کینیڈا کے انتخابات میں چین اور انڈیا کی مداخلت کا خطرہ، سیکیورٹی ایجنسی نے خبردار کردیا

کینیڈا کی سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ آئندہ 28 اپریل کو ہونے والے جنرل انتخابات میں چین اور انڈیا کی غیر ملکی مداخلت کے خطرات بڑھ گئے ہیں، جبکہ روس اور پاکستان بھی اس ضمن میں ممکنہ طور پر مداخلت کرسکتے ہیں۔ کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس (سی ایس آئی ایس) کی جانب سے یہ انتباہ اس وقت جاری کیا گیا ہے جبکہ کینیڈا کے چین اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ سی ایس آئی ایس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ‘ونیسا لوئڈ’ نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عالمی سطح پر دشمن ممالک انتخابات میں مداخلت کے لیے اب جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کا استعمال کر رہے ہیں اور چین کی جانب سے کینیڈا کے جمہوری عمل میں مداخلت کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین خاص طور پر AI کی مدد سے انتخابات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرسکتا ہے جیسے کہ اس نے ماضی میں متعدد ممالک میں کیا ہے۔ یہ انتباہ ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب کینیڈا اور چین کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں اور اس ماہ کے آغاز میں چین نے کینیڈا کے زرعی اور خوراکی مصنوعات پر 2.6 بلین ڈالر سے زائد کی ٹیکس عائد کردیئے ہیں جو کینیڈا کی جانب سے چینی برقی گاڑیوں اور اسٹیل و ایلومینیم پر عائد ٹیکس کا جواب تھا۔ اس کے علاوہ چین نے گزشتہ سال چار کینیڈین شہریوں کو منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات میں سزائے موت دے دی تھی جس پر کینیڈا نے شدید احتجاج کیا۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا شام کے دو فوجی اڈوں پر حملہ، ایرانی افواج اور حزب اللہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ دوسری جانب انڈیا کے ساتھ کینیڈا کے تعلقات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ گزشتہ سال کینیڈا نے انڈیا کے چھ سفارتی افسران کو ملک سے نکال دیا تھا جن پر الزام تھا کہ وہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔ سی ایس آئی ایس نے انڈیا پر بھی کینیڈا کے اندر جمہوری عمل میں مداخلت کی صلاحیت اور نیت رکھنے کا الزام لگایا۔ کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ غیر ملکی مداخلت ہمیشہ نتائج پر اثر انداز نہیں ہوتی مگر اس کا اثر عوامی اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور جمہوری اداروں کی ساکھ کو متاثر کرسکتا ہے۔ ونیسا لوئڈ نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ بہت مشکل ہے کہ غیر ملکی مداخلت کو براہ راست انتخابی نتائج سے جوڑا جائے لیکن ان اقدامات سے جمہوری عمل کی ساکھ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ سی ایس آئی ایس نے روس اور پاکستان کے حوالے سے بھی خبردار کیا کہ یہ دونوں ممالک بھی کینیڈا کے انتخابات میں مداخلت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں حالانکہ ان ممالک کا ملوث ہونے کا امکان نسبتاً کم ہیں۔ اس تمام صورتحال میں کینیڈا کی حکومت اور سیکیورٹی ادارے انتخابات کے دوران غیر ملکی مداخلت کے خطرات کو سنجیدہ لے رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کینیڈا کے عوام کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کے جمہوری عمل کو غیر ملکی طاقتوں سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کینیڈا کے انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کے یہ خدشات عالمی سطح پر جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں اور اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور عالمی سیاست کا گہرا تعلق جمہوری عمل کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: کیا نئی امریکی ویزا پالیسی پاکستان کو متاثر کرے گی؟

