ٹرمپ جنگی قانون استعمال کرنے لگے: وفاقی جج نے روک دیا

ہفتے کے روز، ایک وفاقی جج نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کو عارضی طور پر روک دیا، جس کے تحت وینزویلا کے گینگ “ٹرین ڈی اراگوا” کے مبینہ ارکان کی ملک بدری کو تیز کرنے کے لیے 1798 کے “ایلین اینیمیز ایکٹ” کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس اقدام کا مقصد ایک ایسے قانون کو بروئے کار لانا تھا جو عام طور پر جنگی حالات میں استعمال ہوتا ہے، تاکہ مبینہ مجرموں کو فوری طور پر بے دخل کیا جا سکے۔ چند گھنٹے قبل، ٹرمپ نے اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کو ایک منظم مجرمانہ تنظیم کے “حملے” کا سامنا ہے، جو اغوا، بھتہ خوری اور کنٹریکٹ کلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہے۔ تاہم، جج جیمز بواسبرگ نے اس حکم پر 14 دن کی عارضی پابندی عائد کر دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام جنگی حالات میں استعمال ہونے والے اختیارات کا غلط استعمال ہے، کیونکہ یہ قانون کسی قوم کی دشمنانہ کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا، نہ کہ غیر ریاستی عناصر کے خلاف۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کے تحت وینزویلا کے تمام 14 سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہری، جو مبینہ طور پر گینگ کے رکن ہیں، اگر وہ امریکی شہریت یا قانونی رہائشی حیثیت نہیں رکھتے، تو انہیں “گرفتار، روکا اور ملک بدر” کیا جا سکتا ہے۔ اس حکم نامے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ گروہ امریکہ کے اندر غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین کے وکیل لی گیلرنٹ، جنہوں نے اس اقدام کے خلاف دلائل دیے، نے کہا، “یہ اعلان غیر قانونی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال کی ایک اور مثال ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگی اختیارات کو امن کے وقت امیگریشن پالیسی میں استعمال کرنا “بہت خطرناک نظیر قائم کرے گا۔” دوسری طرف، اٹارنی جنرل پام بونڈی نے عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، “یہ امریکی شہریوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، کیونکہ جج نے ٹرین ڈی اراگوا کے دہشت گردوں کی حمایت کی ہے۔” بونڈی نے مزید کہا کہ حکومت کو اپنے اختیارات کا مکمل استعمال کرنا چاہیے تاکہ ملک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ “ایلین اینیمیز ایکٹ” دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی، جرمن اور اطالوی نژاد افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے اس قانون کے احیا کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس پر انسانی حقوق کے گروپوں اور ڈیموکریٹس نے شدید تنقید کی ہے۔ کئی حلقے اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس قانون کو غیر معمولی حالات میں استعمال کرنے سے مستقبل میں اس کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔ فروری میں، ٹرمپ انتظامیہ نے “ٹرین ڈی اراگوا”، “سینالوا کارٹیل” اور دیگر چھ گروہوں کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا تھا۔ ہفتے کے روز جاری کردہ ہدایت میں کہا گیا تھا کہ “ٹرین ڈی اراگوا” امریکہ میں غیر قانونی ہجرت کے ذریعے اپنے مجرمانہ مقاصد کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ حکومت ان گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے ہر ممکنہ قانونی آپشن استعمال کرے گی۔ عدالتی فیصلے کے بعد، اس معاملے پر مزید قانونی جنگ کی توقع کی جا رہی ہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اس عارضی پابندی کو چیلنج کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں عدالتی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی تشریح کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ٹرمپ کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام قومی سلامتی کے لیے ناگزیر تھا۔

