ڈبہ اسکیم : ایک فون کال اور سب کچھ ختم

 ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی دنیا میں کئی ایسی فلمیں اور سیریز تیار کی گئی ہیں،  جن میں آن لائن فراڈ اور کال سینٹر کے ذریعے سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات اسپوف کالز کے ذریعے حاصل کر کے ان کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے ہیں، کمال بات یہ ہے کہ وہاں یہ سب فلمایا جاتا تھا، جب کہ کراچی میں یہ کام حقیقت میں کیا جارہا ہے۔ کراچی میں منظم طور پر غیر قانونی کال سینٹرز کا پورا نیٹ ورک موجود ہے، شہر میں کئی رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں کال سینٹرز کے نام پر جعل ساز کسی فلیٹ کو کرائے پر لے کر وہاں اس کام کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ فراڈ قومی اور بین الاقوامی   سطح پر کیا جاتا ہے، جب کہ کراچی میں زیادہ تر یہ فراڈ بین الاقوامی صارفین کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کال سینٹر چلانے والے افراد اپنے آپ کو کسی بھی انٹرنیشنل بینک یا انشورنس کمپنی کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح صارفین سے ان کی بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات کا حصول ممکن بناتے ہیں، اس فراڈ کو ڈبہ اسکیم کہا جاتا ہے۔ پولیس کی جانب سے ابتدائی معلومات کے مطابق ہائی پروفائل مصطفیٰ قتل کیس میں گرفتار مبینہ ملزم ارمغان بھی اسی ڈبہ اسکیم میں ملوث پایا گیا ہے، جہاں سافٹ ویئر ہاؤس اور کال سینٹر کے نام پر غیر ملکی صارفین کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ڈبہ اسکیم چلانے والوں کا یہ نیٹ ورک عموماً منظم گروہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو مختلف سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ اس میں شامل افراد  میں  کال سینٹر ایجنٹس، جو لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کرتے ہیں۔ ٹیکنیکل ماہرین جو جعلی ویب سائٹس اور سافٹ ویئر تیار کرتے ہیں، منی لانڈرنگ نیٹ ورکس جو چوری شدہ رقم کو مختلف اکاؤنٹس میں تقسیم کر کے نکالتے ہیں۔ اکثر یہ نیٹ ورکس بین الاقوامی سطح پر کام کرتے ہیں اور کئی مواقع پر ایسے گروہوں کے بھارت، چین، نائیجیریا، ملائیشیا اور دیگر ممالک سے تعلقات سامنے آ چکے ہیں، کچھ دھوکہ دہی کی وارداتوں میں مقامی سہولت کاروں کا بھی کردار ہوتا ہے، جو بیرونی گروہوں کو مقامی بینک اکاؤنٹس، سم کارڈز اور شناختی دستاویزات فراہم کرتے ہیں۔ اب تک کراچی میں چلنے والے ان کال سینٹرز کی مکمل تعداد کسی کے پاس  موجود نہیں  ہے، کیونکہ اکثر یہ کام ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے رہائشی فلیٹس میں بھی کیا جارہا ہے۔ دوران تعلیم اکثر نوجوان پڑھائی کے اخراجات کو اٹھانے کے لیے ان کال سینٹر میں پارٹ ٹائم ملازمت اختیار کرتے  ہیں، جن کو سروس دینے کے لیے بطور سیلیز مین  ہائر کیا جاتا ہے، قانونی کال سینٹرز، جو واقعی اپنا کام ایمانداری  سے کر رہے ہیں، وہ ملک میں ترسیلات ذر کا بڑا ذریعہ ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی میں ایک نجی بینک کی صارف کے ساتھ کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جنہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال کی گئی اور ان کو کہا گیا کہ یہ کال آپ کو بینک سے موصول ہوئی ہے اور اکاؤنٹ میں کچھ تکنیکی تبدیلی کے باعث آپ سے معلومات درکار ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو ایک صارف نے بتایا ہے کہ انہیں بینک اکاؤنٹ نمبر اور بینک برانچ تک بالکل ٹھیک بتائی گئی  تھیں، جس کے بعد موبائل پر موصول ہونے والا کوڈ  مانگا گیا، جیسے ہی انہوں نے وہ کوڈ نمبر اس فراڈ کرنے والے شخص کو بتایا اگلے ہی لمحے تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے کی رقم ان کے اکاؤنٹ سے کسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا میسج موصول ہوا اور رقم جس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی گئی، وہ اکاؤنٹ نمبر بھی نامکمل تھا، تاکہ فراڈ کرنے والوں کا پتہ نہ لگایا جاسکے۔ واقعے کے فوری بعد صارف نے متعلقہ بینک سے رابطہ کیا، جس کے جواب میں بینک انتظامیہ نے اس واقعے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا۔ صارف نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بات وہ کافی حد تک سہم گئی ہیں اور اب وہ آن لائن بیکنگ اور کسی بھی کیش والٹ کا استعمال نہیں کر رہی، جس کی بنیادی وجہ ڈیٹا کا غیر محفوظ ہونا ہے۔ ڈبہ اسکیم کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو پاتی؟ عبید شاہ ایک صحافی ہیں جو کہ گذشتہ کئی برس سے کرائم رپورٹنگ کر رہے ہیں، انہوں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ یہ جعلساز زیادہ تر بین الاقوامی نیٹ ورکس سے جڑے ہوتے ہیں، جنہیں ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، مقامی سطح پر بھی کئی وجوہات کی بنا پر کارروائی میں تاخیر ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اکثر وہ جدید ٹولز اور مہارتیں نہیں ہوتیں، جو ایسے سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر جعلساز کسی دوسرے ملک میں بیٹھے ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کے لیے بین الاقوامی تعاون درکار ہوتا ہے، جو ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ بعض صورتوں میں مقامی بینک ملازمین، ٹیلی کام ورکرز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد خود ان گروہوں سے ملی بھگت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے کارروائی میں رکاوٹ آتی ہے۔ عبید شاہ نے مزید بتایا ہے کہ ڈبہ اسکیم کا شکار ہونے والے بعض افراد کی رقم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے نتیجے میں بازیاب بھی ہوئی، مگر یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کسی متاثرہ شخص کی شکایت فوراً درج ہو، بینک اور حکام فوری کارروائی کریں، تو ٹرانزیکشن کو ریورس کیا جا سکتا ہے یا جعلسازوں کے اکاؤنٹس کو منجمد کر کے رقم واپس حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم، زیادہ تر کیسز میں جعلساز فوری طور پر رقم دوسرے اکاؤنٹس میں منتقل کر دیتے ہیں، جس سے بازیابی مشکل ہو جاتی ہے۔ ڈبہ اسکیم، جعلسازوں سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟ سائبر سکیورٹی میں 20 سال کا تجربہ رکھنے والے سید فراز جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات ہیک ہونے کے امکانات اکثر مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنے سے بڑھ جاتے ہیں، عام طور پر لوگ آن لائن شاپنگ کے لیے اپنے ڈیبٹ کارڈ کو ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیتے ییں، جس کے نیتجے میں اس ویب سائٹ اور سوشل میڈیا

