برطانیہ میں روسی زیر آب سینسرز: جوہری سب میرینز کی جاسوسی کی کوشش

برطانیہ کے ساحلی علاقے میں روسی زیر آب سینسرز کی موجودگی نے برطانوی حکام کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق برطانوی فوج نے سمندر کی تہہ میں نصب روسی سینسرز کا پتہ چلایا ہے جو ممکنہ طور پر برطانوی جوہری سب میرینز کی جاسوسی کے لئے لگائے گئے تھے۔  ان سینسرز کی دریافت نے برطانوی حکام کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ یہ سینسرز ممکنہ طور پر روسی حکومت کے خفیہ آپریشنز کا حصہ ہو سکتے ہیں جو برطانوی جوہری سب میرینز کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے لگائے گئے تھے۔ رائل نیوی کے حکام نے ان سینسرز کو سمندر کی تہہ میں نصب پایا جبکہ کچھ سینسرز ساحل پر بھی آ گئے ہیں۔  اس سلسلے میں برطانوی فوجی اور انٹیلی جنس افسران کا خیال ہے کہ یہ سینسرز برطانوی جوہری سب میرینز کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی کوششوں کا حصہ ہو سکتے ہیں جو کہ نیوکلیئر میزائلوں سے لیس ہیں۔  ایک اعلیٰ برطانوی فوجی عہدیدار نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ جنگ اٹلانٹک میں جاری ہے اور یہ کھیل سرد جنگ کے اختتام کے بعد دوبارہ شدت اختیار کر چکا ہے۔” یہ رپورٹس اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ روس کا جاسوسی کا نیٹ ورک اب بھی فعال ہے اور اس نے سمندر کے گہرے حصوں میں اپنے غیر مسلح خودکار گاڑیاں بھی چھپائی ہیں جو کہ برطانوی سب میرینز کے راستوں اور زیر آب کیبلز کی نگرانی کر رہی ہیں۔  یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی جارحیت کی انتہا: صحافیوں کے خیمے پر بمباری، دو شہید، سات زخمی ان تحقیقات کے دوران یہ بھی پتا چلا ہے کہ روسی اولیگارکوں کے زیر ملکیت سپر یاٹ بھی ان سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب فرانس کے صدر ایمینیول میکرون نے روس کی جارحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر روس نے امن کی کوششوں کو مسترد کیا تو سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔  انہوں نے حالیہ دنوں میں یوکرین کے شہر کریوی ریگ پر ہونے والے روسی میزائل حملے کی مذمت کی ہے جس میں نو بچوں سمیت بیس افراد ہلاک ہوئے۔  میکرون نے کہا کہ “روس کی جانب سے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی قتل و غارت گری کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔” یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ روس کی فضائی بمباری کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف پر ہونے والے حالیہ حملوں میں بھی ایک شخص ہلاک جبکہ تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں نے یوکرین کی شہری آبادی کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس دوران پولینڈ نے بھی اپنی فضائی حدود کی حفاظت کے لئے فوری طور پر اقدامات اٹھائے ہیں اور اپنے فوجی طیارے فضا میں روانہ کیے ہیں تاکہ کسی بھی غیر ملکی حملے کا فوری جواب دیا جا سکے۔  پولینڈ کی فضائی نگرانی کی وجہ سے ہی گزشتہ سال ایک یوکرینی میزائل کے پولینڈ کے جنوبی علاقے میں گرنے سے انسانی نقصان ہوا تھا۔ اس صورتحال نے عالمی برادری کو ایک مرتبہ پھر یہ یاد دلایا ہے کہ سرد جنگ کے دوران کی جاسوسی کی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں اور عالمی سیاست میں تناؤ کی لہر مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف سے عالمی تجارت پر شدید اثرات: ٹرمپ کا ٹیرف کم نہ کرنے کا فیصلہ

