بحیرہ احمر میں آبدوز حادثہ: چھ روسی ہلاک، درجنوں سیاح محفوظ

جمعرات کو ایک آبدوز کے ڈوبنے کے نتیجے میں چھ روسی شہری ہلاک ہوگئے، جبکہ 39 غیر ملکی سیاحوں کو بحیرہ احمر کے مصری سیاحتی مقام ہرغدا سے بچا لیا گیا۔ بحیرہ احمر گورنریٹ کے مطابق، سندباد نامی آبدوز میں مجموعی طور پر 50 افراد سوار تھے، جن میں روس، بھارت، ناروے، اور سویڈن کے 45 سیاح شامل تھے، جبکہ عملے کے پانچ مصری ارکان بھی موجود تھے۔ ہرغدا میں روسی قونصل خانے نے تصدیق کی کہ جہاز میں سوار بیشتر افراد کو ریسکیو کرلیا گیا اور انہیں ہرغدا کے ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق، آبدوز کو بڑے  سوراخوں سے لیس کیا گیا تھا تاکہ مسافر بحیرہ احمر کے دلکش مرجانوں اور سمندری حیات کو دیکھ سکیں، اور یہ 25 میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ یہ واقعہ ایک انتہائی ایڈونچر آبدوز کے حادثے سے بہت مختلف تھا، جو جون 2023 میں بحر اوقیانوس میں ڈوبے ہوئے ٹائٹینک کے قریب ہزاروں میٹر کی گہرائی میں تباہ ہوگئی تھی۔ تاہم، بحیرہ احمر میں پیش آنے والے اس حادثے نے ایک بار پھر سیاحتی کشتیوں اور آبدوزوں کے حفاظتی معیارات پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بحیرہ احمر مصر کی سیاحتی صنعت کا ایک اہم مرکز ہے اور ملکی معیشت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے، جہاں روسی سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مصر اپنی قدیم تہذیب، عظیم اہرامِ گیزا، اور دریائے نیل کے کنارے لکسر اور اسوان کی تاریخی سیر کے باعث بھی سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔ مصری حکومتوں نے ماضی میں اسلام پسند عسکریت پسند گروپوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا ہے، جو غیر ملکیوں پر حملے کرکے سیاحت کی صنعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مصر نے سیاحوں کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ مصری حکام اس حادثے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کر رہے ہیں۔ بحیرہ احمر کے گورنر عمرو حنفی کے مطابق، آبدوز ایک مصری شہری کی ملکیت تھی، اس کے پاس تمام ضروری لائسنس موجود تھے، اور عملے کے پاس مکمل پیشہ ورانہ تربیت بھی تھی۔ حکام آبدوز کے عملے سے بھی پوچھ گچھ کر رہے ہیں تاکہ حادثے کی اصل وجوہات معلوم کی جا سکیں۔ بحیرہ احمر میں سیاحتی کشتیوں کے الٹنے کے حالیہ واقعات نے بھی تشویش پیدا کی ہے۔ گزشتہ جون میں، ایک کشتی اونچی لہروں کے باعث شدید نقصان کے بعد ڈوب گئی، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ نومبر میں، ایک اور سیاحتی کشتی الٹ گئی تھی جس میں 31 سیاح اور 13 عملے کے افراد سوار تھے، اس حادثے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پچھلے ماہ بھی ایک کشتی دیکھ بھال کے بعد ہرغدا جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ سیاحت کی وزارت اور چیمبر آف ڈائیونگ نے اس حوالے سے تبصرے کے لیے دی گئی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 میں مصر نے سیاحت سے 14.1 بلین ڈالر کی آمدنی حاصل کی، جو نہر سویز کی آمدنی سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مصر کی معیشت کو سہارا دینے میں سیاحت کا ایک اہم کردار ہے۔