پاکستان میں کرپٹو انقلاب، وفاقی حکومت نے ’پاکستان کرپٹو کونسل‘ قائم کر دی

پاکستان میں کرپٹو کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے بڑا فیصلہ کر لیا گیا، وفاقی حکومت نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ’پاکستان کرپٹو کونسل‘ قائم کر دی، جو مؤثر پالیسی سازی، جدیدیت کے فروغ اور محفوظ مالیاتی نظام کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ ہوں گے، جب کہ بلال بن ثاقب کو کونسل کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) مقرر کیا گیا ہے۔ بلال بن ثاقب بلاک چین ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری حکمت عملی اور ڈیجیٹل جدت میں اپنی مہارت کے ذریعے اس اقدام کی قیادت کریں گے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے بورڈ ممبران میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، وفاقی سیکریٹری قانون اور وفاقی سیکریٹری خزانہ شامل ہوں گے۔ کونسل کا مقصد کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے واضح پالیسی سازی اور ضابطہ جاتی ہدایات مرتب کرنا ہے، مزید یہ کہ عالمی کرپٹو اور بلاک چین تنظیموں سے روابط قائم کر کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ضوابط تشکیل دینا بھی کونسل کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ وزارت خزانہ کے مطابق کونسل مالیاتی ٹیکنالوجی، اسٹارٹ اپس، سرمایہ کاروں اور بلاک چین ڈویلپرز کے ساتھ مل کر جدت کو فروغ دے گی اور صارفین کے تحفظ کے لیے مضبوط قانونی فریم ورک تیار کرے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام ملک میں بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے فروغ کے لیے ایک نمایاں پیش رفت ہے۔ اس اقدام سے پاکستان میں جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی جائے گی، جو مستقبل میں معیشت کو ڈیجیٹل دور سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دے گا۔

