میانمار میں زلزلہ: اموات کی تعداد 2700 سے تجاوز کرگئی

جمعہ کو وسطی میانمار میں شدید زلزلہ آیا اور ینگون اور پڑوسی ملک تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں بھی لوگ خوف و ہراس کے عالم میں عمارتوں سے باہر نکل آئے۔ ہفتے کے روز میانمار میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بین الاقوامی امداد پہنچنا شروع ہو گئی۔ امدادی کارکن زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے ہیں، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ میانمار میں زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 1000 سے بڑھ گئی ہے، جبکہ 1,670 افراد زخمی ہیں۔ یہ تعداد پہلے رپورٹ کی گئی 144 ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت نے کہا ہے کہ زلزلے کی وجہ سے سڑکیں، پل اور عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔   Many buildings were reportedly destroyed in the 7.7 magnitude earthquake in Myanmar. Video showing people being rescued from the rubles of the collapsed buildings. Pray for Myanmar 🇲🇲 🙏🏻#Myanmar #earthquake #แผ่นดินไหว pic.twitter.com/7yPoGXMBvK — Sumit (@SumitHansd) March 28, 2025 یو ایس جی ایس کے مطابق، زلزلے کا مرکز منڈالے شہر سے تقریباً 17.2 کلومیٹر دور تھا، جس کی آبادی تقریباً 1.2 ملین ہے۔ میانمار کے فائر سروسز ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا “ہم نے جانی اور مالی نقصان کی جانچ کرنے کے لیے ینگون کے ارد گرد تلاش شروع کر دی ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔” میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ نے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک سے مدد اور عطیات کی اپیل کی تھی۔ اس اپیل پر چین، روس اور امریکہ سمیت کئی ممالک نے مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ چین کی ایک 37 رکنی امدادی ٹیم ہفتے کے روز میانمار کے سابق دارالحکومت ینگون پہنچی، جو اپنے ساتھ طبی سامان اور زندگی کے آثار کا پتہ لگانے والے آلات لے کر آئی ہے۔ روس نے بھی 120 تجربہ کار ریسکیو اہلکار، ڈاکٹر اور تربیت یافتہ کتے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت میانمار کی مدد کے لیے تیار ہے۔ زلزلے کا سب سے زیادہ نقصان میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں ہوا، جو زلزلے کے مرکز کے قریب تھا۔ امریکی ماہرین کے مطابق میانمار میں ہلاکتوں کی تعداد 10,000 سے تجاوز کر سکتی ہے، اور ملک کو شدید مالی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ زلزلے کے جھٹکے تھائی لینڈ میں بھی محسوس کیے گئے، جہاں دارالحکومت بنکاک میں ایک 33 منزلہ عمارت گرنے سے نو افراد ہلاک اور 101 افراد لاپتہ ہو گئے، جن میں زیادہ تر مزدور شامل ہیں۔ امدادی کارکن ملبے میں دبے لوگوں کو نکالنے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ بنکاک کے گورنر چاڈچارٹ سیٹی پونٹ نے کہا ہے کہ “ہم جانیں بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور تمام وسائل استعمال کریں گے۔” تھائی حکام کے مطابق زلزلے کے بعد کئی لوگوں نے بنکاک کے پارکوں میں رات گزاری، تاہم اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ زلزلے کے بڑے نقصان کو دیکھتے ہوئے عالمی امدادی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں تاکہ مزید جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔  

