امریکا کے روس اور یوکرین کے ساتھ ‘الگ الگ’ معاہدے: کب اور کیسے نافذ ہوں گے؟

امریکا  نے منگل کے روز یوکرین اور روس کے ساتھ دو الگ معاہدے کیے، جن کے تحت سمندر میں اور توانائی کے اہداف پر حملے روکنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے بدلے میں، واشنگٹن نے کچھ روسی پابندیاں ہٹانے کے لیے تعاون کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ واضح نہیں تھا کہ بحیرہ اسود کے بحری تحفظ سے متعلق معاہدے کب اور کیسے نافذ ہوں گے، لیکن یہ دونوں ممالک کے درمیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کیے جانے والے پہلے رسمی معاہدے تھے۔ ٹرمپ یوکرین میں جنگ ختم کرنے اور روس کے ساتھ تیزی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے کیف اور یورپی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ روس کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں امریکا  نے روسی زراعت اور کھاد کی برآمدات پر عائد عالمی پابندیاں ہٹانے میں مدد کرنے پر بھی اتفاق کیا، جو کہ روس کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ تاہم، کریملن نے فوری طور پر واضح کیا کہ بحیرہ اسود کے معاہدے اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک کہ کچھ روسی بینکوں کے عالمی مالیاتی نظام سے تعلقات بحال نہیں ہوتے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کی توقع کے مطابق معاہدے پر عمل درآمد فوری ہوگا اور اس کے لیے کسی قسم کی پابندیوں میں نرمی کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کریملن کے بیان کو معاہدے کو “ہیرا پھیری” کرنے کی کوشش قرار دیا۔ اپنے رات کے ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا، “وہ پہلے ہی معاہدے کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور درحقیقت ہمارے بیچ میں شامل افراد اور پوری دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔” روس اور یوکرین دونوں نے کہا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے واشنگٹن پر انحصار کریں گے، لیکن دونوں کو شبہ تھا کہ مخالف فریق ان کی پاسداری کرے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا، “ہمیں واضح ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ کیف کے ساتھ ماضی کے تلخ تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ ضمانتیں صرف واشنگٹن ہی دے سکتا ہے، جو زیلنسکی اور ان کی حکومت کو ہدایات دے۔” زیلنسکی نے مزید کہا کہ اگر روس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ٹرمپ سے اضافی پابندیاں لگانے اور یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ انہوں نے کہا، “ہمیں روس پر بھروسہ نہیں، لیکن ہم تعمیری رویہ اپنائیں گے۔” معاہدوں کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد، روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر ڈرون حملے کرنے کا الزام لگایا، لیکن بحیرہ اسود یا توانائی کے اہداف پر کسی بڑے حملے کی اطلاع نہیں ملی۔ ٹرمپ نے خبر رساں ادارے نیوز میکس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ روس جنگ ختم کرنے میں تاخیر کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “مجھے لگتا ہے کہ روس اس کا خاتمہ چاہتا ہے، لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ جان بوجھ کر وقت ضائع کر رہے ہوں۔ میں نے ماضی میں بھی ایسی صورتحال دیکھی ہیں۔”

ویسے تو ٹرمپ کو عدالت کا حکم ماننا چاہیے مگر ‘امیگریشن پالیسی’ میں استثنا، امریکی عوام