کیا نئی امریکی ویزا پالیسی پاکستان کو متاثر کرے گی؟

نئی امریکی انتظامیہ نے پاکستان پرسفری پابندیاں لگانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، اس حوالے امریکی وزارت خارجہ کی اردو ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ نے واضح پیغام جاری کردیا۔ اردو ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی معاشرے کا اہم حصہ ہیں، داخلے پر پابندی کا فیصلہ نہیں ہوا، ویزا پروگرام پرازسرنو نظرثانی کی جائے گی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ویزا پابندیوں کیلئے مختلف ملکوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ امریکا میں داخلے کی درخواست دینا ہو تو درخواست دہندہ کو تمام باتیں درست بتانی چاہئیں، غیر قانونی طور پر امریکا میں داخلے کی صورت میں سزا ملے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے کا مقصد امریکا کو غیرملکی دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہے۔۔۔صدر ٹرمپ نے اسٹیٹ یونین سے خطاب میں پاکستان کے تعاون کو سراہا تھا، امریکا میں آباد پاکستانی معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔  امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کے اٹھائے گئے کسی بھی اقدامات سے پاکستان کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کا اطلاق تمام اقوام پر عالمگیر طور پر ہوگا۔ مزید پڑھیں: بنگلہ دیش سے بڑھتے پاک-چین تعلقات سے انڈیا خوفزدہ پاکستانی امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے میکلوڈ نے امریکی معاشرے میں ان کے تعاون کی تعریف کی اور خواہشمند مسافروں کو قانونی راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ ویزا پابندیوں سے متعلق زیادہ تر قیاس آرائیاں غیر تصدیق شدہ ہیں، کیونکہ انتظامیہ فی الحال صرف جائزہ لے رہی ہے۔ یاد رہے چند روز قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس کانفرنس میں پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کے بیان کی تردید کی تھی، پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نے ممکنہ امریکی سفری پابندی کو افواہ قرار دیا تھا۔ پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے امریکی ترجمان سے کچھ ملکوں پر ممکنہ سفری پابندی پر سوال کرتے ہوئے کہا تھا کیا سفری پابندی جاری کرنے کی آج ڈیڈ لائن ہے۔ ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ میں آپ کو تفصیلات نہیں بتاسکتی لیکن یہ آج نہیں ہورہا، امریکا آنے والوں کیلئے ویزا پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

اسرائیل کا شام کے دو فوجی اڈوں پر حملہ، ایرانی افواج اور حزب اللہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ

اسرائیلی فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے شام کے صوبہ حمص میں موجود دو فوجی اڈوں “تدمر” اور “ٹی 4” کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے ان اڈوں کو ایرانی افواج اور لبنان کے حزب اللہ کے ساتھ تعلقات کی بنا پر نشانہ بنایا جو سابقہ شامی حکومت کے اتحادی ہیں۔ اسرائیل نے حالیہ مہینوں سے شام میں فضائی حملے تیز کر دیے ہیں اور اس کا مقصد ان فوجی مراکز کو تباہ کرنا ہے جو ایران اور حزب اللہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حملے شام میں جاری جنگ کی شدت میں اضافے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جہاں اسرائیل اپنے علاقائی اثرات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شام کے صوبہ حمص میں واقع “تدمر” اور “ٹی 4” ایئر بیسوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں ایئر بیس شام میں اسلحہ کی منتقلی کے اہم راستے سمجھے جاتے ہیں جو علاقے کی فوجی حرکات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے حملے ایران کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور شام میں اس کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے کے لیے ہیں۔ دسمبر 8 کو باغیوں نے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے شام میں اپنی فضائی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اسرائیل کی فوجی حکمت عملی میں ایک اس وقت تبدیل ہوئی جب “ہیات تحریر الشام” (HTS)، جو کہ ایک اسلامسٹ گروہ ہے اور سابقہ طور پر القاعدہ سے منسلک تھا اور یہ گروپ شام کے جنوبی حصے میں فعال ہوگیا۔ اسرائیل نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ HTS یا اس سے منسلک گروپوں کو شام کے جنوبی علاقے میں کسی بھی قسم کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا اور اسرائیل نے اس علاقے کو غیر فوجی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیل نے حالیہ عرصے میں اپنے فضائی حملوں کی شدت میں اضافہ کیا ہے خاص طور پر لاذقیہ اور لبنانی سرحد کے قریب علاقے میں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کی شام میں پختہ موجودگی اور خطے کی عدم استحکام کی صورتحال نے اس کی سیکیورٹی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں: فلم ساز کی گرفتاری پراسرائیل غصے سے پاگل، سات بچوں سمیت مزید 23 فلسطینی شہید کردیے

