درختوں کی موت، ماحول کی تباہی، چند سال بعد سانس لینا مشکل ہوجائے گا

علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ “ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔۔۔۔۔۔۔احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات”۔ اقبال کے کہے اس شعر کو ایک صدی ہونے کو آئی ہے اور آج یہ شعر پہلے کی نسبت زیادہ موزوں ہے۔ وقت کے ساتھ انسان تقریباً ایک سانس لیتی مشین بن چکا ہے، جو بنا کسی دوسرے کی فکر کیے خود غرضی کی راہ پر چل پڑا ہے۔ پہلے پہل ترقی کے نام پر انسان نے زمین کا سینہ چیرا، معدنیات ڈھونڈیں، جانوروں اور پرندوں کا شکار کیا، مگر اب پیسے کی لالچ نے اس قدر اندھا کیا ہے کہ آئے دن سوسائٹیز کے نام پر درختوں کا قتلِ عام شروع کر دیا گیا ہے۔ ریاستِ پاکستان بھی ترقی کی منازل طے کرنے کے نام پہ رنگینیوں کے قتلِ عام میں پیش پیش ہے، جہاں ایک طرف گرین انیٹیٹو پاکستان اور شجرکاری مہمات جیسے منصوبے بنائے جارہے ہیں، وہیں دوسری طرف درختوں کو کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں اور حکومت خاموش تماشی بنی ہوئی ہے۔ ملک میں درختوں کی بے دریغ کٹائی ماحولیاتی بحران کو سنگین تر بنا رہی ہے، جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسپیس سائنسس کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب نے کہا کہ “ملک میں درختوں کی کٹائی ماحولیاتی بحران کو سنگین کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب جب کہ آکسیجن کو خارج کرتے ہیں، مگر درختوں کے کٹاؤ سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ جبکہ آکسیجن کی کم ہو رہی ہے، جو کہ انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔” انہوں نے مزید کہا ہے کہ “درختوں کے قتلِ عام سے ٹمپریچر تبدیل ہو رہا ہے، ہوا میں نمی کی مقدار میں کمی ہو رہی ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بارشوں کا پیٹرن بدل گیا ہے۔ آج سے کچھ سال قبل لاہور شہر میں موسمِ برسات میں کئی کئی دنوں تک بارشیں ہوتی رہتی تھیں، مگر اب تو ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔” یہ بھی پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟ 2022 میں بلوچستان کے ضلع شیرانی کے قدیم جنگلات میں لگنے والی آگ نے تقریباً 10 ہزار 700 ایکڑ رقبے کو متاثر کیا، جس سے چلغوزے اور زیتون کے درختوں کے علاوہ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں غیر قانونی درختوں کی کٹائی سے جنگلات کو نقصان پہنچا، جس سے مقامی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے شدید موسمی واقعات کا سامنا کیا ہے جیسے ہیٹ ویو، خشک سالی اور سیلاب، جس سے بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصان ہوا ہے۔ یہ واقعات جنگلات کی کٹائی سے بڑھتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام کی قدرتی لچک کو کم کر دیتا ہے اور آب و ہوا کے خطرات کے لیے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے اور ہر سال ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر موجود جنگلات اور درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ یہ کٹائی جلانے کے لیے لکڑی حاصل کرنے، نئی آبادیاں تعمیر کرنے اور صنعتوں میں استعمال کے لیے کی جاتی ہے۔ شہری ترقی کے لیے جنگلات کی قربانی ماحولیاتی توازن کو بگاڑ رہی ہے، جس سے قدرتی آفات کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فورم کے مطابق پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ درخت کاٹنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، محکومتی شجرکاری مہمات کے باوجود جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے، جو مستقبل میں مزید سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب کے مطابق “درختوں کے کٹائی سے سیلاب اور خشک سالی جیسی قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے، درخت جو قدرتی ایک بیریر ہوتے ہیں لینڈ سلائٹز اور سیلاب کو روکنے کے لیے وہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔” گزشتہ دنوں پنجاب میں ‘چیف منسٹر پلانٹ فار پاکستان’ انیشیٹو کے تحت وسیع پیمانے پر شجرکاری مہم کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت پنجاب میں 48 ہزار 368 ایکڑ رقبے پر درخت لگائے جائیں گے۔ مزید یہ کہ درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب درختوں کی بے دریخ کٹائی کا سلسلہ جوں کا توں ہے۔ پاکستان میں جنگلات کے تحفظ کے لیے موجودہ قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر مہرین عطر نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ “پاکستان میں جنگلاتی پالیسی میں بہتری آئی ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں شدید مسائل ہیں۔ غیر قانونی کٹائی، زمین پر قبضہ اور کمزور حکومتی نگرانی کی وجہ سے جنگلات تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے شجرکاری مہم اور بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے شروع کیے گئے، لیکن پائیدار جنگلاتی تحفظ کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔” موسم بہار کے دوران 6 ہزار 637 ایکڑ زمین پر 59 لاکھ 66 ہزار درخت لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس مہم کے تحت لاہور، قصور، گوجرانوالہ، گجرات، مری، راولپنڈی، سرگودھا اور مظفر گڑھ سمیت 300 سے زائد مقامات پر شجرکاری کی جا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی خواتین کی زندگیوں پر ہی کیوں گہرے اثرات مرتب کرتی ہے؟ ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ “حکومت کو چاہیے کہ شجرکاری مہمات میں اضافہ کرے، موجودہ مہمات درختوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ نئے مہمات متعارف کرانے کی ضرورت ہے، جیساکہ ایک سلوگن ہے کہ ‘درخت لگائیں اپنے آنے والی جنریشن کو محفوظ بنائیں’۔” درختوں کی بے دریغ کٹائی پاکستان میں ماحولیاتی بحران کو بڑھا رہی ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کے تحفظ کے لیے مؤثر قوانین کا نفاذ اور عوامی شعور بیدار کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ اور صحت مند ماحول یقینی بنایا جا سکے۔ ڈاکٹر مہرین عطر کے مطابق “عام شہریوں کو درختوں کے تحفظ کے لیے آگاہی مہمات میں
سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے بڑے بھائی گھر کی دہلیز پر قتل، قاتل کون ہے؟

جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے سابق امیر سینیٹر مشتاق احمد خان کے بڑے بھائی شکیل احمد خان کو قتل کردیا گیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شکیل احمد خان کو گھر کے باہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کیا ۔ پولیس کے مطابق واقعہ صوابی کے گاؤں احد خان کلے شیخ جانہ میں پیش آیا۔ سوشل میڈیا پر جاری بیان میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑے بھائی شکیل احمد خان کو گاؤں میں گھر کے سامنے شہید کیا گیا۔ مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ بڑےبھائی مجھے بہت عزیز تھے، یہ میرے دست وبازو تھے، یہ بدترین درندگی ہے۔ مشتاق احمد خان کے بھائی کے قتل پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ڈی پی او صوابی محمد اظہر کا کہنا ہے کہ شکیل احمد خان پر ہمسائے نے فائرنگ کی ، ملزم نے پہلے اپنے والد کو قتل کیا ، شکیل احمد خان بیچ بچاؤ کرانے کے لیے گئے تھے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے سینیٹر مشتاق احمد خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے، امیرجماعت اسلامی نے حکام سے ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