’ترقی ہوتی تو حالات ایسے نہ ہوتے‘ بلوچستان سونے کی چڑیا یا دہکتا انگارہ؟

2015 میں جب چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کا معاہدہ ہوا تو اسے پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر قرار دیا گیا۔ یہ منصوبہ 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر مشتمل تھا، جس کے تحت انفراسٹرکچر، توانائی، اور تجارتی ترقی کو فروغ دینے کے دعوے کیے گئے تھے۔ گوادر کو سی پیک کا دل کہا گیا اور حکومت نے بارہا یقین دلایا کہ یہ منصوبہ بلوچستان کے عوام کے لیے خوشحالی لے کر آئے گا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور معیشت مستحکم ہوگی۔ مگر آج ایک دہائی گزرنے کے باوجود گوادر کے مقامی ماہی گیر روزگار کے لیے پریشان ہیں، بلوچستان میں بے روزگاری اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور ترقی کے وعدے صرف کاغذات تک محدود نظر آتے ہیں۔ یہی صورتحال ریکوڈک منصوبے کی بھی ہے، جہاں بیرک گولڈ کارپوریشن اور حکومت پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر شدید تنقید کی جاتی ہے۔ بلوچستان جو معدنیات کے بے شمار خزانوں کا مالک ہے، وہاں کے عوام ان وسائل کے ثمرات سے کیوں محروم ہیں؟ بلوچستان کے مقامی صحافی ببرک کارمل جمالی اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان کے معدنی وسائل کا فائدہ مقامی معیشت کو نہیں ہو رہا اور یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا۔ بلوچستان کے وسائل پر قابض عناصر جن میں سردار، جاگیردار اور کچھ بین الاقوامی کمپنیاں شامل ہیں، ان وسائل کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ نتیجتاً بلوچستان کی معیشت ترقی کے بجائے مزید زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ بلوچستان کے اہم منصوبوں میں ریکوڈک اور سینڈک شامل ہیں، جہاں تانبہ، سونا اور دیگر قیمتی دھاتیں نکالی جا رہی ہیں۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں سے نکلنے والے اربوں ڈالر کے معدنی ذخائر کے باوجود بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ایڈووکیٹ تقویم چانڈیو کے مطابق اگر بلوچستان میں واقعی ترقی ہو رہی ہوتی تو مقامی آبادی کے حالات بہتر ہوتے، صحت اور تعلیم کے شعبے مستحکم ہوتے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے۔ مگر یہاں حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان سے نکلنے والے وسائل کا فائدہ زیادہ تر غیر ملکی کمپنیوں اور وفاقی حکومت کو ہو رہا ہے، جب کہ مقامی افراد کو ان کا جائز حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ ریکوڈک جہاں دنیا کا چوتھا سب سے بڑا تانبے اور سونے کا ذخیرہ موجود ہے، ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا جب 2022 میں بیرک گولڈ کارپوریشن اور حکومتِ پاکستان کے درمیان نیا معاہدہ طے پایا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ بلوچستان کو اس منصوبے سے 25 فیصد حصہ ملے گا، مگر بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اس معاہدے پر سخت اعتراض کر رہی ہیں۔ ببرک کارمل جمالی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ 25 فیصد حصہ ایک دکھاوا ہے۔ اصل منافع تو بیرونی کمپنیوں اور وفاقی حکومت کی تجوری میں جائے گا۔ اگر واقعی بلوچستان کو اس کا جائز حصہ دیا گیا ہے، تو اس کا اثر مقامی ترقی پر کیوں نظر نہیں آتا؟ ریکوڈک سے نکلنے والے وسائل مقامی آبادی کی فلاح و بہبود پر خرچ کیوں نہیں ہو رہے؟” اس حوالے سے ایڈووکیٹ تقویم چانڈیو کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے وسائل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کیے جانے والے معاہدے شفاف نہیں ہوتے۔ اگر ریکوڈک میں بلوچستان کا 25 فیصد حصہ تسلیم کر بھی لیا جائے، تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ رقم کس طرح خرچ کی جا رہی ہے۔ کیا یہ مقامی لوگوں کی فلاح پر خرچ ہو رہی ہے؟ کیا بلوچستان کے اسکولوں، اسپتالوں اور انفراسٹرکچر پر کوئی فرق پڑا ہے؟ اگر نہیں، تو یہ صرف ایک سیاسی بیان ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلوچستان کے وسائل کا استحصال صرف معدنیات کی حد تک محدود نہیں، بلکہ یہاں کے مقامی افراد کو اعلیٰ ملازمتوں سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ ببرک کارمل جمالی کے مطابق بلوچوں کو اعلیٰ ملازمتیں نہ دینے کا سوال ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ ماضی میں ترقیاتی منصوبوں میں بلوچوں کو ترجیح دی جاتی تھی، مگر آج ایسا نہیں ہے۔ سرداری نظام اور جاگیردارانہ سوچ کی وجہ سے مقامی لوگ خود بھی مزدوری کو حقیر سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی پالیسیوں اور ادارہ جاتی ناانصافی کی وجہ سے بلوچستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں برابری کے مواقع نہیں دیے جاتے۔ ایڈووکیٹ تقویم چانڈیو اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کے لیے اعلیٰ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے، انہیں صرف نچلے درجے کی ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔ بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر زیادہ تر افراد دوسرے صوبوں سے آتے ہیں۔ اگر بلوچستان کی ترقی کا خواب حقیقت بنانا ہے، تو مقامی افراد کو ان کے وسائل پر خود مختاری دینی ہوگی اور انہیں ان منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ بلوچستان میں تعلیمی شعبہ بھی شدید زوال کا شکار ہے۔ تعلیمی ادارے جاگیرداروں اور بااثر طبقات کے زیر اثر ہیں، جس کی وجہ سے عام بلوچ طالب علموں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کم ملتے ہیں۔ ببرک کارمل جمالی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اسکالرشپ حاصل کرنا بھی ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ زیادہ تر تعلیمی وظائف (اسکالرشپ) سرداروں، جاگیرداروں اور بااثر خاندانوں کے افراد کو دیے جاتے ہیں، جب کہ عام بلوچ طلبہ کو محروم رکھا جاتا ہے۔ اس سفارش کلچر نے بلوچستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ایڈووکیٹ تقویم چانڈیو کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی نظام کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں سے جو آمدنی حاصل ہو رہی ہے، اسے تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ بلوچستان کے نوجوان اگر تعلیم یافتہ ہوں گے، تو وہ خود ان وسائل سے استفادہ کر سکیں گے اور پھر باہر سے کمپنیوں کو بلانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلوچستان کے معدنی وسائل، سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبے اس وقت تک مقامی لوگوں کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتے، جب تک کہ ان میں شفافیت، مقامی افراد کی شرکت اور وسائل کی منصفانہ

