اپریل 8, 2025 3:10 شام

English / Urdu

‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی

ایران نے امریکا کی جانب سے جوہری پروگرام پر براہ راست مذاکرات کی پیشکش یا حملے کی دھمکی کو رد کرتے ہوئے اپنے پڑوسی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے امریکی کارروائی میں کسی قسم کی مدد فراہم کی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔  ایک سینئر ایرانی عہدیدار نے خبردار کیا کہ وہ ممالک جو امریکا کے فوجی اڈوں کی میزبانی کرتے ہیں ان کے لیے ممکنہ طور پر ایرانی حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایران نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کی گئی براہ راست مذاکرات کی تجویز کو مسترد کیا گیا ہے، تاہم وہ عمان کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل عرصے سے رابطے کا ذریعہ رہا ہے۔  ایرانی عہدیدار کے مطابق “بالواسطہ مذاکرات ایک موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ واشنگٹن کی نیت کو پرکھا جا سکے کہ آیا وہ ایران کے ساتھ سیاسی حل پر بات چیت کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں۔” انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ یہ راستہ مشکل ہو سکتا ہے لیکن اگر امریکا کی جانب سے مثبت پیغامات آئے تو ان مذاکرات کا آغاز جلد ہو سکتا ہے۔ ایران نے عراق، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی اور بحرین کو باقاعدہ نوٹس بھیجے ہیں جن میں ان ممالک کو واضح طور پر خبردار کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے ایران پر امریکی حملے میں مدد فراہم کی تو اسے “دشمنی کا عمل” سمجھا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ “ایسا عمل ان کے لیے شدید نتائج کا باعث بنے گا۔”  انہوں نے مزید کہا کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایرانی افواج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ امریکی حملے کا بھرپور جواب دیا جا سکے۔ اس وارننگ کے بعد خطے کے ممالک میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے خاص طور پر اس پس منظر میں جب غزہ اور لبنان میں کھلی جنگ، یمن میں فوجی حملے، شام میں قیادت کی تبدیلی آ چکی ہے اور اسرائیل اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ترکیہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ انہیں ایران کی جانب سے ایسی کوئی وارننگ موصول نہیں ہوئی لیکن یہ پیغامات دیگر ذرائع سے پہنچائے جا سکتے ہیں۔  اسی دوران ایرانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ کویت نے ایران کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کسی بھی جارحانہ کارروائی کی اجازت نہیں دے گا۔ اس کے ساتھ ہی روس نے بھی امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکیوں کو غیر قابل قبول قرار دیتے ہوئے احتیاط کی ضرورت پر زور دیا ہے۔  لازمی پڑھیں:برطانیہ میں روسی زیر آب سینسرز: جوہری سب میرینز کی جاسوسی کی کوشش ایران کی نظر میں روس ایک اہم اتحادی ہے لیکن وہ اس کی وابستگی پر مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں کیونکہ یہ تعلقات امریکا اور روس کے تعلقات پر منحصر ہیں۔  ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ “یہ تعلقات امریکا اور روس کے تعلقات کی حرکیات پر منحصر ہیں۔” امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے ایک سیاسی حل چاہتے ہیں لیکن وہ جنگ کے بجائے معاہدے کو ترجیح دیتے ہیں۔  انہوں نے 7 مارچ کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا تھا جس میں مذاکرات کی تجویز دی گئی تھی۔ ایرانی عہدیدار کے مطابق بالواسطہ مذاکرات کی پہلی نشست عمان کے ذریعے ہو سکتی ہے جس میں ایرانی اور امریکی نمائندے ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔  ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی یا ان کے نائب مجید تخت روانچی کو ان مذاکرات میں شرکت کے لیے خامنہ ای کی جانب سے اختیار دیا گیا ہے۔ ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے یہ “دو ماہ کا سنہری موقع” ہے تاکہ کسی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔  اس وقت ایران کی فکر یہ ہے کہ اگر مذاکرات میں تاخیر ہوئی تو اسرائیل خود ایک حملہ کر سکتا ہے جو ایران کے خلاف “تمام عالمی پابندیوں کی واپسی” کا باعث بنے گا تاکہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روک سکے۔ ضرور پڑھیں:اسرائیلی جارحیت کی انتہا: صحافیوں کے خیمے پر بمباری، دو شہید، سات زخمی ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ کسی جوہری ہتھیار کی تیاری کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ایران نے یورینیم کی افزودگی میں تیزی لائی ہے جس کے نتیجے میں یورینیم کی افزودگی 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح کے قریب ہے۔  اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے اس بات کی اطلاع دی ہے کہ ایران اس سطح پر افزودگی کر رہا ہے جس پر مغربی ممالک نے شدید اعتراض کیا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکا سے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن وہ ان مذاکرات کو اس وقت تک مسترد کرتا ہے جب تک کہ امریکا کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہوں اور اس نے اپنے میزائل پروگرام کو مذاکرات کے موضوع سے باہر رکھا ہے۔ ایک سینئر ایرانی فوجی کمانڈر اسلامی انقلابی گارڈز کے امیر علی حاجی زادہ نے پیر کے روز اشارہ دیا تھا کہ کسی بھی جنگ کی صورت میں ایران امریکا کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔  2020 میں ایران نے عراقی سرزمین پر امریکی اڈوں کو اس وقت نشانہ بنایا تھا جب بغداد میں امریکی میزائل حملے میں ایران کے مشہور کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت ہوئی تھی۔ مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم

پشاور سے اسلحہ و منشیات سکھر لانے کی کوشش منزل پر پہنچ کر ناکام

روہڑی سرکل میں ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ونگ نے منشیات فروشوں کے خلاف 10 دنوں میں دوسری بڑی کارروائی کرتے ہوئے بھاری مقدار میں منشیات اور اسلحہ برآمد کرلیا۔ کارروائی اے ای ٹی اوز قمرالدین سیال اور عامر خان کلہوڑ کی سربراہی میں حساس ادارے کے تعاون سے نیشنل ہائی وے روہڑی چیک پوسٹ پر خفیہ اطلاع پر کی گئی۔ کارروائی کے دوران ایک ٹرک کی تلاشی لی گئی جس سے 10 کلو گرام چرس، 8 رائفلز بمعہ 15 میگزین، ایک عدد ٹی ٹی پسٹل بمعہ 2 میگزین اور ہزاروں گولیاں برآمد ہوئیں۔ پولیس نے موقع سے دو ملزمان، شاہد خان اور محمد حسین خان کو گرفتار کرلیا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق اسلحہ اور منشیات پشاور سے سکھر اسمگل کیے جا رہے تھے، جو ممکنہ طور پر مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے اندرونِ سندھ پھیلائے جانے تھے۔ صوبائی وزیر ایکسائز سندھ مکیش کمار چاولہ نے کامیاب کارروائی پر چھاپہ مار ٹیم کو شاباش دی اور ہدایت کی کہ منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن مزید تیز کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے سرحدی علاقوں میں منشیات فروشوں کی سرگرمیوں پر سخت نگرانی رکھی جائے اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ ایکسائز و نارکوٹکس ونگ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں منشیات اور غیر قانونی اسلحے کے نیٹ ورکس کے خاتمے تک کارروائیاں جاری رہیں گی۔

کراچی میں رینجرز اور سی ٹی ڈی کی کارروائی، تین مطلوب دہشت گرد گرفتار کرنے کا دعویٰ