جیل میں جدید تعلیم: قید بھی نعمت بن گئی

قید و بند کی صعوبتیں اکثر انسان کو مایوسی، پشیمانی اور تنہائی میں دھکیل دیتی ہیں، لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اندھیرے میں روشنی کا دیا جلا دیتے ہیں۔ سینٹرل جیل کراچی، جو عموماً اپنے سخت ماحول اور قیدیوں کے حالات کے باعث خبروں میں رہتی ہے، ان دنوں ایک خوش آئند اور حیرت انگیز تبدیلی کا گواہ بن چکی ہے۔ یہاں ایک قیدی، جسے عام حالات میں معاشرہ مجرم سمجھ کر بھول چکا ہوتا، وہ قیدی آج اپنی قابلیت، عزم اور مثبت سوچ کے ذریعے دیگر قیدیوں کی زندگی بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس قیدی نے جیل کی چہار دیواری کے اندر رہتے ہوئے جدید آئی ٹی کورسز کا سلسلہ شروع کر کے اپنے جیسے بہت سے قیدیوں کے لیے نئی راہیں ہموار کر دی ہیں۔ یہ صرف سیکھنے سکھانے کا عمل نہیں، بلکہ ایک خاموش انقلاب ہے جو امید، اصلاح اور علم کے ذریعے جنم لے رہا ہے۔

سرکاری اسکولوں میں ‘دوسری شفٹ’ کی کلاسز ختم کرنے کا فیصلہ کیا اثرات مرتب کرے گا؟

راولپنڈی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں دوسری شفٹوں کو ختم کرنے کے فیصلے نے علاقے میں ایک نئی تعلیمی اور سماجی بحث کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ چار سال سے جاری یہ شام کی کلاسیں نہ صرف تعلیمی نظام کے بوجھ کو کم کر رہی تھیں بلکہ ان طلبہ و طالبات کے لیے بھی سہولت فراہم کر رہی تھیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر دن کی کلاسز میں نہیں جا سکتے تھے۔ اس فیصلے سے تقریباً 50 اسکول متاثر ہوئے ہیں، جب کہ صرف چھ اسکولوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ پیر، 7 اپریل سے تمام دیگر دوسری شفٹوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں طلباء کو متبادل اسکولوں میں داخلے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ عارضی اساتذہ فارغ کر دیے گئے ہیں اور ریگولر اساتذہ کو صرف صبح کی شفٹ میں کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ اساتذہ تنظیموں نے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ پنجاب ایس ای ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکرٹری شفیق بھلووالیا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور تعلیمی سلسلے کو متاثر ہونے سے بچائے۔ زیادہ تشویشناک پہلو والدین کی پریشانی ہے، خاص طور پر بیٹیوں کے لیے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ شام کی کلاسز کی وجہ سے ان کی بیٹیاں قریبی اسکولوں میں آسانی سے تعلیم حاصل کر رہی تھیں، لیکن اب انہیں دور دراز اسکولوں میں بھیجنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ غیر محفوظ بھی محسوس ہوتا ہے۔ یہ اقدام انتظامی سطح پر چاہے کوئی بھی مقصد رکھتا ہو، لیکن اس کا فوری اور گہرا اثر عام طلبہ، والدین، اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر پڑنے کا خدشہ ہے۔ اگر اس فیصلے پر نظرثانی نہ کی گئی تو یہ لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کا اسلام آباد مارچ: عمران خان اور کارکنوں کی رہائی کے لیے تیاریاں شروع

