رنگوں سے بھرا محبت کے پھول بانٹنے والا دن

ہولی ہندوؤں کا ایک مشہور تہوار ہے، جو ہر سال فالسے (مارچ) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ یہ رنگوں اور خوشیوں کا تہوار کہلاتا ہے، جو محبت، بھائی چارے اور بُرائی پر نیکی کی جیت کی علامت ہے۔ ہولی کو خاص طور پر انڈیا، نیپال اور دیگر ممالک میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، جہاں ہندو برادری آباد ہے۔ یہ تہوار لوگوں کو پیار، ہم آہنگی اور خوشی کا پیغام دیتا ہے۔ ہولی نہ صرف مذہبی تہوار ہے بلکہ اسے دنیا بھر میں موسم بہار کے آغاز اور نئی شروعات کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
کیا روزہ داروں کا خرچ پاکستانی معیشت کو سہارا دیتا ہے؟

پاکستانی معیشت میں استحکام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، کبھی ڈالر نے اس کو رسوا کیا تو کبھی مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ نے اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، حکومت معیشت کو سہارا دینے اور ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کبھی آئی ایم ایف کے در پر تو کبھی در بدر اور یہ تماشا آج تک جاری ہے۔ پاکستان میں کوئی مذہبی تہوار ہو یا پھر ثقافتی، لوگ اس سے خوب محظوظ ہوتے ہیں، ایسا ہی کچھ رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے، جہاں عوام ماہ مقدس کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کے لیے روزوں کا اہتمام کرتی ہے اور سحری و افطاری پر خصوصی انتظام کیا جاتا ہے جس کے لیے گراسری سٹورز پر خریداری ریکارڈ ہوتی ہے، اس کے بعد عید کی آمد پر نئے کپڑوں، جوتوں کی خریداری بھی عروج پر رہتی ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں معاشی سرگرمی تو بھرپور رہتی ہے۔ ریڑھی بان سے مزدور، بس ڈرائیور سے رکشہ ڈرائیور، دیہاڑی دار سے بھٹہ مزدور اور ملازمت پیشہ افراد گھروں کے بجٹ کو بڑھاتے ہوئے فیملی کو خریداری کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں، ایک سے دو ماہ کی یہ خریداری، یا رقم خرچ بہت نچلی سطح پر معاشی سرگرمی کا سبب بنتا ہے، اس سے حکومتی سطح پر معیشت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ رمضان المبارک اور پھر عید کی خوشیاں صرف لوئر مڈل کلاس طبقہ تک محدود ہوتی ہیں، یا پھر بڑی چھلانک لگے تو مڈل کلاس تک اس سے اوپر کی کلاس کے لیے پورا سال ایک جیسا ہی ہوتا ہے، کیونکہ جو طبقہ ملکی سطح پر معاشی سرگرمی کا سبب بنتا ہے اس کے لیے رمضان یا عید معمول کا مہینہ ہی ہوتا ہے، اس لیے رمضان کے دوران معاشی سرگرمی نچلے طبقے تک محدود ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اختتام پذیر ہے، دُنیا بھر کے بہت سے ممالک میں اُن کے خصوصی دنوں اور تہواروں کے مواقعے پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے برعکس وطن عزیز میں ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حسن رضا نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کے دوران قیمتوں میں اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ رمضان میں قیمتوں میں اضافہ بنیادی طور پر دو عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے، ایک، طلب میں اضافہ اور دوسرا، مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی۔ اگرچہ طلب و رسد کی منطق کچھ حد تک لاگو ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں مہنگائی کا بڑا سبب منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ہے، جس پر حکومتی کنٹرول ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے رمضان بازار لگائے تو جاتے ہیں لیکن اس سے عام آدمی کی ضروریات پوری نہیں ہوتی اس حوالے سے ڈاکٹر حسن رضا کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے رمضان بازار اور سبسڈی پروگرامز متعارف کرائے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے فوائد عوام تک کم ہی پہنچتے ہیں۔ اگر پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہوں، ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ کے ذریعے قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اگر حکومتی اداروں کے علاوہ تاجر حضرات عوام کے لیے خدمات سرانجام دیں تو قیمتیں اعتدال میں رہ سکتی ہیں، ڈاکٹر حسن رضا نے کہا کہ کاروباری طبقہ اگر نیک نیتی سے قیمتوں کو اعتدال پر رکھے، منافع کی شرح کم کرے، اور مستحق افراد کے لیے رعایتی نرخ متعارف کرائے تو رمضان میں عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ کئی تاجر تنظیمیں سستا بازار قائم کرتی ہیں، لیکن اگر یہ عمل پورے ملک میں منظم ہو تو مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر تاجر حضرات رمضان کے مہینے میں عوام کا احساس کرتے ہوئے کم قیمتوں میں اشیا فروخت کریں تو پھر بھی عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اس حوالے سے ڈاکٹر حسن رضا کا کہنا تھا کہ کم منافع پر اشیاء فروخت کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے حکومت کو بھی ریلیف فراہم کرنا ہوگا، جیسے ٹیکس میں نرمی یا لاجسٹک اخراجات میں کمی۔ اگر کاروباری حضرات رمضان کو محض منافع کا ذریعہ بنانے کے بجائے خدمت کا موقع سمجھیں، تو عوام کو سستی اشیاء فراہم کی جا سکتی ہیں۔ ملک بھر میں چھوٹے بڑے تاجران آمد رمضان المبارک سے دو تین ماہ قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں جس سے مارکیٹوں اور بازاروں سے کھانے پینے اور روزمرہ کی اجناس کی قیمتوں میں گراں قدر اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے، جس کے آفٹر شاکس عیدالفطر کے کئی ہفتے بعد تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ علامہ راجہ احتشام علی چشتی نے ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ اشیاء ضروریہ کی سیل روک لینا ذخیرہ کرنا اسلام اور قران پاک کی روح کے منافی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک صحابی نے گندم کا ذخیرہ کیا اپ کو علم ہوا تو آپ نے انہیں بلایا انہوں نے کہا کہ یہ آپ نے ذخیرہ کر کے مہنگا بیچنے کے لیے روک لیا ہے اور اس کے بعد اب مہنگے دام بیچیں گے اس نے کہا کہ یہ میرے پیسے ہم اپنی مرضی سے فروخت کر سکتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا کہ جو ذخیرہ کرتے ہیں اس نظریے سے سوچ سے کہ اس کو مہنگا جب ہو جائے گا بیچیں گے تو ان کو قران پاک کی روح سے مفلسی اور جذام کی بیماری کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اللہ کریم ہمیں مخلوق خدا کی خدمت کی توفیق دے رمضان کی بات کریں تو زکوٰۃ کا ذکر لازمی ہے، موجودہ بدترین معاشی حالات میں رمضان کے سماجی پہلو کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس مہینے میں غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کا انتظام کریں، اس سلسلے میں اس رمضان میں خصوصی طور پر اپنے پاس پڑوس، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لیں۔ اُن میں جو مستحق ہو، اسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیں۔ علامہ راجہ احتشام
آذربائیجان اور آرمینیا 40 سالہ پرانا تنازع ختم کرنے کے معاہدے پر رضامند، یہ تنازع کیا تھا؟

دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔ آرمینین وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کے ساتھ امن معاہدے کا مسودہ حتمی طور پر تشکیل پا گیا ہے، آزری حکام کے ساتھ امن معاہدے پر دسخط کے لیے تیار ہیں۔ خبر ایجنسی کا کہنا ہےکہ معاہدے پردستخط سے پہلے آذربائیجان نے آرمینیا کے آئین میں متنازع علاقے سے متعلق تبدیلی کی شرط رکھی ہے۔ خیال رہےکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1980 کی دہائی سے سرحدی علاقے نگورنو کاراباخ پر قبضے کا تنازع چل رہا ہے۔ سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی دو سابق ریاستوں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 6 سالہ جنگ 1994 میں اختتام پزیر ہوئی تھی، جنگ کے نتیجے میں آرمینیا نے نگورنو کاراباخ کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا تاہم 2020 میں آذربائیجان نے دوبارہ کچھ حصہ واپس لے لیا تھا۔ پھر اکتوبر 2023 میں نگورنو کاراباخ میں ایک بار پھر آذربائیجان کی جانب سے آپریشن شروع کیا گیا جس کے باعث نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسند غیر مسلح ہونے پر مجبور ہو گئے اور انہوں نے حکومت تحلیل کرنے اور آذربائیجان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا تھا۔