امریکہ میں زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر کو ہمیشہ وفاقی عدالت کے فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے، چاہے وہ صدر کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جب بات غیر قانونی طور پر رہنے والے افراد کو ملک سے نکالنے کی آتی ہے تو کچھ لوگ اس اصول سے استثنا دینے کے حق میں نظر آتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ رائٹرز/اِپسوس کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، 82 فیصد امریکیوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ صدر کو عدالتی فیصلوں کی تعمیل کرنی چاہیے، چاہے وہ ان سے متفق نہ ہوں۔ اس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے افراد شامل تھے۔ لیکن جب سوال خاص طور پر ان افراد کی ملک بدری سے متعلق آیا جنہیں ٹرمپ انتظامیہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے اور خطرہ سمجھتی تھی، تو 76 فیصد ریپبلکنز نے اس بات کی حمایت کی کہ انتظامیہ کو عدالتی حکم کے باوجود ان افراد کو ملک بدر کرنا چاہیے۔ دوسری طرف، صرف 8 فیصد ڈیموکریٹس نے اس کی حمایت کی۔ اس سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر ریپبلکنز عمومی طور پر عدالتوں کے اختیارات کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن جب معاملہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کا آتا ہے، تو وہ ان کی حمایت میں عدالتی فیصلوں کو نظرانداز کرنے کے حامی بن جاتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے افراد کو نکالنے کے لیے 18ویں صدی کے ایک پرانے قانون کا سہارا لیا، جس کے تحت وینزویلا کے ایک گینگ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ لیکن ایک جج نے اس عمل کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے پہلے سے طے شدہ دو ملک بدری کی پروازوں کو واپس نہیں بلایا، جس کی وجہ سے سوالات اٹھنے لگے کہ آیا یہ عدالتی حکم کی دانستہ خلاف ورزی تھی۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر ملک بدریوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن جب وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے مہینوں میں ملک بدری کی شرح جو بائیڈن کے دور سے کم رہی۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، غیر قانونی امیگریشن میں اضافہ ہوا، اور ملک بدری کی کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ ٹرمپ نے ملک بدری کے نئے طریقے بھی متعارف کروائے، جن میں ملزم گینگ ممبران کو سلواڈور کی جیلوں میں بھیجنا شامل تھا۔ سروے میں شامل 45 فیصد افراد نے ٹرمپ کی صدارت کی کارکردگی کو مثبت قرار دیا، جبکہ 44 فیصد لوگوں نے اس سے پہلے کیے گئے ایک اور سروے میں ان کی کارکردگی کو سراہا تھا۔ ٹرمپ کی مقبولیت ان کے پہلے دورِ حکومت (2017-2021) کے مقابلے میں اب زیادہ ہے اور یہ جو بائیڈن کی صدارت کے دوران ملنے والی مقبولیت سے بھی زیادہ ہے۔ امیگریشن کے معاملے پر ٹرمپ کو سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ تقریباً نصف امریکیوں نے ان کی امیگریشن پالیسیوں کو سراہا، جن میں تازہ ترین سروے میں 49 فیصد اور اس سے پہلے کے سروے میں 50 فیصد لوگ شامل تھے۔