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے پارٹی کے رہنما، چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے اسلام آباد کی جانب اگلے مارچ کی تیاریوں کا آغاز کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔  اس مقصد کے لیے پارٹی کی جانب سے “جانثارانِ عمران خان کنونشن” کا انعقاد کیا گیا جو کہ نشتر ہال میں منعقد ہوا۔ اس کنونشن میں پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں نے خطاب کیا جن میں وفاقی وزیر رہ چکے جیسا کہ مراد سعید، وزیرِ اعلیٰ کے مشیر سہیل آفریدی اور وزیر برائے اعلیٰ تعلیم مینا خان آفریدی شامل تھے۔  مراد سعید نے ویڈیو لنک کے ذریعے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے رہنماؤں، نوجوانوں اور طلباء کو اگلے احتجاج کے لیے تیار ہونے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ طلباء اپنے تعلیمی اداروں میں احتجاج کی تیاری کریں اور اس تحریک کو ایک طلبہ کی تحریک میں تبدیل کریں۔ مراد سعید نے نوجوانوں کی سابقہ کوششوں کو سراہا اور خاص طور پر اسلام آباد میں ہونے والے گزشتہ مارچ میں حکومت کی جانب سے روڈز پر رکھی گئی رکاوٹوں کو ہٹانے میں ان کے کردار کو۔  انہوں نے کہا کہ اگلے مارچ کے لیے ہمیں 50,000 نوجوانوں کی ضرورت ہو گی تاکہ ہم اسلام آباد کی طرف بڑھ سکیں۔  انھوں نے مزید کہا کہ احتجاج پر امن رہے گا لیکن اس بار حکومت کو واقعی محسوس ہوگا کہ عوام کس حد تک اس تحریک کے ساتھ ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:2025 میں سرکاری سکیم کے تحت 90 ہزار عازمین حج کریں گے۔ وزیرِ اعلیٰ کی مشیر مینا خان آفریدی نے بھی اپنے خطاب میں اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اگلے احتجاج کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو اسلام آباد تک پیدل ہی پہنچ جائیں گے۔  ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا حوصلہ بلند ہے اور وہ کسی بھی حالت میں اپنے قائد عمران خان اور دیگر قیدیوں کی رہائی کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ سہیل آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پختونوں کو پی ٹی آئی کی تحریک سے الگ کرنا ممکن نہیں۔  انہوں نے کہا کہ پختون قوم عمران خان کے ساتھ ہے اور وہ اپنے قائد کے حکم کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ کنونشن کے دوران کارکنوں نے جوش و جذبے کے ساتھ نعرے لگائے اور کہا کہ وہ عمران خان کے حکم کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں، جیسے ہی عمران خان کا اشارہ ملے گا وہ فوراً سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اس کنونشن میں گونجتے ہوئے نعرے اور کارکنوں کا عزم یہ ظاہر کر رہا تھا کہ پی ٹی آئی کی تحریک میں ایک نئی امید کی لہر پیدا کرے گی، جو اسلام آباد کی طرف مارچ کر کے ایک بار پھر حکومت کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے گی۔  اس بار پارٹی رہنماوں کا دعویٰ ہے کہ یہ احتجاج پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور پر اثر ثابت ہوگا، کیونکہ ان کی صفوں میں ایک نئی توانائی اور عزم شامل ہو چکا ہے۔ مزید پڑھیں: عید کی خوشیوں پر مہنگائی کا سایہ: کراچی کی مارکیٹوں میں خریداری کم کیوں ہوئی؟

امریکی ٹیرف سے عالمی تجارت پر شدید اثرات: ٹرمپ کا ٹیرف کم نہ کرنے کا فیصلہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی مالیاتی نظام کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے، انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک امریکہ کی تجارتی پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، انہیں اب بہت زیادہ رقم ادا کرنا ہوگی۔ ٹرمپ نے درآمدی محصولات کو دوا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ قلیل مدتی طور پر مالیاتی منڈیوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں، مگر طویل المدت میں امریکا کے مفاد میں ہیں۔ ان بیانات کے بعد ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں بھاری گراوٹ دیکھی گئی جبکہ امریکی اسٹاک فیوچرز نے بھی نیچے کا رخ اختیار کیا۔ سرمایہ کاروں میں خوف ہے کہ ٹرمپ کے سخت ٹیرف اقدامات سے عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھیں گی، صارفین کا اعتماد کم ہوگا اور یہ صورتحال عالمی تجارت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اتوار کو ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: “میں نہیں چاہتا کہ معیشت نیچے جائے، لیکن کبھی کبھی کسی مسئلے کو ٹھیک کرنے کے لیے دوا لینا پڑتی ہے۔” انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ یورپ اور ایشیا کے کئی رہنما ان سے ٹیرف کم کرنے کے لیے بات کر رہے ہیں، مگر وہ صرف اسی صورت میں رعایت دیں گے جب دوسرے ممالک امریکا کو سالانہ بنیاد پر بھاری ادائیگی کریں۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں نے نہ صرف چین کو جوابی اقدامات پر مجبور کیا بلکہ دنیا بھر کی معیشتوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں عالمی تجارتی جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں، اور کئی معاشی ماہرین اسے دنیا کی معاشی بحالی کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس دوران، امریکی حکومت کے اعلیٰ مشیر ٹیرف پالیسی کے دفاع میں سامنے آئے۔ ٹریژری سکریٹری سکاٹ بیسنٹ کے مطابق، ٹرمپ کے اعلانات کے بعد 50 سے زائد ممالک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر چکے ہیں۔ کامرس سکریٹری ہاورڈ لٹنک نے کہا کہ ٹیرف عارضی نہیں بلکہ ممکنہ طور پر طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر تجارت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جانب ایک مضبوط اشارہ ہے، جس کا اثر ترقی پذیر ممالک پر خاص طور پر گہرا ہو سکتا ہے۔

