یوکرینی صدر آج اپنے اتحادیوں سے ملاقات کریں گے، ‘مزید امداد’ کی یقین دہانی

آج پیرس میں 30 کے قریب عالمی رہنما یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں یوکرین کے لیے فوجی مدد بڑھانے، جنگ بندی کے امکانات کا جائزہ لینے اور مستقبل میں روس کے ساتھ کسی امن معاہدے میں یورپ کے ممکنہ کردار پر بات کی جائے گی۔ فرانس نے اس اجلاس کو اہم اور قابل اتحاد کا نام دیا ہے۔ اس کانفرنس میں پولینڈ، نیٹو، اٹلی اور ترکی سمیت کئی ممالک کے اعلیٰ عہدیدار شریک ہوں گے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ فرانس یوکرین کو مزید 2 بلین یورو کی فوجی مدد فراہم کرے گا، جبکہ زیلنسکی نے کہا کہ دوسرے ممالک بھی امداد کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر غور ہوگا کہ یوکرین کو روسی حملوں سے بچانے کے لیے عسکری طور پر مزید کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کی نگرانی اور سیکیورٹی انتظامات پر بھی گفتگو ہوگی۔ رپورٹس کے مطابق، کچھ یورپی ممالک یوکرین میں براہ راست فوجی بھیجنے کے بجائے دیگر سیکیورٹی اقدامات پر غور کر رہے ہیں کیونکہ انہیں سیاسی اور لاجسٹک مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ امریکا اور روس بھی اس کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں ایک تجویز یہ بھی زیر بحث آئے گی کہ مستقبل میں یوکرین میں ایک فورس تعینات کی جائے، جو جنگ بندی کے بعد امن و امان برقرار رکھنے میں مدد دے گی۔ تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کون سے ممالک اس فورس کا حصہ بنیں گے۔ دوسری طرف، یوکرین اور روس نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے ہیں، جبکہ یورپی یونین نے بحیرہ اسود میں روس کی تجویز کردہ جنگ بندی کی شرائط کو مسترد کر دیا ہے۔

ترکیہ: اے ایف پی کے صحافی کو احتجاج کے دوران گرفتاری کے بعد عدالت نے رہا کر دیا

پیر کے روز ترکیہ دارالحکومت استنبول میں بلدیہ کے میئر ‘اکرم امام وغلو’ کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران ‘اے ایف پی’ نیوز کے صحافی ‘یاسین آکگل’ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ مظاہرے امام وغلو کی کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتاری کے بعد شروع ہوئے جنہوں نے صدر رجب طیب اردگان کے سیاسی حریف کے طور پر اپنی اہمیت بنا رکھی تھی۔ ان مظاہروں نے ایک دہائی میں سب سے بڑے عوامی احتجاج کا رُخ اختیار کیا اور پورے ملک میں پھیل گئے، جبکہ اس دوران پولیس کی جانب سے متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پیر کے روز آکگل سمیت سات صحافیوں کو غیر قانونی اجلاسوں اور جلوسوں میں شرکت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا مگر آج عدالت نے یاسین آکگل کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ باقی کے چھ صحافیوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اس دوران ان صحافیوں پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے پولیس کے انتباہ کے باوجود احتجاج میں شرکت کی تھی۔ دوسری جانب صدر اردگان نے ان مظاہروں کو محض ایک ‘تماشہ’ قرار دیا اور کہا کہ اس میں شریک افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ تاہم، حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے مظاہرے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور کہا کہ وہ حکومت پر مزید دباؤ ڈالیں گے۔ امام وغلو کے خلاف اس کیس کو نہ صرف اپوزیشن بلکہ مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سیاسی مقدمہ قرار دیا ہے کیونکہ اماموغلو کی مقبولیت اردگان کے لئے ایک ممکنہ انتخابی خطرہ بن چکی تھی اور حکومت کا کہنا ہے کہ عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اور اس پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اس تناظر میں ترکیہ کے آئندہ سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے کیونکہ یہ مقدمہ صرف ایک فرد کی آزادی نہیں بلکہ ملک میں اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کے لئے بھی بہت اہم بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا

’بلوچ مظاہرین پرامن نہیں‘ اقوام متحدہ کا بیان افسوسناک قرار

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بلوچستان میں ہونے والے احتجاج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مظاہرین پرامن نہیں بلکہ دہشتگردوں کے ساتھی ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے بیان کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ یہ بیان انتہاپسندوں کو مزید طاقت دینے کے مترادف ہے۔ شفقت علی خان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ بلوچستان کے احتجاجی مظاہرین دہشتگردوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور انہوں نے کوئٹہ کے ایک ہسپتال پر حملہ کرکے دہشتگردوں کی لاشیں قبضے میں لے لی تھیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کو حقائق سے لاعلمی قرار دیا اور کہا کہ عالمی ادارے کو متشدد گروہوں کی حمایت کرنے کے بجائے آزاد ریاستوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر لگائی جانے والی پابندیوں پر بات کرتے ہوئے ترجمان نے انہیں جانبدارانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس میں پاکستان پر پابندیوں کے حوالے سے پیش کیا گیا بل کسی ایک فرد کا ذاتی اقدام ہے، نہ کہ امریکی حکومت کی پالیسی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات باہمی احترام اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے اصول پر قائم ہیں۔ مزید پڑھیں: ‘اسرائیل نے غزہ میں طاقت استعمال کی تو قیدی تابوت میں واپس آئیں گے’ حماس کی وارننگ افغانستان کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے ترجمان نے بتایا کہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر پاکستان کے خصوصی نمائندہ محمد صادق نے افغانستان کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے افغان حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے میں دونوں ممالک نے سیکیورٹی، تجارت اور عوامی روابط کو مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈلائن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انڈیا کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ پاکستان عالمی سطح پر بھارت کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان نے انڈین حکومت کے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے سے متعلق ثبوت اقوام متحدہ میں جمع کروا دیے ہیں۔ انہوں نے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنماؤں کے گھروں پر چھاپوں کی بھی مذمت کی۔ اسرائیل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ترجمان نے واضح کیا کہ کوئی بھی پاکستانی اپنے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کر سکتا، البتہ اگر کوئی دوسرا ملک خود سفر کا بندوبست کرے تو ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔ روس اور یوکرین جنگ پر پاکستان کے مؤقف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان محدود جنگ بندی کے معاہدے کو خوش آمدید کہتا ہے۔ شام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہاں دیرپا امن صرف سیکیورٹی فورسز کو غیر مسلح کرنے سے نہیں آئے گا بلکہ اس کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا

امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی حالیہ رپورٹ میں انڈین حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی “را” کو بیرون ملک سکھ علیحدگی پسندوں کے قتل میں براہ راست ملوث قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈین انٹیلی جنس نہ صرف دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے بلکہ بیرون ملک سرگرم علیحدگی پسندوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں بھی کر رہی ہے۔ کمیشن نے انڈین انٹیلی جنس ایجنسی را پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے، جس کی بنیادی وجہ اس کا سکھ علیحدگی پسندوں کے قتل کی سازشوں میں ملوث ہونا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ را کے سابق انٹیلی جنس افسر وکاش یادیو براہ راست ان حملوں میں شریک تھے اور انہیں متعدد کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کرتے دیکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انڈیامیں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ نہ صرف انڈین انٹیلی جنس ایجنسی بلکہ اس میں ملوث افراد، خصوصاً وکاش یادیو پر بھی خصوصی پابندیاں عائد کرے تاکہ انڈیاکو یہ پیغام دیا جا سکے کہ اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انڈیا میں مذہبی اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور یہ صورتحال 2024 میں مزید خراب ہو گئی۔ انتخابات کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ، انڈیا میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز تقاریر، اقلیتوں کے خلاف بنائے جانے والے امتیازی قوانین، زبردستی مذہب کی تبدیلی کے خلاف سخت قوانین، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، اور مسلمانوں کی املاک کی مسماری کو اقلیتوں کے حقوق پر کھلا حملہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کی ابتر صورتحال کے پیش نظر انڈیا کو خصوصی تشویش کے حامل ملک قرار دیا جائے۔ اس اقدام سے انڈیا پر عالمی دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ وہ اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی سطح پر انڈیا کی خفیہ کارروائیوں اور دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا نہ صرف اپنے ملک میں اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہا ہے بلکہ بیرون ملک بھی سیاسی مخالفین اور علیحدگی پسندوں کے خلاف خفیہ آپریشن کر رہا ہے، جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ امریکا سمیت مختلف ممالک انڈیا کی ان سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور مستقبل میں اس حوالے سے سخت اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی سفارشات پر عمل درآمد کی صورت میں انڈیا کو سفارتی اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔  

