انڈیا کی چینی برآمدات میں کمی: عالمی قیمتوں پر اثرات بڑھنے کا امکان

انڈین چینی کی عالمی مارکیٹ میں برآمدات کا رجحان سست پڑ رہا ہے کیونکہ مقامی سطح پر چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں پر اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔ عالمی خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کو پانچ صنعت کاروں نے بتایا کہ “انڈین ملز نے 2024-25 کی مارکیٹنگ سال کے دوران 600,000 میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کے معاہدے کیے ہیں لیکن مقامی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہ مزید معاہدے کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔” انڈیا، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک ہے، اس نے گزشتہ سال برآمدات روک دی تھیں تاکہ مقامی قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔ تاہم، جنوری میں حکومت نے ایک ملین ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی تھی تاکہ ملز اپنے سرپلس ذخیرے کو برآمد کر سکیں۔ انڈین چینی کی برآمدات میں اس سست روی کا مطلب ہے کہ عالمی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جو اس وقت تین سال کی سب سے کم سطح پر ہیں۔ ماہرین کے مطابق انڈیا میں 2024-25 کے دوران چینی کی پیداوار 25.8 ملین ٹن رہنے کی توقع ہے جو سالانہ کھپت کے 29 ملین ٹن سے کم ہے۔ گرمیوں کے موسم میں مشروبات اور آئس کریم کی بڑھتی ہوئی کھپت کے سبب چینی کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے جس سے مقامی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین کے گندم بردار جہاز پر میزائل حملہ، چار افراد ہلاک دوسری جانب ممبئی کے ایک تاجر نے بتایا کہ گزشتہ ماہ چینی کی برآمدات میں کچھ تیزی آئی تھی لیکن اس مہینے میں اس رفتار میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ انڈین قیمتیں لندن کی فیوچرز مارکیٹ سے تقریبا 20 ڈالر فی ٹن زیادہ ہیں جس کے باعث خریدار بہتر معیار کی برازیلین چینی خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں جو اسی قیمت پر دستیاب ہے۔ انڈیا کی چینی کی برآمدات میں کمی کا اثر عالمی منڈی پر پڑے گا خاص طور پر افغانستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، سری لنکا اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں جہاں انڈیا چینی برآمد کرتا ہے۔ انڈیا پانچ سال تک دنیا کا دوسرا سب سے بڑا چینی برآمد کنندہ رہا ہے اور اس کی سالانہ اوسط برآمدات 6.8 ملین ٹن رہی ہیں۔ تاہم، پرکاش نائکنورے، نیشنل فیڈریشن آف کوآپریٹو شوگر فیکٹریز کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ ملز کو برآمدات کی پوری مقدار کو مکمل کرنے کے لیے ابھی بہت وقت ہے۔ یہ پیش رفت انڈین چینی کی عالمی مارکیٹ میں اہم تبدیلیوں کا عندیہ دے رہی ہے۔ عالمی قیمتوں پر اثر پڑنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ انڈیا کی برآمدات کا یہ سست روی عالمی چینی کی مارکیٹ کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا کا اسٹیل اور ایلومینیم کی تمام درآمدات پر آج سے ٹیرف نافذ
روس کا یوکرین کے گندم بردار جہاز پر میزائل حملہ، چار افراد ہلاک

روس نے ‘اوڈیسہ’ کے ‘بحیرہ اسود’ میں ایک گندم بردار جہاز پر میزائل حملہ کیا جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ یوکرینی حکام کے مطابق منگل کو ہونے والا یہ حملہ بالاسٹک میزائل سے کیا گیا جو MJ ‘پینار’ نامی جہاز پر گرا تھا۔ یہ جہاز الجزائر کے لیے گندم لے جا رہا تھا۔ حملے میں چار شامی شہری ہلاک ہوئے جبکہ ایک شامی اور ایک یوکرینی زخمی ہوا۔ یوکرین کے نائب وزیر اعظم ‘اولیکسی کلیبا’ نے اپنے ٹیلی گرام پیغام میں کہا ہے کہ “روس یوکرین کے انفراسٹرکچر پر حملے کر رہا ہے جن میں وہ پورٹس بھی شامل ہیں جو عالمی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔” گلوبل گندم کا سودا کرنے والی کمپنی لوئس ڈریفس کمپنی (LDC) نے ایک بیان میں بتایا کہ جہاز اوڈیسہ پورٹ کے بروکلن-کیف ٹرمینل سے گندم لوڈ کر رہا تھا جہاں انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا۔ کمپنی کے مطابق ٹرمینل کے ملازمین محفوظ ہیں تاہم جہاز کے عملے میں شامل افراد میں سے چار ہلاک ہو گئے۔ کلیبا نے مزید کہا کہ ایک اور جہاز بھی اس حملے میں متاثر ہوا ہے تاہم اس کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ یوکرین اور روس دونوں ہی عالمی سطح پر اہم گندم برآمد کنندہ ممالک ہیں اور یوکرین نے جنگ کے باوجود بڑے پیمانے پر سمندری گندم کی برآمدات کو دوبارہ بحال کر لیا ہے حالانکہ روسی حملے اب بھی جاری ہیں۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب یوکرین اور امریکا کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات جاری ہیں اور اس کا عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی پر اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا کا اسٹیل اور ایلومینیم کی تمام درآمدات پر آج سے ٹیرف نافذ
بلوچ عوام کے حقیقی مسائل کو حل کیے بغیر امن قائم نہیں ہو گا، حافظ نعیم الرحمن

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا، بات کے دوران دونوں رہنماؤں نے بلوچستان کے مجموعی حالات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بلوچ عوام کے حقیقی مسائل کو حل کیے بغیر امن قائم نہیں ہو گا۔ امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بولان ٹرین واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “بلوچستان ٹرین واقعہ پر پوری قوم تشویش میں ہے۔ یرغمالیوں کی باحفاظت واپسی ہونی چاہیے،جماعت اسلامی نے باربار بلوچستان میں حالات کی سنگینی کی نشاندہی کی، حکومت سے بڑے لمبے عرصے سے بلوچستان پر توجہ دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن حکمران طبقہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بڑھکیں مارتا رہا”۔ ان کا کہنا تھا کہ ” جعفر ایکسپریس دہشت گردی کا واقعہ افسوس ناک ہے، بلوچ عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنا ہوگا، صوبے کے عوام کی محرومیاں دور کرنا ہوں گی، بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانا ہوگا۔ بلوچستان پر قومی لائحہ عمل بنانے سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے”۔ حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے، تمام اسٹیک ہولڈرز، سیاسی پارٹیوں کی مشاورت سے بلوچستان پر پالیسی تشکیل دی جائے۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع بولان میں نامعلوم مسلح افراد نے گزشتہ روزکوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا یا، سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں اب تک 190 سے زائد یرغمالی بحفاظت بازیاب کروا لیے گئے ہیں، جب کہ آپریشن کے دوران 30 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق حملہ بولان کے علاقے پیرو کنری اور گڈلر کے درمیان پیش آیا، جہاں مسلح افراد نے ٹرین پر فائرنگ کر کے اسے روک لیا۔ ریلوے حکام کے مطابق حملے میں انجن ڈرائیور ہلاک ہوگیا ہے، جب کہ شدت پسندوں نے مسافروں کو یرغمال بنا کر پہاڑی علاقے کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔
جعفر ایکسپریس حملہ: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

