برطانیہ میں ایم پوکس وائرس: ماہرین نے اب تک کا سب سے خطرناک وائرس قرار دے دیا

برطانیہ میں ایم پی اوکس کے ایک نئے کیس کے سامنے آنے کے بعد ہیلتھ چیفس نے الرٹ جاری کیا ہے۔ یہ مہلک وائرس کا پہلا کیس ہے جو برطانیہ میں بیرون ملک کے بجائے مقامی طور پر منتقل ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تازہ کیس اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ ایم پی اوکس مقامی کمیونٹیز میں پھیل رہا ہے۔ نیا تناؤ، کلیڈ 1 بی، کو ماہرین نے اب تک کا سب سے خطرناک قرار دیا ہے، کیونکہ یہ متاثرہ افراد میں سے ایک تہائی کی جان لے سکتا ہے اور یہ اسقاط حمل کی لہر کے پیچھے بھی ہو سکتا ہے۔ برطانیہ کی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی  کے مطابق، اس نئے کیس کی تشخیص مارچ میں انگلینڈ کے شمال مشرقی علاقے میں ہوئی تھی۔ تاہم، حکومتی حکام نے کہا ہے کہ اس وائرس کا مجموعی خطرہ ‘کم’ رہتا ہے۔ برطانیہ میں اس سے پہلے کے تمام کیسز یا تو کسی متاثرہ ملک سے واپس آنے والے افراد سے متعلق تھے یا ان افراد کے ساتھ تھے جنہوں نے ان سے براہ راست رابطہ کیا تھا۔ جنوری 2023 میں برطانیہ میں اس مہلک تناؤ کے ساتویں کیس کا پتہ چلا تھا، جس کا تعلق یوگنڈا سے تھا۔ کلیڈ 1بی کے پہلے کیس کا پتہ چلنے پر مریض میں فلو جیسی علامات ظاہر ہوئیں، اور بعد میں اس نے جدوہ اور دیگر پیچیدگیاں پیدا کیں، جس کے باعث مریض کو شمالی لندن کے رائل فری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں اسے اعلیٰ سطحی تنہائی یونٹ میں رکھا گیا، جو کہ 2015 میں ایبولا کے کیسز کے علاج کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق، عالمی سطح پر ایم پی اوکس وبا، جو مئی 2022 میں افریقہ میں شروع ہوئی، نے وسطی افریقہ میں کم از کم 1,000 افراد کی جانیں لی ہیں۔ تاہم، ترقی یافتہ ممالک جیسے برطانیہ میں اس تناؤ کی اموات کی شرح میں کمی کی توقع ہے کیونکہ یہاں صحت کی سہولتیں زیادہ بہتر ہیں۔ ایم پی اوکس ویکسین، جو چیچک کے قریبی رشتہ دار وائرس کے خلاف بنائی گئی ہیں، 2022 میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں استعمال کی گئیں۔ مگر یہ ویکسین زیادہ طاقتور کلیڈ 1بی تناؤ کے خلاف موثر ثابت ہونے کے بارے میں مزید تجربات کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور این ایچ ایس نے مشورہ دیا ہے کہ کسی بھی شخص کو وائرس کا خطرہ ہونے کی صورت میں، یا علامات ظاہر ہونے کے چار دن کے اندر ویکسین لگوانا ضروری ہے۔ خاص طور پر صحت کے کارکنوں اور ایسے مردوں کو جن کا جنسی تعلق مردوں سے ہو، ویکسین لگوانا تجویز کیا گیا ہے۔ حالیہ کیس نے عالمی سطح پر ایم پی اوکس کے پھیلاؤ اور اس کی شدت کو دوبارہ اجاگر کیا ہے، اور مزید اقدامات کی ضرورت کو ظاہر کیا ہے تاکہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

دمتری بائیول کا ہیوی ویٹ ٹائٹل چھوڑنے کا اعلان، کیا یہ ‘انتہائی غیر ذمہ دارانہ’ فیصلہ ہے؟