جنوبی کوریا میں تاریخ کی بدترین آتش زدگی، 35,000 ہیکٹر جنگلات تباہ

جنوبی کوریا میں لگی آگ نے تاریخ کی سب سے بدترین اور جنگلات کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی آگ کا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔ گزشتہ اتوار کو شروع ہونے والی جنگلاتی آتشزدگی نے جنوب مشرقی علاقے کو بھسم کر دیا ہے جس سے ہزاروں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ مقامی میڈیا کہ مطابق اب تک 27 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی بڑھنے کی توقع ہے۔ جنوبی کوریا کی وزارت داخلہ و سلامتی کے مطابق 37,000 سے زائد افراد کو ان آتشزدگی سے متاثر علاقوں سے نکال لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں کی بندش اور مواصلاتی لائنوں کے منقطع ہونے کے سبب لوگ پریشانی کے عالم میں اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات کی طرف بھاگے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں صورت حال بے حد سنگین ہے اور آگ کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس آتشزدگی نے 35,000 ہیکٹر (86,500 ایکڑ) سے زیادہ جنگل کو جلا ڈالا ہے جو جنوبی کوریا میں اب تک کی سب سے بڑی جنگلاتی آگ ہے۔  1987 سے جنگلاتی آگ کے ریکارڈ رکھنے والے کوریا فاریسٹ سروس کے مطابق یہ اب تک کی سب سے زیادہ جان لیوا آگ ہے۔ وزارت داخلہ ‘لی ہان کیونگ’ کے ڈیزاسٹر اینڈ سیفٹی ڈویژن کے سربراہ نے کہا کہ آگ کی شدت میں اضافہ اور تیز ہوائیں اسے قابو میں رکھنے کے امکانات کو کم کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل7 جنوری کو امریکی ریاست لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ نے علاقے میں دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 29 افراد ہلاک ہوئے، جن میں کچھ وہ افراد بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے تھے اور ہزاروں عمارتیں تباہ برباد ہوگئیں تھی۔ یہ تباہی ان قدرتی آفات میں سے ایک ہے جس نے نہ صرف جانوں کا ضیاع کیا بلکہ لاکھوں کی املاک کو بھی بھسم کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں: لبنان میں 6 معصوم افراد شہید، اسرائیل کا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ

جیف بیزوس کی شادی، امبانی خاندان کی شادی سے 3 گنا زیادہ خرچ ہوگا؟

آپ میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہوں گے کہ انڈیا میں امبانی خاندان کی شادی دنیا کی سب سے مہنگی شادی تھی۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے تین گنا مہنگی شادی اسی سال اٹلی کے شہر وینس میں ہونے جا رہی ہے۔ مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی شادی میں 200 ایمازون کے بانی اور دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص، جیف بیزوس، اس موسم گرما میں اپنی منگیتر لورین سانچیز سے اٹلی کے شہر وینس میں شادی کرنے جا رہے ہیں۔ یہ شادی ان کی مئی 2023 کی منگنی کے تقریباً دو سال بعد منعقد ہو رہی ہے۔ 61 سالہ بیزوس اور 55 سالہ سانچیز نے اپنی سابقہ شادیوں کا اختتام بالترتیب 2019 اور 2023 میں کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق، جوڑے نے شادی کے دعوت نامے بھیجنے کا عمل شروع کر دیا ہے، اگرچہ حتمی تاریخ ابھی ظاہر نہیں کی گئی، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تقریب ممکنہ طور پر جون میں منعقد ہو سکتی ہے۔ افواہوں کے مطابق، جوڑا اپنی شادی جیف بیزوس کے لگژری 500 ملین ڈالر کے سپر یاٹ “کورو” پر کرے گا، جو اٹلی کے ساحل کے قریب موجود ہو گا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں بیزوس نے سانچیز کو پرپوز کیا تھا اور بعد میں اپنی منگنی کی تقریب بھی یہیں منائی تھی۔ اس ہائی پروفائل شادی کی مہمانوں کی فہرست میں ٹیکنالوجی اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی کئی نامور شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔ ان کی منگنی کی تقریب میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اور ان کی ساتھی پاؤل ہرد سمیت کئی مشہور شخصیات نے شرکت کی تھی۔ تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2024 میں ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بیزوس اور سانچیز کی شادی پر 600 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔ جیف بیزوس نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں “مکمل طور پر غلط” قرار دیا تھا۔ لورین سانچیز 1969 میں امریکی شہر البوکرکی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک سابق براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، جنہوں نے بطور انٹرٹینمنٹ رپورٹر اور نیوز اینکر کام کیا۔ 2016 میں سانچیز نے “بلیک اوپس ایوی ایشن” کے نام سے اپنی کمپنی قائم کی، جو اپنی نوعیت کی پہلی خاتون کی ملکیت والی فضائی فلم اور پروڈکشن کمپنی ہے۔  