عینی شاہد بشیر احمد، جو اپنی فیملی کے ساتھ سفر کر رہے تھے، نے بتایا کہ “جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی، لوگ جان بچانے کے لیے فرش پر لیٹ گئے اور اپنے اوپر سامان ڈال لیا تاکہ گولیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ کچھ مسافر شدید خوفزدہ تھے اور مسلسل دعائیں مانگ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرین میں بچے، خواتین اور بوڑھے افراد بھی شامل تھے، جن کے چہروں پر خوف کے آثار نمایاں تھے”۔ بازیاب ہونے والے ایک مسافر کے مطابق، “حملہ آور انتہائی منظم اور جدید اسلحے سے لیس تھے۔ وہ مسافروں کو بوگیوں سے باہر نکال کر الگ الگ کر رہے تھے۔ جو لوگ خاندان کے ساتھ تھے، انہیں چھوڑ دیا گیا، لیکن جو اکیلے تھے، انہیں یرغمال بنا لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، حملہ آور بلوچی زبان بول رہے تھے لیکن مسافروں سے سخت لہجے میں اردو میں بات کر رہے تھے”۔ ایک یرغمالی نے بتایا کہ “انہیں تقریباً سات کلومیٹر تک پیدل چلایا گیا۔ راستے میں کئی افراد ننگے پاؤں تھے، جنہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض خواتین اور بچوں کے پاؤں زخمی ہو گئے تھے، لیکن حملہ آوروں نے کسی کو رکنے نہیں دیا۔ اسی دوران ایک موقع پر جب ہیلی کاپٹر کی آمد ہوئی، تو حملہ آوروں نے یرغمالیوں کو مزید تیز چلنے کا حکم دیا تاکہ فورسز ان کا پتہ نہ چلا سکیں”۔ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد جب بازیاب ہونے والے مسافر اپنے عزیزوں سے ملے، تو جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ بعض خاندان اپنے پیاروں کو دیکھ کر رو پڑے، جبکہ کچھ ایسے بھی تھے، جن کے عزیز ابھی تک لاپتہ تھے۔ ایک خاتون نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے حکمران صرف بیانات دینے تک محدود ہیں، جبکہ عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کا غیر روایتی طرزِ حکومت: دنیا کس سمت میں جائے گی؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا دور امریکی تاریخ میں ایک غیر روایتی اور غیر متوقع دور کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 2016 میں صدر بننے کے بعد، ٹرمپ نے کئی ایسے فیصلے کیے جو نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں بحث و مباحثے کا سبب بنے۔ ان کے سیاسی انداز، متنازعہ بیانات اور اچانک کیے گئے فیصلوں نے عالمی سیاست میں ایک نئی ہلچل مچا دی۔ چاہے وہ امیگریشن پالیسی ہو، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر اقتصادی پابندیاں ہوں یا پھر عالمی معاہدوں سے علیحدگی ٹرمپ نے اپنے غیر متوقع اور جارحانہ طرزِ حکمرانی سے ایک نئی مثال قائم کی۔ ان کے فیصلے روایتی امریکی پالیسیوں سے یکسر مختلف نظر آئے، جس کی وجہ سے ان کے حامی اور ناقدین دونوں حیران رہے۔ یہ دور عالمی سفارت کاری، داخلی پالیسیوں اور معیشت کے لحاظ سے ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ ان کے فیصلوں نے جہاں کچھ حلقوں میں مقبولیت حاصل کی، وہیں کئی مواقع پر سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکا کے اتحادیوں اور مخالفین دونوں کے لیے کئی چیلنجز پیدا کیے اور عالمی منظرنامے کو ایک نئی شکل دی۔ اس موضوع پر پروفیسر سید ذیشان الحسن صفی نے ہمارے ساتھ بات کی۔
امریکا کا اسٹیل اور ایلومینیم کی تمام درآمدات پر آج سے ٹیرف نافذ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور ایلومینیم کی تمام درآمدات پر بڑھائے گئے محصولات بدھ سے نافذ ہوگئے، جس کے بعد یورپ سمیت کئی ممالک نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ اس فیصلے کے تحت اسٹیل اور ایلومینیم پر 25 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جو سینکڑوں مصنوعات پر اثر انداز ہوگا، جن میں نٹ، بولٹ، بلڈوزر بلیڈ اور سوڈا کین شامل ہیں۔ یورپی کمیشن نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ جولائی سے 28 بلین ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر جوابی محصولات عائد کرے گا۔ کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی۔ کینیڈا نے ممکنہ جوابی اقدامات پر غور شروع کر دیا ہے، جبکہ برطانوی وزیر تجارت جوناتھن رینالڈز نے کہا کہ قومی مفاد میں تمام آپشنز زیر غور ہیں۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی نے اس اقدام کو “بلاجواز” قرار دیا لیکن جوابی محصولات کو مسترد کر دیا۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں کینیڈا، برازیل، میکسیکو اور جنوبی کوریا شامل ہیں، جو امریکہ کو اسٹیل اور ایلومینیم فراہم کرتے ہیں۔ منگل کو ٹرمپ نے کینیڈا کو دھمکی دی تھی کہ وہ محصولات کو 50 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں، تاہم اونٹاریو کے پریمیئر ڈگ فورڈ نے امریکی ریاستوں کو بجلی کی برآمدات پر 25 فیصد سرچارج معطل کرنے کے بعد یہ منصوبہ واپس لے لیا گیا۔ فورڈ اب کینیڈا کے وزیر خزانہ ڈومینک لی بلینک کے ساتھ امریکی حکام سے مذاکرات کے لیے واشنگٹن جا رہے ہیں۔ یہ اقدام امریکی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل کا باعث بنا ہے، تاہم وائٹ ہاؤس نے اسے امریکی عوام کے لیے “جیت” قرار دیا ہے۔ امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن ایجنسی نے محصولات سے بچنے کے لیے کوٹہ دستاویزات کی بروقت تکمیل کا حکم دیا ہے، بصورت دیگر مکمل ٹیرف لاگو ہوگا۔
عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی مگر محمد ریاض جلیبیاں بیچنے پر مجبور

پاکستان کے سابق فٹبالر محمد ریاض، جو 2018 کے ایشین گیمز میں ملک کی نمائندگی کر چکے ہیں، آج مالی مشکلات کی وجہ سے جلیبیاں بیچنے پر مجبور ہیں۔ ہنگو سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ ریاض، کے-الیکٹرک فٹبال ٹیم کے کھلاڑی تھے، لیکن محکمانہ کھیلوں کی بندش کے بعد بے روزگار ہو گئے۔ ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں وہ آنسوؤں کے ساتھ اپنی مشکلات بیان کر رہے ہیں۔ ریاض نے حکومت کی جانب سے کھلاڑیوں کی مدد نہ کرنے اور محکمانہ کھیلوں کی بحالی کے وعدے پورے نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے فٹبال چھوڑ کر سڑک پر جلیبیاں بیچنی پڑ رہی ہیں۔ انہوں نے سابق حکومت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ محکمانہ کھیلوں پر پابندی نے ملک کے کھلاڑیوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ریاض کی خبر میڈیا میں آنے کے بعد حکومت نے نوٹس لیا ہے اور انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کے لیے بلایا گیا ہے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ذرائع کے مطابق بدھ کے روز ان کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات متوقع ہے، جس میں ان کے مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔ اس ملاقات کو پاکستان میں کھلاڑیوں کے حقوق اور ان کے روزگار کی بحالی کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
روس اور یوکرین کا 30 روزہ جنگ بندی کا معاہدہ: امریکی امداد بحال

امریکااور یوکرین نے منگل کو ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ واشنگٹن نے یوکرین کے ساتھ فوجی امداد اور انٹیلی جنس شیئرنگ دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب کیف نے کہا کہ وہ روس کے ساتھ 30 روزہ جنگ بندی کے لیے امریکی تجویز کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہے۔ جدہ، سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں یوکرینی اور امریکی حکام نے آٹھ گھنٹے سے زائد بات چیت کی۔ اس کے بعد، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اب یہ روس پر منحصر ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے روس جلد از جلد ’ہاں‘ کہے تاکہ اس عمل کے دوسرے مرحلے یعنی حقیقی مذاکرات تک پہنچا جا سکے۔ روس نے 2022 میں یوکرین پر مکمل حملہ کیا تھا اور اب تک ملک کے تقریباً پانچویں حصے پر قابض ہے، بشمول کریمیا، جسے ماسکو نے 2014 میں ضم کر لیا تھا۔ روبیو کا کہنا تھا کہ واشنگٹن دونوں ممالک کے ساتھ جلد از جلد مکمل معاہدہ چاہتا ہے۔ ان کے مطابق جنگ کا ہر گزرتا دن مزید جانی نقصان اور تباہی کا باعث بن رہا ہے، جس سے دونوں ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ ماسکو کا ردعمل غیر یقینی ہے۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن انہوں نے بارہا جنگ بندی کی مخالفت کی ہے۔ ان کے مطابق، روس کسی ایسے معاہدے کو قبول کرے گا جو اس کی طویل مدتی سلامتی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے اپنی سلامتی کونسل سے 20 جنوری کو کہا تھا کہ یہ کوئی عارضی جنگ بندی نہیں ہونی چاہیے، نہ ہی یوکرین کو دوبارہ منظم ہونے اور بعد میں جنگ جاری رکھنے کے لیے مہلت دی جانی چاہیے، بلکہ ایک طویل مدتی امن ہونا چاہیے۔ پیوٹن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ روس کسی بھی علاقائی رعایت کو قبول نہیں کرے گا۔ ان کا مؤقف ہے کہ یوکرین کو ان چار علاقوں سے مکمل طور پر دستبردار ہونا چاہیے جن پر روس کا کنٹرول ہے۔ ایک بااثر روسی قانون ساز نے بدھ کے روز کہا کہ کسی بھی معاہدے کو ہماری شرائط پر طے ہونا چاہیے، نہ کہ امریکی شرائط پر۔ تاہم، روس کی وزارت خارجہ نے امریکی وفد کے ساتھ رابطے جاری رکھنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، جو سعودی عرب میں موجود تھے لیکن مذاکرات میں شریک نہیں ہوئے، نے جنگ بندی کے خیال کو مثبت تجویز قرار دیا۔ ان کے مطابق، یہ تجویز صرف فضائی اور سمندری حملوں کے خاتمے تک محدود نہیں بلکہ فرنٹ لائن پر بھی لاگو ہوگی۔ یہ پیشرفت یوکرین، امریکہ، اور روس کے درمیان جاری سفارتی کشیدگی کے تناظر میں اہم ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ماسکو اس تجویز کو کس حد تک قبول کرتا ہے اور آیا یہ جنگ بندی ایک وسیع تر امن معاہدے کی راہ ہموار کر سکتی ہے یا نہیں۔
کوانٹم کمپیوٹنگ: ایک انقلابی ایجاد یا ڈیجیٹل دنیا کے لیے زہرِ قاتل

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کوئی آپ کے خفیہ ڈیٹا یا راز فاش کر سکتا ہے؟ کوانٹم کمپیوٹنگ کی دنیا میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے، جہاں آپ کی اینکرپٹڈ فائلز کو کھولا جا سکتا ہے، اور اسے کوانٹم تباہی کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوانٹم کمپیوٹنگ کیا ہے؟ اور اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟ آئیے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹر جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جو آج کے کمپیوٹرز سے کئی گنا آگے ہے۔ اس میں عام کمپیوٹرز کے برعکس بٹس کی جگہ کوانٹم بٹس یا کیو بٹس استعمال کیے جاتے ہیں۔ عام کمپیوٹرز میں معلومات زیرو اور ون کی شکل میں محفوظ ہوتی ہیں، جبکہ کوانٹم کمپیوٹرز میں کیو بٹس ایک ساتھ زیرو اور ون دونوں کی حالت میں رہ سکتے ہیں، جسے سپر پوزیشن کہا جاتا ہے۔ یہ خاصیت کوانٹم کمپیوٹرز کو ایک ہی وقت میں بے شمار کیلکولیشنز کرنے کی صلاحیت دیتی ہے، جو عام کمپیوٹرز کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ کے کئی فائدے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ انتہائی پیچیدہ مسائل کو جلد حل کر سکتی ہے، جیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے نئے حل پیش کرنا اور سائبر سیکیورٹی میں نئی اینکرپشن تکنیکوں کا استعمال۔ لیکن اگر اس کا غلط استعمال کیا جائے تو اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کوانٹم کمپیوٹرز موجودہ ڈیٹا اینکرپشن کو کمزور کر سکتے ہیں۔ اگر یہ آج کے اینکرپشن سسٹم کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو ہماری ذاتی معلومات، بینک اکاؤنٹس اور دیگر اہم ڈیٹا خطرے میں پڑ سکتا ہے، جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔ آج ہم جو بھی انٹرنیٹ پر کرتے ہیں، جیسے آن لائن شاپنگ، بینک ٹرانزیکشنز، سوشل میڈیا تبصرے— سب کچھ ایک خفیہ کوڈ میں محفوظ ہوتا ہے۔ لیکن اگر مکمل طور پر فعال کوانٹم کمپیوٹر بن گیا تو یہ کوڈ کسی بھی وقت توڑا جا سکتا ہے۔ امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور دیگر ممالک اس سپر فاسٹ کوانٹم کمپیوٹر بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ سائبر سیکیورٹی، اسٹریٹیجک اور دفاعی معاملات میں سبقت حاصل کر سکیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ ایک طاقتور ٹیکنالوجی ہے جو ہمارے مستقبل کو بدل سکتی ہے، لیکن ہمیں اس کے فوائد اور نقصانات دونوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
