کیئر اسٹارمر کے مسئلہِ یوکرین کے حل کے لیے اتحادیوں سے رابطے

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر ہفتے کے روز تقریباً 25 عالمی رہنماؤں پر زور دیں گے کہ وہ یوکرین کی حمایت کے لیے ٹھوس وعدے کریں اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر جنگ بندی کو قبول کرنے کے لیے دباؤ بڑھائیں۔ اسٹارمر کو امید ہے کہ اس ویڈیو کال میں مغربی ممالک، بشمول یورپ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ، یوکرین کے لیے اپنی حمایت کا مضبوط اظہار کریں گے۔ وہ کیف کو مذاکرات کے لیے ایک مستحکم پوزیشن دلوانے کے لیے فوجی، مالی اور لاجسٹک مدد کی پیشکش پر زور دیں گے۔ یہ میٹنگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کے بعد ہونے والی سفارتی کوششوں کا حصہ ہے، جس کا مقصد یوکرین کے لیے امداد کے نئے طریقے تلاش کرنا ہے۔ اسٹارمر نے کہا ہے کہ برطانیہ جنگ بندی کے بعد یوکرین میں امن دستے تعینات کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اس کے لیے واشنگٹن کو سکیورٹی “بیک اسٹاپ” فراہم کرنا ہوگا تاکہ پوٹن دوبارہ حملے سے باز رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر روس جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہوتا تو مغربی ممالک کو اس پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کریملن پر جنگ بندی میں تاخیر کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ روسی قیادت غیر ضروری شرائط عائد کر رہی ہے تاکہ وقت حاصل کیا جا سکے۔ دوسری جانب، پیوٹن کا کہنا ہے کہ روس اصولی طور پر جنگ بندی کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کے اپنے عزائم ترک کرنا ہوں گے، روس کے زیر قبضہ چار علاقوں کو اس کا حصہ تسلیم کرنا ہوگا اور اپنی فوج کا حجم کم کرنا ہوگا۔ کیف نے ان شرائط کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں مغربی ممالک یوکرین کی حمایت کے لیے مزید اقدامات پر غور کر رہے ہیں اور یہ کانفرنس اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔

آٹھ سالہ بچی سے زیادتی اور موت پر بنگلہ دیش میں شدید احتجاج

بنگلہ دیش میں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور اس کے بعد انتقال کے واقعے نے ملک بھر میں شدید احتجاج کو جنم دیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 5 مارچ کی رات پیش آیا جب بچی ماگورا شہر میں اپنی بڑی بہن کے گھر جا رہی تھی۔ مقدمے کے مطابق، اسی دوران اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کی بڑی بہن کے 18 سالہ شوہر کو، اس کے والدین اور بھائی سمیت گرفتار کر کے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔ جمعرات کی رات جب بچی کے انتقال کی خبر پھیلی تو مشتعل ہجوم اس مکان پر پہنچ گیا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا اور اسے آگ لگا دی۔ حکومت کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق، بچی نے مقامی وقت کے مطابق دن ایک  بجے دل کا دورہ پڑنے کے بعد دم توڑ دیا۔ ڈاکٹرز نے دو بار اس کی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی، لیکن تیسرے دورے کے بعد دل دوبارہ کام کرنے میں ناکام رہا۔ 8 مارچ کو داخل ہونے کے بعد وہ دارالحکومت ڈھاکہ کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال میں چھ دن تک تشویشناک حالت میں رہی۔ اس کی موت کے بعد، اس کی والدہ نے کہا، “میں نے سوچا تھا کہ میری بیٹی بچ جائے گی۔ اگر وہ صحت یاب ہو جاتی تو میں اسے دوبارہ کبھی اکیلے نہ جانے دیتی۔” بچی کی لاش کو فوج کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ماگورا لے جایا گیا، جہاں 18:00 بجے کے قریب شدید احتجاج جاری تھا۔ ماگورا صدر پولیس اسٹیشن کے افسر انچارج ایوب علی کے مطابق، حکام حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 19:30 پر سپرد خاک کرنے سے قبل، ہزاروں لوگ ماگورا کے عوامی چوک میں اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، جبکہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، جس کے بعد احتجاجی مارچ اور طالبات کی تقاریر ہوئیں۔ مظاہرین نے زیادتی کے متاثرین کے لیے انصاف اور خواتین و بچوں کے تحفظ سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے زیادتی کی قانونی تعریف کو مزید واضح کرنے پر بھی زور دیا، کیونکہ موجودہ قوانین کو مبہم سمجھا جاتا ہے۔ قانونی مشیر آصف نذر کے مطابق، عصمت دری اور قتل کے اس کیس کی سماعت اگلے سات دنوں میں شروع ہونے کی امید ہے۔ انہوں نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ ڈی این اے کے نمونے لیے جا چکے ہیں اور پانچ دن میں رپورٹ متوقع ہے، جبکہ 12 سے 13 افراد کے بیانات بھی قلمبند کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقدمے کی سماعت سات دن کے اندر شروع ہو جائے تو جج انصاف کو جلد یقینی بنا سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں 2020 میں نافذ کیے گئے قانون کے مطابق، نابالغوں کی عصمت دری پر سزائے موت دی جاتی ہے۔ یہ قانون اس وقت متعارف کرایا گیا تھا جب ملک میں جنسی تشدد کے کئی ہولناک واقعات پیش آئے، جن میں ایک 37 سالہ خاتون پر وحشیانہ گینگ ریپ بھی شامل تھا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ ماگورا میں کمسن بچی کی عصمت دری کے ایک ہفتے کے اندر ہی، میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں تین مزید کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ کچھ معاملات میں ملزمان متاثرہ کے پڑوسی تھے، جبکہ دیگر میں قریبی رشتہ دار ملوث پائے گئے۔ قانون اور ثالثی مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ آٹھ برسوں میں بنگلہ دیش میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3,438 مقدمات درج کیے گئے، جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان میں سے کم از کم 539 متاثرین چھ سال سے کم عمر، جبکہ 933 سات سے بارہ سال کی عمر کے درمیان تھے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں مجرم متاثرین کے قریبی جاننے والے یا رشتہ دار ہوتے ہیں۔

