پب جی مزید دوبھائیوں کی زندگیاں نگل گئی

یمن میں ایک آن لائن ویڈیو گیم کی معمولی تکرار خونی تصادم میں بدل گئی جب ایک معمر شخص نے غصے میں آ کر دو نوجوان بھائیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ المناک واقعہ ‘وادی عمد ضلع’ میں افطار سے کچھ دیر قبل پیش آیا۔ مقامی ذرائع اور وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق، تنازعہ ایک کیفے میں شروع ہوا جو ملزم کے گھر کے قریب واقع تھا۔ یہاں دو بھائیوں، 20 سالہ علی محمد بوصلیب اور 18 سالہ ماجد نے ملزم کے بیٹے کے ساتھ مشہور آن لائن گیم PUBG کھیلنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ان کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوئی اور جھگڑا شدت اختیار کر گیا۔ ملزم کا بیٹا اس تکرار کے بعد اپنے 55 سالہ والد ‘اماب’ کے پاس پہنچا اور ساری صورتحال بتائی۔ باپ نے بغیر کسی توقف کے بندوق اٹھائی اور جائے وقوعہ پر جا کر دونوں بھائیوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ دونوں نوجوان موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ فائرنگ کے بعد ملزم نے خود کو مقامی پولیس کے حوالے کر دیا اور یمنی وزارت داخلہ کے مطابق، فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے لاشوں کو اسپتال منتقل کیا ہے مگر دونوں بھائی پہلے ہی جاں بحق ہو چکے تھے۔ پولیس نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ اس لرزہ خیز جرم کی تمام تفصیلات سامنے لائی جاسکیں اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ اس قتل نے علاقے میں خوف اور غم کی لہر پیدا کردی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ماں اور بچوں سمیت مزید 12 افراد کو شہید کردیا

ریکوڈک میں کتنا سونا اور تانبا ہے، مالیت کیا ہے؟

بلوچستان میں ریکوڈک پراجیکٹ کے حوالے سے کی گئی تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق یہاں موجود سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 60 بلین ڈالر سے زائد ہے۔ اس منصوبے میں تین سرکاری توانائی کمپنیوں نے اپنی فنڈنگ کو بڑھا کر تقریباً 1.9 بلین ڈالر کر دیا ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ نے پہلے اس منصوبے میں 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا، جسے اب بڑھا کر 627 ملین ڈالر کر دیا گیا ہے۔ اس طرح تینوں کمپنیوں کی مجموعی فنڈنگ 900 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1.88 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق ریکوڈک پروجیکٹ سے 13.1 ملین ٹن تانبا اور 17.9 ملین اونس سونا نکالنے کی توقع ہے۔ عالمی منڈی میں موجودہ قیمتوں کے حساب سے ان ذخائر کی مالیت میں 54 بلین ڈالر سونے اور 6 بلین ڈالر تانبے پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے کے لیے سرمایہ کاری پر منافع کی شرح 25 فیصد بتائی گئی ہے۔ منصوبے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کی تمام تر توانائی سولر پاور پر مبنی ہوگی، جو اسے دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا گرین پروجیکٹ بناتی ہے۔ فی اونس سونے کی قیمت 3016 ڈالر اور تانبے کی قیمت 9815 ڈالر فی ٹن کے حساب سے اس منصوبے کی مجموعی مالیت کا تخمینہ 60 بلین ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق پہلے مرحلے میں 2028 تک سالانہ 45 ملین ٹن مل فیڈ پر کارروائی کا منصوبہ ہے جبکہ 2034 تک دوسرے مرحلے میں اس صلاحیت کو بڑھا کر 90 ملین ٹن سالانہ کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ منصوبے کی مجموعی مدت 37 سال بتائی گئی ہے جو دو مراحل پر مشتمل ہوگی۔ پہلے مرحلے میں 5.6 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ 2028 میں کام شروع کرے گا۔ اس منصوبے کے لیے 3 بلین ڈالر تک کی ایک محدود مالی سہولت پر بھی غور کیا جا رہا ہے جبکہ بقیہ رقم شیئر ہولڈرز کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ ریکوڈک پروجیکٹ موجودہ مائننگ لیز کے تحت پانچ بڑے ذخائر سے استفادہ کرے گا جبکہ مستقبل میں مزید ترقی کی بھی گنجائش موجود ہے۔ منصوبے کے دوسرے مرحلے کی سرمایہ کاری پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی اور شیئر ہولڈرز کی شراکت سے کی جائے گی۔ او جی ڈی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس منصوبے کے لیے کمپنی کی فنڈنگ 627 ملین ڈالر تک بڑھانے کی منظوری دے دی ہے جو پراجیکٹ فنانسنگ کے اخراجات بھی پورے کرے گی۔ کمپنی کے مطابق اس کی کل سرمایہ کاری اس کے متناسب شیئر کے مطابق ہوگی۔ اسی طرح پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ نے بھی اس منصوبے کے لیے اپنے فنڈز میں اضافہ کیا ہے اور اس کی کل سرمایہ کاری 627 ملین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پراجیکٹ فنانسنگ کے حصول کے لیے بھی منظوری دی ہے جبکہ اس کا متوقع شیئر ہولڈر ایکویٹی تعاون 349 ملین ڈالر ہوگا۔ اسی طرح کا فیصلہ گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ نے بھی کیا ہے اور تینوں کمپنیوں کے اجتماعی شیئرز 25 فیصد ہوں گے۔ ریکوڈک پروجیکٹ پاکستان کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے وسائل کو بروئے کار لانے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ پاکستان منرلز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے ان کمپنیوں کے شیئرز کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے بقیہ 25 فیصد شیئرز حکومت بلوچستان کے پاس ہیں، جن میں سے 15 فیصد بلوچستان منرل ریسورسز لمیٹڈ کے ذریعے مکمل فنڈڈ بنیاد پر اور 10 فیصد فری کیری کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں۔ 50 فیصد شیئرز بیرک گولڈ کارپوریشن کے پاس ہیں جو اس منصوبے کو چلا رہی ہے۔

