پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی: معیشت میں بے یقینی پیدا ہوگئی

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں آج کاروباری ہفتے کے پہلے دن شدید مندی دیکھنے میں آئی، جس کی وجہ سے 100 انڈیکس میں 1400 سے زیادہ پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ دن کے آغاز سے ہی حصص بازار میں گراوٹ دیکھی گئی اور ایک موقع پر 100 انڈیکس 1412 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ ایک لاکھ 17 ہزار 29 پر ٹریڈ کر رہا تھا۔ یاد رہے کہ 20 مارچ کو 100 انڈیکس پہلی بار ایک لاکھ 19 ہزار 421 پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر پہنچا تھا، اس دن 66 کروڑ شیئرز کا لین دین ہوا تھا، جس کی کل مالیت 38 ارب روپے تھی۔ اسٹاک ایکسچینج ایک ایسی مارکیٹ ہے جہاں کمپنیوں کے شیئرز خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ جب کوئی کمپنی اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنے حصص عوام کو فروخت کرتی ہے، اور لوگ ان حصص کو خرید کر اس کمپنی میں شراکت دار بن جاتے ہیں۔ اگر اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ ہوتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کاروباری ادارے ترقی کر رہے ہیں، معیشت مستحکم ہے اور سرمایہ کار منافع کما رہے ہیں۔ اس سے ملک میں روزگار کے مواقع بھی بڑھتے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ جب اسٹاک مارکیٹ میں کمی آتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کاروں کو نقصان ہو رہا ہے، معیشت میں بے یقینی پیدا ہو رہی ہے اور بعض اوقات کاروباری ادارے مالی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف سرمایہ کاروں بلکہ عام لوگوں پر بھی اثر پڑتا ہے، کیونکہ معیشت کی سست روی سے روزگار کے مواقع کم ہو سکتے ہیں اور مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔
آئی پی ایل 2025: ’یہ ملے ہوئے ہیں‘ ایمپائر اور دھونی تنقید کی زد میں آگئے

چنئی سپر کنگز نے آئی پی ایل 2025 کے اپنے پہلے میچ میں شاندار فتح حاصل کی جہاں انہوں نے روایتی حریف ممبئی انڈینز کو چار وکٹوں سے شکست دے کر میدان مارا۔ ممبئی انڈینز کو 20 اوورز میں صرف 155 رنز پر محدود کرنے کے بعد CSK نے یہ ہدف 19.1 اوورز میں حاصل کرلیا۔ چنئی کی جانب سے راچن رویندرا اور روتراج گائیکواڑ کی شاندار اننگز نے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس شاندار فتح کے بعد ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس کی بنیاد پر شایقین کی جانب سے چنئی سپر کنگز پر بال ٹیمپرنگ اور میچ فکسنگ کے الزامات عائد کیے گئے۔ اس ویڈیو میں واضح طور پر دکھایا گیا کہ CSK کے تیز گیند باز خلیل احمد ایک بات چیت کے دوران گیند کو صاف کرتے ہیں، لیکن وہ تولیے کا استعمال نہیں کرتے، جس پر شائقین نے الزام عائد کیا کہ وہ گیند پر کسی ممنوعہ مادہ کو رگڑ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے دوسرے حصے میں ایک اور منظر دکھایا گیا جس میں CSK کے سابق کپتان MS دھونی اور میدان میں موجود امپائر کے درمیان گفتگو ہو رہی ہوتی ہے۔ دھونی امپائر سے کچھ بات کرتے ہیں جس پر امپائر ایک تھمبز اپ کے اشارے سے جواب دیتے ہیں۔ اگرچہ اس بات چیت کا مقصد واضح نہیں تھا لیکن شائقین نے اسے مشکوک سمجھا اور یہ قیاس آرائیاں شروع کر دیں کہ دھونی اور امپائر کسی غلط عمل میں ملوث ہیں۔ ان الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا گیا ہے کیونکہ چنئی سپر کنگز نے اس میچ میں انتہائی بہترین کھیل پیش کیا تھا اور ممبئی انڈینز کو ہر لحاظ سے شکست دی۔ CSK کی جیت کے ساتھ وہ آئی پی ایل 2025 کی پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن پر آ گئے ہیں جبکہ ممبئی انڈینز ابھی تک کسی بھی میچ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ مزید پڑھیں: ویرات کوہلی پر تنقید یا وجہ کچھ اور؟ عرفان پٹھان آئی پی ایل کے کمنٹری پینل سے باہر
یورپ میں ٹی بی کا بڑھتا ہوا خطرہ، بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں

دنیا بھر میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجی ہے جب ٹی بی جیسی بیماری جو دنیا کی سب سے بڑی مہلک بیماریوں میں سے ایک ہے اور اس بیماری نے یورپ میں ایک نئے خطرے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2023 میں یورپ کے 53 ممالک کے بچوں میں ٹی بی کیسز میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے 7,500 سے زائد بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ رپورٹ WHO کی یورپی ریجن کی جانب سے جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں میں ٹی بی کے کیسز میں 650 سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ WHO کے یورپی ریجن کے ڈائریکٹر ‘ہانس ہنری کلوگے’ نے اس خطرے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی علامت ہے کہ ٹی بی کے خلاف کی جانے والی پیشرفت اب بھی کمزور ہے۔” ٹی بی جو ایک خطرناک بیکٹیریل بیماری ہے اور عام طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے اور بچوں میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں اضافے نے عالمی ادارہ صحت کو ایک نئی فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ WHO کے ایڈوائزر ‘اسکار یڈلبایف’ نے اس معاملے کو مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ اضافہ ایک طرف تشخیص کے بڑھتے ہوئے امکانات کو ظاہر کرتا ہے لیکن دوسری طرف یہ ممکنہ طور پر یوکرین اور روس کی جنگ کے سبب سرحدوں کے پار لوگوں کی نقل و حرکت میں اضافے کا بھی نتیجہ ہو سکتا ہے جہاں اس بیماری کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: آگمینٹڈ ریئلٹی انقلاب: یہ صحت، تعلیم اور کھیلوں کو کس طرح تبدیل کر رہا ہے؟ یہ رپورٹ ایک اور اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بچوں میں ٹی بی کے کیسز میں مسلسل اضافے کا تیسرا سال ہے۔ WHO نے اس صورتحال کو ‘تشویش ناک’ قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسی دوران WHO نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ عالمی سطح پر ٹی بی کی روک تھام کے لیے فنڈنگ میں کمی آ رہی ہے۔ یہ کمی خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جہاں ٹی بی کی روک تھام کے پروگرامز کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس فنڈنگ میں کمی کے سبب بیماری کی روک تھام کے لیے درکار ٹیسٹ، علاج اور ضروری وسائل کی فراہمی میں مشکلات آ رہی ہیں جو بالآخر ٹی بی کے مہلک اور مشکل سے علاج ہونے والے اقسام کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپی یونین میں بچوں کے یہ کیسز تمام ٹی بی کے کیسز کا 4.3 فیصد ہیں جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ٹی بی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرناک بیماری کے پھیلاؤ کو روک کر لاکھوں جانوں کو بچایا جا سکے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی یہ رپورٹ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹی بی جیسے پھیلنے والے بیماریوں کا مقابلہ عالمی سطح پر تعاون سے ہی ممکن ہے۔ مزید پڑھیں: صدقہ فطر کن لوگوں پر لازم ہے، یہ کب اور کیسے دیا جاتا ہے؟
انڈین پنجاب کو ‘خالصتان’ بناؤ، امریکا میں ہزاروں سکھوں کا ریفرنڈم

امریکا میں ہونے والے ریفرنڈم میں ہزں سکھو نے انڈین پنجاب کو ‘خالصتان’ بنانے کے حق میں رائے دی ہے۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں منعقدہ ریفرنڈم میں انڈین پنجاب کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کے حق میں 35 ہزار سے زائد سکھوں نے ووٹ ڈالا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا بھر سے سکھ برادری کے افراد بڑی تعداد میں لاس اینجلس کے سوک سینٹر پہنچے، جہاں صبح نو بجے سے ووٹنگ کا آغاز ہوا اور دن بھر بھرپور جوش و خروش کے ساتھ جاری رہا۔ ریفرنڈم کے اختتام پر سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے اعلان کیا کہ اگلا خالصتان ریفرنڈم 17 اگست کو واشنگٹن ڈی سی میں ہوگا۔ انہوں نے اس عمل کو ممکن بنانے پر ٹرمپ انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سکھ کمیونٹی انڈیا کو واضح پیغام دے رہی ہے کہ وہ انڈیا کے تسلط میں نہیں رہنا چاہتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی گولیوں کا جواب سکھ اپنی ووٹوں کی طاقت سے دیں گے۔ اس موقع پر سکھ رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وقت آ چکا ہے کہ سکھ اپنی آزاد ریاست قائم کریں۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر شدید تنقید کی اور الزام لگایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک میں سکھوں پر قاتلانہ حملوں میں ملوث ہے۔ تاہم، ان حملوں کے باوجود خالصتان کی تحریک کو روکا نہیں جا سکتا۔ سکھ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ 35 ہزار سے زائد سکھوں کی ووٹنگ میں شرکت اس تحریک کی طاقت اور مقبولیت کا ثبوت ہے۔ ان کے مطابق، یہ ریفرنڈم ایک واضح پیغام ہے کہ سکھ برادری اپنی علیحدہ شناخت کے لیے متحد ہے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتی ہے۔
“انڈین روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی بن گیا”

پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا کی کرنسی ‘روپیہ’ اس وقت ایشیا کی بہترین پرفارم کرنے والی کرنسی بن گیا ہے۔ مارچ کے مہینے میں روپیہ اپنی بہترین کارکردگی کی طرف گامزن ہے اور یہ تقریباً چار سالوں میں اس کی سب سے بڑی ماہانہ کارکردگی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کرنسی کی کامیابی کا باعث غیرملکی سرمایہ کاری اور پوزیشنز کے ان وائنڈنگ کا مجموعہ ہے جبکہ 25 مارچ کو روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 85.90 تک پہنچ گیا۔ اس کامیابی کے باوجود انڈین مارکیٹ کے کچھ ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روپے کی حالیہ ترقی میں ایک بڑا خطرہ چھپا ہوا ہے جس کا حساب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آئندہ ہفتے متوقع جوابی ٹیرفز کے اثرات میں شامل نہیں کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی جوابی ٹیرف کا خطرہ روپے کی قیمتوں پر بڑے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ایم یو ایف جی بینک کے مطابق روپے کی حالیہ مضبوطی میں امریکی صدر کی جانب سے ہندوستان پر عائد ہونے والے ٹیرف کا مناسب تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ اگر امریکا انڈیا کے تمام درآمدات پر یکساں طور پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرتا ہے تو اس کے انڈیا کی معیشت پر منفی اثرات پڑنے کا امکان ہے اور اس سے 50 سے 60 بیسس پوائنٹس تک نقصان ہو سکتا ہے جو کہ ایک سنگین صورتحال ہو گی۔ امریکی حکومت کی طرف سے 2 اپریل کو مختلف ممالک پر جوابی ٹیرف کے اعلان کا امکان ہے اور ٹرمپ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا کو بھی اسی سطح پر ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا جو وہ امریکا سے درآمدات پر عائد کرتا ہے۔ امریکی برآمدات جو انڈیا کو 2024 میں تقریباً 42 ارب ڈالر کی مالیت میں ہوں گی ان پر انڈین ٹیرف کی شرحوں کے باعث مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں چوبی مصنوعات اور مشینری پر 7 فیصد، جوتوں اور نقل و حمل کے سامان پر 15 سے 20 فیصد اور خوراک کی مصنوعات پر 68 فیصد تک ٹیرف عائد ہیں۔ اگرچہ روپیہ اس وقت اپنی تاریخ کی بہترین کارکردگی دکھا رہا ہے مگر امریکی جوابی ٹیرف کی صورت میں آنے والی غیر متوقع ہلچل اس کرنسی کی ترقی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: بینکوں سے ونڈ فال ٹیکس وصولی، قومی خزانے میں 31 ارب روپے جمع
سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے دو دن کی اجازت دے دی گئی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے جیل میں ملاقات کے معاملے پر اہم فیصلہ سناتے ہوئے منگل اور جمعرات کو دو دن ملاقات کی اجازت بحال کر دی ہے۔ عدالت نے واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ ملاقات کے بعد کسی قسم کی میڈیا ٹاک نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا کہ عمران خان کے کوآرڈینیٹر سلمان اکرم راجہ جو نام دیں گے، صرف وہی افراد ملاقات کے مجاز ہوں گے۔ یہ فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس محمد اعظم پر مشتمل لارجر بینچ نے سنایا۔ دوران سماعت، عمران خان کے وکیل ظہیر عباس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ جیل حکام ایس او پیز کے مطابق ملاقات کی اجازت نہیں دے رہے، حالانکہ انٹرا کورٹ اپیل میں طے ہو چکا ہے کہ ہر منگل اور جمعرات کو ملاقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ 20 مارچ کو بھی ایس او پیز کے مطابق ملاقات نہیں کرائی گئی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی شکایت کی کہ جیل حکام جمعرات کے روز ملاقات کی اجازت نہیں دے رہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے وکیل نوید ملک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ دسمبر تک عمران خان کو ہفتے میں دو دن ملاقات کی اجازت دی جا رہی تھی، مگر جنوری میں سزا سنائے جانے کے بعد ان کا اسٹیٹس تبدیل ہو چکا ہے، جس کے باعث ملاقاتوں کے دن کم کیے گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر جیل انتظامیہ نے دو دن کے بجائے ایک ہی دن میں دو ملاقاتیں کرانے کا انتظام کیا تھا، کیونکہ جیل رولز کے مطابق سپرنٹنڈنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ملاقات کے دن طے کرے۔ عدالت نے اس بات پر سوال اٹھایا کہ کیا ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت نہ کرنے کی یقین دہانی پر ہفتے میں دو دن ملاقات کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ جیل حکام نے جواب دیا کہ اگر ملاقاتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے تو وہ اس پر اعتراض نہیں کریں گے۔ قائم مقام چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیے کہ ملاقات کے بعد میڈیا ٹاک کی کوئی ضرورت نہیں، لوگ ملاقات کریں اور چلے جائیں، باہر آکر شو بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ملاقات کے بعد جیل کے باہر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کی جائے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد عدالت نے عمران خان کو منگل اور جمعرات کے روز جیل میں ملاقات کی اجازت دینے کا حکم جاری کر دیا۔ مزید برآں، عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ اگر عمران خان اپنی بچوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد جیل حکام کو سختی سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مقررہ دنوں میں ملاقات کی اجازت دیں اور کسی غیر ضروری رکاوٹ کا باعث نہ بنیں۔ اس فیصلے سے جہاں عمران خان کے حامیوں کو ریلیف ملا ہے، وہیں یہ شرط بھی عائد کر دی گئی ہے کہ ان ملاقاتوں کو کسی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
مصطفیٰ عامر قتل کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد کو جیل بھیج دیا گیا

کراچی کے عدالتی مجسٹریٹ نے اتوار کے روز مصطفی عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد ‘کامران اصغر قریشی’ کو منشیات اور غیر لائسنس شدہ پستول کے ساتھ گرفتار ہونے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ یہ گرفتاری ایک انسپیکشن آپریشن کے دوران ہوئی تھی جس میں کامران قریشی کے قبضے سے 200 گرام آئس (میتھیمفیٹامین) اور ایک 9 ایم ایم پستول برآمد ہوا تھا۔ کامران قریشی کو حاضری کے لیے اسپیشل ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں انسپیکٹر ‘حاکم محمد اقبال’ نے ملزم کی جسمانی ریمانڈ میں مزید توسیع کی درخواست کی جبکہ دفاعی وکیل نعمان علی نے مخالفت کی۔ ذرائع کے مطابق وکیل نے عدالت میں استدلال کیا کہ پولیس کی جانب سے ملزم کی جسمانی حراست کی ضرورت نہیں ہے اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔ دفاعی وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے آپریشن کے دوران کسی بھی ویڈیو ریکارڈنگ کا اہتمام نہیں کیا اور مزید سوال اٹھایا کہ اگر قریشی ایک بنگلے کا رہائشی تھا تو وہ منشیات کو باہر کیوں لے کر آیا؟ اس کا استدلال تھا کہ کسی بھی شخص کو اپنے بنگلے میں موجود منشیات کو باہر لے جانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ عدالت نے اس کیس کی مزید تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے انسپکٹر کو تحقیقات کی رپورٹ 173 سی آر پی سی کے تحت جلدی پیش کرنے کا حکم دیا۔ یہ بھی پڑھیں: امن و خوشحالی کی دعا، صدر آذربائیجان کا شہباز شریف کو خصوصی خط جب اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (AVCC) سرچ آپریشن کے دوران ایک اشتہاری مجرم کی تلاش میں تھا۔ اسی دوران پولیس کو اطلاع ملی کہ کامران اصغر قریشی اپنی رہائش کے باہر کھڑا ہے اور کسی شخص کا انتظار کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کے پاس ایک غیر قانونی ہتھیار بھی موجود تھا۔ اس اطلاع پر پولیس نے فوری کارروائی کی اور قریشی کو حراست میں لے لیا۔ تلاشی کے دوران پولیس نے اس کے بیگ سے 200 گرام آئس (میتھیمفیٹامین) کی ایک پیکٹ اور ایک 9 ایم ایم پستول کے ساتھ پانچ گولیاں برآمد کیں۔ اس کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں ایک کیس کنٹرول نارکوٹکس سبسٹینس ایکٹ 2022 کے تحت اور دوسرا سندھ آرمز ایکٹ 2013 کے تحت شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب قریشی کی سرگرمیاں مشکوک معلوم ہوئیں اور اسے خطرناک مجرموں کے ساتھ جوڑا گیا۔ اس واقعہ کے بعد قریشی نے عدالت میں پولیس کی طرف سے بدسلوکی کے بارے میں شکایت کی، جس کے بعد عدالت نے اس کا میڈیکل معائنہ کرانے کا حکم دے دیا۔ مزید پڑھیں: ‘بجلی کے ٹیرف میں کمی کے لیے نیا پیکیج جلد عوام کے سامنے ہوگا’ وزیراعظم کا اعلان
پانچ لاکھ تارکینِ وطن کی قانونی حیثیت ختم: ٹرمپ انتظامیہ کا ملک چھوڑنے کا حکم

امریکی حکومت نے 5 لاکھ سے زائد تارکین وطن کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور انہیں 24 اپریل تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا اطلاق ان افراد پر ہوگا جو کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا سے امریکا آئے تھے۔ یہ لوگ سابق صدر جو بائیڈن کی جانب سے شروع کیے گئے ایک خصوصی امیگریشن پروگرام کے تحت امریکا میں داخل ہوئے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں واپسی کے بعد تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کا عندیہ دیا تھا اور اس فیصلے کو ان کے اسی عزم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے ملک بدری کی سب سے بڑی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد خاص طور پر لاطینی امریکی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو روکنا ہے۔ صدارتی حکم نامہ منگل کو جاری کیا جائے گا اور یہ حکم وفاقی رجسٹر میں شائع ہونے کے 30 دن بعد نافذ العمل ہوگا۔ اس کے بعد متاثرہ افراد کو امریکا چھوڑنا ہوگا، بشرطیکہ انہوں نے کوئی دوسری قانونی امیگریشن حیثیت حاصل نہ کر لی ہو جو انہیں ملک میں رکنے کی اجازت دے۔ ایک فلاحی تنظیم جو امریکا میں پناہ کے متلاشی افراد کی مدد کرتی ہے، نے متاثرہ افراد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کسی امیگریشن وکیل سے رجوع کریں۔ کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے شہریوں کے لیے جنوری 2023 میں ایک خصوصی پروگرام متعارف کرایا گیا تھا جس کے تحت ہر ماہ زیادہ سے زیادہ 30 ہزار افراد کو دو سال کے لیے امریکا آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب اس پروگرام کے تحت آنے والے افراد اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھیں گے اور انہیں امریکا چھوڑنا ہوگا۔