لیاری میں کشتی کی طرز پر مسجد: فنِ تعمیر کا خوبصورت شاہکار

کراچی کے قدیم علاقے لیاری میں واقع ‘کشتی والی مسجد’، جس کا اصل نام ‘کچھی جامعہ مسجد’ ہے، اپنی منفرد کشتی نما تعمیر کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ مسجد مرزا آدم خان روڈ پر دھوبی گھاٹ کے علاقے میں واقع ہے اور تقریباً 130 سال قدیم ہے۔ ابتدائی طور پر کچی مٹی اور گھارے سے تعمیر کی گئی یہ مسجد 2007ء میں بحری جہاز کی طرز پر دوبارہ تعمیر کی گئی، جس میں تقریباً پانچ سال کا عرصہ لگا۔ اس کی تعمیرِ نو میں کچھی میمن برادری کے افراد نے اہم کردار ادا کیا۔ تین منزلہ اس مسجد میں ایک ہزار نمازیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ مسجد مصروف سڑک کے بیچوں بیچ لنگر انداز ایک بڑی کشتی کی مانند نظر آتی ہے، لیکن قریب جانے پر اس کے دو بڑے مینار اور سبز رنگ کا گنبد واضح ہوتا ہے، جو اس کی مسجد ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے ‘کشتی والی مسجد’ کراچی کی خوبصورت مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور یہ علاقائی خوبصورتی میں نمایاں اضافہ کرتی ہے۔