اسرائیلی جارحیت کی انتہا: صحافیوں کے خیمے پر بمباری، دو شہید، سات زخمی

غزہ پر اسرائیل کے ظلم و بربریت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، غزہ کے علاقے خان یونس کے ناصر اسپتال کے قریب صحافیوں کے خیمے کو نشانہ بنا کر اسرائیلی فوج نے ایک بار پھر اپنی سفاکیت کا ثبوت دے دیا۔  اس حملے میں دو معصوم فلسطینی صحافی شہید ہو گئے جبکہ سات شدید زخمی ہیں، جبکہ ان میں دو صحافی زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ شدید بمباری کے نتیجے میں صحافی احمد منصور آگ میں جھلس کر شدید زخمی ہوگئے، ذرائع کے مطابق وہ ایک شخص اور بھی ہے جس کی زندگی بچانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب ایہاب البدینی نامی صحافی کو سر میں شیل کا ٹکڑا لگا جو آنکھ کے ذریعے باہر نکل گیا، ان کی حالت بھی نازک بتائی جا رہی ہے۔ یہ بمباری ایک ایسے وقت میں کی گئی جب اسرائیلی فوج نے دیر البلح کے پانچ رہائشی علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دیا اور اسی دوران پچاس سے زائد بےگناہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ صورتحال یہاں تک محدود نہیں رہی، ظالم اسرائیلی افواج نے مقبوضہ ویسٹ بینک میں ایک فلسطینی-امریکی بچے کو گولی مار کر شہید کر دیا جبکہ جنوبی لبنان میں بھی دو افراد اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنے۔ دوسری جانب امریکی افواج نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں چار افراد کو شہید کر دیا، جس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ صحافیوں کو نشانہ بنانا ایک ایسا جرم ہے جو صرف جسمانی نہیں بلکہ سچ کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اب بھی خاموش رہے گی؟ غزہ کی سرزمین پر بہتا بےگناہ خون، جلتے وجود، چیختے بچے اور سسکتے خاندان پوری دنیا کو پکار رہے ہیں کیا انسانیت مر چکی ہے؟ مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم

امریکی ٹیرف: 50 سے زائد ممالک کا وائٹ ہاؤس سے تجارتی مذاکرات کا مطالبہ

دنیا کے تجارتی نظام میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں، 50 سے زیادہ ممالک نے امریکا کے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا ہے اور تجارتی مذاکرات شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔  وائٹ ہاوس میں رابطہ کرنے والے یہ وہ ممالک ہیں جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسیوں سے تشویش لاحق ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر جاری ان تبدیلیوں نے مالیاتی منڈیوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، جس کے اثرات کئی ممالک کی معیشتوں پر برائے راست پڑ رہے ہیں۔ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی نے عالمی سطح پر ایک نئی تشویش پیدا کی ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے ایک کے بعد ایک نئے ٹیر ف اور تجارتی پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے جس سے عالمی سطح پر معیشت میں ہلچل مچ گئی ہے۔  اس دوران ٹرمپ کے اکانومی مشیر، کیون ہیسیٹ نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ 50 سے زیادہ ممالک نے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا ہے اور امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات عالمی سطح پر امریکی مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور امریکی معیشت کی ترقی کو تیز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کامیاب ہو گی یا پھر عالمی سطح پر ایک تجارتی جنگ کا آغاز ہوگا؟ ٹرمپ کی طرف سے جاری کیے گئے نئے ٹیر ف نے عالمی منڈیوں کو لرزہ براندام کر دیا ہے۔  امریکی ٹیر ف کے اثرات صرف امریکی معیشت پر نہیں پڑے بلکہ عالمی معیشت بھی اس کے اثرات سے بچ نہ سکی۔ امریکی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھنے کو ملی اور سرمایہ کاروں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی ٹریژری کے سیکریٹری، اسکاٹ بیسینٹ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی معیشت میں کسی قسم کی کساد بازاری کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔  ان کا کہنا تھا کہ حالیہ اقتصادی اعداد و شمار جیسے امریکی ملازمتوں کی شرح میں غیر متوقع اضافہ، اس بات کی دلیل ہیں کہ امریکی معیشت کی حالت مستحکم ہے اور ابھی کسی بڑی مشکل کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس کے باوجود عالمی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین نے امریکا کے ان اقدامات کے خلاف اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف پالیسی: انڈیا کی معیشت پر گہرے اثرات اور ریپو ریٹ میں کمی کی پیشگوئی یورپی یونین کی 27 ممبر ریاستیں ایک مشترکہ محاذ پر متحد ہو کر امریکی ٹیرف کے خلاف جوابی اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یورپ کی قیادت نے امریکا کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر 28 ارب ڈالر تک کے امریکی مصنوعات پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ یہ اقدام یورپ کی اقتصادی طاقت کا مظہر ہے جو امریکی تجارتی جنگ کے جواب میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کر رہا ہے۔  یورپی یونین کے رکن ممالک میں فرانس، اٹلی اور آئرلینڈ سمیت مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ فرانس نے اس تجویز کو پیش کیا ہے کہ یورپی کمپنیاں امریکا میں اپنی سرمایہ کاری کو معطل کر دیں تاکہ وہاں کی اقتصادی پالیسیوں کی سمت کے بارے میں مزید وضاحت مل سکے۔  دوسری جانب آئرلینڈ نے تجویز دی ہے کہ یورپ کو محتاط اور سوچ سمجھ کر جوابی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ عالمی تجارت میں مزید بدامنی نہ پھیل سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھی اپنے فیصلوں پر قائم رہنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ تجارتی پالیسی امریکا کے مفاد میں ہے اور اس سے نہ صرف امریکا کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔  ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا نے ہمیشہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے معاملات میں نقصان اٹھایا ہے اور یہ وقت ہے کہ امریکا اپنے مفادات کی حفاظت کرے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہیں، آئی ایم ایف

