‘جمعہ کو امریکی سفارت خانے کی جانب احتجاجی ریلی نکالیں گے’ حافظ نعیم الرحمٰن

جماعت اسلامی نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جمعہ کی نماز کے بعد بڑے شہروں میں امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی طرف پرامن مارچ کیا جائے گا۔ لاہور میں مسجد شہداء سے امریکی قونصلیٹ تک احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلیں اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں تاکہ حکومت اور اپوزیشن اسرائیل کے خلاف مؤثر موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اسرائیل کی بمباری سے سیکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے پہلے غزہ کی ناکہ بندی کر کے خوراک اور ادویات کی ترسیل روکی، پھر بمباری کی جس سے کئی عمارتیں تباہ ہو گئیں اور بہت سی لاشیں ملبے تلے دب گئیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے اس حملے کی حمایت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ اس ظلم میں شریک ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک، خاص طور پر عرب ممالک کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے کیا اقدامات کرتا ہے۔ حافظ نعیم نے حکومت اور اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیاست دان صرف امریکا کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں مؤثر آواز بلند نہیں کر رہے۔ اگر پاکستان مضبوط موقف اپنائے تو عالمی برادری اس کی بات سننے پر مجبور ہو جائے گی، مگر ہمارے حکمرانوں نے ہمیں کمزور بنا دیا ہے۔ افغانستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔ عالمی طاقتیں، خاص طور پر امریکا، چاہتی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں لڑیں تاکہ خطے میں بدامنی برقرار رہے۔ پاکستان کو مسائل بات چیت سے حل کرنے چاہئیں اور افغان حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں کچھ لوگ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، جو نہ صرف ملک کے مفادات کے خلاف ہے بلکہ قائداعظم کے نظریے کے بھی خلاف ہے۔ قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز ریاست کہا تھا اور پاکستان نے ہمیشہ اسے تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں کم کرنی چاہئیں اور غیر ضروری ٹیکس ختم کرنے چاہئیں تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ جماعت اسلامی عوام کے حقوق کے لیے ہر ممکن آواز اٹھائے گی اور حکومت پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ مہنگائی ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بلوچستان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 14 اپریل کو ایک اہم اجلاس بلایا گیا ہے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور بلوچ رہنماؤں کو مدعو کیا جائے گا۔ اس اجلاس کا مقصد بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ہے تاکہ وہاں کے عوام کو ان کے حقوق دیے جا سکیں اور ان کے مسائل کا منصفانہ حل نکالا جا سکے۔