کراچی میں سندھ رینجرز اور سی ٹی ڈی کی مشترکہ کارروائی نے دہشت گردی کے ایک بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا۔  دونوں فورسز نے مل کر تین انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو کراچی کے علاقے کورنگی سے گرفتار کرلیا۔ یہ دہشت گرد “فتنہ الخوارج” گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جسے حکومت پاکستان نے گزشتہ سال دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ گرفتار دہشت گردوں میں انعام اللہ عرف لالا، نعیم اللہ عرف عمر زالی اور محمد طیب عرف محمد شامل ہیں، جو کئی دہشت گرد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔  سندھ رینجرز کے مطابق یہ تینوں دہشت گرد “حافظ گل بدھور” گروپ کے اہم ارکان ہیں، جنہوں نے سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملوں میں حصہ لیا۔ ان کے قبضے سے بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا ہے۔ نعیم اللہ عرف عمر زالی نے 2014 میں فتنہ الخوارج میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ وازِریستان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا۔ اس کا خاندان بھی اسی دہشت گرد گروہ کے اہم کمانڈروں میں شامل تھا، جنہیں سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا۔ انہوں نے کراچی میں آ کر اس نے اپنے نیٹ ورک کو فعال کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ بھی پڑھیں:سینئر صحافی اور رفتار کے ایڈیٹر فرحان ملک کی ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور انعام اللہ نے 2017 میں اس گروپ میں شمولیت اختیار کی اور وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف کئی حملوں میں حصہ لیا۔  اس کا بھائی بھی اسی گروپ کا حصہ تھا اور وزیرستان میں بہت سرگرم تھا۔ انعام اللہ کراچی آ کر گروپ کے نیٹ ورک کو بڑھانے میں ملوث تھا۔ محمد طیب جو 2023 میں اس گروپ کا حصہ بنا وہ اپنے بھائی کی ہلاکت کے بعد کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے آیا تھا۔ اس نے گروپ کی کارروائیوں میں سہولت کاری کا کام کیا۔ رینجرز کے مطابق یہ تینوں دہشت گرد کراچی میں مزید دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے لیکن ان کی گرفتاری نے ایک بڑی سازش کو ناکام بنا دیا۔  ان دہشت گردوں کو گرفتاری کے بعد مزید قانونی کارروائی کے لیے سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم میں کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور دہشت گردوں کا کوئی نیٹ ورک کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو خراب نہیں کر سکتا۔ مزید پڑھیں: خواتین مسافروں اور کسٹم اہلکاروں نے ایک دوسرے کو تھپڑ دے مارے

خواتین مسافروں اور کسٹم اہلکاروں نے ایک دوسرے کو تھپڑ دے مارے

کراچی ایئرپورٹ پر ابوظہبی سے آنے والی خاتون مسافروں اور کسٹم اہلکاروں کے درمیان شدید جھگڑا ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب خاتون مسافروں کا سامان، خصوصاً قیمتی لہنگے، کسٹم حکام نے کلیئر کرنے سے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق سامان کی کلیئرنس میں تاخیر اور اعتراضات کے باعث دونوں فریقین میں تلخ کلامی شروع ہوئی، جو جلد ہی ہاتھا پائی میں تبدیل ہو گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون مسافر کسٹم اہلکاروں کو نہ صرف تھپڑ مارتی ہے بلکہ جوتوں سے بھی حملہ کرتی ہے۔ جھگڑے کے دوران کسٹم اہلکاروں اور دیگر عملے نے صورتحال کو قابو میں کرنے کی کوشش کی، تاہم ایک اہلکار بھی خاتون کو تھپڑ مارتے ہوئے ویڈیو میں نظر آتا ہے۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ خاتون نے سرکاری اہلکار پر حملہ کیا جس پر اُسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق واقعے کا مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ جھگڑے کی مکمل تحقیقات بھی جاری ہیں۔ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ایئرپورٹ سیکیورٹی اور کسٹم عملے کے طرز عمل پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

