امریکا کا گاڑیوں پر ٹیکس: کینیڈا کے وزیر اعظم نے ‘براہ راست حملہ’ قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آٹو ٹیرف کے اعلان پر کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اسے اپنے ملک پر “براہ راست حملہ” قرار دیا اور کہا کہ تجارتی جنگ امریکیوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکی صارفین کا اعتماد کئی سالوں کی کم ترین سطح پر ہے۔ ٹرمپ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ آٹو امپورٹ پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر رہے ہیں اور یہ مستقل ہوگا۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے کارنی نے کہا کہ وہ اپنے کارکنوں، کمپنیوں اور ملک کا دفاع کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ انتقامی اقدامات سے پہلے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کی تفصیلات دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال پر غور کے لیے وہ انتخابی مہم چھوڑ کر اوٹاوا واپس جا رہے ہیں، جہاں وہ امریکی تعلقات پر اپنی کابینہ کمیٹی کی صدارت کریں گے۔ کارنی نے پہلے ہی ایک اسٹریٹجک ریسپانس فنڈ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت دو ارب کینیڈین ڈالر ان کینیڈین آٹو ملازمتوں کی حفاظت کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو ان محصولات سے متاثر ہوں گی۔ کینیڈا کی معیشت میں آٹو انڈسٹری کا اہم کردار ہے، جس میں ایک لاکھ پچیس ہزار افراد براہ راست اور پانچ لاکھ افراد بالواسطہ ملازمتیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے کینیڈا اور میکسیکو سے امریکی کار سازوں کے لیے درآمدات پر ایک ماہ کی چھوٹ دی تھی، لیکن نئے محصولات سے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکی صارفین کے اعتماد میں مسلسل چار ماہ کی کمی رپورٹ کی گئی، اور مارچ میں یہ 92.9 پوائنٹس پر آ گیا، جو جنوری 2021 کے بعد سب سے کم سطح ہے۔ کارنی نے انتخابی مہم کے دوران کہا کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ امریکی صارفین اور کارکنوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ نئے ٹیرف سے آٹو مینو فیکچررز کو زیادہ لاگت اور کم فروخت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل، ٹرمپ نے کینیڈین اسٹیل اور ایلومینیم پر بھی 25 فیصد محصولات عائد کیے تھے اور اب دھمکی دی ہے کہ وہ 2 اپریل سے کینیڈا سمیت تمام تجارتی شراکت داروں پر مزید محصولات لگائیں گے۔ کارنی نے کہا کہ یہ اقدام دراصل امریکہ کی جانب سے کینیڈا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، لیکن کینیڈا اس کا مقابلہ کرے گا۔ اونٹاریو کے پریمیئر ڈگ فورڈ نے خبردار کیا کہ اگر محصولات لاگو ہوئے تو سرحد کے دونوں طرف آٹو پلانٹس بند ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ٹرمپ اسے یوم آزادی قرار دے رہے ہیں، لیکن یہ امریکی کارکنوں کے لیے یوم برخاستگی ہوگا۔ کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات اس فیصلے کے بعد مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ نے کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کے مطالبات بھی جاری رکھے ہیں، جس پر کینیڈین عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کارنی نے کہا کہ ان کا ابھی تک ٹرمپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، جو غیر معمولی بات ہے، لیکن انہیں امید ہے کہ جلد ہی بات چیت ہوگی۔ کینیڈا میں حزب اختلاف کے رہنما پیئر پوئیلیور نے بھی محصولات پر تنقید کی اور کہا کہ ٹرمپ کو یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے کیونکہ یہ امریکی اور کینیڈین آٹو انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

مقامی صنعت کو فروغ: امریکا نے درآمدی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیکس لگا دیا