پنجاب حکومت نے مفت وائی فائی سروس کو جدید ٹیکنالوجی سے اپ گریڈ کردیا

پنجاب حکومت نے اپنی مفت وائی فائی سروس کو مزید جدید اور تیز تر بنانے کے لیے ایک اقدم اٹھایا ہے۔ اس سروس میں اب جدید ترین Wi-Fi 6 ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جو صارفین کو پہلے سے زیادہ تیز اور مستحکم انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرے گی۔ یہ تبدیلی نہ صرف لاہور بلکہ صوبے کے دیگر شہروں تک بھی پہنچ چکی ہے جس سے لاکھوں افراد کو فائدہ ہو گا۔ لاہور میں جہاں پہلے 200 مفت وائی فائی ہاٹ اسپاٹس موجود تھے اب ان کی تعداد 230 تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس سے لاہور کے شہریوں کو بہتر انٹرنیٹ کی سہولت ملے گی۔ اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت اب انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ تیز اور مستحکم ہو گا اور خاص طور پر شہر کے اہم مقامات پر وائی فائی سروس کا معیار مزید بہتر ہوگا۔ پنجاب کی سیف سٹیز اتھارٹی نے اس سروس کو 11 اضلاع تک بڑھا دیا ہے جن میں لاہور، قصور، نانکانہ صاحب، شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، جہلم اور اٹک شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: صوبہ سندھ میں خسرہ کی وبا شدت اختیار کر رہی ہے: 17 بچوں کی ہلاکت اس کے علاوہ ساہیوال، اوکاڑہ اور مری جیسے علاقوں میں بھی اہم مقامات پر یہ سروس فراہم کی جا رہی ہے۔ سیف سٹیز اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یہ مفت وائی فائی سروس جلد ہی پورے صوبے میں دستیاب ہو گی جس سے مزید افراد فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اب تک اس سروس سے 17.7 ملین سے زائد صارفین نے استفادہ کیا ہے اور مجموعی طور پر 438 ٹیرا بائٹس ڈیٹا استعمال کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی باشندوں نے اس سروس کی تعریف کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سہولت ان کی روزمرہ کی زندگی کو نہ صرف آسان بلکہ زیادہ مؤثر بھی بنا رہی ہے۔ سیف سٹیز اتھارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مفت وائی فائی سروس صرف ایمرجنسی مقاصد کے لیے دستیاب ہے اور اس کا استعمال ویڈیو اسٹریمنگ یا تفریحی مقاصد کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ اس سروس کا مقصد شہریوں کو ایسے حالات میں مدد فراہم کرنا ہے جب وہ ایمرجنسی میں ہوں یا ضروری معلومات تک رسائی کی ضرورت ہو۔ لازمی پڑھیں: جدید پاسپورٹ سسٹم: پاکستان جرمنی سے ‘ہائی ٹیک ای-پاسپورٹ’ درآمد کرے گا پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس منصوبے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام صوبے کو ڈیجیٹل مرکز بنانے کی جانب ایک اور قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں اپنے نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تیار کرنا ہے تاکہ وہ عالمی منڈی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو سکیں۔” مریم نواز نے اس بات پر زور دیا کہ صوبے کے تعلیمی اداروں میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لیے حکومت نے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ اسی مقصد کے لیے حکومت پنجاب نے سرکاری سکولوں میں سمارٹ کلاس رومز اور ڈیجیٹل لیبز بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ طلباء کو جدید تعلیمی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ، پنجاب میں بین الاقوامی معیار کے آئی ٹی کورسز جیسے کہ مصنوعی ذہانت (AI)، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور فری لانسنگ کی تعلیم بھی فراہم کی جا رہی ہے، تاکہ نوجوان نسل عالمی سطح پر اپنی مہارتوں کا لوہا منوا سکے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پنجاب کو ایک ڈیجیٹل مرکز میں تبدیل کرنے کی جانب اہم قدم ہے بلکہ اس سے صوبے کے نوجوانوں کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی تیاری بھی فراہم ہو گی۔ مزید پڑھیں: سابق کمشنر کی بیٹی نے پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس پر حملہ کرکے زخمی کر دیا

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں سے 70 فلسطینی شہید، 500 سے زائد زخمی

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 70 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنی بمباری کی مہم دوبارہ شروع کی۔ غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق، شمالی اور جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں میں متعدد رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا گیا جس سے انسانی جانی نقصان میں مزید اضافہ ہوا۔ اس سے ایک دن قبل اسرائیلی فوج نے وسطی اور جنوبی غزہ میں اپنی زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع کی تھیں جو جنوری میں عارضی طور پر ہونے والی جنگ بندی کے بعد پہلی بار ہوئی ہیں۔ اس جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل کی کارروائیاں شدت اختیار کر گئی ہیں اور فلسطینیوں پر زندگی مزید تنگ ہو گئی ہے۔ فلسطینی صحت حکام کے مطابق، اس سلسلے میں صرف بدھ کے دن ہی 400 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی خواتین اور بچے بھی اس حملے کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک روز میں 510 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں سے بیشتر خواتین اور بچے تھے۔ غزہ کے اس تباہ کن منظر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی، 6 افراد ہلاک، 40 لاپتہ اسرائیلی فوج نے اپنے حملوں کو شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان “نتزریم کوریڈور” پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کارروائی قرار دیا ہے جو اسرائیل کے لیے ایک “جزوی حفاظتی علاقہ” بنانے کی کوشش ہے۔ یہ کارروائیاں نہ صرف فلسطینیوں کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر اسرائیل کے مظالم کی مذمت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ حماس کے نمائندوں نے اس بات کو “ایک نئی اور خطرناک خلاف ورزی” قرار دیا ہے اور عالمی ثالثوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فریقین کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے مزید کوششیں کریں۔ حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ “ثالثی کی کوششوں میں تیزی آئی ہے لیکن ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔” لازمی پڑھیں: توانائی کے مراکز کو نشانہ نہیں بنائیں گے، مگر جنگ بندی سے انکار یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیلی شہروں پر حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور 250 سے زائد افراد اغوا ہوئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں شدید بمباری کی اور انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے تقریباً 49,000 سے زائد معصوم فلسطینوں کو شہید کردیا ہے جبکہ غزہ کی پٹی اب صرف ایک کھنڈر بن کر رہ گئی ہے۔ یہ جنگ ایک طرف غزہ کے فلسطینیوں کے لئے شہادت کا پیغام بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جارحیت اور ظلم کا عکاس ہے جو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کی ایک واضح مثال ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس جنگ کے خاتمے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن غزہ کے معصوم شہری ابھی تک اس تباہی کا شکار ہیں جو صرف اور صرف اسرائیل کی ظلم و ستم کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا کا عمران خان سے متعلق سوالات پر ردعمل، بات کرنے سے بھی انکار کردیا

