‘بیٹیوں کی گرفتاری اور ہماری ماؤں بہنوں کی بے حرمتی’ اختر مینگل کا بلوچستان میں لانگ مارچ کا اعلان

سابق وزیراعلی بلوچستان سردار اختر مینگل نے ‘بیٹیوں کی گرفتاری اور ماؤں بہنوں کی بےحرمتی’ کے خلاف بلوچستان میں وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب مائکروبلاگنگ پلیٹ فارم ایکس پر جاری پیغام میں اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ‘وڈھ سے کوئٹہ تک ہمارا مارچ صرف قدموں کا نہیں، ضمیر کا سفر ہے۔’ گزشتہ برس ستمبر میں اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے والے اخترمینگل کا کہنا ہے کہ ‘میں اس مارچ کی قیادت خود کروں گا، اور تمام بلوچ بھائیوں اور بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مارچ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘جو خاموش ہے، وہ بھی قصوروار ہے۔’ مزید تفصیل جلد شیئر کرنے کا کہتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ ‘ہماری یہ تحریک پر امن ہے۔’ اختر مینگل کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ صرف ہماری بیٹیوں کی گرفتاری کا معاملہ نہیں، یہ ہمارے قومی وقار، ہماری غیرت، اور ہمارے وجود کا سوال ہے۔ جب تک ہماری ماہیں، بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں، ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ظلم، جبر، اور ناانصافی کے خلاف نکلے ہیں، اور جب تک انصاف نہیں ملتا، ہم رکیں گے نہیں۔ اختر مینگل کی جانب سے یہ اعلان حالیہ گرفتاریوں کے بعد کیا گیا ہے۔ دوسری جانب نوبل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ‘میں ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر پریشان اور فکرمند ہوں۔’ ماہ رنگ بلوچ کو ‘لاکھوں بے آوازوں کی نمائندہ’ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ‘بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر’ رہے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہوں نے گرفتار خاتون رہنما کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ قبل ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ ماہ رنگ بلوچ کی ‘غیرقانونی گرفتاری کو 38 گھنٹے سے زائد گزر چکے ہیں، ابھی تک ان کے وکلا اور اہل خانہ کو ان تک رسائی نہیں دی گئی۔’ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دعوی کیا کہ کہ ‘بلوچستان صوبہ سے غیرقانونی گرفتاریوں اور حراست کی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔’ انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ ماہ رنگ سمیت دیگر پرامن احتجاج کا حق استعمال کرنے والوں کو رہا کیا جائے۔  

ٹرمپ نے جج کے وفاقی کارکن کی بحالی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ایک عدالتی فیصلے کو معطل کرے جس کے تحت ہزاروں وفاقی ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ ملازمین بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو نمایاں طور پر کم کرنے کی حکمتِ عملی کے تحت نکالے گئے تھے۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ہنگامی اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایگزیکٹو برانچ کو 16 ہزارکے قریب پروبیشنری ملازمین کی دوبارہ بھرتی پر مجبور کرے۔ کیلیفورنیا میں قائم جج نے قرار دیا تھا کہ برطرفیاں وفاقی قوانین کے مطابق نہیں ہوئیں اور انہوں نے مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے تک ان ملازمین کو دوبارہ تقرری کی پیشکش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی اپیل میں سپریم کورٹ سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان وفاقی ججوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو محدود کرے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وسیع تر ایجنڈے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اپیل میں کہا گیا ہےکہ صرف یہ عدالت ہی بین الادارتی اختیارات کی اس کھینچا تانی کو ختم کر سکتی ہے۔ امریکہ کا وفاقی عدالتی نظام ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ ریپبلکن اکثریت والی کانگریس یا تو ٹرمپ کے اقدامات کی حمایت کر رہی ہے یا خاموش ہے۔ اب تک وفاقی عدالتیں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف تین درجن سے زائد فیصلے سنا چکی ہیں، جن میں وفاقی قوانین کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ عدالتی فیصلے مختلف معاملات پر محیط ہیں، جن میں شہریت کے پیدائشی حق میں تبدیلیاں، وفاقی اخراجات، اور ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق شامل ہیں۔ ٹرمپ کے غیر معمولی تعداد میں جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز کا معاملہ بظاہر سپریم کورٹ میں متعدد سماعتوں کی طرف بڑھ رہا ہے، جسے انہوں نے اپنی پہلی مدت میں تین ججز تعینات کر کے ایک نئی شکل دی۔ تاہم، اب تک عدالت کی نو رکنی بینچ نے ایسے معاملات میں نسبتاً محتاط اقدامات ہی اٹھائے ہیں۔ جس حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، ان دو عدالتی فیصلوں میں شامل ہے جو ایک ہی دن سنائے گئے تھے اور جن میں ریپبلکن انتظامیہ کی جانب سے پروبیشنری ملازمین کی برطرفیوں میں قانونی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