عید کی خوشیوں پر مہنگائی کا سایہ: کراچی کی مارکیٹوں میں خریداری کم کیوں ہوئی؟

کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں مٹی بھی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے اور جب سیزن میں کاروبار ہوتا ہے تو لوگ دوبئی کو بھول جاتے ہیں۔ کراچی کے تاجروں کےمطابق اس بار عید کے موقع پر کراچی میں کاروباری سرگرمیاں گذشتہ سال کی نسبت محدود ہوئی ہیں۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے رہنما عتیق میر کے مطابق کراچی میں عید کی خریداری تقریباً 15 ارب روپے کی ہوئی ہے۔ عید کے موقع پر سامان کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد اضافہ ہوا، کم خریداری کے بعد عید پر فروخت کیلئے گوداموں میں جمع کیا گیا 60تا 70فیصد سامان دھرا کا دھرا رہ گیا مہنگائی، معاشی تباہی اور قوتِ خرید میں حوصلہ شکن کمی نے تاجروں کے کاروبارمتاثر کیا۔غریب ومتوسط طبقے کی عید کی خوشیاں منانے کے خواب بکھیر دیئے ہیں۔بیشتر خریداروں نے خواہشات کے برعکس صرف ایک سوٹ خریدنے پر اکتفا کیا۔ تاجروں کے لئے کاروباری اور گھریلواخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف مہنگائی کے سبب عوام کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے یا پھر اس کی کئی اور وجوہات بھی ہیں؟ کیونکہ گذشتہ سالوں میں کراچی کے تاجروں کی طرف سے عید کے موقع پر 70 ارب کی خریداری کا دعوی بھی سامنے آیا تھا  مگر اس سال نمایاں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صدر کوپریٹو مارکیٹ کے صدر اسلم خان نے بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے کاروبار گذشتہ سالوں کی نسبت صرف پچاس فیصد ہوسکا ہے ،مہنگائی  کے علاوہ مارکیٹ کے اطراف میں موجود پتھاروں اور پارکنگ کی وجہ سے لوگوں نے بازار کا رخ کم کیا ہے۔ لوگوں کی آمد و رفت اس کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے،ہم نے انتظامیہ کو بارہا  شکایت کی جس پر انہوں نے کارروائی بھی کی  مگر اس کے بعد یہ لوگ دوبارہ تجازوات قائم کردیتے تھے ۔ سڑک پر قائم اور پارکنگ کی ناکافی سہولیات سے شہری  جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے اور انہوں نے دیگر بازاروں کا رخ کیا۔ مہنگائی نے اس قدرخریداری پر اثر ڈالا ہے کہ عید سے پہلے اور بعد میں کیونکہ شادیوں کا سیزن ہوتا ہے تو لوگوں نے جو کپڑے شادی پر استعمال کرنےتھے انہیں ہی عید کے موقع پر استعمال کیا ہے صرف جوتوں اور بچوں کےکپڑوں پر اضافی پیسے خرچ کیے ہیں۔ اسلم خان نے مزید کہا کہ کوپریٹیو مارکیٹ کپڑوں کے حوالے سے سب سے سستی مارکیٹ ہے۔ یہاں عام دنوں میں بھی سامان مناسب قیمت پر فروخت ہوتا ہے مگر عید کے موقع پر خریداری کا رجحان کم رہا ہے۔  کپڑوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جبھی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ ہم مارکیٹ کی کل آمدنی بتانے سے تو قاصر ہیں تاہم اس میں کمی لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو مہنگائی کو کنڑول کرنے اور بہتر معاشی پالیساں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کم ازکم تہووار کے موقع پر خریداری کرسکیں اور ظاہر ہے آمدنی زیادہ ہوگی توٹیکس ریٹ بھی اضافہ ہوسکے گا۔ ٹریفک پولیس اور کراچی پولیس نے بھی تاجروں کو انتظامی سہولیات فراہم کی ،شکایتی کیپمس قائم کیے جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ کراچی کی مشہور لیاقت آباد سپر مارکیٹ کے صدر طارق رفیق نے کہا کہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ اندرون سندھ سے بھی لوگ خریداری کے لیے اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں مگر اس سال کاروبار گذشتہ سال کی نسبت تقریبا 30 سے 40 فیصد کم ہوا ہے۔اس کی بڑی وجہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے اطراف میں پارکنگ کی ناکافی سہولیات اور ٹریفک پولیس کی جانب سے گاڑیوں کی لفٹنگ کا معاملہ بھی ہے۔ لیاقت آباد کی مارکیٹ میں متوسط طبقے کے لوگ خریداری کے لیے آتے ہیں ہمارے پاس  پارکنگ کی سہولت ناکافی ہے جبکہ رش ہونے کی صورت میں قائم پارکنگ سے اکثر گاڑیاں انتظامیہ کی جانب سے اٹھالی جاتی تھی اب ایک متوسط طبقے کا آدمی جس کا قل بجٹ ہی 2ہزار روپے ہے وہ کس طرح پانچ سو روپے جرمانہ ادا کرسکتا ہے؟ جس کسی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اس نے پھر مارکیٹ کا رخ دوبارہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت لفٹنگ کا یہ واقعہ ہوتا تھا تو مارکیٹ میں افراتفری بڑھ جاتی تھی اور شہریوں کوخریداری  کے لیے پرسکون ماحول دستیاب نہیں ہوتا تھا۔شہری انتظامیہ کو اس حوالے سے مؤثر حکمت عملی کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ملیر کی لیاقت مارکیٹ میں بچوں کے کپڑے فروخت کرنے والے دوکاندار عاصم نے  بتایا کہ عام طور پر تہووار کے موقع پر لوگ بچوں کے لیے 3 سے پانچ کپڑے  لازمی خریدتے تھے، مگر اس بار صرف عید کا ایک سوٹ ہی خرید سکے،15 سو کے سوٹ کی قمیت کو بھی کم کروا کر ہزار روپے میں خریدا گیا۔ اس قسم کی خریداری میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ بات ٹھیک ہے مارکیٹ میں رش زیادہ تھا مگر اکثریت صرف ونڈو شوپنگ کے لیے آئی تھی۔ جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کی استاد ڈاکٹر صفیہ منہاج اس پوری صورتحال کو تھوڑا مختلف انداز سے دیکھتی ہیں ان کے مطابق یہ بات درست ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید متاثر ہوئی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ کاروبای سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ تاجر اس لیے آمدنی کو کم بتارہے ہیں تاکہ ایف بی آر سے بچا جاسکے اور ٹیکس سے چھوٹ مل جائے۔  ایک بار دعوی کیا گیا کہ لیاقت آباد کی سپر مارکیٹ نے سب سے زیادہ ٹیکس دیا مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ کراچی کی بڑی مارکیٹوں میں آج بھی لین دین کیش کی صورت میں ہوتا ہے تو ایف بی آر کے پاس اس آمدنی کا ریکارڈ کیسے ہوسکتا ہے جس کی بنیاد پر وہ ٹیکس کو اکٹھا کریں گے؟یہ سب ریکارڈ تو دستاویز میں موجود نہیں ہوتا۔ دوسری اہم بات جو تاجروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اب لوگ کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ مختلف شاپنگ مالز میں بڑی مارکیٹس کی نسبت زیادہ رش دیکھائی دیتا ہے۔ لوگ ایک برانڈ کا مہنگا جوڑا خریدنے کو زیادہ فوقیت دیتے بجائے اس کے وہ کم کوالٹی کے تین جوڑے خریدیں یہی ایک

فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم

امریکی سرپرستی میں فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملوں اور ان میں ہزاروں شہادتوں کے ردعمل میں عوامی سطح پر اسرائیلی اور پرواسرائیلی بائیکاٹ کی مہم نئے سرے سے شروع ہوئی ہے۔ حالیہ مہم کی خاص بات یہ ہیکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سوشل میڈیا صارفین، تاجر، کاروباری ادارے اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا سمیت اتحادیوں فرانس، برطانیہ وغیرہ کی مصنوعات کے خلاف حالیہ مہم صرف مشروبات تک محدود نہیں بلکہ کاسمیٹکس، گروسری آئٹمز، ہاؤس ہولڈ پراڈکٹس، ڈیوائسز اور ڈیجیٹل خدمات کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ eکا آغاز اور پھیلاؤ: فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف سب سے پہلی بائیکاٹ مہم 2023 کے اکتوبر میں سوشل میڈیا پر پاکستان میں شروع ہوئی۔ اس مہم میں عوامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات، جیسے اسٹاربکس، میکڈونلڈز، کے ایف سی، اور دیگر مغربی برانڈز کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔ اس کے بعد، دیگر اسلامی ممالک جیسے ملائیشیا، مصر، اردن، کویت اور مراکش میں بھی اسی نوعیت کی مہمات چلائیں گئیں۔ ملائیشیا: ملائیشیا میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف بائیکاٹ مہم نے زور پکڑا اور یہ 2023 کے اواخر میں سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی۔ حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے اس مہم کی حمایت کی گئی۔ خاص طور پر، اسٹاربکس، میکڈونلڈز اور دیگر غیرملکی برانڈز کی مصنوعات کو نشانہ بنایا گیا۔ ملائیشیا میں بائیکاٹ کے اثرات واضح تھے، جہاں اسٹاربکس نے تسلیم کیا کہ اس کے 400 سٹورز میں کم از کم 40 فیصد فروخت میں کمی آئی۔ حکومت نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کی اور اس مہم کی پزیرائی میں عوامی سطح پر اضافہ دیکھنے کو ملااس کے علاوہ، کئی مقامی برانڈز نے بھی اس مہم کو تیز کرنے میں تعاون کیا۔ مصر: مصر میں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ مصر کے مختلف شہروں میں لوگوں نے بازاروں میں اسرائیلی مصنوعات کی نمائش پر احتجاج کیا۔  مصر میں اس مہم کا اثر خاص طور پر بڑے شہروں میں محسوس کیا گیا۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں کئی غیرملکی کمپنیوں کی فروخت میں 25 سے 30 فیصد تک کمی آئی۔ خاص طور پر اسٹاربکس اور کے ایف سی جیسے برانڈز کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اردن: اردن میں بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی اور عوامی سطح پر اس میں دلچسپی لی گئی۔ اردن میں احتجاجی مظاہرے اور سوشل میڈیا پر #BoycottIsrael کے ہیش ٹیگ کے ذریعے لوگوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ اردن میں بائیکاٹ مہم کے اثرات مایوس کن نہیں تھے۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 20 سے 25 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ تاہم، عالمی سطح پر اس بائیکاٹ کا اثر محدود رہا اور اسرائیل کو اس کی معیشت میں کوئی نمایاں نقصان نہیں پہنچا۔ کویت: کویت میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کویتی حکومت نے اس مہم کی غیرمستقیم طور پر حمایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ اسلامی دنیا کی یکجہتی کا مظہر ہے۔کویت میں بائیکاٹ کے اثرات خاص طور پر غیرملکی کمپنیوں پر مرتب ہوئے، جنہوں نے کویت میں اپنے کاروبار کو متاثر ہوتے ہوئے دیکھا۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 40 فیصد تک کمی آئی، اور کچھ کمپنیوں نے اپنے پروڈکٹس کی قیمتیں بڑھا دیں تاکہ عوام کی توجہ ہٹ سکے مراکش: مراکش میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی۔ مراکش کے سوشل میڈیا اور عوامی فورمز پر اس مہم کو نمایاں طور پر پزیرائی ملی مراکش میں اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 15 سے 20 فیصد تک کمی آئی، اور لوگوں نے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مراکش میں اس مہم کی کامیابی زیادہ تر عوامی سطح پر تھی اور اس کا اثر عالمی سطح پر کم تھا۔ پاکستان میں بائیکاٹ مہم کا اثر: پاکستان میں بائیکاٹ مہم کی مقبولیت خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تھی۔ حکومتی سطح پر اس مہم کی حمایت نہیں کی گئی، مگر عوامی سطح پر اس مہم کا زور پکڑا۔ مارکیٹ میں اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت میں واضح کمی دیکھی گئی، خاص طور پر ان کمپنیوں کے ساتھ جڑے مصنوعات جو اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے جڑے ہوئے تھے۔ پاکستان بزنس فورم کے مطابق، اسرائیل سے جڑی مصنوعات کی فروخت میں 40-50 فیصد کمی آئی۔ اس کے علاوہ، کچھ غیرملکی برانڈز نے پاکستان میں اپنے آپریشنز کو محدود کیا یا اپنے پراڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ کیا تاکہ بائیکاٹ کے اثرات کم کیے جا سکیں۔ پاکستان بزنس  فورم کے کو آرڈینیٹر ابراہیم زبیر نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  بائیکاٹ کی مہم میں عوام کی سرگرم شرکت ضرور نظر آئی ہے، خصوصاً میکڈونلڈ، کوکا کولا اور دیگر ایسی مصنوعات کا جنہیں لوگوں نے کچھ عرصے کے لئے چھوڑا۔ تاہم، یہ بائیکاٹ اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتا جب تک بڑی کاروباری کمیونٹیز اور حکومت اس میں شامل نہ ہوں۔ عوامی سطح پر بائیکاٹ کے اثرات تھوڑے سے نظر آتے ہیں کیونکہ جب تک یہ مصنوعات ہر بازار، ہر ریسٹورنٹ اور ہر دکان پر دستیاب ہیں، عوام کی مجبوری کبھی نہ کبھی انہیں خریدنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ریسٹورنٹ میں اگر 10 افراد ہیں، تو پانچ لوگ شاید ان مصنوعات کو چھوڑ دیں گے، لیکن باقی لوگ یا تو خاموشی سے خرید لیں گے یا کسی نہ کسی وجہ سے ان کو خریدنے پر مجبور ہوں گے اس بائیکاٹ کو موثر بنانے کے لئے کاروباری کمیونٹیز کا اتحاد ضروری ہے، اور اگر حکومت اس میں شراکت دار بنے، تو یہ ایک مضبوط اور کامیاب مہم بن سکتی ہے۔ عوام کی طرف سے اس کی بھرپور حمایت تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب یہ مہم وسیع سطح پر منظم ہو، تاکہ اس کا اثر اصل میں دیکھنے کو ملے۔ سابق ایگزیکٹو ممبر لاہور چیمبر آف کامرس اعجاز تنویر کے مطابق بائیکاٹ مہم کا خاص طور پر غیر