‘کرکٹرز اگر حلوہ پوری اور حلیم کھائیں گے تو کیسے کھیل پائیں گے’ وزیر کھیل سندھ

سندھ کے وزیر کھیل سردار محمد بخش مہر نے کہا ہے کہ “کرکٹرز اگر حلوہ پوری، نہاری اور حلیم کھائیں گے تو کیسے کھیل پائیں گے، پڑوسی ملک چیمپئنز ٹرافی لے گیا اور قومی ٹیم نہ فائنل میں پہنچ سکی نہ فائنل ہم تک پہنچ سکا، کرکٹرز کو اپنی ڈائٹ اور نیوٹریشن پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے”۔ سردارمحمدبخش مہرنےکورنگی ٹاؤن میں شہیدمحترمہ بینظیر بھٹو رمضان کرکٹ ٹورنامنٹ کی تقریب سےخطاب کرتے ہوئے  مزید کہا کہ قومی ٹیم کی کارکردگی پر پوری قوم مایوس ہے،  ہمیں قومی کرکٹ ٹیم پر کافی محنت کرنے کی ضرورت ہے، کرکٹ میرے دائرہ اختیار میں نہیں ہے لیکن اب مجھے ہی کرکٹ کے لیے کچھ کرنا پڑے گا”۔ انہوں نے کہا کہ کورنگی میں ہونے والے ایونٹ میں کچھ ایسے بھی بالرز ہیں جن کو میں پانچ چھ چھکے مار سکتا ہوں، کچھ ایسے بھی بیٹس مین ہیں جن کو میں بھی آرام سے آؤٹ کر سکتا ہوں،فٹنس ہے تو سب کچھ ہے”۔ سردار محمد بخش مہر نے کرکٹ ٹورنامنٹ جیتنے والی ونر ٹیم کے لیے 4 لاکھ، رنر اپ کے لیے 2 لاکھ اور مین آف دی میچ والوں کے لیے 50 ہزار روپے انعام دینے کا بھی اعلان کیا، جبکہ کورنگی میں ہر سال مختلف کھیلوں کے ایونٹ بھی منعقد کرانے کے ساتھ ساتھ جم کلب بھی بنانے کا اعلان کیا۔ وزیر کھیل کا کہنا تھا کہ” حکومت سندھ کھیلوں کے فروغ کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی، کھیلوں کے میدانوں کی تعمیر اور کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ تقریب میں محکمہ اسپورٹس سندھ کی پارلیمانی سیکریٹری صائمہ آغا، پیپلز پارٹی کورنگی کے صدر جانی میمن، چیئرمین کورنگی ٹاؤن محمد نعیم شیخ اور بڑی تعداد میں کورنگی کی عوام نے شرکت کی۔

پھنسے ہوئے خلابازوں کی واپسی کب ممکن؟ ناسا کی جانب سے نئے خلاباز روانہ

ناسا اور اسپیس ایکس نے جمعہ کے روز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے ایک طویل انتظار کے بعد عملے کو روانہ کیا، جس سے امریکی خلاباز بوچ ولمور اور سنی ولیمز کی زمین پر واپسی کا دروازہ کھل گیا۔ ولمور اور ولیمز نو ماہ سے مداری لیب میں موجود تھے اور ان کی واپسی تاخیر کا شکار تھی۔ SpaceX کا Falcon 9 راکٹ فلوریڈا میں ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے شام 7:03 بجے (2303 جی ایم ٹی) روانہ ہوا، جس میں چار خلاباز موجود تھے جو ولمور اور ولیمز کی جگہ لیں گے۔ یہ دونوں خلاباز ناسا کے تجربہ کار رکن اور ریٹائرڈ امریکی بحریہ کے ٹیسٹ پائلٹ ہیں، اور وہ بوئنگ کے نئے Starliner کیپسول کو اڑانے والے پہلے افراد بھی رہے ہیں۔ جون میں ہونے والے اس مشن کے بعد سے وہ عالمی خلائی اسٹیشن پر تعینات تھے۔ جمعہ کو کیا گیا یہ مشن نہ صرف معمول کے عملے کی تبدیلی کا حصہ تھا بلکہ ولمور اور ولیمز کو واپس لانے کے ایک طویل انتظار کے پہلے مرحلے کی تکمیل بھی تھی۔ یہ ناسا کے اس منصوبے کا حصہ ہے جسے حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مزید تیز کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ناسا کے آئی ایس ایس پروگرام کی ڈپٹی منیجر ڈینا کونٹیلم کے مطابق، کریو-10 کا لانچ اس وقت ہوا جب ولمور اور ولیمز اسٹیشن پر اپنے معمول کے روزانہ شیڈول کے مطابق آرام کر رہے تھے۔ ہفتہ کو صبح 11:30 بجے (ET) کریو-10 کے خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچیں گے، جس کے بعد ولمور اور ولیمز، ناسا کے خلاباز نک ہیگ اور روسی خلا باز الیگزینڈر گوربونوف کے ہمراہ اتوار کی صبح 4 بجے (0800 GMT) زمین کی جانب روانہ ہوں گے۔ ہیگ اور گوربونوف ستمبر میں کریو ڈریگن کرافٹ کے ذریعے آئی ایس ایس پہنچے تھے، اور ان کے خلائی جہاز میں ولمور اور ولیمز کے لیے دو خالی نشستیں موجود تھیں۔ دوسری جانب، کریو-10 کے نئے خلاباز تقریباً چھ ماہ تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر قیام کریں گے۔ ان میں ناسا کے این میک کلین اور نکول آئرس، جاپانی خلا باز تاکویا اونیشی اور روسی خلا باز کریل پیسکوف شامل ہیں۔

