افریقی ملک نائجر میں مسجد پر حملہ: 44 شہری شہید، تین روزہ سوگ کا اعلان

نائجر کی حکومت نے ملک کے جنوب مغرب میں اسلامک اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے مسلح گروہ کے حملے میں 44 شہریوں کی شہادت پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملہ کوکورو کے دیہی علاقے فامبیتا کوارٹر میں ایک مسجد پر ہوا، جہاں حملہ آوروں نے وحشیانہ طریقے سے نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ مزید 13 افراد زخمی ہوئے اور حملہ آوروں نے مسجد کے علاوہ ایک مقامی بازار اور گھروں کو بھی آگ لگا دی۔ وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق حملہ دوپہر کے وقت اس وقت کیا گیا جب لوگ نماز میں مصروف تھے۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے مسجد کو گھیر کر قتل عام کیا۔ حکومت نے حملے کے مرتکب افراد کو پکڑنے اور ان پر مقدمہ چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ واقعہ برکینا فاسو اور مالی کی سرحدوں کے قریب ایک ایسے علاقے میں پیش آیا جہاں اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ سے وابستہ جہادی گروہ کئی سالوں سے سرگرم ہیں۔ نائجر کی فوج خطے میں ان گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے، لیکن عام شہری اکثر تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ڈیٹا بیس کے مطابق، جولائی 2023 سے نائجر میں کم از کم 2,400 افراد مسلح تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
‘عالمی صورتحال کی سنگینی پر’ جاپان، چین اور جنوبی کوریا کا گٹھ جوڑ

جاپان، چین اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ سفارت کاروں نے ہفتے کے روز ٹوکیو میں ملاقات کی تاکہ علاقائی سلامتی اور اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ یہ بات چیت مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے پس منظر میں ہوئی۔ جاپانی وزیر خارجہ تاکیشی ایویا نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ چو تائی یول سے ملاقات کے آغاز میں کہا کہ عالمی صورتحال سنگین ہو رہی ہے اور ہم ایک اہم تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق، تقسیم اور تنازع سے بچنے کے لیے بات چیت اور تعاون مزید ضروری ہو گیا ہے۔ یہ وزارتی سطح کی پہلی میٹنگ تھی جو 2023 کے بعد ہوئی۔ توقع ہے کہ اس میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام اور تجارتی مسائل سمیت مختلف امور پر گفتگو کی جائے گی۔ یہ مذاکرات مستقبل میں سہ فریقی سربراہی اجلاس کی راہ ہموار کر سکتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال سیول میں منعقد ہوا تھا۔ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ چو تائی یول نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا میں امن و استحکام مشرقی ایشیا اور دنیا کے لیے ضروری ہے اور امید ظاہر کی کہ شمالی کوریا کے جوہری مسئلے پر کھل کر گفتگو ہوگی۔ اس سال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ بیجنگ آزاد تجارتی مذاکرات کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تینوں ممالک کو تاریخ کا دیانتداری سے سامنا کرنا چاہیے اور مشرقی ایشیائی تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ٹوکیو اور سیول واشنگٹن کے قریبی اتحادی ہیں اور اپنی سرزمین پر ہزاروں امریکی فوجیوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ یہ تینوں ممالک چین کو ایک علاقائی سیکیورٹی چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ ایویا اپنے چینی اور جنوبی کوریائی ہم منصبوں سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کریں گے، جن میں چین کے ساتھ چھ سال بعد پہلی اعلیٰ سطحی اقتصادی بات چیت شامل ہے۔ اس میٹنگ میں خاص طور پر چین کی جانب سے جاپانی سمندری غذا کی درآمد پر عائد پابندی پر بات چیت کی جائے گی، جو 2023 میں فوکوشیما جوہری پلانٹ سے گندے پانی کے اخراج کے بعد نافذ کی گئی تھی۔
بابر اور رضوان کی چھٹی: کیا ان کے متبادل مل گئے؟

پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی میچ شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے نو وکٹوں سے جیت لیا۔ اس کامیابی کے ساتھ، پاکستان نے پانچ میچوں کی سیریز میں دو میچ ہارنے کے بعد زبردست واپسی کی۔ آکلینڈ میں کھیلے گئے اس میچ میں نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 204 رنز بنائے اور پوری ٹیم آؤٹ ہو گئی۔ پاکستان نے یہ ہدف صرف 16 اوورز میں ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ حسن نواز، جو اپنا تیسرا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل رہے تھے، نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے اپنی پہلی انٹرنیشنل سنچری بنائی۔ انہوں نے صرف 45 گیندوں پر 10 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے 100 رنز مکمل کیے۔ یہ پاکستان کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی میں سب سے تیز سنچری تھی۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ بابر اعظم کے پاس تھا، جنہوں نے 49 گیندوں پر سنچری بنائی تھی۔
زمین کی بڑھتی پیاس: کیا ہم خشک سالی کو دعوت دے رہے ہیں؟

