سعودی عرب میں امریکا اور یوکرین کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے

یوکرین اور امریکی حکام کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات کا آغاز کیا، جس کا مقصد روس کے ساتھ جنگ ​​کے خاتمے کی راہ تلاش کرنا تھا۔ یہ بات چیت کیف کی افواج کی جانب سے ماسکو پر اب تک کے سب سے بڑے ڈرون حملے کے چند گھنٹے بعد شروع ہوئی۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو امید ہے کہ جدہ میں ہونے والی بات چیت کے ذریعے امریکا کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ مستحکم کیا جا سکے گا، خاص طور پر گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک کشیدہ ملاقات کے بعد۔ زیلنسکی نے روس کے ساتھ فضائی اور سمندری جنگ بندی کی تجویز بھی دی ہے، تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ جنگ کے جلد خاتمے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ یہ تجویز ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے زیلنسکی پر امن قائم کرنے میں سنجیدہ نہ ہونے کا الزام لگایا تھا اور انہیں روس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ امریکا، جو 2022 میں روسی حملے کے بعد سے یوکرین کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے، نے حالیہ مہینوں میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔ اس نے فوجی امداد روک دی ہے اور یوکرین کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ محدود کر دی ہے، جس سے کیف پر شدید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ زیلنسکی نے مذاکرات سے قبل ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وہ عملی نتائج کی امید رکھتے ہیں اور یوکرین کا موقف مکمل طور پر تعمیری ہوگا۔ دوسری جانب، روسی حکام کے مطابق، راتوں رات یوکرین نے ماسکو پر 91 ڈرونز کے ذریعے ایک بڑا حملہ کیا، جس میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا، آگ بھڑک اٹھی، اور متعدد ہوائی اڈے بند کر دیے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اس نے مجموعی طور پر 337 ڈرونز مار گرائے، جبکہ یوکرینی افواج نے یہ حملہ روس کے مسلسل میزائل حملوں کے جواب میں کیا، جن میں ہفتے کے روز کم از کم 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ زیلنسکی اس وقت اپنے یورپی اتحادیوں سے اپنی جنگ بندی کی تجویز پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، اس تجویز سے یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ آیا ماسکو واقعی جنگ ختم کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ یوکرین نے امریکی تعلقات کی بحالی کے لیے بھی کوششیں تیز کر دی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ٹرمپ نے دوطرفہ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کیا اور کیف کی طرف سے واشنگٹن سے حفاظتی ضمانتوں کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ یہ معاہدہ، جس پر منگل کے روز ہونے والی بات چیت میں غور کیا جانا ہے، 2022 سے یوکرین کے لیے دی جانے والی امریکی فوجی امداد کے تسلسل اور واشنگٹن کی مستقل حمایت کے لیے نہایت اہم ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جدہ جاتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کا بنیادی مقصد یوکرین کے موقف کو سمجھنا اور یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کن شرائط پر رعایت دینے کو تیار ہے۔ ان کے مطابق، جنگ بندی کے لیے دونوں فریقوں کو کچھ نہ کچھ قربانیاں دینا ہوں گی۔ ان مذاکرات میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز بھی شریک ہیں، جبکہ یوکرینی وفد کی قیادت زیلنسکی کے اعلیٰ معاون اینڈری یرماک کر رہے ہیں۔ تاہم، زیلنسکی خود اس میں شریک نہیں ہیں، حالانکہ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے پیر کو سعودی عرب میں موجود تھے۔ یوکرینی وزارت خارجہ نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہا کہ “یوکرین اور امریکی وفود کے درمیان ایک میٹنگ جدہ، سعودی عرب میں شروع ہو رہی ہے۔” اس بیان کے ساتھ ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی گئی، جس میں سینئر یوکرینی حکام کو مذاکرات کے لیے ایک میٹنگ روم میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل، مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، جو یوکرینی سفارت کاری کے مسودے پر کام کر رہے ہیں، نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق، وٹکوف مستقبل قریب میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو جانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