اسرائیلی فورسز کی غزہ میں بمباری، مزید 23 معصوم افراد شہید

غزہ کی سرزمین پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر علاقے میں خوف ہراس پھیلا دیا ہے، جہاں منگل کے روز کم از کم 23 فلسطینی شہید ہو گئے۔ مقامی صحت حکام کے مطابق اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں نے ایک ہفتے قبل شروع ہونے والی جنگ کو مزید شدت دی ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ ایک ہفتے میں 700 سے زائد بے گناہ افراد کی جانیں گئیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی پہلے ہی 18 مہینوں سے جاری جنگ میں بار بار بے گھر ہو چکی ہے اور اب یہ بے بس لوگ کھانے کی کمی اور پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے اس مہینے کے اوائل میں امدادی سامان کی ترسیل روک دی تھی، جس سے وہاں کے حالات مزید بدتر ہو گئے ہیں۔ منگل کے روز اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے تمام سرحدی قصبوں کے رہائشیوں کو فوراً جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم دیا یہ شہر جن میں جبالیہ، بیت لہیہ، بیت حانون اور الشجاعیہ شامل ہیں ان علاقوں میں ہزاروں افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے مگر اسرائیلی فوج نے ان کو بے گھر ہونے کے لیے فوری طور پر نقل مکانی کرنے کا حکم دے دیا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ سب فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، فلسطینی اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ان حملوں کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ اسیر 59 افراد کو رہا کرے جن میں سے 24 زندہ ہیں۔ اسرائیل نے حماس کو 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا، جس میں 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور تقریبا 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل کی فوجی کارروائیاں بدستور جاری ہیں جنہوں نے اب تک 50,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے جن میں بچے اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ حماس نے اس خون ریزی کے آغاز کے بعد سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں مگر ابھی تک کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی۔ جبکہ غزہ کی حالت زار بدتر ہوتی جا رہی ہے اور عالمی برادری کی خاموشی اس المیے میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں اسرائیلی حملے نہ صرف انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ مزید پڑھیں: پب جی مزید دوبھائیوں کی زندگیاں نگل گئی