ماہ رنگ بلوچ کے آنسو سچ یا میڈیا اسٹنٹ؟

آنسوؤں اور آہوں میں ڈوبی ایک ویڈیو وائرل ہے، یہ ویڈیو ماہ رنگ بلوچ کی ہے، ماہ رنگ جو کہہ رہی ہے کیا وہ سچ ہے یا محض سوشل میڈیا سٹنٹ؟ کیا ہارڈ سٹیٹ ایسے بیانات اور ویڈیوز کا ردعمل ہے یا کہانی کچھ اور ہے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں ناظرین۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تاریخ دہائیوں سے موجود ہے۔ بلوچستان میں کئی رہنماؤں نے اس پر آواز بلند کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ کے ہونٹ سی دیے گئے جب کہ کچھ لاپتہ ہوگئے۔ ماہ رنگ بلوچ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک انسانی حقوق کی کارکن ہیں جو جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کے والد، عبد الغفار لانگو، کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے رکن تھے، جو 2009 میں لاپتہ ہوئے اور 2011 میں ایک کارروائی میں مارے گئے۔ ماہ رنگ بلوچ نے 2023 میں بلوچستان سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا، اس مارچ کے شرکا نے شہر اقتدار میں دھرنا دیا۔ مارچ کا بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنا بتایا گیا۔ پچھلے دنوں ماہ رنگ بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ احتجاج کر رہی تھی کہ پولیس کے ساتھ جھڑپ میں 3 افراد جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے ماہ رنگ بلوچ کو گرفتار کر لیا اور کوئٹہ جیل منتقل کر دیا۔ اس واقعہ کا ہونا تھا کہ بلوچستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے، انتظامیہ کو شہر بند کرنے پڑے اور مظاہرین کو بزورطاقت روکنا پڑا۔ یہ مظاہرین تو نہتے ہیں پھر اتنی سختی کیوں؟ کیا ان کا تعلق بھی پہاڑوں پر آباد شرپسندوں سے ہے؟ بلوچستان میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ان واقعات میں پنجابی مزدوروں کا قتل کیاجاتا ہے۔لیکن ماہ رنگ بلوچ سے کیے جانے والے سوال میں انہوں نےاس کی مذمت تک نہ کی۔ ایک طرف تو ماہ رنگ اپنے لاپتہ افراد کے لیے جدوجہد کرتی نظرآتی ہیں تو دوسری جانب وہ دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والے معصوم پنجابیوں اور فورسز کے جوانوں کی موت پر خاموش۔ یہ خاموشی، پراسرار خاموشی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وہ بلوچستان کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جن کے خلاف وہ جدوجہد کر رہی ہیں اصل میں یہ خود بھی انہی کی کارندہ ہیں۔ اور بلوچ عوام کے سامنے ایک ہیروئن کے طور پر نظر آرہی ہیں۔ ماہ رنگ کو وہاں سے پذیرائی مل رہی ہے جن کو پاکستانیوں کی اکثریت دشمن سمجھتی ہے۔ بظاہر ماہ رنگ بلوچ کا مقصد بلوچ قوم میں شعور بیدار کرنا اور انہیں متحد کرنا ہے، مگر ویڈیو میں کیے گئے دعوؤں اور ان کے سرٹیفکیٹس سے لگتا ہے کہ یہ آنسومگر مچھ کے آنسو ہیں۔ کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے؟