پاکستان ٹیم کی کوچنگ نے میری کرکٹ سے محبت کو گہنا دیا، جیسن گلیسپی

سابق آسٹریلوی فاسٹ بولر جیسن گلیسپی نے پاکستان ٹیم کی کوچنگ کے تجربے پر بات کرتے ہوئے ایک انکشاف کیا ہے جس سے ان کے مداحوں اور کرکٹ حلقوں میں مایوسی کی لہر پھیل گئی ہے۔  حالیہ انٹرویو میں جیسن گلیسپی نے کھل کر کہا تھا کہ پاکستان میں کوچنگ کا تجربہ میری توقعات کے مطابق نہ تھا اور یہ میرے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ جیسن نے سچائی کے ساتھ اعتراف کیا اور کہا کہ “یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے میری کوچنگ کی محبت کو کھٹا کر دیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس پورے تجربے کے بعد انہیں شدید مایوسی ہوئی اور اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ وہ دوبارہ کل وقتی کوچنگ کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ جیسن گلیسپی نے مزید کہا کہ اگر آسٹریلیا بھی انہیں کوچنگ کی پیشکش کرتا تو وہ اس وقت انکار کر دیتے کیونکہ اس وقت ان کی دلچسپی کوچنگ میں نہیں تھی۔ پاکستان ٹیم کے ساتھ گلیسپی کا سفر مختصر ہی رہا، وہ گیری کرسٹن کے بعد وہ عبوری وائٹ بال کوچ بنے تھے، تاہم جب وہ کوچنگ سے الگ ہوئے تو عاقب جاوید نے عبوری ہیڈ کوچ کا عہدہ سنبھال لیا۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسن گلیسپی نے ایک سابق انٹرویو میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ عاقب جاوید نے اپنی کوچنگ کی مہم خود چلائی تھی۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس نے کرکٹ کی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کے اثرات پاکستان کرکٹ پر واضح طور پر دیکھائی دے رہے ہیں۔ اس خبر نے پاکستان کرکٹ کے چاہنے والوں کو ایک کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے کہ آیا اس سب کا اختتام کہاں تک جائے گا؟ مزید پڑھیں: پی ایس ایل 10: تمام میچز میں مکمل اردو کمنٹری ہوگی

آذربائیجان کے وزیر اقتصادیات منگل کو پاکستان کا دورہ کریں گے

آذربائیجان کے وزیر اقتصادیات میکائیل جباروف اپنے دو روزہ دورے پر منگل کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ اس دورے کا مقصد آذربائیجان اور پاکستان کے درمیان مختلف سرمایہ کاری منصوبوں کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت (MoUs) اور معاہدوں پر بات چیت اور حتمی منظوری دینا ہے۔ دورے کی تفصیلات: آذربائیجان کے وزیر اقتصادیات کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ اپنے دورے کے دوران جباروف پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کریں گے، جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ اقتصادی تعاون کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت متوقع ہے۔ پاکستانی وفد سے ملاقات: جباروف کا اجلاس صرف وزیراعظم کے ساتھ نہیں ہوگا، بلکہ وہ پاکستانی وفد کے ساتھ بھی تفصیلی بات چیت کریں گے، جس کی قیادت نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کریں گے۔ اس بات چیت کا مقصد سرمایہ کاری کے نئے مواقع کی تلاش اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ سرمایہ کاری کے منصوبے: آذربائیجان کی حکومت مختلف شعبوں میں پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے امکانات پر غور کر رہی ہے۔ ان شعبوں میں توانائی، انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی، اور زرعی ترقی شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ بات چیت آذربائیجان کے لیے پاکستان کی معیشت میں مختلف سرمایہ کاری منصوبوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرے گی، جبکہ پاکستان کو آذربائیجان کے سرمایہ کاروں سے فائدہ پہنچے گا۔ آذربائیجان کے صدر کا دورہ پاکستان: ذرائع کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اپریل کے آخر میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے معاہدوں پر باضابطہ دستخط کیے جائیں گے۔ یہ معاہدے نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات میں ایک نیا باب کھولیں گے بلکہ دوطرفہ تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو ایک نیا عروج دیں گے۔ مفاہمت کی یادداشت اور معاہدوں کا حتمی مقصد: اس دورے کا مقصد ان معاہدوں کی حتمی شکل دینا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہوں گے۔ ان معاہدوں کی مدد سے آذربائیجان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔ دورے کے اثرات: آذربائیجان کے وزیر اقتصادیات کا دورہ اور آذربائیجان کے صدر کا متوقع دورہ پاکستان کے لیے ایک نیا معاشی موقع پیش کر رہے ہیں۔ ان دونوں دوروں کی تکمیل سے پاکستان کو آذربائیجان کے سرمایہ کاروں سے نہ صرف مالی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں اشتراک کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ آذربائیجان کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی اقتصادی صورتحال میں بے چینی ہو۔ آذربائیجان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اس اقتصادی تعاون کے معاہدے دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مدد دیں گے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچے گا اور دونوں ممالک کے عوام کے لیے بہتر معاشی مواقع پیدا ہوں گے۔