کیا ناپا فنکاری سیکھنے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے؟

پاکستان میں فنون لطیفہ کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرنے والا ادارہ، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس ( ناپا)ملک کے باصلاحیت فنکاروں کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو رہا ہے۔ نہ صرف تھیٹر اور موسیقی کی اعلیٰ تعلیم فراہم کرتا ہے بلکہ عملی تربیت کے ذریعے طلبہ کو پروفیشنل دنیا میں قدم رکھنے کے لیے بھی تیار کرتا ہے۔ ناپا کا قیام 2005 میں عمل میں آیا تھا اور تب سے یہ ادارہ پاکستان میں تھیٹر، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہاں ملک کے نامور اساتذہ اداکاری، اسٹیج پروڈکشن اور موسیقی کی تربیت دیتے ہیں، جس سے طلبہ بین الاقوامی معیار کے مطابق مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے اسامہ نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناپا پاکستان میں تھیٹر اور فنی مہارت سکھانے میں بہترین ثابت ہو رہا ہے،اس ادارے میں پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان سے بھی طالب علم سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ انس خالد نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ ناپا میں آپ کو سکرپٹ،سٹوری ٹیلنگ اور خصوصی طور پر ایکٹنگ کی کلاسز دیکھنے کو ملے گی اور یہ ادارہ پاکستان میں بہترین کارکردگی کہ وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔  

پاکستان اور امریکا کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ پر اتفاق