‘پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے’ وزیر اعظم شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کامیابی میں حکومت کی پوری ٹیم کے ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی بھی خدمات شامل ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے آرمی چیف کی والدہ کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی اور ان کے لیے دعا کی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ کامیابی دن رات کی محنت اور ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض قوتوں نے آئی ایم ایف معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام ہوئیں۔ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی کے ریویو کے حوالے سے اسٹاف لیول معاہدے اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف پاکستان کی معاونت کے لیے 1.3 ارب امریکی ڈالرز کے فنڈز کے حوالے معاہدے پر اظہار اطمینان کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب امریکی ڈالرز کا پہلا اسٹاف لیول معاہدے کا ریویو مکمل ہو چکا ہے، ان معاہدوں کے ذریعے آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے گزشتہ 18 مہینوں کے دوران  میکرو اکنامک استحکام کی بحالی کے حوالے سے پیشرفت، مالی صورتحال کی بہتری اور افراط زر 2015 کے بعد اپنی کم ترین سطح پر آنے اور معیشت میں استحکام  پر پاکستان کی تعریف کی ہے آئی ایم ایف نے معیشت میں اصلاحات اور گورننس میں بہتری  کے لئے حکومت پاکستان کے اقدامات اور عزم کو بھی سراہا ہے ٫ جو کہ خوش آئند ہے ۔ وزیراعظم نے ان معاہدوں کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب اور حکومت کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کی ستائش کی، ان کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں سے پاکستان کی معیشت کو مستحکم اور اسے طویل مدتی بحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی ؛ حکومت ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبے کی بہتر کارکردگی اور نجی شعبے کی ترقی جیسے اہم شعبوں کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سفارش پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا حجم بجلی صارفین کی قیمتوں کو کم کرنے کیلئے استعمال کرنے کی منظوری دے دی۔

‘زبان کے پکے ہیں، بجلی سستی ہوگی، وزیراعظم جلد خوشخبری سنائیں گے’ وزیر توانائی

وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ حکومت اپنی زبان پر پکی ہے اور اس کی زبان پچھلی حکومت جیسی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی خوشخبری وزیراعظم جلد قوم کو دیں گے اور اس کے لئے وقت کا انتخاب محض چند دنوں کا مسئلہ ہے۔ اویس لغاری نے کہا کہ میڈیا میں یہ خبریں کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جائے گی، یہ سب غلط ہیں۔ ان نے مزید کہا کہ حکومت اپنی بات پر قائم ہے اور جلد ہی عوام کو اس فیصلے کا فائدہ ملے گا۔ وزیر توانائی نے کہا کہ یہ قیمتوں میں کمی آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد اعلان کی جائے گیا اور اس بارے میں میڈیا میں کی جانے والی قیاس آرائیاں جلد غلط ثابت ہوں گی۔ اس کے علاوہ وزیر توانائی نے پاکستان کے پہلے 120 KW فاسٹ چارجنگ اسٹیشن کے افتتاح کے موقع پر بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور برقی نقل و حمل کے فروغ کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لئے متعدد اقدامات کئے جا رہے ہیں اور یہ سب اقدامات گرین انرجی کے مستقبل کی طرف بڑھنے کی کوششیں ہیں۔ اویس لغاری نے مزید کہا کہ چارجنگ اسٹیشن کا افتتاح پائیدار توانائی کے ڈھانچے کی تشکیل میں ایک اہم قردار ہے اور اس سے توانائی اور نقل و حمل کے شعبے میں تبدیلی آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرک چارجنگ یونٹس کی قیمتوں کو 71 روپے سے کم کر کے 39 روپے کر دیا گیا ہے جس سے برقی نقل و حمل عوام کے لیے سستی اور قابل رسائی ہو گئی ہے۔ وزیر توانائی نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان صاف توانائی کے نئے دور میں داخل ہونے کے لیے پرعزم ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان ریلوے کے شیڈول میں تبدیلیاں، مسافروں کے لیے نئے روانگی اوقات کا اعلان