بلوچ گروپ خود کو لبرل کہتے ہیں جب کہ ان کی نانی انڈین خفیہ ایجنسی را ہے، وزیرِاعلیٰ بلوچستان

وزیرِاعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچ گروپ خود کو ’لبرل‘ کہتے ہیں جبکہ ان کی ’نانی‘ انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ ہے، یہ نارض بلوچ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔ فوج کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اسلام آباد میں جعفر ایکسپریس پر حملے اور سکیورٹی فورسز کے ریسکیو آپریشن کے بارے میں مشترکہ پریس کانفرنس کی، وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ پاک فوج نے جس طرح یر غمالیوں کی رہائی ممکن بنائی وہ قابل تعریف ہے، سکیورٹی فورسز کو کامیاب کارروائی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے بی ایل اے کو دہشتگرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو بلوچ نہ کہا جائے، بلوچیت کے نام پر جو دہشت گردی کرتے ہیں، ان کا بلوچوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لڑائی کا حقوق سے اور نہ ہی بلوچیت سے کوئی تعلق ہے، ان کو دہشت گرد کے طور پر ٹریٹ کیا جائے گا، ایسے واقعات حقوق کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ ’یہ نارض بلوچ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔‘ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ چند دہشت گردوں نے بلوچوں کی روایات کوپامال کردیا ہے، یہ دہشت گرد ہیں جو پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتےہیں، یہ خالصتاً دہشت گرد ہیں جو پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔  

صدقہ فطر کن لوگوں پر لازم ہے، یہ کب اور کیسے دیا جاتا ہے؟

ہر مسلمان پر عید فطر ادا کرنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا  تجارت کےسامان میں سے کوئی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو, تو ایسے مرد و عورت پر صدقہ الفطر ادا کرنا واجب ہے۔ یہ ہر مسلمان پر چاہے وہ آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا مرد، بالغ ہو یا نابالغ، اولاد کی طرف سے اس کے سرپرست   کو صدقۂ فطر ادا کرنا ہوگا۔  حتیٰ کہ سرپرست کو اپنے اس بچے کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرنا ہوگا جو عید الفطر کے دن صبح صادق سے چند لمحہ قبل ہی پیدا ہوا ہو۔ صدقۂ فطر عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا کر دینا چاہیے جبکہ غرباء کی آسانی کے لیے رمضان میں کسی بھی وقت صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے۔ اگر نماز عید سے پہلے صدقہ فطر نہ دیا جاسکے تو یہ صدقہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ بعد میں بھی اس کو ادا کرنا ہوگا ۔