دنیا بھر میں ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد میٹھے پانی کے بحران اور اس کے حل کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں گلیشیئرز کی اب تک کی سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1975 سے اب تک گلیشیئرز سے 9,000 گیگاٹن برف کا نقصان ہو چکا ہے، جو جرمنی کے سائز کے برفانی بلاک کے برابر ہے اور اس کی موٹائی 25 میٹر ہے۔ عالمی گلیشیئر مانیٹرنگ سروس کے ڈائریکٹر مائیکل زیپ نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ “یہ منظرنامہ انسانیت کے لیے ایک اہم اشارہ ہے۔” گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث دنیا کے مختلف خطوں، جیسے قطب شمالی، الپس، جنوبی امریکا اور تبت کی سطح مرتفع میں سیلابوں کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ عمل موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدت اختیار کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں زراعت اور توانائی کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مائیکل زیپ کے مطابق پچھلے چھ برسوں میں سے پانچ میں سب سے زیادہ برف کا نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے، جب کہ 2024 میں اب تک 450 گیگاٹن برف پگھل چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق دو ارب سے زائد افراد صاف پانی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں اور ہر دو منٹ میں ایک پانچ سال سے کم عمر کا بچہ آلودہ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔” اس کے علاوہ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ “دنیا کے تین میں سے ایک اسکول میں پانی کی بنیادی سہولت نہیں ہے جو کہ اس مسئلے کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق پروونشنل ہیڈ واٹر ایڈ یوکے، فراقت علی نے کہا کہ پاکستان میں بارشیں تو ہوتی ہیں، مگر ہم اسے محفوظ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہیں۔ پانی اور موسم کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے اور گلیشیئرز اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے ان دریاؤں کا موسمی بہاؤ متاثر ہو رہا ہے، جو لاکھوں افراد کی زراعت، پینے کے پانی کی فراہمی اور ہائیڈرو پاور کے لیے بہت ضروری ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور پانی کے غیر مؤثر استعمال نے ہمیں اس نہج پر پہنچایا ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں پانی کا بحران شدت اختیار کرنے والا ہے۔ عالمی اکانونمک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “گلیشیئرز کی پگھلنے کے عمل کو روکنا یا اس سے بچنا ممکن نہیں ہے مگر ہم ان کے پگھلنے کے اثرات کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمیں گلیشیئرز کے پانی کو زیادہ مستحکم اور پائیدار طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لاکھوں افراد کو محفوظ پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے۔” پاکستان میں پانی کے غیر ضروری استعمال پر بات کرتے ہوئے فراقت علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص پانی کا ضیاع کرتا ہے، چولستان میں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں، لیکن لاہور کی ہر گلی میں گاڑیاں دھوتے لوگ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے پانی کی قدر نہ کی تو ساؤتھ افریقہ کے بعد پاکستان کا نمبر ہوگا۔ آج کے دور میں عالمی اکانومک فورم کا ‘اپ لنک پلیٹ فارم’ ایسے انٹرپرینیورز کی حمایت کرتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی انحطاط اور غربت جیسے عالمی چیلنجز کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں صرف 16 فیصد پانی پینے کے قابل ہے، جب کہ 84 فیصد آلودہ پانی استعمال ہو رہا ہے، جو صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے سندھ میں پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے پانی پینے پر مجبور ہیں، جب کہ پنجاب کے بہاولپور، خانیوال اور جھنگ کے کچھ علاقوں میں بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی کے ضیاع کی وجہ سے خشک سالی کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے لیے ہوں گی، یہ صرف پاکستان یا ایشیا کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی پانی کے معاملے پر تنازع شدت اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ بھارت پانی کے ذرائع پر کنٹرول کر رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف سندھ سے نکالی جانے والی نہروں کا مسئلہ تنازعے کا شکار ہے، وہیں دوسری جانب ڈیمز میں پانی کی خطرناک حد تک ہوتی کمی نے تشویش پیدا کردی ہے۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں بارشوں کی کمی کے باعث ڈیموں میں پانی کا لیول خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اور جب بھی کوئی نیا ڈیم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو سیاسی انتشار شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے واٹر اینڈ جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے تاکہ پانی کے تحفظ کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جا سکے، لیکن عملی اقدامات اب بھی ناکافی ہیں۔ عالمی سطح پر چند ایسے اقدامات کا ہونا نہایت ضروری ہے جن سے ان پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کو بچایا جاسکے اور پانی کے وسائل کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل سے پانی کے وسائل غیر متوقع اور غیر یقینی ہوتے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں طویل خشک سالی، مٹی کی نمی میں کمی اور پانی کے ذخیروں کی سطح میں کمی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کرے، عوامی سطح پر