کوئٹہ کا اندرون ملک سے رابطہ منقطع: چوتھے دن بھی ٹرینیں نہ چل سکیں

کوئٹہ سے اندرون ملک جانے والی ٹرین سروس کی معطلی آج چوتھے روز میں داخل ہو چکی ہے، اور یہ غیرمعینہ مدت تک برقرار رہے گی۔ ریلوے حکام کے مطابق، ضلع کچھی میں ریلوے ٹریک کی مرمت سکیورٹی کلیئرنس کے بعد ہی ممکن ہوگی، جس کے بغیر کسی قسم کا کام شروع نہیں کیا جا سکتا۔ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ریلویز کوئٹہ عمران حیات کے مطابق، پیروکنری کے قریب ٹریک کی مرمت کے لیے تاحال سکیورٹی کلیئرنس نہیں ملی، جبکہ ریلوے کی ٹیمیں مچھ اور مشکاف میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرمت کا کام تبھی شروع ہوگا جب سکیورٹی ادارے اس کی اجازت دیں گے، اور اس سے پہلے جعفر ایکسپریس کو ٹریک سے ہٹانے کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ یہ تعطل بولان میں تین روز قبل پیش آنے والے دہشتگرد حملے کے بعد پیدا ہوا، جب پیروکنری کے قریب جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد پاک فوج نے 36 گھنٹوں کے اندر کامیاب کلیئرنس آپریشن مکمل کر کے یرغمالیوں کو بازیاب کروایا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، فورسز کے آپریشن میں مجموعی طور پر 33 دہشتگرد مارے گئے، جبکہ 26 افراد شہید ہوئے۔ اس واقعے کے بعد سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر ریلوے ٹریک کی مرمت اور بحالی کا کام مؤخر کر دیا گیا، اور ٹرین سروس کی بحالی کا انحصار مکمل طور پر سکیورٹی کلیئرنس پر ہے۔

‘کیف کے ہتھیار ڈالنے پر گِھرے ہوئے یوکرینی فوجیوں کو چھوڑ دیں گے’ روسی صدر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے اپیل کی ہے کہ وہ کرسک کے علاقے میں گھیرے میں آئے یوکرینی فوجیوں کی جان بخشی کریں۔ پوتن نے اس درخواست پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر یوکرینی فوجی ہتھیار ڈال دیں، تو انہیں عالمی قانون کے تحت زندہ رہنے اور اچھے سلوک کی ضمانت دی جائے گی۔ ٹرمپ نے ماسکو میں اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹ کوف کی پوتن سے طویل ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ اس خوفناک، خونی جنگ کو ختم کرنے کا ایک بہت اچھا موقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین نے امریکی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور روس اس پر غور کر رہا ہے۔ کریملن نے ٹرمپ کی اپیل کو انسانی ہمدردی کے طور پر تسلیم کیا، مگر ساتھ ہی روسی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف نے خبردار کیا کہ اگر یوکرینی فوجی ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہیں، تو انہیں بے رحمی سے تباہ کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب، کیف کی فوج نے گھیراؤ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے فوجی بہتر پوزیشنوں پر واپس جا رہے ہیں اور انہیں کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں۔ کینیڈا میں جاری جی 7 اجلاس کے دوران، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ وٹ کوف امریکہ واپس آ رہے ہیں اور یوکرین پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ شاید ہم جنگ کے خاتمے کے کچھ قریب پہنچ گئے ہیں، لیکن یہ ابھی بھی ایک طویل سفر ہے۔ یہ سفارتی کوششیں کیا رنگ لائیں گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر جنگ بندی کے لیے جاری عالمی کوششوں میں یہ ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