امریکی ٹیرف کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی

انڈیا نے اپنے مالی سال 2025/26 کے لیے 6.3 فیصد سے 6.8 فیصد تک کی ترقی کی پیش گوئی کی تھی لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر امریکی ٹیرف کے اثرات کا خدشہ اب بھی برقرار ہے۔  حکومت کے اعلیٰ حکام کے مطابق اگر تیل کی قیمتیں 70 ڈالر فی بیرل سے نیچے رہیں تو انڈیا کی معیشت اپنے متوقع نمو کے ہدف کو حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم، متعدد نجی ماہرینِ معیشت نے اپنے تخمینوں میں کمی کرتے ہوئے انڈیا کی ترقی کی شرح کو 6.1 فیصد تک محدود کر دیا ہے۔ یہ خدشات اس وقت مزید بڑھ گئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف نئے تجارتی ٹارفز عائد کیے۔ ان ٹارفز نے عالمی تجارت کو ہلا کر رکھ دیا اور ایشیا کے بڑے اسٹاک انڈیکس میں مندی کا رجحان دیکھا گیا۔ ٹرمپ کے 26 فیصد ٹارفز نے انڈیا کی معیشت کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان تمام ٹارفز کا سب سے زیادہ اثر انڈیا کی ڈائمنڈ انڈسٹری پر پڑا ہے جو اپنی ایک تہائی برآمدات صرف امریکا کو بھیجتی ہے۔ اس سے ہزاروں افراد کی روزگار پر سوالیہ نشان بن ہے۔ انڈیا کے حکام نے اس صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور صنعتکاروں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تدابیر وضع کی جا سکیں۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا حکومت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ “ہم نے پہلے ہی وزارت تجارت سے متعدد تجاویز موصول کی ہیں جن میں برآمدی صنعتوں کو سہولت دینے کے لیے شرح سود کی سبسڈی، نئے بازاروں میں توسیع اور بینکوں سے زیادہ قرضوں کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔” انڈیا کی حکومت نے پہلے ہی 2025/26 کے مالی سال کے بجٹ میں برآمدات کے شعبے کی حمایت کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، امریکا کے نئے ٹارفز کے باعث انڈیا کے حکام نے مزید امدادی تدابیر پر غور شروع کر دیا ہے۔  ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کا کہنا ہے کہ “ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان ٹارفز کا اثر انڈیا کی برآمدات اور دیگر شعبوں پر کس حد تک پڑے گا اور ضرورت پڑنے پر ہم اضافی اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔” لیکن انڈیا کی حکومت نے ابھی تک ان ٹارفز کے جواب میں کوئی سخت ردعمل ظاہر کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر مذاکرات کے ذریعے حل کی تلاش میں ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات خراب نہ ہوں۔ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان شعبوں کا ہے جو محنت طلب کاموں پر منحصر ہیں، جیسے کہ ٹیکسٹائل، جوتے اور زرعی مصنوعات۔ ان شعبوں میں روزگار کی بہت بڑی تعداد وابستہ ہے اور امریکی ٹارفز کے باعث ان کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔  ان شعبوں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی روزگار کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لازمی پڑھیں:امریکی ٹیرف: 50 سے زائد ممالک کا وائٹ ہاؤس سے تجارتی مذاکرات کا مطالبہ انڈیا کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ٹارفز کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان اقدامات میں برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس ریلیف، قرضوں کی فراہمی اور دیگر تجارتی سہولتیں شامل ہیں۔  حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہے چاہے عالمی سطح پر تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کیوں نہ ہو۔ ایک حکومتی اہلکار نے بتایا کہ “ہم نے بجٹ میں برآمدات کو فروغ دینے کے لیے جو اسکیمیں رکھی ہیں، ان کی مدد سے ہم عالمی مارکیٹ میں انڈیا کی پوزیشن کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری معیشت امریکی ٹارفز یا کسی بھی عالمی بحران سے زیادہ متاثر نہ ہو۔” اگرچہ انڈیا کے حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انڈیا عالمی سطح پر ہونے والی تجارتی کشمکش سے محفوظ رہ سکتا ہے لیکن عالمی ماہرینِ معیشت اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ انڈیا کی معیشت پر ان ٹارفز کا اثر نہیں پڑے گا۔  بعض ماہرین نے انڈیا کی معیشت کے لیے ترقی کی شرح میں کمی کی پیش گوئی کی ہے جبکہ کچھ نے اسے 6.1 فیصد تک محدود کر دیا ہے۔ یہ وقت انڈیا کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ایک طرف امریکی ٹارفز نے انڈیا کی معیشت کے سامنے مشکلات کھڑی کر دی ہیں، دوسری طرف حکومت نے ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کا آغاز کیا ہے۔  انڈیا کو نہ صرف اپنے برآمدی شعبے کو بچانا ہے بلکہ عالمی اقتصادی تعلقات میں اپنی پوزیشن کو بھی مستحکم رکھنا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا

امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تجارت معطل کر دی گئی ہے کیونکہ  انڈیکس میں 6,000 پوائنٹس سے زیادہ کی کمی آئی تھی۔ اس کمی کی وجہ چین کی جانب سے امریکا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا ردعمل تھا، جس سے عالمی مارکیٹوں میں مندی کا سامنا ہوا۔ یہ صورتحال عالمی تجارتی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور ممکنہ عالمی کساد بازاری کے خدشات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ KSE-100 انڈیکس صبح 11:59 پر 6,287.22 پوائنٹس یا 5.29 فیصد گر کر 112,504.44 پر آ گیا تھا، جو کہ پچھلے دن کے اختتام سے کافی کم تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ کمی سرمایہ کاروں کے خدشات کا نتیجہ ہے کہ امریکی ٹیرف عالمی کساد بازاری کو بڑھا سکتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ٹریڈر جبران سرفراز نے کہا کہ “آج پاکستان اسٹاک ایکسچنج مارکیٹ میں شدید ترین مندی دیکھی گئی، مارکیٹ میں 6 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے، ایک گھنٹے کے لیے بازار بند کیا گیا ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں مندی کی وجہ ٹیرف چارجز کا نفاذ ہے، دنیا بھر کی طرح پاکستان کی مارکیٹ پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں، ٹیرف چارجز کے اثرات زیادہ تر ایشیائی ممالک کی اسٹاک مارکیٹ پر ہوئے ہیں، اس سلسلے میں تھوڑی پیش رفت کے بعد جلد ہی مارکیٹ ریکور ہو جائے گی”۔ چیس سیکیورٹیز کے یوسف ایم فاروق نے بتایا کہ عالمی کساد بازاری کے خدشات کی وجہ سے مارکیٹوں میں کمی دیکھنے کو ملی، خاص طور پر تیل اور بینکنگ اسٹاک میں فروخت کا دباؤ تھا۔ اگرچہ یہ کمی قلیل مدتی مشکلات پیدا کر سکتی ہے، تاہم عالمی کموڈٹی قیمتوں میں کمی پاکستان کی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر امریکی ٹیرف کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں کم رہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات، جنہوں نے امریکی تجارتی شراکت داروں کے خلاف بڑے ٹیرف متعارف کرائے، نے عالمی مارکیٹس کو مندی کی طرف دھکیل دیا۔ چین نے 10 اپریل سے امریکی اشیاء پر 34 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جس سے عالمی مارکیٹوں میں مزید ہلچل مچ گئی۔ یہ صورتحال سرمایہ کاروں کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، اور عالمی کساد بازاری کے خطرات نے مارکیٹوں کو نیا امتحان دے دیا ہے۔