پاکستان نے اقوام متحدہ میں افغان حکومت کی دہشتگردی کا پردہ چاک کر دیا

پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی حالیہ لہر کا ذمہ دار افغانستان کی حکومت کو قرار دیا گیا ہے اور طالبان کی جانب سے دہشتگردوں کی سرپرستی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر منیر اکرم نے 10 مارچ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانستان میں ’دہشت گرد‘ گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابل حکام نہ صرف ان گروہوں کے خلاف کارروائی میں ناکام رہے ہیں بلکہ بعض معاملات میں ان کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔ سفیر منیر اکرم نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی 6000 جنگجوؤں کے ساتھ افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے، جو پاکستان کے فوجی، شہری اور ریاستی اداروں پر حملے کر رہی ہے۔ ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ کابل حکام نے ٹی ٹی پی کی سرحد پار دہشت گردی میں بعض اوقات سہولت کاری بھی کی، ٹی ٹی پی نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ پاکستانی مندوب نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی کے دفاع کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گا، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہم اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔ افغانستان کی طرف سے منیر اکرم کے اس بیان پر فوری ردعمل تو سامنے نہیں آیا البتہ ماضی میں افغان طالبان کی حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ وہ عسکریت پسندی کے لیے اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی۔ سفیر منیر اکرم نے کہا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کابل حکام داعش سے تو برسرپیکار ہیں لیکن افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں جیسے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گردوں ( بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کے خلاف مؤثر کارروائی میں ناکام رہے ہیں، جو پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیاروں کی موجودگی خطرناک ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں سے ایسے جدید ہتھیار برآمد کر چکے ہیں جو غیر ملکی افواج کے چھوڑے گئے ذخائر سے افغان حکام نے حاصل کیے ہیں۔ کابل انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو دہشت گرد گروہوں سے واپس لے۔   پاکستانی مندوب نے چین، ایران، روس اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے 27 ستمبر 2024 کے وزارتی اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس افغانستان سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے ایک اہم قدم تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اقوام متحدہ کی افغانستان سے متعلق حالیہ رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں دہشت گردی جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہے۔ پاکستانی مندوب نے افغانستان میں استحکام کے لیے افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی پر بھی زور دیا اور کہا کہ پاکستان مزید پناہ گزینوں کی میزبانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک بدری کا عمل جاری رہے گا، خاص طور پر وہ افراد جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ سفیر منیر اکرم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ 40 سالہ جنگ کے بعد، افغان عوام امن کے مستحق ہیں، اور اس کا واحد راستہ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور ایک مستحکم حکومت کے قیام میں ہے۔

6 جی ٹیکنالوجی: اتنی رفتار جیسے وقت سے آگے جا رہے ہوں

کیا آپ جانتے ہیں کہ 6G ٹیکنالوجی کیا ہے، یہ کیسے کام کرے گی اور ہماری زندگی کو کیسے بدلے گی؟ آئیے ان سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ 6G ٹیکنالوجی، یعنی چھٹی نسل کی وائرلیس ٹیکنالوجی، 5G کے بعد اگلا بڑا قدم ہے۔ جہاں 5 جی نے ہمیں تیز رفتار انٹرنیٹ، کم تاخیر اور بہتر کنیکٹیویٹی دی، وہیں 6G اس سے کہیں زیادہ آگے جائے گی۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ 6G، 5G سے 100 گنا زیادہ تیز ہوگی اور اس کی رفتار ایک ٹیرا بٹ فی سیکنڈ تک جا سکتی ہے۔ اس میں تاخیر یعنی ڈیٹا بھیجنے اور وصول کرنے کا وقت ایک ملی سیکنڈ سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ 6G صرف موبائل فونز تک محدود نہیں ہوگی بلکہ یہ گھریلو آلات، گاڑیوں اور یہاں تک کہ انسانی جسم پر پہنے جانے والے آلات کو بھی آپس میں جوڑ دے گی۔ اس ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت (AI) کا زیادہ استعمال ہوگا، جو نیٹ ورک کی کارکردگی کو خودکار طریقے سے بہتر بنائے گا۔ 6 جی کے عام ہونے سے انٹرنیٹ کا استعمال بڑھے گا، جس کا ماحول پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ ایک مہنگی ٹیکنالوجی ہوگی، لیکن اس کی مدد سے ڈاکٹر دور بیٹھ کر مریضوں کا علاج کر سکیں گے اور روبوٹس کے ذریعے سرجری بھی ممکن ہو سکے گی۔ شہروں میں ٹریفک اور پانی کے نظام کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکے گا۔ ورچوئل ریئلٹی (VR) آگمنٹڈ ریئلٹی کے تجربات مزید حقیقت کے قریب اور بہتر ہو جائیں گے۔ فیکٹریوں میں مشینوں کو 6G کی مدد سے کنٹرول کیا جا سکے گا، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ تاہم، اس ٹیکنالوجی کے لیے نئے آلات اور سہولیات کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی، ڈیٹا کی حفاظت اور پرائیویسی جیسے چیلنجز بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ 6G کے لیے ایک عالمی معیار مقرر کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