‘آخری حد تک کوشش کروں گا کہ پاکستان کو قرضوں سے نجات دلاؤں’ شہباز شریف

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے آج پرائم منسٹر یوتھ ہب کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے حکومت کی پالیسیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی ترقی میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے اور اس میں پاکستان کے نوجوانوں کا قیمتی سرمایہ قدرتی وسائل سے بھی بڑھ کر ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک تیل، گیس اور معدنیات سے مالا مال ہیں لیکن پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے نوجوان ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی سابقہ خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے 4 لاکھ لیپ ٹاپز ضرورت مند طلبا میں مفت تقسیم کیے تھے تاکہ تعلیمی معیار میں بہتری لائی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دن پاکستان کے نوجوانوں کے لیے خوشی کا دن ہے اور اس بات کا اعتراف کیا کہ تعلیم، صحت اور نوجوانوں کے لیے ترجیحی اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر نوجوانوں کو آئی ٹی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) اور ووکیشنل ٹریننگ فراہم کی جائے تو وہ ملک کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں اور پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: لوچستان سے اندرونِ ملک ٹرین سروس آج سے بحال: مزید کیا تبدیلیاں ہوں گی؟ وزیراعظم نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ پاکستان کے قرضوں میں 77 سالوں میں اضافہ ہوا ہے مگر ان کی حکومت نے اس قرضے کی زندگی کو وقار کی زندگی میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگراموں سے معیشت میں استحکام آیا ہے اور دعا کی کہ یہ آخری پروگرام ثابت ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہو چکی ہے اور اب ہمیں کسانوں، صنعت کاروں اور نوجوانوں کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ رانا مشہود کو پروڈکٹیو ایمپلائمنٹ کا ٹاسک دیا گیا ہے جبکہ ملک کے ٹریننگ سینٹرز میں بہترین تربیت فراہم کی جائے گی تاکہ ہنر مند نوجوانوں کی بدولت پاکستان کا مستقبل شاندار بنے۔ وزیرِ اعظم نے عزم ظاہر کیا کہ وہ آخری دم تک عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے رہیں گے اور پاکستان کی خدمت کرتے رہیں گے۔ مزید پڑھیں: بلوچستان میں دہشت گردوں کا بس پر حملہ، پنجاب کا شناختی کارڈ ہونے پر مسافروں کو گولی مار دی

’بلوچستان میں شناخت کے بعد 6 افراد قتل‘ بڑا فوجی آپریشن ہوسکتا ہے، وزیراعلیٰ

بلوچستان کے علاقے کلماٹ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں مسلح افراد نے کراچی جانے والی مسافر بس کے چار مسافروں کو شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد گولی مار کر قتل کر دیا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق پنجاب سے تھا اور تین دیگر کو اغوا کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں بدھ کی رات ایک المناک واقعہ پیش آیا، جہاں مسلح افراد نے مرکزی شاہراہ کو بلاک کرکے پانچ افراد کو قتل کر دیا اور متعدد مال بردار گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق مسلح افراد نے تیز رفتار کارروائی کرتے ہوئے تین طویل باڈی ٹریلرز کو بھی جلا دیا جو گوادر بندرگاہ سے افغانستان جا رہے تھے اور ان میں یوریا کھاد بھری ہوئی تھی۔ ہائی وے پولیس کے ایس ایس پی حفیظ بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں نے تاجابان علاقے میں تین ٹریلرز کو آگ لگا دی اور پانچ افراد کو قتل کر دیا۔ ایس ایس پی نے مزید بتایا کہ اس حملے کے دوران توربت، پنجگور اور پسنی کے علاقوں میں بھی سڑکیں بلاک کر دی گئیں۔ جب کہ لیویز حکام نے اطلاع دی ہے کہ بولان، کولپور اور مستونگ کے علاقوں میں بھی سڑکیں بند ہوئیں اور ایک لیویز کی گاڑی کو مستونگ میں نذر آتش کر دیا گیا۔ دوسری جانب دوسری جانب تربت کے علاقے میں بھی ایک سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر بھی حملہ کیا گیا ہے جس میں شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں تاہم ابھی تک اس واقعے کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری ان علاقوں کی طرف روانہ ہو چکی ہے جہاں مسلح افراد نے سڑکیں بلاک کیں اور آپریشنز جاری ہیں تاکہ علاقے کو محفوظ بنایا جا سکے۔ یہ خونریز حملے بلوچستان میں بڑھتی ہوئی تشویش کا نشان ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے۔ مزید پڑھیں: سائفر کیس، عمران خان اور پاکستانی عوام کی سیاسی تقسیم میر سرفراز بگٹی نے صوبے میں حالیہ سیکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کے تناظر میں کہا ہے کہ صوبے میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم ضرورت پڑنے پر ایسا آپریشن ہو سکتا ہے۔ عالمی میڈیا کے ساتھ ایک نشست کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان  نے یہ بات ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کے سوال کے جواب میں کہی۔ صحافی نے سوال کیا کہ ’آیا صوبے کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر بطور وزیراعلیٰ آپ سمجھتے ہیں کہ ملٹری آپریشن کی ضرورت ہے؟‘  سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’ہمیں خطرے سے نمٹنا ہے۔ صوبے میں سمارٹ کائنیٹک آپریشن کی ضرورت ہے جبکہ انٹیلی جنس آپریشن پہلے ہی سے صوبے میں جاری ہیں۔‘