ایبٹ آباد میں سکول وین کھائی میں جاگری، دو طالبات جاں بحق، 9 زخمی

ایبٹ آباد کے علاقے ترنوی قلنڈرآباد میں ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس میں دو طالبات جاں بحق ہو گئیں جبکہ نو دیگر افراد شدید زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ ہفتہ کے روز پیش آیا جب ایک نجی سکول وین گہری کھائی میں جاگری۔ مقامی پولیس اور ریسکیو 1122 کی ٹیموں نے فوراً موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا۔ تفصیلات کے مطابق پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف ٹریفک ‘طارق محمود خان’ نے میڈیا کو بتایا کہ وین حادثے کا شکار ہوئی اور فورا ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔ دونوں طالبات موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں تھیں جن کی عمر 14 سے 15 سال کے درمیان تھی۔ زخمیوں میں سات طالبات اور دو خواتین شامل ہیں جنہیں علاج کے لیے ایوب ٹیچنگ اسپتال منتقل کیا گیا۔ ایوب ٹیچنگ اسپتال کے ترجمان ‘ملک سائیف روتو’ نے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ یہ نجی سکول وین تھی جو طالبات اور اساتذہ کو اسکولوں اور کالجوں سے لانے اور چھوڑنے کا کام انجام دیتی تھی۔ انکا کہنا ہے کہ زخمیوں کا علاج جاری ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔ یہ حادثہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان میں ٹریفک کی ناقص صورتحال اور غیر محفوظ سفری ذرائع سکول کے بچوں اور عوام کی زندگیوں کے لیے مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک پک اپ وین اور رکشے کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کی آٹھ ماہ کی بیٹی جان سے گنواں بیٹھے تھے جب کہ نو افراد زخمی ہو گئے تھے۔ ایسے واقعات کا تدارک کرنے کے لیے سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانے اور ٹریفک قوانین کی سختی سے عملداری کی ضرورت ہے۔ مزید پڑھیں: ’انڈیا بلوچستان میں دہشت گردی کا اسپانسر ہے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر

ٹرمپ کی عجیب پالیسی: 83 سال بعد وائس آف امریکا خاموش ہوگیا

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے بعد، ہفتے کے روز وائس آف امریکا کے 1,300 سے زیادہ ملازمین کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا، جبکہ دو امریکی نیوز سروسز کی فنڈنگ ​​بھی معطل کر دی گئی۔ اس اقدام کے تحت حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے میڈیا آؤٹ لیٹ کے بڑے ادارے اور چھ دیگر وفاقی ایجنسیوں کو بھی بند کر دیا گیا۔ وائس آف امریکا کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے تصدیق کی کہ تقریباً 50 زبانوں میں نشریات فراہم کرنے والے 1,300 صحافی، پروڈیوسر اور معاونین عارضی رخصت پر بھیجے گئے ہیں، جس سے یہ عالمی نشریاتی ادارہ مفلوج ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنی لنکڈ ان پوسٹ میں لکھا، “مجھے افسوس ہے کہ 83 سالوں میں پہلی بار وائس آف امریکا کو خاموش کر دیا گیا ہے، حالانکہ اس نے دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔” وائس آف امریکہ کے بنیادی ادارے، یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا ، نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی اور ریڈیو فری ایشیا کی فنڈنگ ​​بھی بند کر دی ہے، جو مشرقی یورپ، روس، چین اور شمالی کوریا سمیت دیگر آمرانہ ریاستوں میں آزاد خبریں فراہم کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو ان میڈیا اداروں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، جو دنیا بھر میں آزاد صحافت کا نادر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1942 میں قائم ہونے والا وائس آف امریکہ آج ایک ہفتے میں 360 ملین افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ 2024 میں، یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کا بجٹ تقریباً 886 ملین ڈالر تھا اور اس کے تحت 3,500 سے زیادہ ملازمین کام کر رہے تھے۔ کے سیئول بیورو کے سربراہ ولیم گیلو نے اتوار کے روز کہا کہ انہیں تمام سسٹمز اور اکاؤنٹس سے لاک آؤٹ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بلوسکی پر لکھا، “میں صرف سچ بولنا چاہتا تھا، چاہے میں کسی بھی حکومت کی رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ اگر یہ کسی کے لیے خطرہ ہے، تو ایسا ہی سہی۔” ٹرمپ کی اتحادی اور وائس آف امریکا کے ممکنہ ڈائریکٹر کیری لیک نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو “امریکی ٹیکس دہندگان پر ایک بوجھ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے “بچانے کے قابل نہیں” سمجھا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قانون کے مطابق اس ایجنسی کو کم سے کم سطح پر لے آئیں گی۔ دوسری جانب، ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ روسی حکومت نے اسے “ناپسندیدہ تنظیم” قرار دیا ہے، اور روس و مقبوضہ یوکرین میں قارئین کو خبردار کیا کہ اس کے مواد کو شیئر کرنے پر انہیں قید یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ جان لیپاوسکی نے وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ کو “مطلق العنان حکومتوں کے تحت رہنے والے افراد کے لیے امید کی کرن” قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا، “بیلاروس سے ایران، روس سے افغانستان تک، یہ آزاد صحافت کے چند واحد ذرائع میں سے ہیں۔”