لبنان میں 6 معصوم افراد شہید، اسرائیل کا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ

لبنان کے جنوبی حصے میں اسرائیلی فضائی حملے نے ایک بار پھر علاقے میں خوف ہراس پھیلا دیا ہے۔ جمعرات کو لبنانی وزارت صحت نے تصدیق کی کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں 6 افراد شہید ہو گئے ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق جنوبی لبنان کے مختلف گاؤں اور قصبوں سے تھا۔ اسرائیل نے اپنے حملوں کو حزب اللہ کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی قرار دیا ہے جبکہ لبنان کی جانب سے ان حملوں کو جنگی کارروائی اور دہشت گردانہ حملے کے طور پر دیکھا گیا۔ اسرائیلی ڈرون نے ‘یحمر الشقيف’ میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں تین افراد شہید ہوگئے۔ نیشنل نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ ایک ہی وقت میں اسرائیلی توپ خانے کی گولیوں کی بارش سے بھی ہم آہنگ تھا جس نے علاقے کو جنگی میدان میں تبدیل کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ وہ اس کارروائی کو حزب اللہ کے دہشت گردوں کے خلاف کر رہے ہیں جو اس علاقے میں اسلحہ منتقل کر رہے تھے۔ اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ان دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے جو اسلحہ کی منتقلی میں ملوث تھے۔ اسی دوران اسرائیلی فضائیہ نے ‘مارعوب’ کے علاقے میں ایک اور حملہ کیا جس میں ایک شخص شہید اور دوسرا زخمی ہوگئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کے حملے میں حزب اللہ کے ایلیٹ دستے ‘ردوان فورس’ کے ایک کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا، جو اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث تھا۔ یہ حملے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان نومبر میں ہونے والے غیر رسمی ‘سیزفائر’ کے بعد پہلی بڑی کارروائی ہیں جس میں دونوں فریقوں کے درمیان ایک سال سے جاری کشیدگی کے بعد خاموشی قائم ہوئی تھی۔ مگر اب یہ سلسلہ دوبارہ شدت اختیار کر چکا ہے اور علاقے میں امن کے قیام کے امکانات مزید کم پڑتے جا رہے ہیں۔ یہ حملے لبنان کے عوام کے لیے ایک مصیبت بن کر سامنے آئے ہیں جبکہ اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں اور شہریوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: ترکیہ: بی بی سی کے صحافی کی ملک بدری، اپوزیشن ٹی وی چینل پر پابندی لگا دی گئی