آئی ایم ایف اور حکومتی پالیسیاں، عوام کو ریلیف کب ملے گا؟

حکومت نے عوام کو بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کی امید دلائی تھی، لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط کے باعث یہ وعدہ تاحال ادھورا ہے۔ پاکستان اس وقت 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت پہلے دو سالہ جائزے کے عمل میں ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے (SLA) پر جاری مذاکرات حکومتی ریلیف پیکیج کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ وزیراعظم 23 مارچ کو قوم سے خطاب میں بجلی کے نرخوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کریں گے۔ تاہم یومِ پاکستان کی تقریر میں اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا، جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔ وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں توانائی کے شعبے سے متعلق امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی توقیر شاہ، وزیر توانائی اویس لغاری، احد چیمہ، اور دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے۔ واضح رہے کہ حکومت نے 15 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھا جائے گا، حالانکہ پیٹرولیم ڈویژن اور آئل ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پیٹرول کی قیمت میں 13 روپے فی لیٹر کمی کی تجویز دی تھی۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ اس ممکنہ مالیاتی مارجن کو بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دی جا رہی تھی، جس میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کا ارادہ تھا۔ تاہم اس پیکیج کو حتمی منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے پیش کیا گیا، جس نے اس پر اعتراضات اٹھائے۔ حکومت نے 4 سے 14 مارچ کے دوران ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک منصوبہ شیئر کیا، جس کے تحت انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے معاہدوں پر نظرثانی کے ذریعے ٹیرف میں تقریباً 2 روپے فی یونٹ کمی کی تجویز دی گئی تھی۔ بعد ازاں حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے اضافے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں فنانس ایکٹ 2025 کے تحت زیادہ سے زیادہ 70 روپے فی لیٹر لیوی مقرر کی گئی۔ اس اقدام سے توقع کی جا رہی تھی کہ بجلی کے نرخوں میں مزید 2 سے 2.5 روپے فی یونٹ کمی کی جا سکے گی۔ حکومتی حکام کے مطابق چونکہ یہ ایک ‘ریونیو نیوٹرل’ حکمت عملی تھی (یعنی اس میں اضافی سبسڈی شامل نہیں تھی) اس لیے آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان کی مجموعی مالی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس پیکیج کی افادیت پر سوالات اٹھائے، جس کے باعث حکومت کو اس پر مزید غور کرنا پڑا۔ بجلی کے نرخوں میں کمی کے راستے میں ایک اور بڑی رکاوٹ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے قواعد و ضوابط ہیں۔ نیپرا کو ملک کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی جانب سے سالانہ بیس ٹیرف پر نظرثانی کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ حکومت نے سول-ملٹری ٹاسک فورس کے ساتھ مشاورت کے بعد 6 سے 7 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی کوشش کی، مگر نیپرا کی منظوری کے بغیر اس عمل کو مکمل کرنا ممکن نہیں تھا۔ مزید برآں سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی میں متوقع تبدیلیاں بھی نیپرا کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، جو مستقبل میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے بجلی کے نرخوں میں کمی یا اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک نے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ پاکستان میں خطے کی مہنگی ترین بجلی معیشت کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اضافی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آئندہ چند ہفتوں میں بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پیٹرولیم لیوی کے ذریعے اضافی رقم اکٹھی کر رہی ہے، تاکہ بجلی کے نرخوں میں کمی ممکن بنائی جا سکے۔ ‘یہ اسی سمت ایک چھوٹا سا قدم ہے، لیکن جو بھی اضافی وسائل حاصل کیے جائیں گے، وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے استعمال ہوں گے۔ حکومت اپنے وسائل سے بھی اس میں تعاون کرے گی تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جا سکے۔’ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، جنوبی افریقہ اور کینیا جیسے ممالک میں بجلی پاکستان کے مقابلے میں سستی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری ان ممالک میں جا رہی ہے اور پاکستان پیچھے رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب دنیا بھر میں بجلی کے نرخ کم ہیں، تو پاکستان میں بجلی اتنی مہنگی کیوں ہے؟ آپ کی گیس اور بجلی میں ایسی کیا خاصیت ہے کہ آپ انہیں عالمی معیار سے مہنگے داموں بیچ رہے ہیں؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں ناکام، یوٹرن سے بھرپور اور لالچ پر مبنی ہیں۔ مرکزی تنظیم تاجران پاکستان و پاکستان بزنس فورم کے صدر محمد کاشف چوہدری نے بجلی کی بنیادی قیمت میں کمی اور بلوں پر لگائے گئے 13 قسم کے ٹیکسوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکمرانوں نے فوری طور پر بجلی کی قیمتیں کم نہ کیں تو عید الفطر کے بعد دوبارہ ملک گیرسطح پر عوامی تحریک شروع کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے میں کمی کرنے کے لیے ہم نے 28 اگست کو تاریخ ساز ہڑتال کی اور بعد میں تاجروں اور عوام کے مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں حکمرانوں کو آئی پی پیز سے بات چیت کرنے پر مجبور کیا، اس سے پہلے حکومت آئی پی پیز سے بات کرنے کو شجر ممنوعہ قرار دیتی تھی۔ کاشف چوہدری نے کہا کہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی سے اربوں روپے کی بچت شروع ھو چکی ہے، لیکن اربوں روپے کی بچت عوام تک ریلیف کی شکل