آئی پی ایل 2025: ہاردک پانڈیا پر پابندی، اب ممبئی انڈینز کا کپتان کون ہوگا؟

آئی پی ایل 2025 کا آغاز ہونے والا ہے جس میں دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ممبئی انڈینز کے شائقین اپنے ٹیم کے مایہ ناز کپتان ہاردک پانڈیا کے بغیر ٹیم کو میدان میں اُترتا دیکھیں گے۔  23 مارچ کو چنئی میں ہونے والے اس شاندار میچ میں ممبئی انڈینز کی قیادت سوریا کمار یادیو کریں گے جو حالیہ عرصے میں بھارت کی T20 ٹیم کی قیادت کر چکے ہیں۔ ہاردک پانڈیا پر گزشتہ سیزن میں اوورز کی کم رفتار کی وجہ سے ایک میچ کی معطلی عائد کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اس اہم افتتاحی میچ میں اپنی ٹیم کی قیادت نہیں کر پائیں گے۔ ان کی غیر موجودگی میں سوریا کمار یادیو کے لیے قیادت کا یہ موقع کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ ان کا قیادت کے حوالے سے کافی تجربہ ہے۔ ہاردک پانڈیا نے پری سیزن پریس کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ “سوریا کمار یادیو انڈیا کی قیادت بھی کرتے ہیں اور وہ ممبئی انڈینز کے پہلے میچ میں کپتان ہوں گے۔” اس کے ساتھ ہی ممبئی انڈینز کی ٹیم کو ایک اور بڑی مشکل کا سامنا ہے کیونکہ ان کے عظیم فاسٹ باؤلر جسپریت بمراہ بھی انجری کی وجہ سے اس میچ میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ پانڈیا نے مزید کہا ہے کہ “میرے پاس تین ایسے کھلاڑی ہیں جو کپتانی کے تجربے سے مالا مال ہیں۔ روہت شرما جو گزشتہ دہائی تک ممبئی انڈینز کے کپتان رہے وہ اب انڈیا کی ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم کے کپتان ہیں جبکہ بمراہ نے انڈیا کی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت بھی کی ہے۔” پانڈیا کا کہنا تھا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ انہیں تین تجربہ کار قائدین کی رہنمائی حاصل ہے۔ سوریا کمار یادیو کی قیادت میں ممبئی انڈینز کی ٹیم چنئی کے خلاف جیت کے لیے پُرعزم ہوگی تاہم ہاردک پانڈیا کی واپسی کا لمحہ 25 مارچ کو گجرات ٹائٹنز کے خلاف متوقع ہے جب ممبئی اپنی دوسری مدمقابل کے خلاف میدان میں اُترے گا۔ آئی پی ایل 2025 کا آغاز 22 مارچ کو دفاعی چیمپئن کولکتہ نائٹ رائڈرز اور رائل چیلنجرز بنگلور کے درمیان ہونے والے میچ سے ہوگا، جس کے بعد ممبئی انڈینز کا یہ یادگار آغاز سب کی نظریں اپنی طرف مبذول کر لے گا۔ مزید پڑھیں: آئی پی ایل بہتر کیوں؟ پروٹیز کھلاڑی نے پی ایس ایل چھوڑنے کی وجہ بتا دی