اوول آفس میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ تمام غیر امریکی ساختہ گاڑیوں پر یہ نیا ٹیرف لاگو ہوگا۔ ان کے مطابق یہ محصولات نہ صرف امریکی صنعت کو دوبارہ مضبوط کریں گے بلکہ ٹیکس کٹوتیوں کے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ محصولات 3 اپریل سے نافذ ہوں گے اور ان کا مقصد امریکی تجارتی خسارے میں کردار ادا کرنے والے بڑے ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے اس فیصلے کو کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اسے کینیڈین معیشت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ملکی مفادات کا دفاع کرے گی۔ یونائیٹڈ آٹو ورکرز نے اس اقدام کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے امریکی آٹو انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ یونین کے صدر شان فین کے مطابق یہ محصولات امریکی آٹو ورکرز اور مقامی معیشت کے لیے مثبت پیش رفت ہیں۔ اس اعلان کے بعد کار ساز کمپنیوں کے شیئرز میں کمی دیکھی گئی اور امریکی اسٹاک مارکیٹ کے فیوچر انڈیکس بھی نیچے چلے گئے، جس سے جمعرات کو بازار کی کمزور کارکردگی کی توقع کی جا رہی ہے۔ یہ اقدام 1962 کے تجارتی ایکٹ کے سیکشن 232 کے تحت کیا گیا ہے، جس کے تحت 2019 میں آٹو امپورٹس کی قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس وقت کی تحقیق میں پایا گیا تھا کہ غیر ملکی آٹو درآمدات امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، مگر ٹرمپ نے اس وقت ٹیرف عائد نہیں کیے تھے۔ ٹرمپ کی نئی ہدایت میں آٹو پارٹس پر عارضی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ سرکاری ادارے اس پالیسی کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دے سکیں۔ تاہم، امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کے تحت آنے والے آٹو پارٹس اس وقت تک ٹیرف سے مستثنیٰ ہوں گے جب تک کہ امریکی محکمہ تجارت اور کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کوئی نئی پالیسی طے نہیں کر لیتے۔ سابق امریکی ٹریژری اہلکار بریڈ سیٹسر نے کہا کہ اس فیصلے سے کینیڈا اور میکسیکو کی تقریباً چار ملین گاڑیاں 25 فیصد یا اس سے زیادہ ٹیرف کے دائرے میں آ جائیں گی، جس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھیں گی اور امریکی کاروں کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور جنوبی کوریا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ 2024 میں امریکا نے 474 بلین ڈالر کی آٹوموٹو مصنوعات درآمد کیں، جن میں سے 220 بلین ڈالر کی گاڑیاں شامل تھیں۔ میکسیکو، جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور جرمنی امریکا کے بڑے آٹو سپلائرز ہیں۔ ان ٹیرف سے ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات متاثر ہونے کا امکان ہے۔  

سائفر: وہ سازش جس کے تاحال کوئی ثبوت نہیں ملے

27 مارچ 2022 کو اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کے دوران ایک خط لہرا کر یہ دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے خلاف ایک غیر ملکی سازش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول یہ دستاویز اس بات کا ثبوت تھی کہ بیرونی طاقتیں پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔ ماہر امور سیاسیات پروفیسر رعیت علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ بیانیہ ایک سیاسی حکمت عملی زیادہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ کسی عدالتی یا بین الاقوامی تحقیقات میں سازش کے ثبوت نہیں ملے۔ تاہم عمران خان کے حامیوں میں اس بیانیے کی مقبولیت نے ان کے ووٹ بینک کو کافی مضبوط کیا۔” سابق وزیراعظم عمران کا دعویٰ اس وقت سامنے آیا جب اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لا چکی تھیں اور سیاسی منظرنامہ شدید کشیدگی کا شکار تھا۔ اس دعوے کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل مزید بڑھ گئی اور بحث چھڑ گئی کہ آیا واقعی بیرونی طاقتیں حکومت گرانے میں ملوث تھیں یا نہیں۔ ماہر امور سیاسیات پروفیسر محمد بلال نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان جیسے ممالک میں بیرونی قوتوں کا اثر و رسوخ تاریخی طور پر موجود رہا ہے۔ مگر حکومتوں کی تبدیلی میں براہ راست سازش کے ثبوت شاذ و نادر ہی سامنے آئے ہیں۔” عمران خان نے جلسے میں اس خط کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ بعد ازاں، حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ “سائفر” ایک سفارتی مراسلہ تھا جو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر نے بھیجا تھا اور جس میں امریکی حکام کی جانب سے مبینہ طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی بات کی گئی تھی۔ سائفر اور بیرونی سازش کا معاملہ اس وقت مزید سنگین ہوا جب نیشنل سکیورٹی کمیٹی (NSC) نے اس سائفر کا جائزہ لیا اور تسلیم کیا کہ غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی تھی، تاہم کسی باقاعدہ سازش کے شواہد نہیں ملے۔ اس اجلاس کے بعد پاکستان نے امریکہ کو باضابطہ طور پر ڈیمارچ یعنی سفارتی احتجاج بھی ریکارڈ کرایا، مگر امریکی حکام نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ اس حوالے سے پروفیسر رعیت علی کا کہنا ہے کہ “ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا،سابق وزیراعظم پاکستان محمد علی بوگرا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومتوں کا خاتمہ ایسے واقعات ہیں جن پر بیرونی اثرات کے الزامات لگے مگر تاریخی شواہد ابہام کا شکار ہیں۔” چند روز بعد اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور وہ وزارتِ عظمیٰ سے برطرف ہو گئے۔ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (PTI) نے الزام لگایا کہ ان کی حکومت کو بیرونی طاقتوں کے اشارے پر گرایا گیا۔ جبکہ حزبِ اختلاف اور فوجی قیادت نے اس بیانیے کی سختی سے تردید کی۔ پروفیسر محمد بلال کے مطابق “سازش کے شواہد کمزور تھے مگر سفارتی دباؤ ہمیشہ رہتا ہے۔ عمران خان کے بیانیے نے عوام میں پذیرائی حاصل کی لیکن عالمی سطح پر اسے قبولیت نہ ملی۔” سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی متحدہ کوششوں، ان کے بعض پالیسی فیصلوں اور فوج سے کشیدہ تعلقات نے بھی ان کے اقتدار کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔ عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد، ان کے خلاف مختلف نوعیت کے درجنوں مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں بدعنوانی، توشہ خانہ کیس، سائفر کیس اور احتجاج میں تشدد بھڑکانے جیسے الزامات شامل ہیں۔ پروفیسر رعیت علی کے نزدیک ” سیاسی بنیادوں پر مقدمات جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر حکومت اپنے مخالفین کے خلاف ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہے جس سے سیاسی نظام کمزور ہوا ہے۔” مئی 2023 میں عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک بھر میں شدید احتجاج اور مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ اس دوران کئی مقامات پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جسے ریاست نے بغاوت کے مترادف قرار دیا۔ اس کے بعد 5 اگست کو عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں زمان پارک لاہور ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا اور انہیں اٹک جیل منتقل کیا اس کے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا تھا اور تاحال وہ اڈیالہ جیل میں ہی ہیں۔ پروفیسر محمد بلال کا کہنا ہے کہ ” ایسی صورتحال پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کو مزید دبایا گیا تو اس کے ردعمل میں عوامی احتجاج شدید ہو سکتا ہے۔” اب تک سامنے آنے والی تحقیقات میں یہ تو واضح ہوا کہ سفارتی سائفر میں سخت زبان استعمال کی گئی تھی، مگر کسی منظم غیر ملکی سازش کے شواہد سامنے نہیں آئے۔ امریکہ نے بھی کئی بار ایسے الزامات کو مسترد کر دیا، جب کہ پاکستان کے ریاستی ادارے بھی باضابطہ طور پر کسی “سازش” کے تاثر کو رد کر چکے ہیں۔ پروفیسر رعیت علی کا کہنا ہے کہ ” سائفر جیسے معاملات عالمی سفارت کاری میں پاکستان کی ساکھ پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سفارتی خط و کتابت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔” عمران خان کے حامی اب بھی یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ انہیں ایک باقاعدہ سازش کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا جب کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ سب ایک سیاسی بیانیہ ہے جسے اقتدار میں واپسی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پروفیسر محمد بلال کا کہنا ہے کہ “عمران خان کے بیانیے نے نوجوان ووٹرز کو متحرک کیا ہے جو انہیں انتخابات میں فائدہ دے سکتا ہے۔ تاہم قانونی پیچیدگیاں ان کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔” عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی PTI کو شدید سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ مگر اس کے باوجود حالیہ انتخابات میں ان کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اب بھی ایک مقبول رہنما ہیں۔ پروفیسر رعیت علی