پاکستان نے چین کا ایک ارب ڈالر قرض واپس کر دیا

پاکستان نے چین کے بینک (ICBC) کو ایک ارب ڈالر کا قرض واپس کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 10.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت امید کر رہی ہے کہ چین اس قرض کو دوبارہ فنانس کرے گا، لیکن ابھی تک شرح سود طے نہیں ہوئی۔ پاکستان نے یہ قرض دو قسطوں میں ادا کیا۔ پہلی قسط مارچ کے شروع میں اور دوسری قسط مارچ کے تیسرے ہفتے میں دی گئی۔ مزید 2.7 بلین ڈالر کے چینی قرضے اپریل سے جون 2024 کے درمیان واپس کرنے ہیں، جن میں 2.1 بلین ڈالر کے تین مختلف چینی کمرشل بینکوں کے قرض شامل ہیں۔ مرکزی بینک کے ذخائر میں کمی کے بعد حکومت نے مارکیٹ سے ڈالر خریدے اور کچھ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اس کمی کو پورا کیا۔ اس سے قبل مرکزی بینک کے گورنر نے کہا تھا کہ 2024 میں زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے 9 بلین ڈالر خریدے گئے تھے، ورنہ ذخائر دو بلین ڈالر سے بھی کم ہو سکتے تھے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس ہفتے معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت پاکستان کو ایک بلین ڈالر کی قسط مل سکتی ہے، لیکن اس کی منظوری مئی یا جون میں متوقع ہے۔ اگر یہ اجلاس جون میں ہوا تو آئی ایم ایف پہلے مالی سال 2025-26 کے بجٹ کا جائزہ لینا چاہے گا۔ پاکستان نے چین سے 3.4 بلین ڈالر کے قرض کو دو سال کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست بھی کر رکھی ہے تاکہ مالیاتی فرق کو پورا کیا جا سکے، لیکن ابھی تک اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف پروگرام کے تین سالہ عرصے کے دوران 5 بلین ڈالر کے بیرونی فنانسنگ ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ کچھ حد تک مستحکم ہوا ہے، لیکن اس میں اب بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ ان مسائل کو سخت مالیاتی پالیسیوں اور شرح مبادلہ میں لچک کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر حالیہ دنوں میں کم ہوئی ہے، اور ڈالر کے مقابلے میں 280.2 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت جائیداد، مشروبات اور تمباکو پر مزید ٹیکس عائد کرے تاکہ سرمایہ کاری کو پیداواری شعبے کی طرف منتقل کیا جا سکے۔ پاکستان ابھی بھی نئے غیر ملکی قرضوں اور پرانے قرضوں کی ری فنانسنگ پر انحصار کر رہا ہے۔ اگر حکومت بروقت مالی مدد حاصل نہ کر سکی تو زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو سکتے ہیں، جس سے معیشت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ترکیہ: بی بی سی کے صحافی کی ملک بدری، اپوزیشن ٹی وی چینل پر پابندی لگا دی گئی

ترکیہ میں حکومت نے حالیہ مظاہروں پر کریک ڈاؤن کو مزید تیز کرتے ہوئے ‘بی بی سی’ کے ایک صحافی کو ملک بدر کر دیا اور ایک اپوزیشن ٹی وی چینل پر دس روزہ براڈکاسٹ کی پابندی عائد کر دی۔ یہ اقدامات اس وقت کیے گئے جب 19 مارچ کو استنبول کے مقبول میئر ‘اکرم امام اوغلو’ کی گرفتاری کے بعد ترکیہ میں شدید مظاہروں شروع ہو گئے تھے۔ یہ مظاہروں 2013 کے بعد سے ترکیہ میں سب سے بڑے اور ہنگامہ خیز مظاہروں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ پولیس نے 11 ترک صحافیوں کو بھی حراست میں لیا جن میں اے ایف پی کے فوٹوگرافر یاسین آکگل بھی شامل تھے۔ تاہم، یاسین آکگل کو استنبول کی جیل سے 17 گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ ابھی بھی جاری ہے۔ یہ احتجاج 19 مارچ کو شروع ہوئے جب استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: ‘یوکرین میں عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن ان کی گرفتاری کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کا سلسلہ روزانہ جاری رہا۔ ان مظاہروں میں اکثر وقت پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جنہیں عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان اقدامات میں ایک اہم واقعہ بھی سامنے آیا جب ترکیہ نے بی بی سی کے صحافی مارک لووین کو ملک بدر کر دیا۔ بی بی سی کے مطابق ‘مارک لووین’ کو 17 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد ترکی سے نکال دیا گیا۔ اس واقعے پر بی بی سی نیوز کی سی ای او ‘ڈیبورا ٹرنز’ نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ‘انتہائی پریشان کن’ ہے اور اس معاملے پر ترک حکام کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔ مارک لووین نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا اخراج ‘انتہائی افسوسناک’ تھا اور انہوں نے مزید کہا کہ صحافت کی آزادی جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔ لووین نے کہا کہ وہ ترکیہ میں پانچ سال گزار چکے ہیں اور یہاں کی سیاست اور معاشرتی حالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس دوران ترکیہ میں 19 مارچ سے اب تک 1,879 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جن میں صحافیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ترک وزیر داخلہ ‘علی یرلکایا’ نے بتایا کہ ان میں سے 260 افراد کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے جبکہ 468 افراد کو مشروط رہائی دی گئی ہے۔ اور باقی افراد کا کیس ابھی زیر غور ہے۔ مزید پڑھیں: گرین لینڈ نے امریکا مخالف سیاسی اتحاد پر اتفاق کرلیا