طاقت کے نشے میں بدمست اسرائیل کی بمباری، سات بچوں سمیت مزید 23 فلسطینی شہید

اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں پرظلم وستم میں کمی نہ آئی، تازہ حملوں میں سات بچوں سمیت 23 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اسرائیلی فورسز نے ایک ہفتے میں دوسری بار پالمیرا شہر کے قریب دو شامی فضائی اڈوں پر بمباری بھی کی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے حسام شباط کے قتل اور آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز حمدان بلال کی مقبوضہ مغربی کنارے میں گرفتاری پر غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اکتوبر2023 سے اب تک  کم از کم 50,082 فلسطینیوں کی شہادت ہوچکی ہے اور 113,408 زخمی ہیں۔  غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے شہدا کی تعداد 61,700 سے زیادہ بتائی ہے، میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملبے تلے لاپتہ ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ حماس حملوں میں اب تک اسرائیل میں کم از کم 1,139 افراد مارے گئے اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنایا گیا۔ مزید پڑھیں: جنگ بندی تجویز: امریکا اور حماس کا اتفاق، اسرائیل کے ردعمل کا انتظار دوسری جانب غزہ کی سرزمین پر جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس دوران مصر نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کی صورت حال کو بحال کرنا ہے۔ یہ تجویز گزشتہ ہفتے پیش کی گئی تھی اور غزہ میں جاری خون ریز جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس تجویز کو دونوں طرف سے امریکا اور حماس نے پذیرائی دی ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

نیوزی لینڈ نے پاکستان کے خلاف ون ڈے ٹیم کا اعلان کر دیا، مچل سینٹنر کی جگہ ٹام لیتھم کپتان مقرر

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے ٹاپ آرڈر بیٹر ٹام لیتھم، جو اس وقت اپنی عمدہ بیٹنگ سے شائقین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، اور اب پاکستان کے خلاف آنے والی تین میچوں کی ون ڈے سیریز میں نیوزی لینڈ کے کپتان کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ نیوزی لینڈ کے موجودہ وائٹ بال کپتان میچل سینٹنر جو اس وقت ان فٹ ہیں اور ان کی غیرموجودگی میں ٹام لیتھم کی قیادت میں ٹیم میدان میں اترے گی۔ اس سیریز کے لیے نیوزی لینڈ کے سکواڈ میں کچھ اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جہاں ایک طرف ٹیم میں شامل ہونے والے آٹھ کھلاڑیوں نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی تھی اور فائنل تک پہنچے تھے، وہیں کچھ نئے چہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے سب سے نمایاں نام نک کیلی اور محمد عباس، جو پہلی بار نیوزی لینڈ ٹیم کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ اس سیریز میں کچھ بڑے کھلاڑی جیسے کہ میچل سینٹنر، راچن رویندرا، ڈیون کونوے اور گلین فلپس کی غیرموجودگی محسوس کی جائے گی، جو اپنے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے معاہدوں کی وجہ سے اس سیریز میں شریک نہیں ہو سکے۔ اس کے علاوہ، کین ولیمسن بھی ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہے کیونکہ انہوں نے خود کو دستیاب نہیں کیا۔ اس سیریز میں نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن اپ میں کچھ نئے چہرے اور ایک مضبوط ترتیب ہوگی۔ نک کیلی اور ول یانگ اوپننگ کی ذمہ داری سنبھالیں گے جبکہ مڈل آرڈر میں ڈیرل میچل، مائیکل بریسویل اور نیتھن اسمتھ ٹیم کے بیٹنگ اسٹینڈارڈز کو بلند کریں گے۔ دوسری جانب بالنگ کے شعبے میں نیوزی لینڈ کو کچھ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جیسے کہ فاسٹ بولر میٹ ہیری اور کائل جیمیسن دونوں اس سیریز میں نہیں ہوں گے۔ اور ان کی غیرموجودگی میں ول او روک، جیکب ڈفی، نیتھن اسمتھ اور بین سیئرز کو میدان میں اتارا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسپن ڈپارٹمنٹ میں مائیکل بریسویل کا ساتھ دینے کے لیے 22 سالہ آکلینڈ اکیس اور لیگ اسپنر آدی اشوک کی دوبارہ شمولیت ہوئی ہے جنہوں نے 2023 میں بنگلہ دیش کے خلاف اپنا ڈیبیو کیا تھا۔ یہ سیریز 29 مارچ کو نیپر میں شروع ہوگی اور اس کے بعد 2 اپریل کو ہیملٹن اور 5 اپریل کو ماؤنٹ مانگنوئی میں دوسرے اور تیسرے میچز ہوں گے۔ نیوزی لینڈ کو اس وقت پاکستان کے خلاف جاری ٹی 20 سیریز میں 3-1 کی فیصلہ کن برتری ہے۔ مزید پڑھیں: پی ایس ایل 10: آسٹریلوی کھلاڑی کے ہاتھوں میں کراچی کنگز کا مقدر