چینی اے آئی انڈسٹری سے خوفزدہ امریکا نے پاکستان سمیت مختلف ممالک کی 70 کمپنیوں پر پابندی لگادی

ان کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے خلاف کام کررہی ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق، جن کمپنیوں پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں 19 پاکستانی، 42 چینی، اور4 متحدہ عرب امارات کی کمپنیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایران، تائیوان، فرانس، سینیگال، اور برطانیہ کی کچھ کمپنیاں بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکا نے پاکستان کی کمپنیوں پر پابندیاں لگائی ہیں۔ اس سے پہلے اپریل 2024 میں بھی امریکا نے کچھ چینی اور بیلاروسی کمپنیوں پر پاکستان کے میزائل پروگرام میں تعاون کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والی پاکستانی کمپنیوں میں الائیڈ بزنس کنسرن پرائیویٹ لمیٹڈ، گلوبل ٹریڈرز، انڈنٹیک انٹرنیشنل، لنکرز آٹومیشن پرائیویٹ لمیٹڈ، اوٹو مینوفیکچرنگ، پوٹھوہار انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ کنسرن، پراک ماسٹر، اور رسٹیک ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں یہ کمپنیاں امریکی کمپنیوں سے کاروبار نہیں کر سکیں گی اور ان کی برآمدات بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کی تفصیل سامنے نہیں آئی جن پر پابندی عائد کی گئی ۔ مزید پڑھیں: امریکا کے روس اور یوکرین کے ساتھ ‘الگ الگ’ معاہدے: کب اور کیسے نافذ ہوں گے؟ دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے برآمدی پابندیوں کی شدید مذمت کی ہے، اور امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ قومی سلامتی کو عام کرنے سے باز رہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سینئر لیکچرار اور مصنف ایلکس کیپری کا کہنا ہے کہ بلیک لسٹ تازہ ترین اضافہ تیسرے ممالک، ٹرانزٹ پوائنٹس اور ثالثوں کے لیے بڑھتا ہوا جال ہے۔ انہوں نے پابندیوں کے باوجود چینی کمپنیوں کو امریکی ٹیکنالوجیز تک رسائی کی اجازت دینے والی خامیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چینی کمپنیاں بعض تیسرے فریقوں کے ذریعے امریکی اسٹریٹجک دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجیز تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ امریکی حکام این ویڈیا کے ذریعہ تیار کردہ جدید سیمی کنڈکٹر کی اسمگلنگ کے مقصد سے ٹریکنگ اور ٹریسنگ آپریشنز کو تیز کرنا جاری رکھیں گے۔ برآمدات پر عائد پابندیاں ایک ایسے وقت میں عائد کی گئی ہیں جب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کے خلاف محصولات میں اضافے کی وجہ سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چینی اے آئی اسٹارٹ اپ ’ڈیپ سیک‘ کے تیزی سے عروج نے چین میں اوپن سورس کم لاگت والے اے آئی ماڈلز کو اپنانے میں اضافہ کیا ہے، جس سے اعلی لاگت، ملکیتی ماڈلز کے ساتھ معروف امریکی حریفوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے چین کے خلاف بڑے پیمانے پر برآمدی کنٹرول نافذ کیے تھے، جس میں سیمی کنڈکٹر سے لیکر سپر کمپیوٹرز تک ہر چیز کو نام نہاد ’اسمال یارڈ، ہائی فینس‘ پالیسی کے تحت شامل کیا گیا، اس نقطہ نظر کا مقصد دیگر علاقوں میں معمول کے معاشی تبادلے کو برقرار رکھتے ہوئے اہم فوجی صلاحیت کے ساتھ چھوٹی تعداد میں ٹیکنالوجیز پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔ کامرس فار انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی کے انڈر سیکریٹری جیفری آئی کیسلر نے کہا کہ امریکی ایجنسی ایک واضح اور شاندار پیغام بھیج رہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی ٹیکنالوجی کو اعلیٰ کارکردگی والے کمپیوٹنگ، ہائپرسونک میزائلوں، فوجی طیاروں کی تربیت، اور یو اے وی (بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑی) کے لیے غلط استعمال سے روکے گی جو ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادارے کی فہرست ہمارے پاس موجود بہت سے طاقتور ذرائع میں سے ایک ہے، جو غیر ملکی مخالفین کی نشاندہی کرنے اور انہیں کاٹنے کے لیے ہے، جو نقصان دہ مقاصد کے لیے امریکی ٹکنالوجی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ماں اور بچوں سمیت مزید 12 افراد کو شہید کردیا