سینئر صحافی اور رفتار کے ایڈیٹر فرحان ملک کی ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور

کراچی ایسٹ کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے صحافی فرحان ملک کی پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے انہیں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی شرط پر ضمانت دی۔ فرحان ملک کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے 20 مارچ کو کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ اس گرفتاری کی بنیاد میں حالیہ ترامیم کی گئی پیکا ایکٹ کی دفعہ بھی شامل ہو سکتی ہے، تاہم ایف آئی اے نے ابھی تک فرحان ملک کے اہل خانہ کو کیس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ایف آئی اے نے ابتدا میں فرحان ملک کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا، لیکن انہیں چند گھنٹوں تک حراست میں رکھنے کے بعد باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا۔ ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں رفتار نے اطلاع دی کہ ایف آئی اے حکام نے فرحان ملک کے دفتر کا دورہ کیا، عملے کو ہراساں کیا، اور بعد میں انہیں ایف آئی اے کے دفتر میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا۔ مزید پڑھیں: صحافی فرحان ملک کو ایف آئی اے نے پیکا قانون کے تحت گرفتار کر لیا عدالت میں 21 مارچ کو پیشی کے دوران، جوڈیشل مجسٹریٹ ایسٹ نے ایف آئی اے کی درخواست پر فرحان ملک کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا، اور آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ فرحان ملک نے 24 مارچ کو PECA کے تحت اپنے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کیا اور سماعت عید کی تعطیلات تک ملتوی کر دی۔ 26 مارچ کو ملک کو غیر قانونی کال سینٹر چلانے کے الزام میں پولیس کی تحویل میں دیا گیا، جس کے بعد کراچی کی مقامی عدالت نے 5 روزہ ریمانڈ منظور کیا۔ 27 مارچ کو عدالت نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا۔ 31 مارچ کو فرحان ملک کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ملیر کراچی میں پیش کیا گیا، جہاں عید الفطر کے پہلے دن اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر لانڈھی جیل منتقل کرنے کا حکم دیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں نو دہشتگرد ہلاک

خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ایک مؤثر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے نو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ کارروائی 6 اور 7 اپریل کی درمیانی شب تکوارہ کے علاقے میں کی گئی، جہاں سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے ہائی ویلیو ٹارگٹ، خارجی کمانڈر شیریں سمیت نو شدت پسندوں کو جہنم واصل کیا۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ دہشت گرد نہ صرف متعدد دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھے بلکہ کئی بے گناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی حصہ تھے۔ خاص طور پر یہ گروہ 20 مارچ کو کیپٹن حسنین اختر کی شہادت کا ذمہ دار تھا، اور آج کی کارروائی کو اسی خون کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران دہشت گردوں سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا ہے، اور علاقے میں مزید ممکنہ دہشت گردوں کی تلاش کے لیے سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے۔ یہ آپریشن ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں دہشت گردی کی لہر میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق، مارچ میں شدت پسند حملوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی جو نومبر 2014 کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔ صرف کے پی میں 206 اموات ہوئیں جن میں سیکیورٹی اہلکار، شہری اور عسکریت پسند شامل ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر گزشتہ روز ایک دراندازی کی کوشش کو بھی ناکام بنایا گیا تھا جس میں آٹھ دہشت گرد مارے گئے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سکیورٹی فورسز کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے تکواڑہ میں 9 خارجیوں کو جہنم واصل کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی انسانیت کے خلاف بدترین جرم ہے, پوری قوم سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہے۔