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی والدہ انتقال کرگئیں

آ جنرل عاصم منیر  کی والدہ انتقال کر گئیں:آرمی چیف نے نمازہ جنازہ پڑھایا آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی والدہ ماجدہ انتقال کر گئیں ، ان کی نماز جنازہ راولپنڈی میں ادا کر دی گئی، آرمی چیف نےاپنی والدہ کا نماز جنازہ خود پڑھایا۔ جنرل سید عاصم منیر کی والدہ ماجدہ کی نماز جنازہ میں صدر آصف زرداری،وزیراعظم شہباز شریف،سابق وزیراعظم نواز شریف،چئیر مین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے شرکت کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق وفاقی وزراء رانا ثنا ء اللہ،محسن نقوی،خواجہ آصف،مسلح افواج کےسربراہان، سابق آرمی چیف  جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ،سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ  اشفاق پرویز کیانی نے  بھی شرکت کی۔ صدر مملکت آصف زرداری نے آرمی چیف کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دکھ کی گھڑی میں میری ہمدردیاں اور دعائیں سوگوار خاندان کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی غمزدہ خاندان کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “اس دکھ کی گھڑی میں ہم ان کے دکھ میں شریک ہیں اور اللہ سے دعا گو ہیں کہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔” اس کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس غمگین موقع پر جنرل عاصم منیر اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مرحومہ کی بلند درجات کے لئے دعا کی اور کہا کہ “ہم سب اس غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالٰی ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا کرے۔” چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے آرمی چیف کی والدہ کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “جنرل عاصم منیر کی والدہ کا انتقال ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالٰی ان کے خاندان کو صبر دے۔” اسی طرح سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی اس موقع پر تعزیت کی اور کہا کہ “والدین کا انتقال ہمیشہ ایک ناقابل بیان درد ہوتا ہے۔ اس غم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں اور جنرل عاصم منیر کے ساتھ ہیں۔” سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے بھی جنرل عاصم منیر کی والدہ کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ “ماں کی رحلت ایک ایسا صدمہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان کو صبر دے اور مرحومہ کی مغفرت کرے۔” وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بھی جنرل عاصم منیر کی والدہ محترمہ کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے سوگوار خاندان سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “اس دکھ کی گھڑی میں ہم ان کے ساتھ ہیں اور اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔” پوری قوم اس دکھ میں ان کے ساتھ ہے اور اللہ سے دعا گو ہے کہ مرحومہ کی مغفرت کرے اور سوگوار خاندان کو صبر دے ۔ مزید پڑھیں: ‘بیٹیوں کی گرفتاری اور ہماری ماؤں بہنوں کی بے حرمتی’ اختر مینگل کا بلوچستان میں لانگ مارچ کا اعلان