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں 12 افراد کو شہید کر دیا ہے جن میں ایک ماں اور اس کا چھ ماہ کا بچہ جبکہ دیگر چار افراد شامل ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں اب تک 50,144 فلسطینی ہلاک اور 113,704 زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کے حکومتی میڈیا آفس کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہزاروں افراد کا ملبے تلے دب کر شہید ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی فوج شام کے شہر درعا پر بمباری کر رہی ہے جس میں کم از کم چھ افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ملی ہیں جس پر قطر اور سعودی عرب نے شدید مذمت کی ہے۔ اسی دوران امریکا نے یمن پر بھی بمباری جاری رکھی ہے۔ یمن ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے امریکی فضائی حملوں میں کم از کم 25 شہری شہید ہوئے، جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ یہ بمباری مارچ 2022 کے بعد کی سب سے زیادہ خون ریز کارروائی قرار دی گئی ہے۔ 16 مارچ کو صعدہ کے قزاک صافرا ضلع میں دس افراد شہید ہوئے، جن میں چار بچے شامل تھے۔ اس حملے میں 11 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں دو بچے شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی واضع طور پر پاملی کرتے ہوئے یہ واقعات اس بات کو غماز کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر جنگوں کے اثرات بے گناہ شہریوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ان وحشیانہ حملوں کی روک تھام کے لیے عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ مزید پڑھیں: ہنگری میں 15 سال سے اقتدار میں رہنے والے وزیر اعظم کے خلاف احتجاج

پاکستان ریلوے کے شیڈول میں تبدیلیاں، مسافروں کے لیے نئے روانگی اوقات کا اعلان

لاہور سے کراچی، کوئٹہ اور دیگر شہروں کو جانے والی ٹرینوں کے شیڈول میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ پاکستان ریلوے لاہور ‘محمد حنیف گل’ کی ہدایات کے تحت، کچھ ٹرینوں کے اوقات میں تبدیلی کی گئی ہے تاکہ سفر میں سہولت اور روانگی کی روانی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بزنس ایکسپریس 34-ڈاون اب لاہور سے کراچی کے لیے سہ پہر 4 بجکر 30 منٹ کے بجائے 5 بجکر 45 منٹ پر روانہ ہوگی جبکہ کراچی ایکسپریس 16-ڈاون کی روانگی میں ایک گھنٹے کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہ شام 6 بجے کی بجائے 7 بجکر 15 منٹ پر لاہور سے روانہ ہوگی۔ اسی طرح شاہ حسین ایکسپریس 44-ڈاون بھی اپنے مقررہ وقت سے دو گھنٹے بعد، رات 9 بجکر 30 منٹ پر لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوگی۔ اس کے علاوہ جعفر ایکسپریس 40-ڈاون کوئٹہ جانے کے لیے آج روانہ نہیں ہوگی اور مسافر ریزرویشن آفس لاہور یا قریبی دفاتر سے اپنی ٹکٹ کا ریفنڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ  کراچی، راولپنڈی اور دیگر شہروں کو جانے والی باقی تمام ٹرینیں اپنے شیڈول کے مطابق روانہ ہو رہی ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ محمد حنیف گل کی ہدایت پر پاکستان ریلوے لاہور کا پسنجر فیسیلیٹیشن عملہ اسٹیشن پر ہمہ وقت موجود رہے گا تاکہ مسافروں کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ یہ اقدام مسافروں کے آرام دہ سفر کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ مزید پڑھیں: محکمہ ٹرانسپورٹ کی کارروائی، زائد کرایہ وصول کرنے پر 427 گاڑیوں کا چالان کردیا

پنجاب میں بغیر لائسنس شیر پالنا جرم، 7 سال قید اور بھاری جرمانہ!