سابق کمشنر کی بیٹی نے نجی ائیرلائن کی ایئر ہوسٹس پر حملہ کرکے زخمی کر دیا

اسلام آباد جانے والی ایک نجی ایئرلائن کی پرواز میں منگل کے روز طاقت کے تکبر کا بدترین مظاہرہ دیکھنے میں آیا جب سابق کوئٹہ کمشنر افتخار جوگزئی کی بیٹی ‘سائمہ جوگزئی’ نے مبینہ طور پر ایک ایئر ہوسٹس پر حملہ کر کے اسے شدید زخمی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق افتخار جوگزئی اور ان کی بیٹی سائمہ پہلے ہی کوئٹہ ایئرپورٹ پر چیک ان کے دوران ایئرلائن کے عملے سے بدتمیزی کر رہے تھے تاہم، ان کا یہ رویہ فلائٹ میں بھی جاری رہا۔ جونہی طیارہ ٹیک آف کے لیے تیار ہوا عملے نے مسافروں کو حفاظتی اقدامات کے تحت سیٹ بیلٹ باندھنے کی ہدایت کی۔ اسی پر سائمہ جوگزئی بھڑک اٹھیں اور عملے کو سخت الفاظ میں برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ صورتحال سنگین ہوتے دیکھ کر فلائٹ کریو نے پائلٹ کو صورتحال سے آگاہ کیا جس کے بعد کیپٹن نے فوری طور پر ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (ASF) کو طلب کر لیا اور سائمہ جوگزئی اور ان کے والد کو آف لوڈ کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن سائمہ نے طیارہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران اشتعال میں آکر سائمہ نے ایک خاتون ایئر ہوسٹس پر حملہ کر دیا، جس سے اس کی ناک سے خون بہنے لگا اور ایک دانت بھی ٹوٹ گیا۔ حملے کے بعد ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس نے موقع پر پہنچ کر افتخار جوگزئی اور سائمہ جوگزئی کو حراست میں لے لیا۔ یہ واقعہ طاقت کے نشے میں دھت افراد کی بدتمیزی کی ایک اور مثال بن کر سامنے آیا ہے جس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں اور مسافروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے رویے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ مزید پڑھیں: صوبہ سندھ میں خسرہ کی وبا شدت اختیار کر رہی ہے: 17 بچوں کی ہلاکت

صوبہ سندھ میں خسرہ کی وبا شدت اختیار کر رہی ہے: 17 بچوں کی ہلاکت

سندھ میں خسرہ کی وبا شدت اختیار کر چکی ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ دو ماہ کے دوران 17 بچے ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 1100 سے زائد متاثر ہوئے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق، خسرہ کے بڑھتے ہوئے کیسز کی بنیادی وجوہات میں والدین کی جانب سے ویکسینیشن میں کوتاہی اور حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کرنا شامل ہیں۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، یکم جنوری سے 8 مارچ تک خسرہ کے 1,100 سے زائد کیسز سامنے آئے۔ ان میں سے 17 اموات بیماری کی پیچیدگیوں کے باعث ہوئیں۔ کراچی میں 550 سے زائد کیسز رپورٹ کیے گئے، جبکہ خیرپور میں 10 اموات ہوئیں، مشرقی ضلع میں پانچ، اور سکھر و جیکب آباد میں ایک، ایک ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ خسرہ ایک انتہائی متعدی وائرل بیماری ہے جو ہوا کے ذریعے پھیلتی ہے۔ یہ بیماری زیادہ تر چھوٹے بچوں کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر وہ جو ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کی عام علامات میں بخار، کھانسی، ناک بہنا، آنکھوں میں جلن، اور جلد پر سرخ دانے شامل ہیں۔ بیماری کی شدت میں اضافے کے ساتھ مریض کو نمونیا، اسہال، آنکھوں کی بینائی کا متاثر ہونا، اور دماغ کی سوجن جیسے پیچیدہ مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، خسرہ کے باعث زیادہ تر اموات نمونیا اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس کا واحد مؤثر حل حفاظتی ٹیکہ کاری ہے، جو بچوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ پاکستان میں امیونائزیشن پر توسیعی پروگرام کے تحت نو اور پندرہ ماہ کی عمر کے بچوں کو خسرہ کی ویکسین مفت فراہم کی جاتی ہے، جو اس مہلک وائرس کے خلاف 100 فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ماہرین صحت والدین کو تلقین کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ویکسینیشن مکمل کروائیں تاکہ سندھ میں خسرہ کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور معصوم جانوں کو بچایا جا سکے۔

امریکا کا عمران خان سے متعلق سوالات پر ردعمل، بات کرنے سے بھی انکار کردیا

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا۔ ایک حالیہ میڈیا بریفنگ میں جب ایک صحافی نے  عمران خان کی صورتحال پر سوال اٹھایا تو ٹیمی بروس نے فوراً جواب دیا کہ امریکا کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات پر تبصرہ نہیں کرتا۔ بروس نے واضع کیا کہ “میں کسی دوسرے ملک کے داخلی مسائل پر تبصرہ نہیں کروں گی۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات جاننے ہیں تو وہ وائٹ ہاؤس سے رجوع کریں۔ ٹیمی بروس کا یہ بیان امریکا کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جو کہ دنیا بھر میں عالمی مسائل پر توجہ مرکوز رکھتا ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک کے بہبود کو ترجیح دیتا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکا عالمی مسائل پر مرکوز ہے۔ ضرور پڑھیں: ‘ہم نے غزہ پر دوبارہ کارروائیاں شروع کر دی ہیں’ اسرائیلی حکام یہ دوسرا موقع ہے جب ٹیمی بروس نے عمران خان یا ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات سے بچتے ہوئے غیر مشروط ردعمل دیا ہے۔ اس سے پہلے 6 مارچ کو بھی جب ایک سوال میں یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا امریکی صدر عمران خان کی حمایت کرتے ہیں تو ترجمان نے اس پر بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا کی حکومتی ترجیحات عالمی مسائل پر مرکوز ہیں اور وہ کسی بھی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ یہ سوالات اس وقت اہمیت اختیار کر گئے ہیں جب عمران خان کی سیاست اور ان کے پارٹی کی سرگرمیاں پاکستان میں خاصی زیرِ بحث ہیں اور اس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ امریکا کی اس پالیسی کے تحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ واشنگٹن کی حکمتِ عملی عالمی سطح پر استحکام، امن اور معیشت کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ آیا اس طرح کے بیانات عالمی سطح پر پاکستان کے اندرونی سیاست پر مزید اثرات ڈالیں گے یا نہیں۔ مزید پڑھیں: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی، 6 افراد ہلاک، 40 لاپتہ

خوشی کا تعلق بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ ہمارے ذہن سے ہے