انڈیا میں پنجاب  پولیس کے ہاتھوں فوجی افسر کی پٹائی ، فوج کا غیر جانبدار تفتیش کا مطالبہ

انڈیا کی فوج نے ایک حاضر سروس کرنل اور ان کے بیٹے کی مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے پٹائی کے واقعے کی غیر جانبدار اور منصفانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ ابتدائی طور پر مقامی پولیس نے کرنل کی ایف آئی آر درج نہیں کی، جس کے بعد یہ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ اس واقعے نے فوج اور پولیس کے درمیان کشیدگی کو جنم دیا۔ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ویسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کے اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل موہت وادھوا اور پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے چنڈی گڑھ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ لیفٹیننٹ جنرل موہت وادھوا نے اس واقعے کو افسوسناک اور غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ قصورواروں کے خلاف غیر جانبدار اور شفاف تفتیش کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج 15 مارچ کو اس واقعے سے آگاہ ہوئی اور اس کے بعد اعلیٰ حکام سے کارروائی کی درخواست کی گئی۔ پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے کہا کہ اسے فوج اور پولیس کے درمیان تصادم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پولیس فوج کے وقار اور مرتبے کا احترام کرتی ہے۔ ان کے مطابق، واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ کرنل پشپیندر سنگھ نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں الزام لگایا کہ 13 مارچ کی رات پٹیالہ کے ایک ڈھابے میں پارکنگ کے معمولی تنازعے کے بعد پنجاب پولیس کے چار انسپکٹر سمیت 12 اہلکاروں نے ان پر حملہ کیا۔ اس حملے میں ان کے کندھے پر چوٹ آئی جبکہ ان کے بیٹے کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ڈھابے کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں واقعے کی ویڈیوز موجود ہیں۔ کرنل نے مزید الزام لگایا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کا موبائل فون بھی چھین لیا اور ان کی شناخت جاننے کے باوجود واپس نہیں کیا۔ کرنل پشپیندر سنگھ اس وقت چنڈی مندر کے کمانڈ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے 22 مارچ کو 12 پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ بعد ازاں، انہوں نے پنجاب ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی، جس میں مطالبہ کیا کہ ان کی ایف آئی آر کو سی بی آئی یا کسی دوسرے غیر جانبدار تفتیشی ادارے کو منتقل کیا جائے تاکہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