ڈیجیٹل پاکستان: کیا ہم عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کو تیار ہیں؟

جدید دنیا میں ٹیکنالوجی نے ہر شعبۂ زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور پاکستان بھی اس تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ڈیجیٹل معیشت ایک ایسا اقتصادی نظام ہے جو بنیادی طور پر انٹرنیٹ، جدید ٹیکنالوجی، اور الیکٹرانک وسائل پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کا رجحان حالیہ برسوں میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ ای کامرس، ڈیجیٹل بینکنگ، فری لانسنگ، اور موبائل پیمنٹ سسٹمز نے کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ نوجوان بڑی تعداد میں آن لائن پلیٹ فارمز سے وابستہ ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر اپنی مہارتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان بھی اس شعبے کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل پاکستان ویژن، نیشنل ای کامرس پالیسی، اور سٹارٹ اپ سپورٹ پروگرامز جیسے اقدامات معیشت کو جدید راستے میں لے کر جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے کاروبار، آن لائن شاپنگ اور ڈیجیٹل سروسز کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی آئی ٹی برآمدات میں سالانہ 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے 18 اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کو فعال کیا ہے، جبکہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز ٹیکس چھوٹ، فارن ایکسچینج اکاؤنٹس سہولت فراہم کرتے ہیں. اس کے علاوہ اسپیشل ٹیکالوجی زونز ڈیوٹی فری درآمدات کے ذریعے سرمایہ کاری کو راغب کرتے ہیں۔ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں براڈ بینڈ، فنٹیک اور اے آئی میں سرمایہ کاری کے ساتھ 75 بلین ڈالر تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر ڈیجیٹل تبدیلی سے مکمل فائدہ اٹھایا جائے تو 2030 تک 9.7 ٹریلین روپے تک کی معاشی قدر پیدا ہو سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کے اقدامات سے معاشی ترقی اور شمولیت کو مدد ملے گی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پاکستان کی ڈیجیٹل برآمدات میں نمایاں کردار ادا کریں گی۔ آئی ٹی سیکٹر میں سالانہ 30 فیصد اضافے کی توقع ہے، جس سے 2029 تک 3.6 بلین ڈالر تک کی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ 2018 اور 2023 کے درمیان ٹیکنالوجی کی برآمدات میں 143 فیصد اضافہ ہوا، جو 1 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ تاہم، کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ کی سہولیات ہر جگہ دستیاب نہیں، جس سے ڈیجیٹل معیشت کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے مسائل اور آن لائن دھوکہ دہی کے خدشات بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ڈیجیٹل خواندگی کی کمی کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے محروم ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہِ کاروبار سے وابستہ طالب علم بشریٰ امان ورک نے کہا کہ “ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے لیے پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج انٹرنیٹ کی محدود اور سست رفتار ہے اور انٹرنیٹ کی سست رفتار اور وقتاً فوقتاً بندش ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ نہ صرف کاروبار کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع کو بھی محدود کرتا ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “دوسرا بڑا مسئلہ ڈیٹا سیکیورٹی اور اس کا تحفظ ہے مزید یہ کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے جامع قانون کی کمی ایک اہم چیلنج ہے۔