’انڈیا بلوچستان میں دہشت گردی کا اسپانسر ہے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے کے بعد بھارت پر بلوچستان میں دہشت گردی کا مرکزی سرپرست ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کا اصل اسپانسر ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمرا ہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب ٹرین کو دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کے ذریعے تقریباً ایک بجے پہاڑی علاقے میں روکا گیا۔ اس سے پہلے عسکریت پسندوں نے فرنٹیئر کور (ایف سی) کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں تین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعہ ہندوستان کی جاری دہشت گردانہ ذہنیت کا حصہ ہے،بلوچستان اور ماضی کے واقعات میں دہشت گردی کا اصل اسپانسر ہمارا مشرقی پڑوسی ہے۔ جعفر ایکسپریس حملہ ہندوستان کی دہشت گردانہ ذہنیت کا تسلسل ہے۔ احمد شریف نے حملے کے بارے میں وسیع تر بیانیے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بھارتی میڈیا پر الزام لگایا کہ وہ بی ایل اے کی حمایت میں ایک مربوط معلوماتی جنگی مہم کی قیادت کر رہا ہے۔ جیسے ہی دہشت گردوں نے ٹرین پر حملہ کیا، ہندوستانی میڈیا نے حملہ آوروں کی حمایت میں رپورٹنگ شروع کردی، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی آؤٹ لیٹس نے اے آئی سے تیار کردہ فوٹیج کا استعمال کرتے ہوئے حملے کی تعریف کی۔ ڈائریکٹر جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، “ہندوستانی میڈیا نے اس تقریب کو خوش کرنے کے لیے اے آئی فوٹیج کا استعمال کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا سے پرانی ویڈیوز اٹھائیں اور دہشت گرد گروپ کی طرف سے تیار کردہ فوٹیج کو نشر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بی ایل اے کے عسکریت پسند متعدد گروپوں میں موجود تھے، بشمول آس پاس کی پہاڑیوں پر، انہوں نے مسافروں کو یرغمال بنایا، خواتین اور بچوں کو ٹرین کے اندر الگ کر دیا جبکہ باقی یرغمالیوں کو باہر مختلف مقامات پر لے گئے۔ جنرل احمد شریف  نے یہ بھی انکشاف کیا کہ 11 مارچ کی شام کو یرغمالیوں کے ایک گروپ کو نسلی بنیادوں پر رہا کیا گیا، جس سے کشیدگی اور تقسیم کو مزید ہوا دی گئی۔ انہوں نے اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے بچاؤ آپریشن کی وضاحت کی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سیکورٹی فورسز نے 12 مارچ کو علاقے کو گھیرے میں لے کر عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا۔ تبادلے کے دوران کچھ یرغمالی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ فوجی اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ، قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپریشن کے دوران ایک بھی یرغمالی ہلاک نہیں ہوا، جسے انہوں نے حالیہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی سب سے کامیاب کارروائیوں میں سے ایک قرار دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ریمارکس دیے کہ یہ عالمی تاریخ میں یرغمالیوں کو بچانے کا سب سے کامیاب آپریشن تھا، چیلنجوں کے باوجود، ہماری افواج نے مشن کو درستگی اور کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ انجام دیا۔ انہوں نے اس حملے کو جاری علاقائی عدم استحکام سے بھی جوڑا، خاص طور پر افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کا ذریعہ ہے کیونکہ اس نے نوٹ کیا کہ بہت سے حملہ آوروں کا تعلق افغان تربیت یافتہ عسکریت پسندوں سے تھا، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ پاکستان کی شمالی سرحد کے قریب واقع تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید دعویٰ کیا کہ خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی، خاص طور پر غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد، جس نے رات کو دیکھنے والے آلات جیسے آلات چھوڑے جو اب عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہیں۔

مصنوعی ذہانت ہی ہمارے مستقبل کی بنیاد ہے

مصنوعی ذہانت تیزی سے دنیا کے ہر شعبے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے ہمارے مستقبل کی بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بدل رہی ہے، خواہ وہ صحت کا شعبہ ہو، تعلیم ہو، کاروبار ہو یا روزمرہ کی زندگی کے معمولات۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے جدید روبوٹس اور خودکار نظام تیار کیے جا رہے ہیں جو انسانی کام کو زیادہ مؤثر اور تیز تر بنا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، میڈیکل فیلڈ میں اے آئی بیماریوں کی تشخیص میں ڈاکٹروں کی مدد کر رہی ہے، جبکہ کاروباری دنیا میں یہ ڈیٹا اینالسس کے ذریعے بہتر فیصلے لینے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اسی طرح، خودکار گاڑیاں، سمارٹ ہوم سسٹمز اور وائس اسسٹنٹس جیسے ایجادات بھی ہمارے روزمرہ کے کاموں کو آسان بنا رہی ہیں۔ مستقبل میں مصنوعی ذہانت مزید ترقی کرے گی اور انسانوں کے لیے نئی راہیں کھولے گی۔ تاہم، اس کے ساتھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جیسے ملازمتوں پر اس کا اثر اور اخلاقی مسائل، جنہیں دانشمندانہ پالیسیوں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو اے آئی انسانیت کی ترقی میں ایک انقلابی کردار ادا کرے گی اور ایک بہتر اور آسان زندگی کا ذریعہ بنے گی۔

جنوبی وزیرستان میں دھماکہ: جماعت اسلامی کے ضلعی صدر سمیت کئی افراد زخمی

جنوبی وزیرستان کے اعظم ورسک بازار میں واقع مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں جے یو آئی کے ضلعی امیر سمیت کئی افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق دھماکا مسجد کے اندر نصب دھماکا خیز مواد کی وجہ سے ہوا۔ ڈی پی او آصف بہادر نے بتایا کہ اس واقعے میں جے یو آئی کے ضلعی امیر عبداللہ ندیم سمیت چار افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب ماضی میں بھی مساجد کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل نوشہرہ میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مسجد میں ایک خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت آٹھ افراد شہید اور کئی زخمی ہوئے تھے۔