لاہور میں خاتون سے اجتماعی زیادتی: تین ملزمان گرفتار، چوتھے کی تلاش جاری

لاہور کے علاقے چونگ میں ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا، جہاں درندہ صفت ملزمان نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین ملزمان کو گرفتار کر لیا جبکہ چوتھے کی تلاش کے لیے چھاپے جاری ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایک متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ ملزم وسیم اکرم نے اسے ساہیوال سے لاہور بلایا اور اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر لے گیا، جہاں پہلے سے اس کے تین ساتھی بھی پہنچ چکے تھے۔ ملزمان نے خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تاکہ وہ پولیس سے رجوع نہ کرے۔ خاتون کی شکایت پر لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے فوری طور پر ایس پی صدر اور ایس ایچ او چونگ کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا۔ پولیس کی تیز رفتار کارروائی کے نتیجے میں تین شخص، وسیم اکرم، شہزاد اور عدنان گرفتار کر لیے گئے، جبکہ ان کے چوتھے ساتھی ارشد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس ترجمان کے مطابق واقعے کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 375A (گینگ ریپ) کے تحت چونگ تھانے میں درج کر لیا گیا ہے اور مزید قانونی کارروائی جاری ہے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر شہر میں خواتین کے تحفظ پر اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ چوتھے ملزم کو جلد گرفتار کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ مزید پڑھیں: غیر قانونی تارکین وطن اور انسانی اسمگلنگ اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تفصیلی بات چیت

غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی: حکومت نے ہوم ورک مکمل کرلیا؟

غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف قومی مہم کے سلسلے میں تشکیل دی گئی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری، انسانی اسمگلنگ، بھکاریوں کے لیے سخت سزاؤں اور ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن سے متعلق مختلف امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز منعقد ہوا جس میں متعلقہ قوانین کی تیاری اور ان پر مؤثر عمل درآمد کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ یہ اجلاس 3 جنوری کو ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی ہدایات کے تحت، 28 جنوری کو تشکیل دی گئی کمیٹی کا دوسرا اجلاس تھا۔ یہ اجلاس غیر قانونی تارکین وطن کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن کے ختم ہونے سے ایک ہفتہ قبل منعقد ہوا۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی، انسانی اسمگلنگ، بھکاریوں کے لیے سخت سزاؤں اور ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن جیسے اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزرائے داخلہ بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ سیکریٹری داخلہ، پیٹرولیم ڈویژن، چیئرمین ایف بی آر، انٹر سروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اور صوبائی محکموں کے انسداد دہشت گردی کے نمائندے بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ مزید پڑھیں: وزیرِاعلیٰ پنجاب کا میو کے بعد جناح اسپتال کے پرنسپل اور ایم ایس کو معطل کرنے کا حکم، وجہ کیا؟