لاپتہ صحافی وحید مراد 13 گھنٹے بعد عدالت پیش

Pakistani journalist A Waheed Murad kidnaped from Islamabad; report

‏13 گھنٹے سے لاپتہ صحافی وحید مراد کو اسلام آباد کچہری جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا، ان کو اسلام آباد سے نامعلوم افراد نے ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا۔ وحید مراد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ساس کینسر کی مریضہ ہیں، کینیڈا سے علاج کرانے آئیں، جو گھر اٹھانے آئے میں نے انہیں کہا اپنی شناخت کروائیں۔ بیس منٹ پہلے مجھے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے، میری آنکھوں پر پٹی تھی، اسلام آباد کچہری جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور ایف آئی اے نے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی، عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر صحافی وحید مراد کو ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔وحید مراد کہ اہلیہ نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر اپنے شوہر کی ہتھکڑیوں میں لگی تصویر پوسٹ کی اور کہا کہ اللّٰہ تعالٰی اپنی امان میں رکھیں، آمین ۔ صحافی وحید مراد کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔ وحید مراد کی ساس عابدہ نواز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ  وحید کو فوری بازیاب کرانے کا حکم دیا جائے۔‘ وکیل ایمان مزاری کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں سیکرٹری داخلہ و دفاع، آئی جی اور ایس ایچ او کراچی کمپنی کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست کے مطابق ’رات دو بجے سیاہ لباس میں ملبوس افراد جی ایٹ میں واقع گھر آئے، دو پولیس کی گاڑیاں بھی ان کے ساتھ نظر آ رہی تھیں۔ سیاہ میں ملبوس افراد وحید مراد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔‘ درخواست میں ’وحید مراد کو فوری بازیاب کرانے اور ’غیر قانونی طور پر اٹھانے والوں‘ کے خلاف کارروائی کا حکم دیے جانے کی استدعا کی گئی ہے منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستانی صحافی  وحید مراد کے اغوا کی اطلاع پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آئی جب ان کے ساتھی صحافی نے واقعہ سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹ کی’۔ فرحان خان کے مطابق ‘وحید مراد کو ان کی رہائش گاہ جی ایٹ سے نامعلوم افراد نے اغوا’ کیا۔’ پاکستان میٹرز سے گفتگو میں فرحان خان نے تصدیق کی کہ وحید مراد کو رات گئے ‘ڈالوں میں سوار نامعلوم افراد اس وقت ہمراہ لے گئے جب گھر پر ان کی ضعیف ساس اکیلے موجود تھیں۔’ اے وحید مراد کے گھر کے باہر موجود فرحان خان کے مطابق ‘وحید نے انہیں فون پر اطلاع دی کہ کچھ افراد مشکوک انداز میں ان کے گھر کے باہر موجود ہیں۔ ہم کچھ دیر قبل وہاں اکٹھے موجود تھے۔ جتنی دیر میں وہاں پہنچا تو ڈالوں میں سوار نامعلوم افراد وحید کی رہائش گاہ کے باہر سے واپس ہو رہے تھے۔’ انہوں نے تصدیق کی کہ واقعہ کے وقت اے وحید مراد کی ساس گھر پر اکیلی موجود تھیں۔ وحید مراد سعودی عرب کے ڈیجیٹل میڈیا ہاؤس، اردو نیوز کے ساتھ ملٹی میڈیا جرنلسٹ کے طور پر وابستہ ہیں۔ وحید اے مراد کے اغوا کے وقت موقع پر پہنچ جانے والے ایک اور صحافی ثوبان افتخار راجہ کے مطابق انہوں نے اغواکاروں کی ویڈیو بنائی جس پر انہوں نے میرا پیچھا کیا اور مجھے غلیظ گالیاں بکتے ہوئے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی کے مطابق نامعلوم افراد نے میرے موبائل چھین لیے اور دھمکیاں دیں کہ ‘تم مجھے جانتے نہیں ہو’۔ اغوا کاروں نے گن تان کر مجھ سے زبردستی موبائل کا پاس ورڈ معلوم کیا اور مجھے چلتی گاڑی سے پھینک کر فرار ہو گئے۔ صحافی اسرار احمد نے ساتھی صحافی ثوبان پر تشدد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وحید مراد کے اغوا کے بعد ان کے گھر پہنچنے والے کولیگ نوجوان صحافی ثوبان افتخار کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کو گن کے بٹ سے مارا گیا۔ کنپٹی پر لوڈڈ گن رکھ کر ان کے موبائل کے پاسورڈ حاصل کرنے کے بعد بیگ، موبائل، تمام گیجٹس اور سامان اغوا کار ساتھ لے گئے۔ ہم ثوبان کا میڈیکل کرانے پمز جارہے ہیں۔ اے وحید مراد کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا کیے جانے کے بعد اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عالمی اور مقامی میڈیا ہاؤسز سے وابستہ کئی صحافی واقعہ کی ایف آئی آر درج کرانے کراچی کمپنی پولیس اسٹیشن بھی پہنچے تاہم پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔   اے وحید مراد کی اہلیہ صحافی شنزہ نواز کے مطابق ان کے خاوند کو ‘رات دو بجے نقاب پوش افراد اٹھا کر لے گئے ہیں۔ وہ بار بار یہ پوچھ رہے تھے کہ اس کی بیوی کہاں ہے۔ میری والدہ بھی گھر تھیں۔ ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی ہے، دھکا دیا ہے۔ والدہ دل کی مریضہ ہیں، میری والدہ کا فون، وحید کے دونوں فون اور کچھ پیپرز لے گئے ہیں۔’

حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں چولستان کنال چاہیے یا پاکستان، جماعت اسلامی

جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے دریائے سندھ پر چولستان سمیت مزید نو نہریں نکالنے کے فیصلے کو قومی وحدت پر وار قرار دیتے ہوئے وفاق اور پنجاب کے سندھ دشمن فیصلے کے خلاف جماعت اسلامی کی جانب سے عید کے بعد کورٹ میں رٹ پٹیشن کے سلسلے میں ایک کروڑ دستخطی مہم اور عوامی بیداری کیلیے روڈ کاروان نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہروں کے معاملے پر سندھ کے بھرپور احتجاج اور مزاحمت کے باوجود حکمرانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی ملک کو کسی نئے بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ کے پی اور بلوچستان کی صورتحال کے بعد سندھ کے عوام کو بھی بغاوت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی ایک نہیں بلکہ چار صوبوں کا نام ہے۔ حکمرانوں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں چولستان نہر چاہئے یا پاکستان۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کے حقوق پرسودے بازی کرکے عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔ارسا ایکٹ میں ترامیم، کارونجھر پہاڑ کی کٹائی سے لے کردریائے سندھ پر نئی نہروں تک ان کا کردار مقتدر اداروں اور وفاق کے سہولت کارکا رہا ہے۔ کاشف سعید شیخ کے مطابق عوام کو 300 یونٹ بجلی فری دینے کے دعووں سے لے کر نئی نہروں تک، پیپلزپارٹی کی قیادت نے سندھ کے عوام سے جھوٹ بول کر سندھ کے عوام کا اعتماد کھودیا ہے اور اب یہ لوگ صادق اور امین نہیں رہے ہیں۔ عوامی اور جمہوریت کے دعویدار پارٹی کے دور حکومت میں کراچی پریس کلب پر احتجاج کرنے والی بلوچ مائوں، بہنوں اور بیٹوں پر بدترین تشدد اور گرفتاریاں قابل مذمت اور پیپلزپارٹی حکومت کا شرمناک کردار ہے۔ طاقت اور آمریت کے ذریعے عوامی احتجاج کو کچلنے کا کردار ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس عمل سے بلوچ عوام میں موجود محرومیوں اور نفرتوں میں مزید اضافہ ہوگا، ہر مسئلے کا حل صرف بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ حیدرآباد میں صحافیوں کے اعزاز میں دیے گئے دعوت افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ کا مزید کہنا تھا کہ دریائے سندھ پر نہر یں بنانے کے منصوبے کے خلاف پیپلز پارٹی کا احتجاج فیس سیونگ اور سندھ کے ہر شعبے سے متعلق عوام کے بھرپور احتجاج کا نتیجہ ہے۔ایوان صدر میں بیٹھے پی پی صدر نے خود نہروں کی منظوری اور کام شروع کرکے تیزی دکھانے کا حکم جاری کیا جو دستاویزی ریکارڈ کا حصہ ہے پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وفاق سے فیصلہ واپس لینے کی اپیل اور سندھ میں احتجاج کی کال پی پی کی دوہری اور منافقانہ پالیسی کی عکاسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا ہر ایک فرد اپنے وسائل اور پانی کے ہر قطرہ کی حفاظت کرے گا کیونکہ یہ صرف سندھ کے پانی کا نہیں بلکہ سندھ کے آنے والی نسلوں کے مستقل ، تہذیب، ثقافت اور بقا کا مسئلہ ہے۔ سندھ کے عوام اب جاگ چکے ہیں۔ پانی کی طرح این ایف سی ایوارڈ گیس، پیٹرو ل اور کارونجر سمیت سندھ کےمعدنی وسائل اور زمینوں کی حفاظت کی ضرورت ہے۔صوبائی امیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت میں بیٹھے لوگ احتجاج نہیں بلکہ ایکشن لیتے ہیں۔ احتجاج اور اقتدار ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ اقتدار میں لائی گئی ہے اور اس کی بات نہیں مانی جائے گی تو پھر اسے فوری طور پر وفاقی اور صوبائی اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے۔ افطار ڈنر کے موقع پر جماعت اسلامی سندھ کے جنرل سیکرٹری محمد یوسف، امیر ضلع حیدرآباد حافظ طاہر مجید، صوبائی سیکرٹری اطلاعات مجاہد چنا نے بھی خطاب کیا جبکہ صوبائی رہنما سہیل شارق الطاف ملاح، زاہد حسین راجپر،محمد حنیف شیخ سینیئر صحافی علی حسن ، محمد شاہد شیخ سمیت مقامی رہنما موجود تھے۔