پہلا ٹی 20: پاکستان کو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست، کیویز کو سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل

نیوزی لینڈ نے پاکستان کو پہلے ٹی 20 میچ میں 9 وکٹوں سے شکست دے کر پانچ میچز کی سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی۔ قومی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ لائن اس میچ میں مکمل طور پر ناکام رہی، جس کے نتیجے میں پاکستان صرف 91 رنز پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کا یہ فیصلہ شاندار ثابت ہوا۔ پاکستان کی ٹیم کی بیٹنگ لائن اس قدر غیر مستحکم نظر آئی کہ پوری ٹیم 18.4 اوورز میں صرف 91 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی۔ پاکستان کی جانب سے کھیلتے ہوئے اوپنرز محمد حارث اور حسن نواز کو کوئی بھی رن نہ بنا سکے اور وہ پہلے ہی اوور میں پویلین واپس لوٹ گئے۔ اس کے بعد عرفان خان جو کہ محض ایک رن بنا سکے  اور وہ بھی جلد ہی آؤٹ ہوگئے اور اس کے بعد نائب کپتان شاداب خان بھی 3 رنز کے ساتھ واپس لوٹے۔ پاکستان ٹیم کے کپتان سلمان آغا کی مزاحمت صرف 18 رنز تک محدود رہی جبکہ خوشدل شاہ 32 رنز بنا کر اسکور میں اہم اضافہ نہ کر پائے۔ اس کے بعد آخر میں عبدالصمد، جہانداد خان، شاہین شاہ آفریدی اور ابرار احمد کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی اور یہ تمام کھلاڑی معمولی اسکور بنا کر پویلین واپس لوٹ گئے۔ یہ بھی پڑھیں: ٹوپی پر 804 لکھنے کا خمیازہ، عامر جمال پر 14 لاکھ روپے جرمانہ عائد نیوزی لینڈ کی جانب سے کائل جیمیسن نے 4 اوورز میں صرف 8 رنز دے کر 3 پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جب کہ جیکب ڈفی نے بھی 4 وکٹیں حاصل کیں۔ ایش سوڈھی اور فوکس نے ایک ایک وکٹ لی اور پاکستان کی بیٹنگ لائن کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ پاکستان کی کم اسکور کے بعد نیوزی لینڈ کو صرف 92 رنز کا معمولی ہدف ملا جو کیویز نے صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 59 بالز قبل حاصل کرلیا۔ ہوم گراؤنڈ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کیویز نے کھیل میں اپنی برتری ثابت کی۔ نویزی لینڈ کی جانب سے ٹم سائیفرٹ 44 رنز بناکر نمایاں رہے جب کہ فن ایلن نے 29 رنز اور ٹم روبینسن نے 18 رنز بنائے۔ پاکستان کی جانب سے نیوزی لینڈ کی واحد وکٹ ابرار احمد نے حاصل کی لیکن یہ وکٹ بھی ٹیم کو فتح دلانے کے لیے کافی نہ تھی۔ پاکستانی کرکٹ کے شائقین کو اس دل دہلا دینے والی شکست کے بعد اپنی ٹیم سے مزید بہتر کارکردگی کی امید ہے جبکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے یہ ثابت کیا کہ وہ ہوم گراؤنڈ پر ایک مضبوط حریف ہے۔ مزید پڑھیں: مداحوں کی تنقید حد سے بڑھی تو مانچسٹر یونائیٹڈ چھوڑ دوں گا، سر جم ریٹکلف

