً ڈھائی سال میں مکمل ہوگا، غزہ میں مزید دو لاکھ رہائشی یونٹس اور ایک ہوائی اڈے کی تعمیر پر مشتمل ہوگا۔ مجموعی تعمیراتی عمل پانچ سال میں مکمل کیا جائے گا اور تخمینے کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر مجموعی لاگت 53 ارب ڈالر آئے گی۔ گزشتہ لگ بھگ ڈیڑھ سال کے دوران دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے لگ بھگ 50 ہزار فلسطینیوں کی جان لی، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں فلسطینی جو لاپتہ ہیں، ان کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ رواں ہفتے ہی عرب سربراہ اجلاس میں غزہ کے مستقبل کے لیے مصر کا منصوبہ منظور کیا گیا۔ مسودے میں عالمی برادری اور مالیاتی اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس منصوبے کے لیے فوری امداد فراہم کریں۔ مصر کے زیر اہتمام یہ سربراہی اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی تجاویز کے ساتھ اسرائیلی وزیراعظم کے فائر بندی کے خاتمے اور غزہ میں دوبارہ حملے شروع کرنے کے مؤقف کا جواب دینے کے لیے منعقد ہوا تھا۔

پاکستان میں عورت مارچ میں مقاصد کیا ہیں؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج 8 مارچ کو ہر سال کی طرح  عالمی یومِ خواتین منایا جارہا ہے، مگر پاکستان میں 2 مختلف قسم کے مارچ دیکھنے کو ملتے ہیں ایک کو حیا تو دوسرے کو عورت مارچ کہا جاتا ہے۔ ایک کے سپورٹر دوسرے کے ناقدین ہیں اور اتنے برے کے ایک دوسرے پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ ان کی آپس میں بحث بارہا بار دیکھی گئی ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں آج عورت مارچ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جہاں حقوق کی جدوجہد میں شریک خواتین اور ان کے حامی اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں۔ لیکن یہ مارچ ایک بار پھر متنازعہ نعروں، روایتی مخالفت اور مختلف سماجی حلقوں کی تنقید کے بیچ منعقد ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی خواتین ونگ کی ترجمان ثمینہ سعید نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “عورت مارچ کوئی تحریک نہیں ہے یہ چند خواتین ہیں جو ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کو خواتین کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کو ایک خاص طبقے کو پریزنٹ کرنا ہے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ان کے اندر بہت سارے دوسرے گروپ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی خواتین کی نمائندہ خواتین نہیں ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی نمائندہ خواتین تو خواتین کے حقوق کے لیے منظم جدوجہد اور تحریک بھی چلا رہی ہیں”۔ پاکستان میں عورت مارچ کا آغاز 2018 میں ہوا، جب چند سماجی کارکنوں اور حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں نے خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ پہلے ہی سال یہ تحریک توجہ کا مرکز بن گئی۔ عورت مارچ کی سرگرم رکن زینب ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” عورت مارچ نے گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، جبری شادی، کام کی جگہ پر استحصال، اور خواتین کے دیگر بنیادی حقوق جیسے موضوعات کو اجاگر کیا ہے۔ اس مارچ کے ذریعے وہ مسائل قومی سطح پر زیر بحث آتے ہیں جن پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی”۔ جیسے جیسے عورت مارچ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے اس پر اعتراضات اور تنازعات بھی بڑھتے گئے۔ اس حوالے سے ثمینہ سعید کا کہنا ہے کہ ” یہ جو آٹھ مارچ میں عورت مارچ کیا جاتا ہے تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ عورت مارچ کرنے والی دو پرسنٹ خواتین بھی نہیں ہیں جو یہ والا سیگمنٹ کرتی ہیں۔ اصل میں تو اس ملک کے اندر خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی اگر خواتین ہیں تو وہ ہلکا خواتین جماعت اسلامی پاکستان ہے۔ جو اپنے یعنی کہ وسائل کے اندر وہ خواتین کی ایجوکیشن خواتین کی صحت خواتین کو قانونی لحاظ سے جو ان کو معاونت چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “جماعت اسلامی جیلوں کے اندر اور یہ جو سٹریٹ چائلڈ ہیں ان کے لیے بیٹھک سکول کے نام سے ادارے قائم کر رہی ہے۔ یہ دین اور دنیا کی تعلیم جامعۃ المسنات کے ذریعے دے رہی ہے۔ یہ نوجوانوں کو مایوسی سے نکالنے کے لیے جے آئی یوتھ کا پلیٹ فارم دے رہی ہے۔ اصل میں تو پاکستان کے اندر خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے والی اگر کوئی تنظیم ہے، اگر کوئی جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ یہ صرف آٹھ مارچ کا دن نہیں منا رہے” ثمینہ سعید نے مزید کہا کہ “جماعت اسلامی پورا سال خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف خواتین کے حقوق کی علمبردار ہے۔ یہ عملی طور پر ظلم کی شکار خواتین کے حقوق جو ان کو نہیں ملتے وہ قانونی لحاظ سے معاشی لحاظ سے معاشرتی لحاظ سے ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ جہیز کا مسئلہ ہو، خواتین کی وراثت کا مسئلہ ہو، خواتین کی تعلیم کا مسئلہ ہو، خواتین کو قانونی رہنمائی چاہیے تو اس کے لیے ان کا لائنز فورم ہے وہ خواتین کی رہنمائی کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کی خدمات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ” جماعت اسلامی گوشہ عافیت ہے جہاں پر نادار اور بے گھر خواتین کو جائے پناہ دی جاتی ہے۔ دراصل یہ تصور بھی دینے کی ضرورت ہے کہ خواتین کو اور پاکستان کی خواتین یہ سمجھتی بھی ہیں۔ یہ دو فیصد خواتین جس بنیاد کے اوپر یا جس رد عمل کے طور پر یہ مارچ وغیرہ کرتی ہیں وہ پاکستانی عورت کی نمائندگی نہیں کر رہیں۔ پاکستان کی عورت کی اگر کوئی نمائندہ خواتین ہیں تو وہ جماعت اسلامی کی خواتین ہیں۔ اس لحاظ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن منا لینے سے خواتین کو حقوق نہیں ملیں گے خواتین کو حقوق دلانے کے لیے منظم جدوجہد کرنی پڑے گی جو جماعت اسلامی کر رہی ہے”۔ 9 مارچ 2020 کا دن تھا جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے مقام پر عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ مگر وہیں اسی مقام پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے حیاء مارچ کے سلسلے میں ریلی بھی نکالی گئی۔ جب عورت مارچ ڈی چوک کی جانب بڑھا تو اس پر حملہ بھی ہوا۔ یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ جس دن عورت مارچ کی ابتدا ہوئی اسی دن سے یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ عورت مارچ کی سرگرم رکن زینب ملک کے نزدیک ” عورت مارچ کا بیانیہ خواتین کے حقوق کے لیے ہے، اور یہ نعرے معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ ان کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیانیہ غلط ہے، بلکہ اس کی وضاحت اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔” عالمی یومِ خواتین کے موقع پر پاکستان میں بھی کئی دہائیوں سے مختلف تقریبات منعقد ہوتی رہی ہیں، لیکن عورت مارچ نے ایک منظم عوامی احتجاج کی شکل اختیار کر کے نئی روایت قائم کی ہے۔ ثمینہ سعید کا ماننا ہے کہ ” سب سے پہلے تو یہ کہ ہمارے ملک کے اندر خواتین کے جو اسلام کے عطا کردہ حقوق ہیں ان