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر پنجاب وائلڈ لائف نے پہلی بار شیر، چیتا، جگوار اور تیندوا کی نجی ملکیت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے باضابطہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مہم کے تحت محکمہ وائلڈ لائف نے بڑی بلیوں کے مالکان کو 30 دن کے اندر ان کی تفصیلات ڈیکلئیر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مالکان کو اپنے جانوروں کی نسل، عمر، کل تعداد اور رکھنے کی جگہ کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس عمل کو آسان بنانے کے لیے “پاس ایپ” متعارف کرائی گئی ہے، جو گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔ تمام مالکان کو 30 دن کے اندر “پاس ایپ” کے ذریعے اپنی تفصیلات درج کرنا لازم ہوگا۔ مقررہ مدت میں تفصیلات فراہم نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ پنجاب حکومت نے بڑی بلیوں کی ملکیت کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 1974 وائلڈ لائف ایکٹ میں ترامیم کی ہیں۔ اب ان جانوروں کو نجی ملکیت میں رکھنے کے لیے محکمہ وائلڈ لائف پنجاب سے باقاعدہ لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ بلا لائسنس شیر، چیتا، جگوار یا تیندوا رکھنے والے افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے، اور یہ جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا۔ مجرموں کو بھاری جرمانے کے ساتھ سات سال قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے، جبکہ غیر قانونی طور پر رکھی گئی بڑی بلیوں کو ضبط کر لیا جائے گا۔ یہ اقدام عوامی تحفظ، بڑی بلیوں کی فلاح و بہبود اور ان کی غیر قانونی تجارت جیسے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوگا۔ اس قانون کے نفاذ سے شیر اور دیگر بڑی بلیوں کو عوامی نمائش کے لیے استعمال کرنے کے واقعات کی روک تھام ممکن ہوگی۔ اس مہم کے ذریعے ان جانوروں کو عالمی قوانین اور معیارات کے مطابق ریگولیٹ کیا جائے گا، اور ان کی ملکیت سے متعلق تمام شرائط پنجاب وائلڈ لائف کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گی۔

محکمہ ٹرانسپورٹ کی کارروائی، زائد کرایہ وصول کرنے پر 427 گاڑیوں کا چالان کردیا

عید الفطر کے موقع پر عوام کو سستی اور منصفانہ ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لیے محکمہ ٹرانسپورٹ نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کے دوران 710 گاڑیوں کی چیکنگ کی گئی جس میں سے 427 گاڑیوں کو زائد کرایہ وصول کرنے کے الزام میں چالان کیا گیا۔ ٹرانسپورٹرز کو مجموعی طور پر 3 لاکھ 84 ہزار 200 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ متاثرہ مسافروں کو موقع پر ہی 10 لاکھ 15 ہزار 300 روپے کی رقم واپس کی گئی۔ یہ اقدام حکومتی عزم کا عکاس ہے کہ عوام کا استحصال کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے مطابق اس مہم کا مقصد عوام کو عید کے موقع پر بغیر کسی اضافی بوجھ کے سفر کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے واضح کیا کہ ٹرانسپورٹرز کے خلاف کارروائیاں عید الفطر کے بعد تک جاری رہیں گی اور ان کی ٹیمیں مسلسل نگرانی کر رہی ہیں۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ حکومت سندھ عوام کو انصاف پر مبنی اور سستی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور جو بھی زائد کرایہ وصول کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ٹرانسپورٹ حکام کو مزید چیکنگ کو سخت کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے تاکہ کوئی بھی قانون شکن بچ نہ سکے۔ یہ مہم حکومتی عزم اور عوام کے حقوق کا ایک مظہر ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عید کے ایام میں بھی عوام کو مناسب اور منصفانہ سفر کی سہولت مل سکے۔ مزید پڑھیں: پاکستان میں ‘چینی شہریوں کے تحفظ’ کے لیے چین سے مذاکرات