امریکا کی یمن پر بڑی فوجی کارروائی: حملے میں 31 افراد لقمہِ اجل بن گئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز یمن کے ایران سے منسلک حوثی باغیوں کے خلاف بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حملوں کے جواب میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں ابتدائی حملوں میں کم از کم 31 افراد ہلاک ہوگئے۔ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ حوثیوں کی حمایت فوری طور پر بند کرے، بصورت دیگر سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ حملے ٹرمپ کے جنوری میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکا کی سب سے بڑی فوجی کارروائی سمجھے جا رہے ہیں۔ ایک امریکی اہلکار کے مطابق، یہ مہم ممکنہ طور پر کئی ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا، “تمام حوثی دہشت گردوں کے لیے، آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے، اور آپ کے حملے آج سے ہی رکنے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آپ پر وہ تباہی نازل ہوگی جو آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی!” یمن کے دارالحکومت صنعا پر امریکی حملوں میں کم از کم 13 شہری ہلاک اور 9 زخمی ہوگئے، حوثیوں کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق۔ نشریاتی ادارے المسیرہ ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ شمالی صوبے صعدہ میں امریکی بمباری سے چار بچوں اور ایک خاتون سمیت 11 افراد ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔ حوثیوں کے سیاسی بیورو نے ان حملوں کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمنی مسلح افواج ان کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ صنعا کے رہائشیوں نے بتایا کہ حملے حوثیوں کے مضبوط گڑھ میں ایک عمارت پر کیے گئے، جس سے شدید دھماکوں نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک شہری، عبداللہ یحییٰ، نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ دھماکوں کی شدت زلزلے جیسی تھی، جس نے خواتین اور بچوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ نشریاتی ادارے المسیرہ ٹی وی کے مطابق، صعدہ کے قصبے دہیان میں ایک پاور اسٹیشن پر حملے کے باعث بجلی منقطع ہوگئی۔ دہیان وہ جگہ ہے جہاں حوثیوں کے رہنما عبدالمالک الحوثی اکثر ملاقاتیں کرتے ہیں، جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ امریکی حملے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