حالیہ اغوا اور گرفتاریاں، کیا پاکستان میں صحافت اب ناممکن ہے؟

حالیہ دنوں میں پاکستانی صحافیوں وحیدمراد اور فرحان ملک کا اغوا اور گرفتاری سامنے آئی ہے۔ حکومت سوشل میڈیا صارفین کے خلاف بھی ایکشن میں دیکھائی دیتی ہے۔کیا سب پہلی بار ہو رہا ہے؟ کیا پاکستان میں میڈیا کا سفر ختم اور صحافت ناممکن ہو گئی؟ صحافی سے خوداحتسابی کی ڈیمانڈ کیوں؟ پولرائزیشن میں صحافی متحد ہو کر چیلنج سے نمٹ سکیں گے؟ اس پوڈ کاسٹ میں صدر کراچی پریس کلب فاضل جمیلی، سینیئر صحافی وسیم عباسی، رکن گورننگ باڈی لاہور پریس کلب مدثر شیخ کے ساتھ ایڈیٹر پاکستان میٹرز شاہد عباسی کی گفتگو سنیں۔ پاکستان میں صحافت ایک مشکل اور خطرناک پیشہ بن چکا ہے، جہاں آزاد رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو آئے روز دھمکیوں، تشدد، اغوا اور حتیٰ کہ قتل جیسے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں آزادیٔ اظہار کے حق کو دبانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سینسر شپ، دباؤ، جھوٹے مقدمات، اور زبردستی خاموش کرانے کی کوششیں شامل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں کئی صحافیوں کے اغوا کے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بعض کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کچھ آج تک لاپتہ ہیں۔ ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں تحقیقاتی صحافت اور طاقتور حلقوں پر تنقید کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ میڈیا اداروں پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے، جس کے باعث وہ کئی اہم موضوعات پر رپورٹنگ سے گریز کرتے ہیں۔ صحافت کو درپیش ان خطرات کے باوجود کئی بہادر صحافی اپنی جان جوکھم میں ڈال کر عوام کو سچ سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں صحافت مکمل طور پر ناممکن نہیں ہوئی، لیکن آزاد صحافت کا دائرہ کار مسلسل محدود کیا جا رہا ہے، جو ملک میں جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کے لیے ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ ان تمام معاملات کے مختلف پہلو ‘پاکستان میٹرز’ کی حالیہ ایپیسوڈ میں دیکھیں اور اس موضوع پر اپنی رائے کمنٹ سیکشن میں ہم سے شیئر کریں۔