‘بجلی کے ٹیرف میں کمی کے لیے نیا پیکیج جلد عوام کے سامنے ہوگا’ وزیراعظم کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ بجلی کے ٹیرف میں کمی کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی تیار کی جارہی ہے جس کا اعلان بہت جلد کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے پاور ڈویژن کے متعلق امور پر جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی میں خاص طور پر سولر انرجی کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وزیراعظم نے اجلاس کے دوران کہا کہ “سولر انرجی کی فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے”۔ انہوں نے حکام کو ہدایت دی کہ عوام میں سولرائزیشن پالیسی کے بارے میں پائی جانے والی تمام ابہاموں کو دور کرنے کے لیے مکمل حقائق اور اعداد و شمار پیش کیے جائیں۔ وزیراعظم نے پاور ڈویژن کو حکم دیا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے اور جنریشن کمپنیوں سے متعلق تمام قانونی اور دیگر مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کے بعد عوام کو مزید ریلیف دیا جائے گا اور بجلی کی قیمتوں میں کمی لائی جائے گی۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ “ایک ایسا پیکیج تیار کیا جا رہا ہے جو بجلی کے ٹیرف کو کم کرے گا اور یہ بہت جلد عوام کے سامنے ہوگا”۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن اور پیٹرولیم ڈویژن کے درمیان ہم آہنگی کو مزید بہتر بنایا جائے تاکہ توانائی کے شعبے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ اس فیصلے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو بجلی کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کی تیار ہے اور عوام کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ مزید پڑھیں: امن و خوشحالی کی دعا، صدر آذربائیجان کا شہباز شریف کو خصوصی خط
ٹرائل سے پہلے استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو جیل منتقل: ترکی میں احتجاج جاری

اتوار کے روز ترکی کی ایک عدالت نے استنبول کے میئر اور صدر طیب اردگان کے بڑے سیاسی حریف اکریم امام اوغلو کو بدعنوانی کے مقدمے میں جیل بھیج دیا۔ اس فیصلے کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے، جو گزشتہ دہائی میں ملک کے سب سے بڑے مظاہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ حزب اختلاف، یورپی رہنماؤں اور لاکھوں مظاہرین نے اس کارروائی کو سیاسی اور غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ عدالت میں ہونے والی پیش رفت سے ظاہر ہوا کہ یہ معاملہ اردگان حکومت کے خلاف عوامی مخالفت کو مزید بڑھا رہا ہے، جو گزشتہ 22 سالوں سے ترکی پر حکومت کر رہی ہے۔ ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے مطابق، تقریباً 15 ملین افراد نے ملک بھر میں پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا تاکہ آئندہ صدارتی انتخابات میں امام اوغلو کو اپنا امیدوار نامزد کریں یا ان کی حمایت کا اعلان کریں۔ ان میں 13 ملین غیر ممبران بھی شامل تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام اوغلو کو پارٹی سے باہر بھی وسیع عوامی حمایت حاصل ہے۔ امام اوغلو نے اپنے خلاف الزامات کو “جھوٹے اور بے بنیاد” قرار دیا اور ملک بھر میں احتجاج کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب مل کر اس غیر منصفانہ فیصلے کو اور جمہوریت پر لگے اس داغ کو مٹائیں گے۔ عدالتی حکم کے بعد امام اوغلو کو پولیس کے قافلے میں سلیوری جیل منتقل کر دیا گیا۔ وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ استنبول کے میئر کو دو دیگر ضلعی میئروں کے ساتھ ان کے عہدوں سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون کے مطابق کی گئی ہے اور ترکی کی عدالتیں آزاد ہیں۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اردگان حکومت کے سیاسی حریفوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ترکی کی معیشت میں بھی ہلچل دیکھی گئی۔ نائب صدر Cevdet Yilmaz اور مرکزی بینک کے گورنر Fatih Karahan نے مارکیٹ میں پیدا ہونے والی بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امام اوغلو کی جیل میں منتقلی کے بعد ترکی کے مالیاتی اثاثوں میں مزید مندی آ سکتی ہے۔ ہفتے کے روز حکومت نے ملک گیر اجتماعات پر پابندی میں مزید چار دن کی توسیع کر دی، لیکن اس کے باوجود اتوار کو بڑے شہروں میں احتجاج جاری رہا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور کچھ افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن زیادہ تر احتجاج پرامن رہے۔ یہ مسلسل پانچویں رات تھی جب حکومت مخالف مظاہرے دیکھنے میں آئے۔