جنگ بندی تجویز: امریکا اور حماس کا اتفاق، اسرائیل کے ردعمل کا انتظار

غزہ کی سرزمین پر جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس دوران مصر نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کی صورت حال کو بحال کرنا ہے۔ یہ تجویز گزشتہ ہفتے پیش کی گئی تھی اور غزہ میں جاری خون ریز جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس تجویز کو دونوں طرف سے امریکا اور حماس نے پذیرائی دی ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اسرائیل کی فضائی حملوں اور گولہ باری نے غزہ میں خوفناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے اور فلسطینی حکام کے مطابق صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 65 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ 18 مارچ کو اسرائیل نے ایک بار پھر حماس کے خلاف فضائی اور زمینی کارروائیاں شروع کیں جس کے بعد سے غزہ میں تقریباً 700 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 400 سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی صفوں میں بھی کئی اعلیٰ سیاسی اور سیکیورٹی عہدیدار شہید کیے گئے ہیں، جن میں مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ ان حالات کے چلتے، مصر نے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ مصر کی تجویز کے مطابق حماس کو ہر ہفتے پانچ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا اور اس کے بدلے میں اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرے گا۔ اس تجویز کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک مکمل اسرائیلی فوجی انخلا کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے بدلے میں باقی فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا جائے گا۔ یہ تجویز امریکا اور حماس دونوں کی طرف سے قبول کی جا چکی ہے لیکن اسرائیل نے اس پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دونوں طرف سے متنازعہ صورتحال میں مصر کی اس تجویز کو ایک ممکنہ حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اسرائیل کا جواب اس حوالے سے فیصلہ کن ہو گا۔ یہ بھی پڑھیں: “وینزویلا سے تیل خریدنے والے کسی بھی ملک کو 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا ہو گا “ٹرمپ کا اعلان اس کے علاوہ مغربی کنارے میں بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں اسرائیلی فوجی آپریشنز، چیک پوائنٹس اور سٹلر حملوں کے باعث روزانہ ہزاروں بچے اپنے اسکول جانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے نہ صرف اسکول جانے والے راستوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے بلکہ فلسطینی بچوں کے تعلیمی اداروں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی عالمی سربراہ ‘ایلیکزینڈرا ساہیہ’ کا کہنا ہے کہ”مغربی کنارے اور غزہ میں بچوں کی تعلیم پر جو دباؤ پڑا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔” وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ فلسطینی بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک مشکل ترین چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ ‘یو این آر ڈبلیو اے’ (UNRWA) جو کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 96 اسکولز چلاتا ہے، یہ ادارہ اب اسرائیلی پابندیوں اور فنڈنگ کی کمی کے باعث اپنی خدمات جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکا اور دیگر بڑے عالمی ذرائع سے ہونے والی فنڈنگ کی کمی کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے جاری امدادی کام مزید متاثر ہو سکتے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کی صورتحال دنیا بھر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ غزہ میں جنگ کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے اثرات نہ صرف انسانی جانوں پر پڑ رہے ہیں بلکہ بچوں کی تعلیم بھی خطرے میں ہے۔ مصر کی تجویز ایک امید کی کرن دکھاتی ہے لیکن اسرائیل کا ردعمل اور اس کے عملی اقدامات سے ہی اس مسئلہ کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ نے جج کے وفاقی کارکن کی بحالی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