امریکی جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم کی ملک بدری پر عائد پابندی میں توسیع کر دی

امریکا کے ایک وفاقی جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کی ملک بدری پر عائد پابندی میں مزید توسیع کر دی ہے جو اس وقت امیگریشن حراست میں ہیں۔ یہ کیس اس وقت شدید تنازعے کا شکار ہے کیونکہ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں فلسطین کے حامی کالج ایکٹوسٹس کی ملک بدری کے وعدے کی عکاسی کرتا ہے۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس ڈسٹرکٹ جج جیسے فرمین نے اس ہفتے کے آغاز میں محمود خلیل کی ملک بدری کو عارضی طور پر روکا تھا اور بدھ کو مزید وقت دینے کی غرض سے اس حکم میں توسیع کی۔ اس فیصلے کے پیچھے دلیل یہ تھی کہ جج خود کو اس بات پر غور کرنے کا مزید وقت دینا چاہتے ہیں کہ آیا خلیل کی گرفتاری آئین کے خلاف ہے یا نہیں۔ اس کے جواب میں امریکی حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی فائلنگ میں کہا گیا کہ وزارت خارجہ کے سکریٹری مارکو روبیو کو یقین ہے کہ محمود خلیل کی سرگرمیاں یا امریکا میں موجودگی امریکا کی خارجہ پالیسی کے لیے سنگین مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: یونان میں لاکھوں لوگوں کے مظاہروں نے حکومت بدلنے پر مجبور کر دیا ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کا موقف ہے کہ محمود خلیل کو اس بنیاد پر ملک بدر کیا جا رہا ہے کہ ان کی موجودگی امریکی خارجہ پالیسی سے متصادم ہے جس کے باعث وہ ملکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت عالمی سطح پر زیر بحث ہے کیونکہ نیو یارک میں ٹرمپ ٹاور کے سامنے ایک بڑے احتجاج کا آغاز ہوا ہے، جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ یہ احتجاج جیوئش وائس فار پیس نامی گروپ نے منظم کیا جو ایک ترقی پسند یہودی تنظیم ہے اور فلسطینی حقوق کی حمایت کرتی ہے۔ اس گروپ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ٹرمپ ٹاور کو ‘قبضہ’ کر رہے ہیں تاکہ امریکی حکومت کے اس اقدام کے خلاف اپنی سخت مخالفت ظاہر کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نہیں چاہتے کہ فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کو اس فاشسٹ حکومت کے ذریعے نشانہ بنایا جائے جو اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سزا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔” یہ معاملہ نہ صرف محمود خلیل کے مستقبل کو متاثر کر رہا ہے بلکہ یہ امریکا میں آزادی اظہار اور فلسطینی حقوق کی حمایت کرنے والے افراد کے خلاف جاری حکومتی کارروائیوں کی ایک غمگین مثال بھی بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: چین اور روس کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کا دفاع، مذاکرات کی تجویز کو مسترد کردیا

چین اور روس کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کا دفاع، مذاکرات کی تجویز کو مسترد کردیا