امریکا کی قائم مقام سفیر نٹالی بیکر نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کے دوران پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ کے انعقاد پر اتفاق کیا، ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔ وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق اس ملاقات میں دونوں نے رواں سال جون میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ کے انعقاد پر اتفاق کیا۔ نٹالی بیکر نے جعفر ایکسپریس اور دیگر دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کا سٹریٹجک پارٹنر قرار دیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس موقع پر کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کا یکجا ہونا ضروری ہے۔ مزید پڑھیں: ’بلوچ مظاہرین پرامن نہیں‘ پاکستان نے اقوام متحدہ کے بلوچستان سے متعلق بیان کو ‘افسوس ناک’ قرار دے دیا انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے اور اس کے لیے ہمہ جہتی پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی ملک واپسی میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خصوصاً بلوچستان میں جہاں جنگجوؤں نے کئی حملے کیے ہیں جن میں درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

’شمالی وزیرستان میں 11 خوارج ہلاک کردیے‘ فوج کا دعویٰ

آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے 11 خوارج ہلاک کر کیے گئے، جب کہ ان سے اسلحہ اور گولا بارود بھی برآمد کر لیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کے پی کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے 11 خوارج ہلاک کیے ہیں، جن سے گولا بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی فورسز نے ایک اور کامیاب کارروائی کی، جس میں 5 خوارج جہنم واصل ہوئے۔ میر علی میں ہی دوسری کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز نے 3 مزید دہشتگرد ہلاک کیے۔ میر انشاہ میں بھی جھڑپ کے دوران سکیورٹی فورسز نے 2 دہشتگردوں کو مار ڈالا، جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں بھی آپریشن کے دوران ایک دہشتگرد ہلاک ہو گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کا عزم پختہ ہے اور آپریشنز جاری ہیں۔

امریکی یونیورسٹی سے ترک طالبہ گرفتار، جرم کیا ہے؟

امریکی امیگریشن حکام نے ٹفٹس یونیورسٹی کی ترک نژاد پی ایچ ڈی طالبہ رومیسا اوزترک کو حراست میں لے لیا، جہا‍‌ں انہیں سومرویل میں ان کے اپارٹمنٹ کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔ عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق وکیل ماشا خان کا کہنا ہے کہ اوزترک کو سادہ لباس میں ملبوس چھ اہلکاروں نے گھیر لیا، جنہوں نے گرفتاری سے قبل کوئی بیج نہیں دکھایا۔ محلے کی نگرانی کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ چلتے ہوئے اچانک روکی گئیں اور پھر انہیں ایک گاڑی میں بٹھا کر لے جایا گیا۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) کے مطابق اوزترک پر “حماس کی حمایت میں سرگرمیوں میں ملوث ہونے” کا الزام ہے، تاہم حکام نے ان مبینہ سرگرمیوں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ٹفٹس یونیورسٹی نے ایک بیان میں واضح کیا کہ انہیں اوزترک کی گرفتاری کا پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔ یونیورسٹی کے صدر سنیل کمار نے کہا کہ یہ واقعہ ہمارے بین الاقوامی طلبہ اور کمیونٹی کے لیے باعثِ تشویش ہے۔   اوزترک کے بھائی عاصم اوزترک نے کہا کہ “انہیں صرف اپنے نظریات کے اظہار کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ فلسطین کے حق میں بات کرنے والوں کے خلاف ایک مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔” گرفتاری کے بعد، ٹفٹس یونیورسٹی کے قریب سینکڑوں افراد نے اوزترک کی رہائی کے حق میں مظاہرہ کیا۔ ترک سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی حکام سے رابطے میں ہیں۔ “ہم اپنے شہری کے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ اوزترک کو لوزیانا میں امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی حراستی سہولت میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے وکیل کے مطابق انہیں طبی سہولیات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ یہ واقعہ امریکی امیگریشن پالیسی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے، خاص طور پر ان غیر ملکی طلبہ کے لیے جو فلسطینی کاز کی حمایت کر رہے ہیں۔