ٍسائبر کرائم مقدمے میں گرفتار پاکستانی صحافی وحید مراد رہا ہوگئے

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے اردو نیوز کے صحافی وحید مراد کی درخواستِ ضمانت منظور کی، جس کے بعد وہ رہا کردیے گئے۔ وہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں گرفتار تھے اور دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جمعے کو عدالت میں پیش کیے گئے۔ ایف آئی اے حکام نے انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا، جہاں سماعت کے بعد عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ تاہم، اس فیصلے کے فوراً بعد وحید مراد کے وکلا نے ضمانت کے لیے درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی۔ مزید پڑھیں: صحافی وحید مراد کے خلاف درج ایف آئی آر منظرعام پر، ’جرم‘ کیا ہے؟ سماعت کے دوران عدالت نے ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ اب تک کیا شواہد برآمد کیے گئے ہیں۔ اس پر وکیل ایمان مزاری نے مؤقف اختیار کیا کہ وحید مراد نے محض اختر مینگل کے بیان کو نقل کرتے ہوئے پوسٹ کی تھی۔ وکیل ہادی علی چٹھہ نے بھی وضاحت کی کہ پہلی ٹویٹ اختر مینگل کے بیان پر مبنی تھی۔ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اختر مینگل کی اس پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ بلوچوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، جو کہ ایک حساس نوعیت کا بیان تھا۔ تاہم، عدالت نے دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد وحید مراد کی ضمانت منظور کر لی۔ اب قانونی تقاضے مکمل کیے جا رہے ہیں، جس کے بعد ان کی رہائی متوقع ہے۔ یاد رہے منگل اور بدھ کی درمیانی رات اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں ان کے گھر سے کچھ نقاب پوش افراد انہیں اٹھا کر لے گئے۔ بدھ کے دن ایف آئی اے نے انہیں عدالت میں پیش کیا اور ان پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت نے وحید مراد کا دو دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا اور ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد انہیں اسلام آباد کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر جی 13 لے جایا گیا۔ ایف آئی آر میں پیکا ایکٹ کے سیکشن 9، 10، 20 اور 26 کا اطلاق کیا گیا ہے۔

گرین لینڈ نے امریکا مخالف سیاسی اتحاد پر اتفاق کرلیا

گرین لینڈ، جو کہ ڈنمارک کا خود مختار حصہ ہے اس نے ایک ایسی حکومت کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جو اپنے اندر چار سیاسی جماعتوں کا اتحاد لیے ہوئے ہے۔ یہ اعلان آج کے روز متوقع ہے اور یہ تاریخی فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گرین لینڈ کو خریدنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔ مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ چار جماعتوں پر مشتمل حکومت امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی گرین لینڈ آمد سے صرف ایک دن قبل متعارف کرائی جائیں گی۔ جے ڈی وینس نے گرین لینڈ کے شمالی علاقے میں واقع امریکی فوجی اڈے دورہ کرنا ہے۔ یہ دورہ پہلے گرین لینڈ اور ڈنمارک کی حکومتوں کے لیے متنازعہ تھا لیکن اب مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ابتدائی طور پر وینس کے ساتھ ان کی اہلیہ اوشا اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹس کا بھی گرین لینڈ کے مشہور ‘ڈوگ ریس’ میں شرکت کا منصوبہ تھا لیکن اس میں گرین لینڈ کی مقامی حکومت کی طرف سے کوئی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اسی دوران مقامی خبر رساں ادارے KNR نے مطابق گرین لینڈ کی سیاست میں ایک نیا اتحاد تشکیل پانے جا رہا ہے۔ لازمی پڑھیں: بحیرہ احمر میں آبدوز حادثہ: چھ روسی ہلاک، درجنوں سیاح محفوظ یہ اتحاد پرو بزنس جماعت “ڈیموکریٹس” کی قیادت میں ہوگا جس کے سربراہ ‘جینس-فریڈریک نیلسن’ مارچ 11 کو ہونے والے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئے ہیں۔ نیلسن کی جماعت نے اپنی سیٹوں کی تعداد تین گنا بڑھا کر 10 تک پہنچا دی تھی اور انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کو اختلافات بھلا کر ایک متحد حکومت بنانے کی اپیل کی تھی تاکہ امریکی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ اتحاد گرین لینڈ کے پارلیمنٹ کی 31 سیٹوں میں سے 23 سیٹوں پر مشتمل ہوگا۔ تاہم، اس میں سب سے بڑی حامی جماعت “نالیرق” شامل نہیں ہوگی جو مکمل طور پر خودمختاری کے حق میں ہے۔ نالیرق نے اپنی سیٹوں کی تعداد دوگنا کر 8 کر لی تھی لیکن وہ اس اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس وقت گرین لینڈ میں ایک سیاسی جنگ چھڑی ہوئی ہے، جہاں ایک طرف ٹرمپ کا ارادہ ہے کہ گرین لینڈ کو امریکا کے تحت کر لیا جائے اور دوسری طرف گرین لینڈ کے مقامی حکام نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جزیرہ ان کے لئے اہم ہے اور وہ اپنی تقدیر خود طے کریں گے۔ گرین لینڈ میں موجودہ عبوری وزیراعظم ‘میوٹ ایگڈے’ نے واضح طور پر کہا ہے کہ گرین لینڈ کسی کے لیے فروخت نہیں ہوگا اور اس کے لوگ ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ نیلسن کی قیادت میں بننے والی یہ حکومت، جو مختلف سیاسی نظریات کی حامل جماعتوں کا ایک غیر متوقع اتحاد ہے اور گرین لینڈ کے مستقبل کے حوالے سے عالمی برادری کو ایک پیغام دے رہی ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مزید پڑھیں: ‘عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن

‘یوکرین میں عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن

روسی میڈیا کے مطابق صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کو ایک عارضی عالمی انتظامیہ کے تحت رکھنے کی تجویز دی ہے، تاکہ نئے انتخابات کا انعقاد کیا جا سکے اور جنگ کے خاتمے کے لیے اہم معاہدوں پر دستخط کیے جا سکیں۔ پوتن کے یہ بیانات شمالی بندرگاہ مرمانسک کے دورے کے دوران سامنے آئے، ایسے وقت میں جب امریکا روس کے ساتھ دوبارہ روابط قائم کرنے اور کیف و ماسکو کے درمیان علیحدہ علیحدہ مذاکرات کے ذریعے تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کریملن کے رہنما نے عندیہ دیا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حقیقی طور پر یوکرین میں امن چاہتے ہیں، جو ان کے پیشرو جو بائیڈن سے مختلف حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں۔ بائیڈن نے روس کے ساتھ براہ راست بات چیت سے گریز کیا تھا، جبکہ ٹرمپ کھلے عام مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں۔ پوتن نے کہا، “میری رائے میں، امریکا کے نو منتخب صدر مخلصانہ طور پر کئی وجوہات کی بنا پر تنازعات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔” فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے جاری جنگ نے لاکھوں افراد کو ہلاک و زخمی کیا، لاکھوں شہری بے گھر ہوئے، اور کئی قصبے کھنڈر بن چکے ہیں۔ اس جنگ نے ماسکو اور مغربی دنیا کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ پوتن کی تجویز یوکرین کے سیاسی استحکام پر ان کی دیرینہ تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی ایک جائز مذاکراتی فریق نہیں ہیں کیونکہ ان کی صدارت مئی 2024 میں ختم ہو چکی ہے، لیکن وہ اب بھی اقتدار میں ہیں۔ پوتن نے تجویز دی کہ ایک عبوری عالمی انتظامیہ، جسے اقوام متحدہ، امریکا، یورپی ممالک اور دیگر فریقین کی حمایت حاصل ہو، یوکرین میں عارضی طور پر اقتدار سنبھالے۔ انہوں نے کہا، “اصولی طور پر، یوکرین میں ایک عارضی انتظامیہ متعارف کرائی جا سکتی ہے جو اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی ممالک اور ہمارے شراکت داروں کی سرپرستی میں کام کرے۔” پوتن کے مطابق، اس انتظامیہ کا مقصد جمہوری انتخابات کا انعقاد اور ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہوگا جو عوام کے اعتماد پر پورا اترے اور جس کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کی جا سکے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے پوتن کی اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں حکمرانی کا تعین اس کے آئین اور عوام کے ذریعے ہوتا ہے، کسی بیرونی قوت کے ذریعے نہیں۔ یوکرین کی جانب سے فوری طور پر اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یورپی رہنماؤں نے پیرس میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد کیف کی فوج کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاکہ مستقبل میں یوکرین کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ فرانس اور برطانیہ نے روس کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی کی صورت میں ایک بین الاقوامی “یقین دہانی فورس” کی تشکیل پر غور کیا ہے، تاہم ماسکو یوکرین میں کسی بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کو سختی سے مسترد کر چکا ہے۔