بلوچستان سے اندرونِ ملک ٹرین سروس آج سے بحال: مزید کیا تبدیلیاں ہوں گی؟

وزیر ریلوے حنیف عباسی نے اعلان کیا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملے کے بعد معطل ہونے والی بلوچستان کی ٹرین سروس 27 مارچ سے بحال ہو جائے گی۔ حملے میں ٹرین کو روکنے کے لیے دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا اور فائرنگ سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، جبکہ دیگر نقصان بھی ہوا۔ ریلوے انجینئرز تباہ شدہ ٹریک کی مرمت کر رہے ہیں، اور حملے میں متاثرہ مسافر کوچز اور انجنوں کو لاہور میں مرمت کے لیے بھیجا جائے گا۔ جعفر ایکسپریس آج پشاور سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوگی اور اگلے دن واپسی کرے گی۔ عید کے دوران مسافروں کی سہولت کے لیے 29 مارچ کو خصوصی ٹرین چلائی جائے گی، اور عید کے دنوں میں ٹکٹوں پر 20 فیصد رعایت دی جائے گی۔ بولان ایکسپریس، جو پہلے ہفتے میں دو بار چلتی تھی، اب روزانہ چلے گی، جبکہ بلوچستان میں ٹرینوں کی تعداد تین سے بڑھا کر نو کر دی جائے گی۔ ریلوے سٹیشنوں کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے 500 نئے پولیس اہلکار بھرتی کیے جا رہے ہیں، جن میں 70 فیصد بلوچستان سے ہوں گے، جبکہ دوسرے مرحلے میں مزید 1,000 اہلکاروں کی بھرتی ہوگی۔ ریلوے کی قائمہ کمیٹی نے جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملے کے حوالے سے ان کیمرہ بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو ہدایت دی ہے کہ آئندہ اجلاس میں سیکرٹری داخلہ کی موجودگی یقینی بنائی جائے۔ ریلوے بورڈ نے کمیٹی کو دو بڑے منصوبوں پر بریفنگ دی۔ پہلے منصوبے میں 820 اعلیٰ صلاحیت والی مال بردار ویگنوں اور 230 مسافر بردار کوچز کی تیاری شامل ہے۔ ان مال بردار ویگنوں کی لاگت 9.48 ارب روپے سے بڑھ کر 17.57 ارب روپے ہو گئی ہے، اور باقی ویگنیں دسمبر 2025 تک مکمل ہوں گی۔ مسافر کوچز کی لاگت 21.71 ارب روپے سے بڑھ کر 53.39 ارب روپے ہو چکی ہے، اور 184 کوچز جون 2027 تک مکمل ہوں گی۔ دوسرا منصوبہ تھر ریل کنیکٹیویٹی سے متعلق ہے، جس کی کل لاگت 53.72 ارب روپے ہے اور اسے دو سال میں مکمل کیا جائے گا۔ یہ اقدامات بلوچستان میں ریل سروس کی بحالی، مسافروں کی سہولت، اور ریلوے کی سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔

یو اے ای میں 10 پاکستانی بھیک مانگتے ہوئے گرفتار: پانچ خواتین بھی شامل

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں حکام نے بھیک مانگنے کے الزام میں 10 پاکستانی شہریوں کو گرفتار کر لیا، جن میں 5 خواتین بھی شامل ہیں۔ خلیجی ملک میں بھکاریوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تحت ان افراد کو مختلف کارروائیوں کے دوران حراست میں لیا گیا۔ گرفتار شدگان میں تین خواتین، آمنہ بی بی، کوثر بی بی اور فرزانہ بی بی کا تعلق وہاڑی سے ہے، جبکہ جمیلہ بی بی اور زبیدہ بی بی لاہور کی رہائشی ہیں۔ دیگر گرفتار ملزمان میں ڈی جی خان کے محمد زکریا، بہاولنگر کے وسیم حیدر، لاہور کے محمد عثمان، چارسدہ کے اعجاز خان اور پشاور کے عبداللہ شامل ہیں۔ حکام نے پاکستانی سفارت خانے کو اس پیشرفت سے آگاہ کر دیا ہے اور تمام گرفتار افراد کو جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہیں جلد پاکستان ڈی پورٹ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس کے لیے ایمرجنسی پاسپورٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان واپسی پر ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یو اے ای حکام نے پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا پالیسی مزید سخت کر دی ہے اور حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مسافروں کی بہتر جانچ پڑتال کو یقینی بنائے تاکہ اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔

امریکی آٹو ٹیرف کے باعث انڈین روپے کی قدر میں کمی کا امکان

عالمی مارکیٹ میں امریکا کی جانب سے نئی گاڑیوں پر ٹارفز عائد کرنے کی خبر کے اثرات بھارتی کرنسی پر بھی نظر آئیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے اس فیصلے نے نہ صرف ایشیائی شئیر مارکیٹ کو متاثر کیا بلکہ امریکی اسٹاکس بھی شدید مندی کا شکار ہو گئے ہیں۔ چند گھنٹوں میں انڈین روپیہ 85.70 کے قریب تھا اور آج متوقع ہے کہ یہ 85.80 سے 85.88 کے درمیان کھلے گا۔ پچھلے سیشن میں روپے کی قیمت 85.7050 تھی اور اب عالمی سطح پر امریکی ڈالر کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے انڈین روپے کی حالت خاصی کمزور نظر آ رہی ہے۔ امریکی صدر کے ٹارفز کے اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں کافی حد تک فروخت ہوئی اور اس کے بعد عالمی منڈیوں میں بھی غیر یقینی صورتحال نے سر اُٹھایا ہے۔ ان تمام حالات میں ڈالر انڈیکس تین ہفتوں کی بلند ترین سطح تک پہنچ  گیا حالانکہ بعد میں اس میں کچھ کمی آئی۔ لیکن انڈین روپیہ صرف تجارتی تناؤ کی وجہ سے ہی کمزور نہیں ہو رہا بلکہ مارچ کے آخری دن اور اپریل کے آغاز میں ہونے والی مقامی تعطیلات بھی اس کے اثرات کو بڑھا رہی ہیں۔ انڈیا کے مالیاتی بازار مارچ 31 اور اپریل 1 کو بند رہیں گے جس کی وجہ سے 2 اپریل کو یہ تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی۔ اس “اسپاٹ ڈیٹ” کی تبدیلی کے باعث روپے کو ایک اضافی بوجھ جھیلنا پڑے گا جس کا اثر روپے کی قیمت پر پڑے گا اور یہ 10 سے 12 پیسے تک نیچے آنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر نے کہا ہے کہ اپریل 2 کو ہونے والی ٹارفز میں نرمی کی جائے گی لیکن تب تک امریکی کرنسی کی قوت اور عالمی مارکیٹ میں حساسیت کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈین روپیہ مزید دباؤ کا شکار رہے گا۔ این زیڈ بینک کے تجزیہ کار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ “ٹارِفز کے اس معاملے کی وضاحت آنے تک خطرے کی گنجائش کم ہوتی محسوس نہیں ہوتی” اس تمام تر تناؤ کے باوجود ایک اچھی خبر یہ بھی آئی ہے کہ انڈین کی شیئر مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے 25 مارچ کو 664.7 ملین ڈالر کی خریداری کی گئی جس سے انڈین اسٹاکس کو کچھ تقویت ملی۔ تاہم، انڈین بانڈز کی خریداری میں کمی آئی ہے اور 25 مارچ کو غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 56 ملین ڈالر کی فروخت کی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکی ٹارفز کے حوالے سے مزید واضح معلومات ملتی ہیں تو انڈین روپیہ اور دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی کرنسیوں کو استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: چینی اے آئی انڈسٹری سے خوفزدہ امریکا نے پاکستان سمیت مختلف ممالک کی 70 کمپنیوں پر پابندی لگادی