محمود خلیل گرفتار، آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی پریشان: ٹرمپ کی ضد برقرار

امریکی ایجنٹوں نے کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی نژاد طالب علم محمود خلیل کو گرفتار کر لیا، جو نیویارک میں اپنی یونیورسٹی کی اپارٹمنٹ عمارت کی لابی میں موجود تھے۔ خلیل کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فلسطین حامی احتجاجی تحریک میں شامل بعض غیر ملکی طلبہ کو ملک بدر کرنے کے وعدے پر عمل درآمد شروع کیا۔ خلیل کی اہلیہ نور عبد اللہ ایک امریکی شہری اور آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر نے گرفتاری سے دو دن پہلے ہی ان سے پوچھا تھا کہ اگر امیگریشن ایجنٹ دروازے پر آئیں تو کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سوال پر حیران تھیں کیونکہ خلیل ایک قانونی مستقل رہائشی تھے، اس لیے انہیں فکر مند نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نیویارک میں خلیل کے وکلاء نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کی گرفتاری دراصل اسرائیل کے خلاف ان کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے، جو ان کے آزادیٔ اظہار کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے فی الحال ان کی ملک بدری کو روکتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے کہ آیا یہ گرفتاری قانونی تھی یا نہیں۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ خلیل فلسطینی گروپ حماس کی حمایت کر رہے تھے، تاہم اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ انتظامیہ کے مطابق خلیل پر کسی جرم کا الزام نہیں ہے، مگر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کی موجودگی امریکا کے قومی اور خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف ہے۔
تباہی کے بعد خاموشی: کیا سیلاب متاثرین کو بھلا دیا گیا؟

ترقی پذیر ممالک میں قدرتی آفات کے اثرات چند دنوں یا مہینوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کے اثرات سالوں تک اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے، جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں نے کئی دفعہ انسانی زندگی کو متاثر کیا ہے جہاں سیلاب جیسی تباہ کاریاں انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ تاریخ میں ایسے المناک واقعات کو سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔ تباہ کن سیلاب کے بعد جیسے ہی پانی اترتا ہے، حکومتی اقدامات بھی ان لہروں کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ ابتدائی امداد کے بعد متاثرین کو فراموش کر دیا جاتا ہے اور وہ بے بسی کی آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں۔ بنیادی سہولیات، رہائش اور بحالی کے وعدے اکثر ادھورے رہ جاتے ہیں، جبکہ متاثرہ خاندان برسوں تک مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان میں پہلی دفعہ سیلاب 1956 میں آیا پھر 1976،1986 اور 1992 میں آئے، مگر ان سیلاب کے پانی کا اخراج نو لاکھ کیوسک سے زیادہ نہیں بڑھا تھا۔ اس کے بعد 2010 میں سیلاب آیا جسے سب سے زیادہ تباہ کن قرار دیا گیا کیونکہ اس سیلاب میں 10 ہزارکیوسک پانی کا اخراج ریکارڈ کیا گیا تھا ، وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق 2010 کا سیلاب 17 سو جانیں لے گیا تھا۔ ملک کے کل رقبے کا 20 فیصد اور دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 11 لاکھ گھر مکمل تباہ ہو گئے۔ 50 لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہوئے تھے۔ 2010 کے سیلاب سے پاکستان کو 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا،جبکہ 2022 کا سیلاب 2010 کی نسبت زیادہ تباکن ثابت ہوا کیوں کہ اس سیلاب میں رقبہ زیادہ متاثر ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2022 کے سیلاب نے پورے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا تھا جس میں 1739 افراد ہلاک ہوئے اور اس سے پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا،جبکہ سات لاکھ گھر تباہ ہو ئے، سات لاکھ 94 ہزار جانور سیلاب میں بہہ گئے اور 20 لاکھ ہیکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو ئی۔ 