صارفین کے حقوق: قانون کی کتابوں میں قید انصاف

لاہور کی ایک معروف مارکیٹ میں احمد علی ایک نئے برانڈ کا موبائل فون خرید کر خوشی خوشی گھر پہنچے، مگر چند دن بعد ہی فون میں خرابیاں آنا شروع ہوگئیں۔ جب وہ کمپنی کے شکایتی مرکز گئے تو انہیں تسلی بخش جواب نہ ملا۔ کئی چکر لگانے کے باوجود انہیں نہ تو نیا فون ملا اور نہ ہی خرابی دور کی گئی۔ یہ واقعہ صرف احمد علی تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ ہونے والے استحصال کی ایک جھلک ہے۔ ہر سال 15 مارچ کو منایا جانے والا عالمی یومِ صارف ایسے ہی معاملات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ 1962 میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پہلی بار صارفین کے حقوق کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور ایک ایسا تصور پیش کیا جس نے آگے چل کر عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ 1985 میں اقوام متحدہ نے صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے رہنما اصول وضع کیے، مگر ان قوانین کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں۔ سنہ 2013 میں انڈیا میں ایک مشہور میک اپ برانڈ پر صارفین کو جعلی پروڈکٹس بیچنے کا الزام لگا، جس کے بعد عدالت نے برانڈ پر لاکھوں روپے جرمانہ عائد کیا۔ اسی طرح 2018 میں چین میں ایک مشہور فوڈ چین کو غیر معیاری خوراک فراہم کرنے کے الزام میں بند کر دیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک معاملے میں برطانیہ میں ایک مشہور برانڈ کی چاکلیٹس میں غیر معیاری اجزاء پائے گئے، جس کے بعد کمپنی کو کروڑوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں بھی صارفین کے حقوق کے حوالے سے کئی قابل ذکر واقعات سامنے آئے ہیں۔ 2019 میں لاہور میں ایک معروف کپڑے کی برانڈ پر زائد قیمتیں وصول کرنے کا الزام لگا، جس پر کنزیومر کورٹ نے کارروائی کی اور جرمانہ عائد کیا۔ 2021 میں ایک مشہور ڈیلیوری سروس کے خلاف صارفین نے شکایت کی کہ انہیں آرڈر کردہ کھانے کے بجائے غیر معیاری اور خراب کھانے فراہم کیے گئے۔ ان واقعات کے باوجود، زیادہ تر صارفین اپنی حق تلفی کے خلاف آواز بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ پاکستان میں صارفین کے تحفظ کے لیے کچھ قوانین موجود ہیں، جیسے کہ “کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ،” لیکن ان کے نفاذ کی کمی کے باعث بہت سے صارفین اپنے حقوق سے ناواقف رہتے ہیں۔ کراچی میں ایک مشہور آن لائن اسٹور کے خلاف کئی شکایات درج ہوئیں کہ انہوں نے آرڈرز تو لیے مگر صارفین کو پروڈکٹس ڈیلیور نہیں کیں۔ تحقیقات کے بعد کمپنی پر پابندی لگا دی گئی، مگر لاکھوں صارفین کا پیسہ ضائع ہو چکا تھا۔ اسی طرح اسلام آباد میں ایک نجی ہاؤسنگ اسکیم نے لوگوں کو بہترین سہولیات کی فراہمی کا وعدہ کیا مگر کئی سال گزرنے کے باوجود صارفین کو نہ تو پلاٹس ملے اور نہ ہی ان کی رقوم واپس کی گئیں۔ پاکستان میٹرز سے ہائی کورٹ کے وکیل رانا عمران لیاقت نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں صارفین کے حقوق قانونی طور پر موجود ہیں لیکن لوگ قانونی عمل میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ مسلسل کورٹ کچہری کے چکر لگائیں گے اور سالوں انتظار کریں گے۔ اس کے بعد بھی کمپنیاں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کیس جیت جائیں گی اور آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا”۔ عالمی یومِ صارف محض ایک دن نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد صارفین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور حکومتوں و کاروباری اداروں کو ان حقوق کے تحفظ پر مجبور کرنا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں صارفین کے پاس ایک طاقتور ہتھیار سوشل میڈیا ہے، جہاں وہ اپنی شکایات کو دنیا بھر میں پھیلا سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ صارفین کی جانب سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا مہمات نے بڑی کمپنیوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ 2022 میں ایک عالمی فاسٹ فوڈ چین کو صارفین کی شکایات کے بعد اپنی قیمتیں کم کرنی پڑیں۔ رانا عمران لیاقت کا مزید کہنا تھا کہ “عوام کو سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ آج کل کے دور میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی سب سے مؤثر ترین طریقہ ہے”۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے شعبہِ سوشیالوجی سے وابستہ پروفیسر اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صارفین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے قانونی عمل درآمد، حکومتی نگرانی، اور عوامی آگاہی ضروری ہے۔ مضبوط قوانین بنا کر ان پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ ناقص مصنوعات اور دھوکہ دہی کا سدباب ہو۔ شکایات کے ازالے کے لیے فوری اور شفاف نظام قائم کیا جائے۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے صارفین کے حقوق پر آگاہی مہم چلائیں تاکہ لوگ اپنے حقوق سے باخبر ہوں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر صارفین کو ریویو اور شکایات کا موقع دیا جائے۔ اگر عوام، حکومت، اور نجی شعبہ مل کر کام کریں تو صارفین کو ان کے حقوق دلانا ممکن ہو سکتا ہے۔ بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صارفین کے حقوق کے قوانین کو مزید سخت کرے، ان کے نفاذ کو یقینی بنائے، اور عوام میں شعور اجاگر کرے۔ صارفین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کی آگاہی حاصل کریں اور کسی بھی غیر معیاری یا دھوکہ دہی پر مبنی سروس کے خلاف شکایت درج کرائیں۔ پروفیسر اکرام اللہ نے مزید کہا کہ “صارفین کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے شفاف قوانین کا نفاذ، سخت جرمانے، اور عوامی شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ آن لائن اور آف لائن کاروباروں کی نگرانی بڑھائی جائے اور شکایات کے فوری ازالے کے لیے ہیلپ لائنز بنائی جائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوکہ دہی کے طریقوں سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ خود محتاط رہیں”۔ ماہرین کے مطابق، صارفین کے حقوق کے مکمل نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے، کمپنیوں پر کڑی نگرانی رکھی جائے اور عوام کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ تعلیم دی جائے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں کنزیومر کورٹس نہایت فعال ہیں اور صارفین کی شکایات پر فوری