بے شمار اختلافات مگر جی سیون کا اجلاس زبردست کامیابی ثابت ہوا

کینیڈا کے ایک برفانی ریزورٹ میں ہونے والی جی سیون وزرائے خارجہ کی تین روزہ میٹنگ کے اختتام سے محض ایک دن پہلے، ریاستہائے متحدہ کے قریبی اتحادیوں کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں ان کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے نہ آ جائیں۔ یوکرین کی علاقائی سالمیت، سلامتی کی ضمانتیں، اور روس پر ممکنہ نئی پابندیوں جیسے معاملات پر سخت بحث چھڑی ہوئی تھی۔ دوسری جانب اسرائیل اور فلسطین تنازعہ پر مشترکہ موقف اپنانا بھی ایک بڑا چیلنج تھا، جہاں دو ریاستی حل کے حوالے سے ہر ملک کی اپنی حساسیت تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف پالیسیوں اور روس کے ساتھ نرم رویے نے اتحادیوں کو پہلے ہی الجھا رکھا تھا، جس کی وجہ سے یہ جی سیون اجلاس ابتدا میں تناؤ کا شکار ہو گیا۔ تاہم، سفارت کاروں نے رات گئے تک مذاکرات جاری رکھے، ایک ایسے اتحاد کے لیے جو اکثر ان معاملات پر متفق نظر نہیں آتا۔ لیکن جمعہ کی صبح، جیسے کسی نئے پوپ کے انتخاب کے بعد سفید دھواں اٹھتا ہے، ویسے ہی مذاکرات میں اتفاق رائے کی خبر ملی۔ برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، یورپی یونین اور امریکہ کے وزراء آخر کار ایک مشترکہ اعلامیے پر متفق ہو گئے، جس نے سب کو حیران کر دیا۔ اجلاس سے پہلے، جی سیون کے سفارت کاروں کو یہ خدشہ تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، جو جدہ میں یوکرینی حکام سے اعلیٰ سطحی مذاکرات کے بعد اجلاس میں شریک ہو رہے تھے، کہیں ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کی پیروی نہ کریں۔ لیکن روبیو نے حیران کن طور پر ایسا رویہ اپنایا جو نہ صرف واضح اور مضبوط تھا بلکہ کچھ معاملات میں لچکدار بھی۔ ذرائع کے مطابق، روبیو چین اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر امریکی مؤقف پر ڈٹے رہے، مگر انہوں نے یوکرین سمیت دیگر حساس معاملات پر اتحادیوں کی رائے کو اہمیت دی۔ مذاکرات میں ان کی حکمت عملی کو سراہا گیا، حتیٰ کہ ایک سفارت کار نے انہیں “اچھا آدمی” قرار دیا۔ روبیو نے صحافیوں کو بتایا، “اہم بات یہ ہے کہ ہم ان معاملات پر اختلافات کے باوجود ان چیزوں پر مل کر کام کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے جن پر ہم متفق ہیں۔” تاہم، مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے دو ریاستی حل کا ذکر ایک ایسا نکتہ تھا جس پر روبیو کا مؤقف غیر متزلزل رہا۔ سفارتی حلقوں میں یہ مانا جا رہا ہے کہ ان کے عملی رویے نے اجلاس کو نتیجہ خیز بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اسلاموفوبیا: نظریاتی جنگ یا خوف کی سیاست؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مارچ 2022  میں اسلامی تعاون تنظیم کی ایما پر 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی پاکستان کی پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی۔ پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی نے بھی اکتوبر 2020 میں فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی عوامی تشہیر اور اسلاموفوبیا کی مذمت کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جون 2021 میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں پاکستانی نژاد مسلم فیملی اس وقت ٹرک حادثے کا شکار ہوئی جب وہ اپنے گھر کے پاس چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔ حاثے کے نتیجے میں تین خواتین سمیت چار لوگ موقع پر ہی جں بحق جبکہ ایک نو سالہ بچہ شدید زخمی ہوا۔ اونٹاریو پولیس کی جانب سے تفتیش کے بعد یہ انکشاف سامنے کہ یہ واقعہ نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے نتیجہ تھا، لیکن یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں تھا، مغربی دنیا میں نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر ایسے حملوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے  ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ جمال جعفر خان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں اسلاموفیوبیا بڑھ رہا ہے یا کم ہورہا ہے، اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں، جہاں تک اسلامو فوبیا کا تعلق ہے، یہ کچھ علاقوں میں خاص طور پر فرقہ واریت اور قوم پرستی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے ،  مگر تعلیم اور شعور میں اضافہ ہونے سے یہ مسائل کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے مشرقی علاقوں میں یہ کم نظر آتا ہے، جب کہ مغربی علاقوں میں خاص طور پر کراچی کی طرف یہ ابھی تک چل رہا ہے۔ متعدد سروے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مسلمانوں کے حوالے سے منفی رپورٹنگ اس کی بڑی وجہ ہے۔ اخبارات اور ٹی وی پر اسلام اور مسلمان مخالف رپورٹنگ عام طور پر 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد شروع ہوئی، جب مغربی معاشرے نے اسلام کو سیاسی سطح پر ایک خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کیا، بعض تحقیقات کے مطابق 1973  کی عرب اسرائیل جنگ میڈیا میں مسلمان مخالف رپورٹنگ کا نقطہ آغاز تھی۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں کیمونزم کی شکست کے بعد اسلامی نظریات خاص طور پر ’سیاسی اسلام‘ براہ راست امریکی میڈیا کے نشانے پر آ گیا۔ بعض تجزیہ کار 1996 میں سامنے آنے والی ’سیموئل ہنگٹن‘ کی کتاب ’Clash of Civilization‘ میں پیش کیے گئے تہذیبی ٹکراؤ کے تصور کو میڈیا میں اسلام مخالف رپورٹنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جمال جعفر خان نے بتایا کہ مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں عام ہیں، کیونکہ لوگ اسلام کو گہرائی سے نہیں پڑھتے، بس مولویوں کی باتوں پر چل پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فرقہ واریت، نسل پرستی اور ثقافتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ اسلام کی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے اور مختلف فرقے اپنے حساب سے اسلام کو پیش کرتے ہیں، جس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی میڈیا پر مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کرنے کے سلسلے میں شدت آ گئی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت کے طالب علم سراج حمید نے  ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ اسلام اور مغرب کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور عسکری کشمکش جیسے صلیبی جنگیں، عثمانی فتوحات اور نوآبادیاتی دور نے بعض مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے بارے میں ایک مخصوص منفی تصور پیدا کیا، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور یہی اسلاموفوبیا کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ 2016 میں کی گئی ایک تحقیق میں ’جس میں 2000 سے 2015 تک کے میڈیا آرٹیکلز کا جائزہ لیا گیا‘ یہ سامنے آیا کہ میڈیا میں مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا اور اسلام کو اکثر ایک پرتشدد مذہب کے طور پر پیش کیا گیا۔ میڈیا اور کیمونیکیشن کی پروفیسر ’الزبتھ پول‘ کے مطابق میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو مغربی اقدار اور سیکیورٹی کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا۔ ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ نے اپنی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ  ہمارے علاقے میں محفل میلاد یا شادیوں پر مولوی صاحب نے کہا کہ پیسے پھینکنا غلط ہے اور یہ گناہ ہے۔ لیکن جب وہ خود محفل میں شریک ہوئے تو لوگوں نے ان پر پیسے پھینکنے شروع کر دیے۔ جب انہوں  نے سوال کیا تو مولوی صاحب  نے کہا کہ اس سے پیسے میں برکت آتی ہے۔ پھر اسے ‘وہابی’ اور  ‘شیعہ’  جیسے الزامات سننے کو ملے۔ یہ فرقہ واریت اور غلط فہمیاں ہی اسلام میں مسائل پیدا کرتی ہیں۔ 2007 میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے امریکہ میں کروائے گئے سروے میں یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے زیادہ تر ان باتوں کے زیر اثر تھی جو انہوں نے ذرائع ابلاغ سے سنیں اور پڑھیں، تحقیق کے مطابق مسلمانوں کے خلاف منفی رپورٹنگ کی شرح امریکہ میں 80 فیصد، برطانیہ اور کینیڈا میں 79 فیصد اور آسٹریلیا میں 77 فیصد تھی۔ متعدد تحقیقات  اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ منفی رپورٹنگ عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے غیر سازگار ماحول پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کے مطابق مغربی میڈیا میں اکثر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کشی یک طرفہ اور منفی انداز میں کی جاتی ہے۔ دہشت گردی یا انتہا پسندی کی کارروائیوں کو اکثر مذہب اسلام سے جوڑا جاتا ہے، جب کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے جرائم کو ان کے مذاہب سے منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہ رجحان عام عوام میں اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ میڈیا میں مسلسل مسلمانوں کو نیگیٹو پورٹریٹ کرنے کے عمل‘ کو عوام اور حکومتی اداروں میں، مسلمان مخالف پالیسیوں کی حمایت میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، مغربی معاشرے کا اپنے مسلمان شہریوں پراعتبار کمزور ہوا اور ان کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی طاقتوں کی مسلمان ممالک میں مداخلت کے لیے رائے