چین اور روس نے ایران کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عالمی سطح پر جاری تناؤ کے درمیان، چین اور روس نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مذاکرات صرف “باہمی احترام” کی بنیاد پر ہونے چاہئیں اور اس کے لیے تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ یہ باتیں اس وقت سامنے آئیں جب چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ شو، روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف اور ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے بیجنگ میں ایک اہم ملاقات کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا۔ دونوں ممالک نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ‘مکمل طور پر پرامن’ مقصد کے لیے تسلیم کیا ہے اور اس کے ایٹمی توانائی کے استعمال کے حق کو ‘مکمل طور پر’ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں مزید دو معصوم بچوں کو شہید کر دیا 2015 میں ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے بین الاقوامی پابندیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم 2018 میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر انخلا کر لیا جس کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ شو نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ چین، روس اور ایران اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کی جڑ کو حل کرنے کے لیے تمام فریقین کو ‘دباؤ، دھمکی یا طاقت کے استعمال’ سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالمی سطح پر ایران کے خلاف تمام ‘غیر قانون’ یکطرفہ پابندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکا کی جانب سے ایران کو ایٹمی مذاکرات کی دعوت کے بعد ایران نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ لازمی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اور برازیل کی عجیب منطق: درخت کاٹ کر سڑک تعمیر دوسری جانب چند  روز قبل امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے ایٹمی مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ایران کے ساتھ دو طریقے ہیں یا تو جنگ ہو گی یا پھر ایک معاہدہ کیا جائے گا”۔ ایران نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا سے مذاکرات نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے کہا کہ “ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے جب تک کہ ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہوں۔” اس تمام صورتحال کے بعد ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چھ ارکان کے حالیہ اجلاس پر شدید تنقید کی ہے جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات کی گئی تھی۔ ضرور پڑھیں: ‘ہم جنگ بندی کی تجویز کو مانتے ہیں لیکن کچھ شرائط ہیں’ ولادیمیر پوتن ایران نے اس اجلاس کو ‘سلامتی کونسل کے وسائل کا غلط استعمال’ قرار دیا اور کہا کہ یہ اجلاس اس کے ایٹمی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایران نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو تیزی سے بڑھا رہا ہے اور اس کی سطح تقریبا 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے ضروری مقدار ہے۔ یہ عالمی تناؤ ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں ایران کی ایٹمی سرگرمیاں عالمی طاقتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں اور چین اور روس نے اس تناظر میں ایران کے ساتھ اپنی حمایت کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مزید پڑھیں: یونان میں لاکھوں لوگوں کے مظاہروں نے حکومت بدلنے پر مجبور کر دیا

‘ہم جنگ بندی کی تجویز کو مانتے ہیں لیکن کچھ شرائط ہیں’ ولادیمیر پوتن

صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ روس یوکرین میں جنگ بندی کی امریکی تجویز کو اصولی طور پر قبول کرتا ہے، لیکن اس نے کچھ شرائط اور وضاحتیں مانگی ہیں، جس کی وجہ سے لڑائی فوری طور پر ختم نہیں ہو سکتی۔ فروری 2022 میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا، تو اس جنگ نے لاکھوں افراد کی جان لے لی، بے شمار لوگوں کو زخمی اور بے گھر کر دیا، کئی شہروں کو تباہ کر دیا اور روس اور مغربی ممالک کے درمیان سخت کشیدگی پیدا کر دی۔ امریکا کی جنگ بندی کی تجویز پر پوتن کی حمایت کو واشنگٹن کے لیے ایک مثبت اشارہ سمجھا جا رہا ہے، تاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مزید بات چیت کا راستہ کھل سکے۔ تاہم، پوتن کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کو مکمل ہونے سے پہلے کئی معاملات کو واضح کرنا ضروری ہے، اور اس جنگ کی اصل وجوہات کو بھی حل کرنا ہوگا۔ روس نے یوکرین پر حملے کو “خصوصی فوجی آپریشن” کہا تھا، جس کا مقصد یوکرین کو غیر مسلح کرنا اور نیٹو کی توسیع کو روکنا تھا۔ پوتن نے کریملن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “ہم جنگ بندی کی تجویز کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھا خیال ہے، اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ جنگ بندی ایسی ہونی چاہیے جو لمبے عرصے تک امن قائم رکھ سکے اور اس بحران کی اصل وجوہات کو بھی ختم کرے۔” پوتن نے کئی مسائل کا ذکر کیا جن پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے، اور انہوں نے ٹرمپ کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں ایک امن ساز کے طور پر یاد رکھے جانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ روسی صدر سے فون پر بات کرنے کو تیار ہیں اور پوتن کے بیان کو “حوصلہ افزا” قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ روس صحیح فیصلہ کرے گا۔ ٹرمپ کے ایک خاص نمائندے سٹیو وٹ کوف اس وقت ماسکو میں روسی حکام کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں، اور یوکرین پہلے ہی اس تجویز پر رضامند ہو چکا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوگا کہ آیا روس معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ اگر روس تیار نہ ہوا تو یہ دنیا کے لیے مایوسی کی بات ہوگی۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ پوتن جنگ بندی کی تجویز کو رد کرنے والے ہیں، لیکن وہ ٹرمپ کو یہ بات کھل کر نہیں بتانا چاہتے۔ زیلنسکی نے کہا کہ اسی وجہ سے روس نے جنگ بندی کے حوالے سے شرائط رکھ دی ہیں، تاکہ جنگ بند نہ ہو، یا کم از کم کافی وقت تک نہ ہو۔