بنگلہ دیش سے بڑھتے پاک-چین تعلقات سے انڈیا خوفزدہ

بنگلہ دیش کے چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گزشتہ کچھ برسوں سے جو نیا موڑ آیا ہے وہ نہ صرف جنوبی ایشیا کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ انڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر اُبھرا ہے۔ تینوں ممالک کے درمیان روابط میں اعتماد اور تعاون کے امکانات دیکھے جا رہے ہیں جس کا اثر انڈین سیاسی اور سفارتی حکمت عملی پر پڑ سکتا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رکھتے ہیں۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کے قیام نے دونوں ممالک کے درمیان گہرے اختلافات پیدا کر دیے تھے۔ اس کے بعد پاکستان نے طویل عرصے تک بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی تھی، تاہم 1974 میں اس نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا۔ 2024 میں شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں نئی قیادت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے قدم اٹھایا تھا۔ اس اقدام سے نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری آئی ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی، اور فوجی تعلقات کی نئی بنیاد بھی رکھی گئی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں اقتصادی تعاون، فوجی تربیت اور مشترکہ مشقوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج بنگلہ دیشی فوج کو تربیت فراہم کریں گی اور 2025 میں دونوں افواج مشترکہ مشقوں میں حصہ لیں گی۔ یہ فوجی تعاون دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرے گا جبکہ یہ قربت انڈیا کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر سلیم منصور خالد کا پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “موجودہ حالات سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا نے بنگلہ دیش میں اپنے اثرات کو گہرائی تک پھیلایا ہوا ہے جیسا کہ سماجی، تعلیمی، اور فوجی شعبوں میں بھی انڈیا کے افراد کی موجودگی ہے۔” انکا کہنا تھا کہ “بنگلہ دیش اپنی آزادی حاصل کرنے کے باوجود انڈیا کی براہ راست مداخلت کا شکار ہے۔ اسی لیے دنیا کو چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش کا ساتھ دے، خاص طور پر چین، پاکستان، اور عرب ممالک کو بنگلہ دیش کا ساتھ دینا چاہیے جو کہ انکا فطری مطالبہ ہے۔” دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر کی نظریں چین اور بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعلقات پر جمی ہوئی ہیں جس کا براہ راست اثر جنوبی ایشیا کی سیاسی حرکیات پر پڑنے والا ہے۔ حالیہ دنوں میں تینوں ممالک کے درمیان اقتصادی، تجارتی، اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعلقات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جو انڈیا کے لیے بہت سے محاظ پر مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سب کے چلتے بنگلہ دیش کی نئی خارجہ پالیسی نے انڈیا کے ساتھ ٹیلی کام کے معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھا دی ہے۔ یہ بھی پڑھیں:“انڈین روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی بن گیا” اسی طرح پاکستان نے بھی بنگلہ دیش کے لیے ویزہ فیس بھی ختم کر دی ہے جبکہ چٹاگانگ اور کراچی کے مابین فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب چین نے بنگلہ دیش میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے متعدد منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جن میں سڑکیں، پل، اور بندرگاہیں شامل ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے کے تحت انڈیا کے ہمسایہ ممالک میں بڑھتی ہوئی موجودگی کی علامت بھی ہیں۔ چین کا بنگلہ دیش میں اثرو رسوخ انڈیا کی سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ منصور خالد کا کہنا تھا کہ “چین کی سرمایہ کاری یقینی طور پر انڈیا کی معاشی گرفت کو کسی حد تک کمزور کرے گی”۔ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منائی گئی اور پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجے جس سے دونوں ممالک کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو انڈین سیاست دانوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ بنگلہ دیشی انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس نے بھی پاکستان کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے 1971 کے جنگی جرائم کے مسئلے پر شیخ حسینہ واجد کی طرح سخت موقف اپنانے سے بھی گریز کیا ہے۔ منصور خالد نے مزید کہا کہ “جہاں تک پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان رقابت کا سوال ہے، یہ بات واضح ہے کہ انڈیا نے مشرقی پاکستان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا اور 54 سال بعد بھی وہ نہیں چاہے گا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے۔” پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون میں اضافہ انڈیا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات نے انڈیا کی پریشانیوں کو بڑھا دیا ہے کیونکہ فوجی تربیت اور افسران کے تبادلے کے دوران نہ صرف خیالات کا اشتراک ہوتا ہے بلکہ غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ممکن ہوتا ہے جو مستقبل میں تعلقات کی مضبوطی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سب کے علاوہ بنگلہ دیش نے اپنے نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں اور اپنے قومی ہیروز کو نئے سرے سے متعارف کرایا، جس سے انڈیا کے اثرات بھی کم ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور چین کے بڑھتے تعلقات انڈیا کے لیے سٹریٹیجک چیلنج بن سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں چین کی موجودگی انڈیا کے مغربی اور مشرقی سرحدوں پر اثرانداز ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات انڈیا کی سلامتی اور اقتصادی مفادات کو متاثر کر سکتے ہیں خاص طور پر خطے میں چین کا اثر بڑھتا ہے۔ بین لااقوامی امور کے ماہر منصور خالد نے پاکستان میٹرز سے مزید کہا کہ ” چین بہت عرصہ پہلے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور یاد رہے کہ 2024 میں جب بنگلہ دیش میں سیاسی ہنگامے شروع ہوئے تھے تو اس وقت کی وزیراعظم حسینہ واجد چین کا دورے پر ہی تھیں لیکن