اس مسئلہ کے حل کے لیے گیریژن یونیورسٹی لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے طلباء، امریکہ کی سپورٹ سے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہریوں کے حساس ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ فاونڈر آف ڈیجیٹل پاکستان اور فارمر ڈی جی ایف آئی اے سید عمار جعفری اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان میں پچاس سے زائد سینٹر آف انفارمیشن اور ٹیکنالوجی بنا چکے ہیں جس کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے لوگ بھی اپنا ڈیٹا محفوظ کرنے کی سہولت پا سکتے ہیں”۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد آئی ٹی گریجویٹس کے پاس متعلقہ انڈسٹری کی مہارت نہیں ہے۔ ڈیجیٹل ہنر کی تربیت کے ذریعے اس کمی کو دور کرنے سے 2030 تک پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں 2.8 ٹریلین روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کا مقصد 70 فیصد براڈ بینڈ کی رسائی حاصل کرنا اور جی ڈی پی میں آئی ٹی سیکٹر کے حصہ کو بڑھانا ہے۔ ڈیجیٹل خدمات میں خلل، بشمول انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنا اور سوشل میڈیا پر پابندی، کاروبار کو متاثر کر رہی ہیں۔ 2023 میں، پاکستان کو انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے 65 بلین روپے (237.6 ملین ڈالر) کا نقصان ہوا۔ مصنوعی ذہانت (AI) 2030 تک پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں 10 سے 20 بلین ڈالر تک کا حصہ ڈال سکتی ہے۔ اے آئی 2030 تک پاکستان کی جی ڈی پی کا 10 فیصد تک ہو سکتا ہے۔ 2023 میں، گوگل کی مصنوعات اور حل نے پاکستانی کاروباروں کے لیے 2.6 ٹریلین روپے کی معاشی سرگرمی فراہم کرنے اور 864,600 ملازمتوں کو سپورٹ کرنے میں مدد کی۔ موبائل ایپس، آن لائن ویڈیو سروسز، کراس بارڈر ڈیجیٹل اشتہارات، کراس بارڈر ای کامرس اور دیگر ڈیجیٹل سروسز کی برآمدات سے 2030 میں 6.6 بلین ڈالر (1.8 ٹریلین روپے) کی اضافی سالانہ برآمدی قیمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کے امکانات وسیع ہیں۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں، پالیسیوں میں استحکام لائیں، اور عوام میں ڈیجیٹل تعلیم کو فروغ دیں، تو یہ شعبہ ملکی معیشت کو ایک نئی جہت دے سکتا ہے۔ مستقبل میں ڈیجیٹل معیشت کے ذریعے پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال اقتصادی نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ ای-کامرس پلیٹ فارمز جیسے دراز، ٹیلی مارٹ اور دیگر آن لائن مارکیٹ پلیسز کے ذریعے ہزاروں کاروباری افراد اپنی مصنوعات بیچ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا بھی آن لائن کاروبار کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے، جہاں انسٹاگرام اور فیس بک بزنسز کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں شعبئہ آئی ٹی سے وابستہ ڈاکٹر کامران جہانزیب کا کہنا تھا کہ “ترقی یافتہ ممالک امریکہ، یورپ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک جدید ڈیجیٹل انفراسٹرکچر رکھتے ہیں، جہاں فائیو جی نیٹ ورک، فائبر آپٹکس، اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ عام ہیں۔ یہ ممالک مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، اور بلاک چین جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو