پی آئی اے پر عائد پانچ سالہ پابندی کا خاتمہ؟ برطانیہ کا فیصلہ آج متوقع

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) اور دیگر پاکستانی فضائی کمپنیوں پر عائد پانچ سالہ پابندی کے خاتمے کا فیصلہ آج برطانیہ کے ایئر سیفٹی کمیٹی کی اہم میٹنگ میں کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ پاکستان کی فضائی صنعت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے جو جولائی 2020 میں جعلی پائلٹ لائسنس اسکینڈل کے بعد سے برطانیہ اور یورپ میں اپنی پروازوں کے لیے بند ہے۔ یورپی اور برطانوی ریگولیٹرز نے اس اسکینڈل کے بعد پی آئی اے اور دیگر پاکستانی ایئرلائنز کی آپریشنز معطل کر دی تھیں جس کی وجہ سے پاکستان اور یورپ کے درمیان براہ راست پروازوں میں کمی آئی اور پاکستانی شہریوں کو سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ کی ایئر سیفٹی کمیٹی آج اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا پاکستانی ایئرلائنز کو دوبارہ برطانوی ہوائی اڈوں پر پروازوں کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے حکام اس فیصلے کے بارے میں پُرامید ہیں۔ ایک سی اے اے عہدیدار نے بتایا کہ “یورپ میں پروازوں کی بحالی کے بعد ہم امید کرتے ہیں کہ برطانیہ بھی پاکستانی ایئرلائنز کی پروازوں کی اجازت دے گا۔” اگر ایئر سیفٹی کمیٹی نے پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ پاکستان کی فضائی صنعت کے لیے ایک اہم کامیابی ہو گی جو براہ راست پروازوں کی بحالی کے ذریعے نہ صرف معیشت کو سہارا دے گی بلکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تجارتی تعلقات کو بھی فروغ دے گی۔ آج کا فیصلہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف پی آئی اے بلکہ دیگر پاکستانی ایئرلائنز کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ مزید پڑھیں: ‘ہم نے غزہ پر دوبارہ کارروائیاں شروع کر دی ہیں’ اسرائیلی حکام
شہباز شریف کی سعودی ولی عہد سے ملاقات، اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے بات چیت

وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچ کر سعودی قیادت کے ساتھ مختلف اقتصادی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیراعظم کا یہ چار روزہ دورہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ایک اہم کڑی ہے۔ جدہ پہنچنے پر سعودی عرب کے نائب گورنر مکہ، شہزادہ سعود بن مشعال بن عبدلعزیز آل سعود نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ وزیراعظم کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی موجود ہے جس میں وزیرِ خزانہ و نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، وفاقی وزرا اور سینئر حکام شامل ہیں۔ یہ دورہ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ساتھ ملاقات کے ذریعے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے امکانات کو تلاش کرنے کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات میں دونوں رہنما تجارت بڑھانے، اہم شعبوں میں شراکت داری کے مواقع تلاش کرنے اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعلقات پاکستان کی معیشت کے لیے ایک نیا باب رقم کریں گے۔ اس دورے کا مقصد نہ صرف دوطرفہ تجارتی تعلقات کو مستحکم کرنا ہے بلکہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کو فروغ دے کر پاکستان کی معیشت کو استحکام فراہم کرنا بھی ہے۔ مزید پڑھیں: ریاست برقرار رہے گی اور ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہوگی: آصف علی زرداری دوسری جانب ایک روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان بھر میں “2025 موسم بہار” کے درختوں کی شجرکاری مہم کا آغاز بھی کیا۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس کے احاطے میں چیڑ کے پودے کی شجرکاری کرکے اس مہم کی ابتدا کی جس کا مقصد ملک بھر میں 41.7 ملین درخت لگانا ہے۔ وزیراعظم نے اس مہم میں عوام خصوصاً نوجوانوں اور کسانوں کو شرکت کی دعوت دی ہے تاکہ ملک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچایا جا سکے اور دیگر بیماریوں پر قابو پایا جا سکے۔ وزیراعظم نے شجرکاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شدید ہو گئے ہیں، خاص طور پر 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلابوں نے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر تباہی مچائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے دنیا کے 10 خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے حالانکہ پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس مہم کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں درختوں کی شجرکاری کی جائے گی۔ پنجاب میں 12.87 ملین، سندھ میں 10 ملین، خیبر پختونخوا میں 2.63 ملین، بلوچستان میں 2.06 ملین، آزاد کشمیر میں 10.14 ملین اور گلگت بلتستان میں 4 ملین درخت لگائے جائیں گے۔ اس مہم کے لیے 2047 تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ ملک بھر میں 41.7 ملین پودے لگائے جا سکیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ شجرکاری کی اس مہم کا مقصد نہ صرف ماحول کو بہتر بنانا ہے بلکہ پاکستان کے عوام کی صحت اور خوشحالی کو بھی یقینی بنانا ہے۔ اس مہم کی کامیابی سے نہ صرف درختوں کا شمار بڑھ سکے گا بلکہ یہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں بھی پاکستان کا کردار مضبوط کرے گا۔ اس دورے اور شجرکاری مہم سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو ایک نئی سمت دینے کے لیے سنجیدہ ہے، اور یہ اقدامات نہ صرف ماحول کی بہتری کے لیے بلکہ پاکستان کی معیشت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بھی اہم ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کہاں موسم کیسا ہو گا؟ محکمہ موسمیات نے تفصیل جاری کر دی
‘ہم نے غزہ پر دوبارہ کارروائیاں شروع کر دی ہیں’ اسرائیلی حکام

اسرائیلی فوج نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ اس کی افواج نے وسطی اور جنوبی غزہ میں زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ مقامی طبی ذرائع کے مطابق، دو روزہ فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 48 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ تازہ حملے ایک دن بعد ہوئے ہیں جب فضائی بمباری میں 400 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے تھے، جسے جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کے مہلک ترین واقعات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ جنوری سے جاری جنگ بندی بھی ان حملوں کے نتیجے میں ختم ہو چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، اس کی کارروائیوں کا مقصد نیٹزارم کوریڈور پر کنٹرول مضبوط کرنا تھا، تاکہ شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان ایک بفر زون قائم کیا جا سکے۔ دوسری جانب، فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس کارروائی کو دو ماہ پرانی جنگ بندی کی ایک “نئی اور سنگین خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔ گروپ نے ثالثوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور جنگ بندی کو بحال کریں۔ اقوام متحدہ نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ بدھ کو غزہ میں اقوام متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ پر حملے میں ایک غیر ملکی ملازم ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ غزہ کی وزارت صحت نے اس حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا، تاہم اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس کا ہدف حماس کے ایک مقام پر حملے کی تیاریوں کو ناکام بنانا تھا۔ اقوام متحدہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر Jorge Moreira da Silva نے کہا کہ اسرائیل جانتا تھا کہ یہ اقوام متحدہ کا احاطہ ہے، جہاں لوگ رہ رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کے عملے پر ہونے والے تمام حملوں کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں کم از کم 280 اقوام متحدہ کے کارکن جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بلغاریہ کی وزارت خارجہ کے مطابق، اس حملے میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والا ایک بلغاریائی شہری بھی ہلاک ہوا ہے۔
کیا پیسوں سے خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں؟

نامور شاعر کامل شطاری نے کہا تھا کہ ‘کیا پوچھتے ہو مجھ سے میرے دل کی آرزو۔۔ اب میری ہر خوشی ہے تمھاری خوشی کے ساتھ’۔ خوشی انسانی زندگی کا ایک بنیادی جذباتی پہلو ہے، جو ہر فرد کے تجربات اور حالات کے مطابق مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج عالمی خوشی کا دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد لوگوں میں خوشی کے جذبات کو فروغ دینا اور انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ خوشی صرف ایک ذاتی تجربہ نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی رویہ بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 12 جولائی 2012 کو 20 مارچ کو خوشی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اور 2013 میں پہلی بار اس دن کو باضابطہ طور پر منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں خوشی کی اہمیت کو اجاگر کرنا، افراد کی خواہشات کو تسلیم کرنا، وقتی رنجشوں کو بھلانا، اور ذہنی سکون کو فروغ دینا ہے۔ یہ سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دیرپا خوشی ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے، جڑے رہنے اور کسی بڑی چیز کا حصہ بننے سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خوشی درحقیقت ہے کیا؟ کیا اس کا حصول ممکن ہے؟ اور کیا محض ایک دن منانے سے خوشی حاصل کی جا سکتی ہے؟ ماہرینِ نفسیات کے مطابق خوشی ایک پیچیدہ اور ذاتی تجربہ ہے، جو ہر فرد کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ کچھ افراد کے لیے خوشی کا مطلب ذہنی سکون ہے، جب کہ کچھ کے لیے یہ دولت، کامیابی، یا پسندیدہ افراد کے ساتھ وقت گزارنے سے جڑی ہوتی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فار ویمن کی کلینیکل سائیکالوجسٹ اور پروفیسر شمائلہ مہناز نے ‘پاکستان میٹرز’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خوشی کا براہِ راست تعلق دماغ سے ہے۔ جب کوئی خوش ہوتا ہے، تو اس کے دماغ کو سکون اور جسم کو راحت ملتی ہے۔ خوشی نہ صرف ذہنی صحت کو بہتر بناتی ہے، بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی نکھارتی ہے۔ اگر انسان مثبت سوچ رکھے اور ان کاموں میں خود کو مصروف رکھے جو اسے خوشی دیتے ہیں، تو وہ زیادہ پُرسکون اور صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ مگر اس سے سوال نے جنم لیا ہے کیا خوشی کا مطلب صرف ذہنی سکون ہے؟ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ نفسیات کی طالبہ زینب اقبال کے مطابق خوشی کا اصل مطلب ذہنی سکون ہے اور یہ ہر فرد کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے خوشی ان کے پیاروں سے جڑے رہنے میں ہے، جبکہ بعض کے لیے خوشی کا دارومدار دولت اور مادی سہولیات پر ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہ کہ ٹیکنالوجی اور جدید طرزِ زندگی نے جہاں سہولیات فراہم کی ہیں، وہیں اس نے انسان کو ایک مشین بھی بنا دیا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔۔۔ احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات انسان نے خود کو ایسی ذہنی الجھنوں اور اداسی میں مبتلا کر لیا ہے جس کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ ڈیجیٹل ترقی نے ہمارے سوشل نیٹ ورکس کو وسیع کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ذہنی دباؤ اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات نے خوشی کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ یہ بحث طویل عرصے سے جاری ہے کہ آیا دولت خوشی لا سکتی ہے یا نہیں۔ ماہرین کی رائے اس بارے میں تقسیم ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ بنیادی ضروریات اور مالی استحکام خوشی کے لیے ناگزیر ہیں، جبکہ دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقی خوشی معاشرتی تعلقات، ذہنی سکون اور اندرونی اطمینان میں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ کے مطابق پیسہ خود خوشی نہیں لا سکتا، مگر یہ زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔ جب زندگی میں آسانی ہو، تو ذہنی سکون حاصل کرنا ممکن ہوتا ہےاور ذہنی سکون ہی اصل خوشی ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی بہتر تعلیمی سہولیات، معیاری طرزِ زندگی، اور آخرت کی فکر سے آزاد رویہ بتایا جاتا ہے۔ پروفیسر شمائلہ مہناز کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت نہیں کرتے۔ اس کے برعکس، ترقی پذیر ممالک میں خوشی زیادہ تر خاندانی اور سماجی روابط پر منحصر ہوتی ہے۔” ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ کے مطابق، وہ ممالک جہاں سماجی انصاف، صحت کی سہولیات اور معاشی استحکام موجود ہیں، وہاں خوشی کی سطح بلند ہوتی ہے۔ تاہم، ترقی پذیر ممالک میں خاندانی اور سماجی تعلقات کی مضبوطی کی وجہ سے لوگ زیادہ مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ زینب اقبال کے مطابق ہم نے سوشل میڈیا پر دوست بنا لیے ہیں، مگر اپنے حقیقی رشتوں سے دور ہو گئے ہیں۔ ہمارا قیمتی وقت، جو ہمارے خاندان کا حق ہے، ہم سوشل میڈیا کو دے رہے ہیں۔ آج ہماری خوشی ایک میسج یا ایک ریپلائی پر منحصر ہو گئی ہے۔ ہم جتنا سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں، اتنا ہی ذہنی سکون کھوتے جا رہے ہیں۔” ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشی کوئی مستقل چیز نہیں، بلکہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خوشی کو بڑھانے کے لیے مثبت سوچ اپناناچھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سراہناشکرگزاری کی عادت اپناناعبادات میں وقت گزارنا اور اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ضروری ہے۔ پروفیسر شمائلہ مہناز کے مطابق انسان تب تک خوش نہیں رہ سکتا، جب تک وہ یہ تہیہ نہ کر لے کہ اس نے خوش رہنا ہے۔ خوشی کا راز دوسروں کی خوشی میں خوشی محسوس کرنا اور مثبت طرزِ فکر اپنانا ہے۔ عالمی یومِ خوشی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اصل خوشی دولت یا مادی سہولیات میں نہیں، بلکہ ذہنی سکون اور اچھے تعلقات میں ہے۔ ہمیں اپنی خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا چاہیے، کیونکہ ‘شیئرنگ از کیئرنگ’ یعنی خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ مزید یہ کہ دوسروں کے کام آنا ہے۔
ترک صدر ایردوان کا سیاسی حریف گرفتار، جرم کیا ہے؟

ترکیہ میں صدارتی انتخابات سے قبل متوقع صدارتی امیدوار کو گرفتار کرلیا گیا ۔ استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو دہشت گروہ کی مدد کرنے کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم امام اوغلو کو ترک صدراردوان کے سب سے مضبوط سیاسی حریفوں میں شمار کیا جاتا ہے، اُن پر بدعنوانی اور ایک دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ پولیس نے تحقیقات کے دوران ایک سو افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں سیاستدان، صحافی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ امام اوغلو نے آن لائن بیان میں کہا کہ عوام کی مرضی کو خاموش نہیں کروایا جا سکتا۔ ترکیہ کی سڑکوں، یونیورسٹی کیمپسز اور ٹرین اسٹیشنوں پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ استنبول میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ حکومت نے استنبول میں 4 روزہ پابندیوں کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے، لیکن ملک بھر میں مزید احتجاج کا خدشہ ہے۔
سندھ میں اساتذہ کی حاضری کے لیے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم متعارف

سندھ میں اساتذہ اور عملے کی حاضری کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل طور پر مانیٹر کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے تحت موبائل ایپلیکیشن پر کام شروع کر دیا گیا ہے، جس میں چہرے کی شناخت، جیو فینسنگ کنیکٹیویٹی اور آف لائن حاضری جیسے فیچرز شامل کیے جائیں گے۔ وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ کی زیر صدارت ڈیجیٹل حاضری کے حوالے سے اجلاس منعقد ہوا، جس میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن زاہد علی عباسی، ڈی جی مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن مولا بخش شیخ، ڈپٹی ڈائریکٹر غازی خان مہر اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن ونگ کی جانب سے اساتذہ اور عملے کی حاضری کے ڈیجیٹل نظام پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ اساتذہ کی حاضری کو چہرے کی شناخت کے ذریعے یقینی بنانے کے لیے آئرس سسٹم متعارف کرایا جائے گا، جو بائیومیٹرک تصدیق کی ایک جدید ٹیکنالوجی ہے، یہ سسٹم موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے منسلک ہوگا، جس سے اساتذہ اور دیگر عملے کی حاضری محفوظ اور شفاف بنائی جا سکے گی۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ ایپلیکیشن کو لوکیشن بیسڈ ٹیکنالوجی ‘جیو فینسنگ’ سے منسلک کیا جائے گا، تاکہ اساتذہ اور عملہ اسکول پہنچنے پر ہی ایپلیکیشن استعمال کر سکیں۔ اس کے علاوہ، جی پی ایس کی مدد سے انٹرنیٹ کی عدم موجودگی میں بھی حاضری ممکن ہوگی۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ موبائل ایپلیکیشن میں طلبہ کے داخلے کا ریکارڈ ڈیجیٹلائز کیا جائے گا اور روزانہ کی حاضری بھی ایپ کا حصہ ہوگی۔ وزیر تعلیم نے ہدایت دی کہ اساتذہ کی چھٹی کی درخواست، لیٹ آنے، جلدی جانے اور غیر حاضری کی رپورٹس ایپ میں شامل کی جائیں۔ وزیر تعلیم نے مزید کہا کہ یہ ڈیٹا مستقبل میں اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کے دفتر سے بھی منسلک کیا جائے گا، اس اقدام کے تحت، جو اساتذہ یا عملہ بغیر اطلاع کے غیر حاضر ہوگا، اس کے دنوں کی تنخواہ خودکار نظام کے ذریعے کاٹ لی جائے گی۔ وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے کہا کہ ہم کارکردگی، شفافیت اور نگرانی کا ایک ڈیجیٹل سفر شروع کرنے جا رہے ہیں، جس کا مقصد وسائل کو حقائق کی بنیاد پر استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایپلیکیشن کو محفوظ، تیز اور آسان بنایا جائے، تاکہ تمام ملازمین اسے باآسانی استعمال کر سکیں۔ اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ایپلیکیشن کی سیکیورٹی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں اور ڈیٹا کو کلاؤڈ بیس بنایا جائے، تاکہ نظام کو زیادہ محفوظ اور قابلِ بھروسہ بنایا جا سکے۔