اتوار کا دن ہے اور صبح کے وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہے۔ آپ چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے موسم سے مکمل لطف اٹھا رہے ہیں۔ ۔ آپ یو ں محسوس کرتے ہیں جیسے زندگی مزید خوبصورت ہوگئی ہو۔ اچانک آپ کے موبائل پر ایک نوٹیفیکیشن آتا ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے یا آپ کا تمام بنک بیلنس چوری ہوگیا ہے۔آپ اسی لمحے افسردہ ہوجاتے ہیں اور وہ خوشی رخصت ہو جاتی ہے۔ موسم تو اب بھی خوبصورت تھا لیکن آپ کے دل کا موسم غمگین ہوگیا ہے۔ آج خوشی کا عالمی دن ہے اور آئیے جانتے ہیں  کہ آخر ایسی کیا چیزیں ہیں جو ہمیں خوش  یا غم زدہ رکھتی ہیں۔ خوشی ایک ایسا احساس ہے جسے ہر انسان حاصل کرنا چاہتا ہے اور ساری زندگی اسی کے تعاقب کرتے ہوئے گزار دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس دولت ہو تو آپ زیادہ خوش رہ سکتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ خوش رہنے کے لیے کسی بڑی کامیابی یا دولت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی عادتیں اور مثبت رویہ ہماری خوشی میں حیرت انگیز اضافہ کر سکتے ہیں۔ خوشی کا تعلق صرف بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ سائنس کے مطابق، خوشی ،محسوس کرنے کا ایک حیاتیاتی عمل ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ میں “سیروٹونن”، “ڈوپامائن”، “آکسیٹوسن” اور “اینڈورفنز” جیسے نیورو ٹرانسمیٹرز خارج ہوتے ہیں جو خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ جب ہم کوئی مثبت کام کرتے ہیں جیسے ورزش، ہنسی مذاق، دوسروں کی مدد، یا پسندیدہ سرگرمیاں، تو ہمارا دماغ ان ہارموں کو خارج کرتا ہے، جس سے ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں کس طرح آسانی سے خوش رہ سکتے ہیں؟ اس کے کئی طریقے ہیں جو نہ صرف ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں بلکہ ہماری صحت کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ سب سے پہلے، شکر گزاری خوش رہنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جب ہم اپنی زندگی میں موجود مثبت چیزوں پر توجہ دیتے ہیں اور ان کا شکر ادا کرتے ہیں تو ہمارا دماغ مثبت سوچنا شروع کر دیتا ہے، جس سے ہماری خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روزانہ شکر گزاری لکھنے والے افراد زیادہ خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ دوسرا اہم طریقہ جسمانی سرگرمی ہے۔ ورزش کرنا، چہل قدمی، یا کسی بھی قسم کی فزیکل ایکٹیویٹی دماغ میں اینڈورفنز خارج کرتی ہے، جسے قدرتی “خوشی کے کیمیکل” کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورزش کے بعد ہمیں ذہنی سکون اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔ دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا بھی خوشی کو بڑھاتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، وہ لوگ جو مضبوط سماجی تعلقات رکھتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے، اپنی خوشیاں اور مسائل شیئر کرنے سے ہم جذباتی طور پر مضبوط محسوس کرتے ہیں۔ مسکراہٹ اور قہقہہ بھی خوشی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ جب ہم ہنستے ہیں تو ہمارے جسم میں اینڈورفنز خارج ہوتے ہیں، جو ہمیں خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ مصنوعی مسکراہٹ بھی ہمارے موڈ کو بہتر کر سکتی ہے۔ مدد کرنا اور دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرنا ہماری خوشی میں اضافہ کرتا ہے۔ جب ہم کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں یا کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہیں، تو ہمیں ایک اندرونی خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، وہ لوگ جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور صحت مند رہتے ہیں۔ اچھی نیند بھی خوشی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ نیند کی کمی نہ صرف ہمارے موڈ کو متاثر کرتی ہے بلکہ ذہنی دباؤ اور بے چینی کو بھی بڑھاتی ہے۔ روزانہ سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند لینے سے دماغ تروتازہ رہتا ہے اور ہم زیادہ خوش محسوس کرتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم چھوٹی خوشیوں پر توجہ دیں، مثبت سوچ اپنائیں، اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ خوشی کسی بڑی کامیابی کا انتظار کرنے میں نہیں بلکہ ان لمحات میں ہے جو ہم ابھی جی رہے ہیں۔  

اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی، 6 افراد ہلاک، 40 لاپتہ

بحیرہ روم میں ایک اور کشتی کے ڈوبنے سے چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے جبکہ 40 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کی نمائندہ چیرا کارڈولیٹی نے بتایا کہ یہ کشتی پیر کے روز تونس سے روانہ ہوئی تھی جس میں 56 افراد سوار تھے۔ انہوں نے اس واقعے کو “بحیرہ روم میں ایک اور المناک کشتی حادثہ” قرار دیا جہاں بہت زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کشتی کے ڈوبنے کا واقعہ اٹلی کے جزیرے لیمپیڈوسا کے قریب پیش آیا۔ یہ جزیرہ افریقہ سے یورپ جانے والے مہاجرین کے لیے ایک اہم پہنچنے کی جگہ ہے۔ اٹلی کی کوسٹ گارڈ نے دس زندہ بچ جانے والوں کو بچا لیا ہے اور لاپتہ افراد کی تلاش کا عمل جاری ہے۔ حادثے کا شکار افراد میں آئیوری کوسٹ، مالی، گیمبیا اور کیمرون کے باشندے شامل تھے۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ کچھ افراد طوفانی سمندر میں گر کر لاپتہ ہو گئے تھے۔ بحیرہ روم میں اس وقت مہاجرین کی کشتیوں کے ڈوبنے کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ راستہ دنیا کے سب سے خطرناک سمندری راستوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ دوسری جانب اٹلی کے جزیرے لیمپیڈوسا پر 40 مزید مہاجرین پہنچے ہیں جنہوں نے ٹینکروں کی مدد سے تونس کے شہر سفاک سے سفر کیا۔ گزشتہ روز پانچ الگ الگ کشتیوں نے جزیرے پر 213 افراد کو لنگر انداز کیا جس کے بعد لیمپیڈوسا کے ریسیپشن سینٹر میں لوگوں کی تعداد 230 تک پہنچ چکی ہے۔ اس سال اٹلی میں 8,743 مہاجرین کی آمد ہو چکی ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت سے کچھ زیادہ ہے۔ عالمی تنظیم برائے مہاجرین (IOM) کے مطابق 2014 کے بعد سے اس خطے میں 31,500 سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ 2025 کے آغاز سے ہی 246 افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ مہاجرین کے لیے محفوظ سفر کی راہ ہموار کی جائے اور ریسکیو آپریشنز کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ اس خوفناک انسانی بحران کو روکا جا سکے۔ مزید پڑھیں: سائپرس کے ساحل سے کشتی ڈوبنے کے بعد سات لاشیں برآمد، دو افراد کو بچا لیا گیا

جدید پاسپورٹ سسٹم: پاکستان جرمنی سے ‘ہائی ٹیک ای-پاسپورٹ’ درآمد کرے گا

پاکستان نے اپنے پاسپورٹ پرنٹنگ سسٹم کو جدید بنانے کے لیے جرمنی سے ہائی ٹیک ای-پاسپورٹ پرنٹرز درآمد کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد پاسپورٹ کے اجراء کے عمل کو تیز تر اور زیادہ محفوظ بنانا ہے، تاکہ شہریوں کو جدید ترین سہولیات فراہم کی جا سکیں اور جعل سازی کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔ عالمی خبر رساں ادارے گلف نیوز کے مطابق، پاکستان نے اس اپ گریڈ کے تحت دو جدید ای-پاسپورٹ پرنٹرز اور چھ ڈیسک ٹاپ پرنٹرز حاصل کیے ہیں۔ یہ جدید مشینیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، جو نہ صرف تیز رفتاری سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ پاسپورٹ کی سیکیورٹی کو بھی مزید بہتر بنائیں گی۔ امیگریشن اور پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ جمال قاضی نے ای-پرنٹر سیکشن کا دورہ کیا اور نئی مشینوں کا معائنہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جدید پرنٹرز ایک گھنٹے میں 1000 پاسپورٹ تک پرنٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو پاکستان کی پاسپورٹ پروسیسنگ کی صلاحیت میں نمایاں بہتری لائے گا اور شہریوں کو بروقت سفری دستاویزات کی فراہمی میں مدد دے گا۔ اس عمل کو مزید موثر بنانے کے لیے غیر ملکی تکنیکی ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے، جو مشینوں کی تنصیب کی نگرانی اور ان کے ہموار آپریشن کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ ان ماہرین کا بنیادی کردار مشینوں کی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانا اور پاکستانی عملے کو ان کے استعمال کی مکمل تربیت دینا ہے۔ نئے پرنٹرز کی آمد سے پروسیسنگ کے اوقات میں نمایاں کمی متوقع ہے، جس سے ملک بھر میں پاسپورٹ سے متعلق خدمات میں بہتری آئے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس اپ گریڈ سے پاسپورٹ کے اجراء کی رفتار اور درستگی میں اضافہ ہوگا، جبکہ اس میں جدید حفاظتی فیچرز شامل کیے گئے ہیں جو جعل سازی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اس جدید نظام کے تحت عوام کو تیز تر اور محفوظ سفری دستاویزات فراہم کرنے کا عمل مزید شفاف اور آسان بنایا جائے گا۔