2024 میں بھی پاکستان کے کچھ علاقوں، خاص طور پر دریائے سندھ کے نواحی علاقوں میں زیادہ بارشیں آنے کی وجہ سے سیلاب آنے سے 156 افراد جاں بحق ہوئے۔ 2024 میں اقوام متحدہ نے رپورٹ پبلش کی کہ پاکستان میں سال 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد اب تک کیے گئے امدادی اقدامات سے متاثرین کی بڑی تعداد نے استفادہ کیا ہے۔ تاہم 16 لاکھ افراد کو اب بھی مدد درکار ہے اور 13 لاکھ لوگ تاحال بے گھر ہیں۔ صحافی عمران مہر جو اس وقت سندس فاؤنڈیشن میں بطور مینیجر مارکیٹنگ، پی آر اینڈ میڈیا کام کر رہے ہیں انہوں نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے جیسے ادارے توموجود ہیں لیکن یہ ادارے متحرک انداز میں کام نہیں کرتے اور ان کے فیصلے اکثر تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسی ناکامی کی وجہ سے ابھی تک متاثرین بے گھر اور بنیادی ضروریات سے بے لوث بیٹھے ہیں پاکستان میں این جی او اور دیگر ادارے امداد کرنے کے لیے سر گرم تو ہوتے ہیں لیکن یہ ادررے مستقل کام نہیں کرتے ، اس حوالے سے عمران مہر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومتی ادروں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ادارے اور این جی اوز ہمیشہ قدرتی آفات کے دوران متحرک رہی ہیں۔ خاص طور پر 2010 اور 2022 کے سیلابوں میں این جی اوز نے بھرپور کردار ادا کیا اور حکومت کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز میں امدادی کام انجام دیے، مگر یہ ادرارے مستقل کام نہیں کرتے، امدادی سرگرمیوں کو مربوط اور دیرپا بنانے کی کوئی منظم پالیسی موجود نہیں ہے۔ قدرتی آفات کے ابتدائی دنوں میں عوام نے دل کھول کر عطیات دیتی ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ان کی توجہ بھی دیگر مسائل کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ بے حسی نہیں بلکہ نظام کی خرابی ہے، کیونکہ زیادہ تر عطیات کا درست استعمال یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اس حوالے سے عمران مہر نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں، قدرتی آفات کے دوران عوامی عطیات ہمیشہ ایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی سیلاب کے دوران عوام نے دل کھول کر امداد دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان امداد سے وقتی طور پر زخموں پر مرہم تو لگائی جا سکتی ہے لیکن مستقل طور پر یہ ناکافی ہوتے ہیں اور جن اداروں کو عطیات جمع کرائے جاتے ہیں بعض اوقات وہ ان کا استعمال صحیح طرح نہیں کرتے۔ سیلاب آنے کے بعد پانی تو بہہ جاتا ہے لیکن یہ آفت کئی طرح کی بیماریاں چھوڑ جاتا ہے جو کہ نہ صرف بچوں کے لیے بلکہ عورتوں کے لیے بھی نقصان کاباعث بنتی ہیں ، اس حوالے سے ماہر ماحولیات ڈاکٹر سعد حسین نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے بعد پینے کے صاف پانی کی کمی، جلدکی بیماری اور وبائی امراض عام ہو جاتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے وقتی کیمپ لگائے جاتے ہیں، مگر طویل المدتی طبی سہولیات اور ویکسینیشن کے مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ سیلاب بچوں اور عورتوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں ، ڈاکٹر سعد حسین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات سے متاثرہ بچے اور خواتین شدید ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور صدمے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جسمانی صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بحالی کے لیے بھی کوئی خاص حکمت عملی موجود نہیں، جس سے ان کا طرزِ زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ماہر ماحولیات نے سیلاب کی وجوعات بتاتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، درختوں کی کٹائی، اور ناقص نکاسی آب کے نظام کی وجہ سے سیلاب زیادہ شدید ہو گئے ہیں۔ ہمیں نہ صرف آلودگی کو کم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسی حکمت عملی بھی اپنانا ہوگی جو قدرتی آفات کے اثرات کو کم کر سکے۔