فنڈنگ رُکنے سے انسانی سمگلنگ میں اضافہ، امریکہ کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے

ٹرمپ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر امدادی فنڈز کی بندش اور معطلی سے جہاں دیگر مسائل نے جنم لیا ہے وہیں انسانی سمگلنگ کے اعدادو شمار میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 2 لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد میانمار، کمبوڈیا سمیت دیگر ممالک میں سمگل کیے گئے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب 2023 میں جلیل مائیکی مارکیٹنگ ملازمت کے لیے تھائی لینڈ کے دارالحکومت بناک میں لینڈ کیے تو ائیرپورٹ سے ان کو اغوا کر لیا گیا۔ اسی طرح کے جرائم ہمیں چین میں بھی نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں، جہاں سائبر فراڈ میں 53 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی آرگنازیشنز اور سیکیورٹی گروپس کا کہنا ہے کہ انسانی سمگلنگ کے واقعات پہلے ہی برق رفتاری سے بڑھ رہے تھے اور ٹرمپ حکومت کی جانب سے فنڈز روکے جانے پر یہ مسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ 2020 اور 2021 کے دوران یو ایس اسٹیٹ ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ نے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے 164 ملین ڈالر کے فنڈز جاری کیے تھے جبکہ فنڈز رُکنے پر انسانی سمگلنگ کے خلاف کام تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔ یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق دنیا کے 78 ممالک میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ادارے کام کر رہے ہیں جن کے اخراجات 272 ملین ڈالر بتائے جا رہے ہیں۔ ہانگ کانگ میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے ادارے “دی میکونگ کلب” کے سی ای او میٹ فرائیڈ مین نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ امریکہ واحد ملک ہے جوکہ انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے یہ مسئلہ جنوبی ایشیائی ممالک تک محدود تھا لیکن اب یہ عالمی  مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر تصدیق کی کہ ٹرمپ حکومت کی جانب سے یو ایس ایڈ کے 83 فیصد امدادی پروگرامز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ جبکہ اربوں ڈالرز کے 5200 منصوبے تعطل کا شکار ہیں یا ختم ہو چکے ہیں۔

لکسمبرگ کے شہزادے ایک عجیب بیماری سے انتقال کر گئے

لکسمبرگ کے پرنس فریڈرک، لکسمبرگ کے پرنس رابرٹ اور ناساؤ کی شہزادی جولی کے سب سے چھوٹے بیٹے، پولگ مائٹوکانڈریل بیماری کے نام سے مشہور ایک نایاب جینیاتی عارضے کے ساتھ زندگی بھر جنگ لڑنے کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔ وہ 22 سال کا تھا۔ فریڈرک کا 1 مارچ کو پیرس میں انتقال ہوگیا، اس کے خاندان نے پولگ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں اعلان کیا، جس کی بنیاد فریڈرک نے 2022 میں رکھی تھی۔ اس کے والد نے بیان میں کہا کہ “ایک دروازہ بند ہو گیا ہے، لیکن بہت سارے باقی ہیں،” فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق، پولگ ایک “جینیاتی مائٹوکونڈریل ڈس آرڈر ہے جو جسم کے خلیوں کی توانائی کو چھین لیتا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد اعضاء کی خرابی اور ناکامی ہوتی ہے”۔خاندان نے بتایا کہ فریڈرک کو 14 سال کی عمر میں پی او ایل جی کی تشخیص ہوئی تھی۔ چونکہ بیماری علامات کی اتنی وسیع رینج کا سبب بنتی ہے اور بہت سے مختلف اعضاء کے نظاموں کو متاثر کرتی ہے، اس لیے اس کی تشخیص مشکل ہو سکتی ہے۔ شہزادے کا انتقال نایاب بیماریوں کے دن کے ایک دن بعد ہوا، جو کہ نایاب بیماریوں سے متعلق آگاہی کا عالمی دن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 300 ملین لوگ ایک نایاب بیماری کے ساتھ رہتے ہیں۔ “جیسا کہ دنیا بھر میں فریڈرک جیسے 300 ملین لوگوں کا معاملہ ہے، ان بیماریوں کو عام طور پر معالجوں کے لیے بھی پہچاننا مشکل ہوتا ہے، اور مریضوں کے اہل خانہ کو کبھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ کس بیماری میں مبتلا ہیں کیونکہ ان کی شناخت ان کی ترقی میں بہت دیر سے ہو سکتی ہے،” اس کے والد، رابرٹ نے کہا۔ پولگ کا فی الحال کوئی علاج یا علاج نہیں ہے۔ رابرٹ نے کہا، “کوئی اس کا موازنہ ایک خراب بیٹری سے کر سکتا ہے جو کبھی مکمل طور پر ری چارج نہیں ہوتی، مسلسل کمی کی حالت میں رہتی ہے اور آخر کار طاقت کھو دیتی ہے،” رابرٹ نے کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “فریڈرک اور پی او ایل جی فاؤنڈیشن دوسرے مریضوں کو اس تکلیف سے بچانے کے لیے علاج اور علاج تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں جو فریڈرک اور ہمارے خاندان نے برداشت کیے ہیں۔” فریڈرک کے والد، رابرٹ، لکسمبرگ کے موجودہ سربراہ مملکت، گرینڈ ڈیوک ہنری کے پہلے کزن ہیں، اور جانشینی کی صف میں 15ویں نمبر پر ہیں۔

یوکرین کا روس پر اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ: کتنا نقصان ہوا؟

یوکرین نے منگل کی صبح ماسکو پر ایک بڑا ڈرون حملہ کیا، جو اب تک کا سب سے بڑا حملہ معلوم ہوتا ہے۔ اس حملے میں کم از کم دو شخص ہلاک ہوئے اور آگ کی وجہ سے علاقے میں ہوائی اور ریل کے سفر کو معطل کر دیا گیا۔ ماسکو ریجن کے گورنر آندرے ووروبیوف نے بتایا کہ صبح 4 بجے کے قریب ماسکو اور اس کے نواحی علاقے پر شدید ڈرون حملہ ہوا۔ اب تک ایک شخص کے ہلاک اور تین کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانین کے مطابق، کم از کم 69 ڈرون تباہ کیے گئے جو کئی لہروں میں شہر کے قریب پہنچے۔ ماسکو اور اس کا گرد و نواح، جو تقریباً 21 ملین آبادی پر مشتمل ہے، یورپ کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ روسی ایوی ایشن واچ ڈاگ کے مطابق، حملوں کے بعد فضائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ماسکو کے چاروں بڑے ہوائی اڈوں پر پروازیں معطل کر دی گئیں، جبکہ یاروسلاول اور نزنی نووگوروڈ کے دو دیگر ہوائی اڈے بھی بند کر دیے گئے۔ ماسکو کے علاقے کے ضلع رامینسکوئے میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کے کم از کم سات اپارٹمنٹس کو نقصان پہنچا، اور رہائشیوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ماسکو سے تقریباً 35 کلومیٹر جنوب میں واقع ڈوموڈیڈوو کے ٹرین اسٹیشن پر بھی ڈرون ملبے کے گرنے سے ریل کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔ روسی میڈیا ذرائع کے مطابق، ماسکو کے مختلف علاقوں میں رہائشی مقامات پر آگ بھڑک اٹھی، جو ان حملوں کی وجہ سے پھیل گئی۔ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب امریکہ تین سال سے جاری جنگ کے خاتمے پر زور دے رہا ہے۔ منگل کے روز امریکہ اور یوکرین کے نمائندے سعودی عرب میں امن مذاکرات کے لیے ملاقات کرنے والے ہیں۔ ریازان اور بیلگوروڈ کے گورنرز نے بھی اطلاع دی کہ ان کے علاقے ڈرون حملوں کی زد میں آئے، جس کی وجہ سے بیلگوروڈ کے کئی دیہاتوں میں بجلی منقطع ہو گئی۔ اس سے قبل، نومبر میں ماسکو پر ہونے والے سب سے بڑے ڈرون حملے میں کم از کم 34 ڈرونز مار گرائے گئے تھے، جس میں ایک شہری ہلاک اور درجنوں مکانات تباہ ہو گئے تھے۔ یوکرین کا مؤقف ہے کہ اس کے حملے روس کی جنگی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور یہ روسی بمباری کے جواب میں ہیں۔ دونوں ممالک شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتے ہیں، تاہم، اس تنازع میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت یوکرینی شہریوں کی ہے۔

فلپائن کے سابق صدر کو انسانیت کے خلاف جرائم پر حراست میں لے لیا گیا

فلپائن کے سابق صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کو منگل کے روز اس وقت حراست میں لے لیا گیا جب فلپائن کی حکومت کو بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ موصول ہوئے۔ حکومت نے بتایا کہ ڈوٹیرٹے پر انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کا الزام ہے۔ ڈوٹیرٹے کے دورِ صدارت میں فلپائن میں منشیات کے خلاف ایک سخت مہم چلائی گئی، جس کے دوران پولیس کے مطابق 6,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم، آزاد مانیٹرنگ گروپس کا ماننا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ فلپائن کے صدارتی مواصلات کے دفتر کے مطابق، انٹرپول منیلا کو منگل کی صبح آئی سی سی سے سرکاری طور پر گرفتاری کے وارنٹ موصول ہوئے۔ جیسے ہی ڈوٹیرٹے ہانگ کانگ سے منیلا پہنچے، پراسیکیوٹر جنرل نے ان کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے وارنٹ کا نوٹیفکیشن دائر کیا، جس کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ اتوار کے روز ہانگ کانگ میں ایک انتخابی ریلی کے دوران، ڈوٹیرٹے نے آئی سی سی کی تحقیقات پر سخت تنقید کی۔ اس موقع پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ آئی سی سی ان کی منشیات کے خلاف مہم میں کردار کے باعث ان کے خلاف وارنٹ جاری کر سکتی ہے۔  

غزہ کا “نور سیلون” ظلمت کے دور میں جرات کی مثال

غزہ میں جہاں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں، تباہ حال لوگ بے بسی کی تصویر ہیں، ملبے کے ڈھیر ظلمت کی داستان بیان کرتے ہوئے ماتم کدہ ہیں۔ ایسے ماحول میں صنف نازک کا “سلون ٹینٹ” ایک طرف ظلمت کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہے تو دوسری طرف خزاں کے ماحول میں بہار کی دستک کا کام بھی کر رہا ہے جہاں خواتین زمانہ ظلمت کو منہ چڑھاتے ہوئے اپنے حسن کو سنوارنے میں مصروف ہیں۔ جی ہاں! بات ہو رہی ہے غزہ کے “نور سلون” کی جس کو “نور الغمری” چلا رہی ہیں جنھوں نے کالج لائف میں ہی بیوٹی کورس میں دلچسپی لی اور آج وہ موجودہ حالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے شوق کو پورا کر رہی ہیں۔ نور نے تین ہفتے قبل ملبے کے ڈھیر کے قریب ایک خوبصورت سا خیمہ لگاتے ہوئے اس پر “نور سلون” کا بورڈ آویزاں کیا، جس کے اندر ایک ٹوٹی ہوئی میز اور میک اپ کا کچھ سامان پڑا ہوا ہے۔ نور نے بتایا کہ میرے پاس جو بھی خواتین آتی ہیں وہ اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم مجھ سے بانٹتی ہیں لیکن میں انہیں جینے کی ہمت دیتے ہوئے ان کے چہروں سے ظلمت کے خوف کو مٹانے کی کوشش کرتی ہوں۔ نور کا کہنا ہے کہ زندگی کبھی نہیں رکتی، وقت چلتا رہتا ہے، انسان کبھی جُھرمٹ میں ہوتا ہے تو کبھی بے سرو سامان، لیکن ہمت اور حوصلے سے زندگی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے۔ میں ایسی ہی کوشش سے خواتین کو نئی زندگی جینے کا حوصلہ دے رہی ہوں۔ معاشرے کے ظلم و ستم کو ایک طرف رکھتے ہوئے خود کو آئینے میں دیکھنے کا احساس کچھ لمحوں کے لیے ہمیں دُکھ اور غم سے کوسوں دور لے جاتا ہے۔ اپنے چہرے اور بالوں کو سنوارتے ہوئے ہمیں کچھ وقت خود سے ملاقات کا مل جاتا ہے۔ نور نے بتایا کہ ان کا سیلون کیمپ اس تباہی کے عالم میں ان کی کمائی کا بھی واحد ذریعہ ہے، لیکن وہ تمام کسٹمرز سے پیسے نہیں لیتی ہیں، روزانہ 8 سے 10 خواتین کا میک اپ بالکل مفت کرتی ہیں۔

ہم پرانی نوکری پر بحال ہو گئے

ڈاکٹر عافیہ صدیقی (یہ ایک پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ہیں، جو اس وقت افغانستان میں امریکی فوجی اہلکاروں کے قتل کی سازش کے الزام میں امریکا میں پابند سلاسل ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ دوران تفتیش انہوں نے ایک فوجی افسر کی رائفل چھین ان پر فائرنگ کی تھی، امریکی عدالت نے ان کو 86 سال کی سزا سنائی ہے، جس میں سے صرف 16 سال گزر چکے ہیں) کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی گئی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ حکومت پاکستان سے عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے موثر اور عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرے۔ اس کیس میں ایک مثبت پیش رفت تب سامنے آئی جب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس وقت کے امریکی صدر، جو بائیڈن کو خط لکھا اور درخواست کی کہ عافیہ صدیقی کی سزا معاف اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر رہا کیا جائے۔ اس خط میں وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ عافیہ صدیقی کو علاج کی بہتر سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی، لہذا ان کو رہا کیا جائے۔ بعد ازاں، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایات کے مطابق، حکومت پاکستان کے ایک اعلی سطح وفد نے امریکا کا دورہ کیا جہاں انہوں نے قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں اور عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے سے متعلق تمام قانونی پہلووں پر تفصیلی بات چیت کی۔ وفد نے وائٹ ہاوس میں عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے رحم کی اپیل بھی جمع کرا دی۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل، کلائیو اسمتھ نے عدالت میں ایک اعلامیہ جمع کرایا جس میں تجویز دی گئی کہ حکومت پاکستان عافیہ صدیقی کے بدلے پاکستان میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی (یہ ایک پاکستانی ڈاکٹر ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کے بارے میں سی آئی آے کو معلومات فراہم کی تھیں۔ یہ ایک کالعدم عسکری تنظیم کی حمایت کے الزام میں پاکستان میں قید ہیں) کو امریکا کے حوالے کر دے۔ اس تجویز کو قابل غور مانتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی حوالگی پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا۔ اگلی سماعت پر وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی حوالگی کی تجویز قابل عمل نہیں ہے۔ حکومت نے یہ بھی دعوی کیا کہ پاکستان اور امریکا کے مابین قیدیوں کے تبادلہ سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اس کیس میں ایک مایوس کن مرحلہ تب آیا جب وزارت خارجہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ وزیراعظم شہباز شریف کے صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ تاہم، اس کیس کی مزید سماعتیں جاری رہیں لیکن حالیہ دنوں میں عوام کی جانب سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ ایک بار پھر اٹھایا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے بلوچستان سے گرفتار کئے گئے افغان دہشتگرد، شریف اللہ عرف جعفر (یہ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ شام و عراق کی ذیلی خراسان شاخ کا کمانڈر تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2021 میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے وقت کابل کے حامد کرزئی ایئرپورٹ پر 13 امریکی فوجیوں کو قتل کیا تھا۔ یہ ایک خود کش حملے میں ملوث تھے جس میں 13 امریکی فوجیوں کے علاوہ 170 افغان شہری بھی ہلاک ہوئے تھے) کو امریکا کے حوالے کیا۔ تب سے سوشل میڈیا صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور حکومت پاکستان سے یہ گلہ کر رہے ہیں کہ اگر امریکا عافیہ صدیقی کو رہا نہیں کر رہا تو آپ نے شریف اللہ کو ان کے حوالے کیوں کیا؟ اس پر حکومت پاکستان کا موقف سامنے آیا جس میں بتایا گیا کہ دہشتگرد شریف اللہ کو اقوام متحدہ کی قرارداوں کے تحت گرفتار اور امریکا کے حوالے کیا گیا۔ حکومت کا یہ اقدام اس لئے بھی تنقید کی زد میں ہے کیونکہ جب عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل نے عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے کی تجویذ دی تو حکومت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قابل عمل نہیں اور نہ ہی پاکستان کا امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود ہے۔ اس غبارے سے ہوا تب نکلی جب اسلام ہائیکورٹ میں عافیہ صدیق کیس میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل، منور اقبال دوگل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دئے کہ آپ کہتے ہیں، امریکا سے قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، لیکن کل آپ نے ایک بندے (شریف اللہ) کو پکڑ کر بغیر کسی معاہدے کے امریکا کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ہم نے شکیل آفریدی حوالگی سے متعلق وفاقی حکومت سے جواب مانگا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا۔ دوران سماعت وفاقی حکومت نے عدالت میں عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق درخواست فوری نمٹانے کیلئے متفرق درخواست دائر کر دی۔ اس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ حکومت اب کیس فوری نمٹانے کی درخواست کر رہی ہے، سادہ الفاظ میں کیوں نہیں کہتے کہ آپ کیس سے چٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو خط لکھنا تھا، لکھ دیا، ان کو ویزہ چاہیئے تھا دے دیا، آپ نے جو کرنا تھا، کر لیا۔ ایسا کرنے سے پوری دنیا کو معلوم پڑ جائے گا کہ پاکستان نے کیا کیا، آپ نے کون سے تیر مارے! دوسری جانب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان دہشتگرد کی گرفتاری اور حوالگی پر حکومت پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔ جواب میں پاکستان نے بھی شکریہ ادا کیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ عوام خوش ہو جاتے لیکن وہ اس پر تنقید کر رہے ہیں اور ان کی تنقید شاید بجا ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ پاکستان نے یہ سب آئی ایم ایف کی ڈیل بچانے اور

88 سالہ پوپ فرانسس کی صحت میں بتدریج بہتری، حالت خطرے سے باہر

88 سالہ پوپ فرانسس کی صحت میں بتدریج بہتری ہو رہی ہے، ڈاکٹروں نے ان کی حالت کو خطرے سے باہر قرار دے دیا ہے، ویٹی کن کے مطابق پوپ فرانسس مرض سے بحالی کی طرف گامزن ہیں۔ پوپ فرانسس گزشتہ تین ہفتوں سے روم کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں، ان کو 14 فروری کو ڈبل نمونیہ کی شکایت پر ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق پوپ فرانسس کے خون ٹیسٹ اور دیگر جانچ رپورٹس کے بعد نمایاں ہوا ہے کہ ان کی حالت میں بہتری آ رہی ہے اور ادویات اپنا اثر دکھا رہی ہیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ پوپ فرانسس کو پرسکون نیند دینے کے لیے آکسیجن دی جا رہی ہے، جس سے سانس لینے میں آسانی محسوس ہو رہی ہے، اس سے قبل کمر میں درد کی وجہ سے ان کو وہیل چیئر پر رکھا گیا تھا۔ دوسری جانب مسیحی پیشوا جو شدید بیمار اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں ان سے متعلق صدیوں قبل کی گئی پیشگوئی پھر منظرِ عام پر آ گئی ہے۔ ویٹی کن کی جانب سے پوپ فرانسس کی تشویشناک حالت کی تصدیق اور ان کے جانشین کے انتخاب سے متعلق سوچ بچار سے متعلق خبروں کے بعد معمر پوپ سے متعلق تقریباً 500 سال قبل کی گئی پیشگوئی پھر موضوع بحث بن گئی ہے۔ مستقبل کے حوالے سے درست پیشگوئی کرنے کے لیے مشہور فرانس سے تعلق رکھنے والے مچل نوسٹراڈیمس نے سولہویں صدی میں مسیحوں کے پادری سے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ پوپ پر ہوبہو صادق ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ تباہی کے نجومی کی عرفیت سے مشہور مچل نوسٹرا ڈیمس نے جن کا دور 1503 سے 1566 کے درمیان ہے نے کئی ایسی پیشگوئیاں کیں جو مستقبل میں بالکل درست ثابت ہوئیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ایسی ہی ایک پیشگوئی تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مستقبل میں ایک معمر پوپ کی موت کے بعد ایک صحت مند اور بڑی عمر کا رومن منتخب ہوگا۔ جس کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس نے اپنی بصارت کمزور کر دی ہے، تاہم وہ بھی طویل عرصے تک اقتدار میں رہے گا۔ واضح رہے کہ مچل نوسٹرا ڈیمس نے لندن کی ہولناک آتش زدگی، ایڈولف ہٹلر کا عروج، 9/11 حملے، کووڈ 19 کی وبا اور گزشتہ برس جاپان میں آنے والے زلزلے سے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں، جو بالکل درست ثابت ہوئیں۔