دمتری بائیول نے ڈبلیو بی سی لائٹ ہیوی ویٹ ٹائٹل چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے تاکہ وہ آرتھر بیٹربیف کے خلاف ٹرائیلوجی فائٹ پر توجہ دے سکیں۔ دی رنگ کو موصول ہونے والے خط کے مطابق، بائیول کے وکیل نے ڈبلیو بی سی کو باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے کہ وہ 9 اپریل کو ڈیوڈ بیناویڈیز کے خلاف پرس بولی سے قبل ہی ٹائٹل خالی کر رہے ہیں۔ بائیول نے فروری میں بیٹربیف کے خلاف ریاض میں ہونے والے سنسنی خیز مقابلے میں اکثریتی فیصلے سے فتح حاصل کی تھی، جس سے دونوں کے درمیان سیریز ایک ایک سے برابر ہو گئی۔ اس سے پہلے اکتوبر میں بیٹربیف نے بائیول کو شکست دی تھی۔ اب دونوں کے درمیان فیصلہ کن تیسری فائٹ کا امکان سال کے آخر میں ہے، جس کا اعلان ہیز ایکسیلینسی ترکی ال الشیخ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ بائیول کے وکیل پیٹ انگلش نے خط میں اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ڈبلیو بی سی نے درجہ بندی کرنے والی تنظیموں کے طے کردہ روٹیشن سسٹم کی پابندی نہیں کی۔ ان کے مطابق آئی بی ایف نے بائیول کے اگلے حریف کے لیے اولین ترجیح کا جواز پیش کیا ہے۔ دوسری جانب، ڈبلیو بی سی کے صدر موریسیو سلیمان نے سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے بائیول کے فیصلے کو  غیر ذمہ دارانہ اطلاع قرار دیا اور بیناویڈیز کو مکمل چیمپئن تسلیم کر لیا۔ بیناویڈیز اب ممکنہ طور پر سابق سپر مڈل ویٹ چیمپئن کالم اسمتھ کے خلاف دفاع کریں گے، جو حالیہ فائٹ میں جوشوا بوٹسی کے خلاف فتح حاصل کر چکے ہیں۔ بیناویڈیز، جنہیں میکسیکن مونسٹر کہا جاتا ہے، اب بھی اپنے کیریئر کی سب سے بڑی فائٹ کی تلاش میں ہیں، لیکن بائیول-بیٹربیف ٹرائیلوجی کی وجہ سے انہیں کچھ وقت انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ اس وقت رنگ میگزین کی رینکنگ میں لائٹ ہیوی ویٹ کے نمبر 2 باکسر ہیں، جبکہ اسمتھ نمبر 3 پر ہیں۔ یہ پیشرفت نہ صرف ڈویژن میں نئی صف بندی کا اشارہ ہے، بلکہ بائیول اور بیٹربیف کی فیصلہ کن تیسری جنگ کو باکسنگ کی دنیا کا سب سے متوقع مقابلہ بنا چکی ہے۔

امریکی سرپرستی میں اسرائیلی بمباری جاری، مزید 19 معصوم فلسطینی شہید

غزہ میں اسرائیلی فورسز نے بمباری کی ہے جس میں کم از کم 19 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔  یہ شہادتیں آج صبح کے وقت پیش آئی ہیں اور یہ سلسلہ غزہ کے مختلف علاقوں میں جاری ہے۔ فلسطینیوں کی امداد کے لیے کام کرنے والی تنظیم “سیول ڈیفنس” کے مطابق بمباری میں ہلاکتوں کے علاوہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب، 6 اکتوبر کو جنوبی غزہ کے خان یونس میں ایک میڈیا کیمپ پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے صحافی احمد منصور کی شہادت کی خبر بھی سامنے آئی ہے۔ احمد منصور کی حالت بہت نازک تھی اور وہ اس حملے میں نہیں سنبھل سکے اور ان کی شہادت کے ساتھ اس حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 3 تک پہنچ گئی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جنگ کے دوران اب تک 50,695 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 115,338 دیگر زخمی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی حکومت میڈیا آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کی لاشوں کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا اور ان کی ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ ہے۔  مجموعی شہادتوں کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ غزہ میں ایک سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے ان ممالک پر گفتگو کی جو غزہ سے جبری طور پر نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کو پناہ دینے پر رضامند ہو سکتے ہیں۔  اس دوران دونوں رہنماؤں نے فلسطینیوں کی بے دخلی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر بات کی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا تھا جب حماس کے حملے میں اسرائیل میں کم از کم 1,139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا گیا۔  اس خون ریز جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف کی ہلاکتیں تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں اور جنگی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے جس میں نہ صرف انسانی زندگیوں کا ضیاع ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس جنگ کے اثرات بھی واضح ہو رہے ہیں۔  عالمی رہنما اس جنگ کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات پر غور کر رہے ہیں لیکن اس بات کی کوئی واضح نشاندہی نہیں ہو پائی کہ اس مسئلے کا کوئی فوری حل سامنے آ سکے گا۔ مزید پڑھیں: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ

امریکی ٹیرفز: 37 فیصد ٹیکس کے بعد بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار

بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری کو امریکا کی جانب سے حالیہ ٹیرفز کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکا نے بنگلہ دیش کے کپڑے اور چمڑے کے مصنوعات پر 37 فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے جو گزشتہ 16 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کے مینوفیکچررز اور کاروباری حضرات امریکی خریداروں سے آرڈرز کی معطلی کی شکایات کر رہے ہیں۔ محمود مشفیق الرحمٰن، جو اسنسور فٹ ویئر اینڈ چمڑے کے مصنوعات کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک طویل عرصے سے ان کے خریدار نے 300,000 ڈالر مالیت کی چمڑے کی مصنوعات کی سپلائی روکنے کا مطالبہ کیا۔  انکا کہنا تھا کہ “یہ ایک مشکل لمحہ ہے، ہم دونوں حیرت میں ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔” محمود کے مطابق اس سے قبل وہ ہر ماہ اوسطاً 100,000 ڈالر مالیت کی مصنوعات امریکا کو بھیجتے تھے مگر اب یہ صورتحال ان کے کاروبار کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔ دوسری جانب ویکٹیکس بی ڈی کے سی ای او اے کے ایم سیف الرحمٰن نے بتایا کہ ان کے امریکی خریدار نے 150,000 ڈالر مالیت کی گارمنٹس کی سپلائی روک دی ہے۔ یہ فیصلے بنگلہ دیش کے لیے ایک بڑے چیلنج بن گئے ہیں کیونکہ ملک کی معیشت کا 80 فیصد انحصار ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی ایکسپورٹ پر ہے۔  گزشتہ سال بنگلہ دیش نے امریکا کو 8.4 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کیں جن میں سے 7.34 ارب ڈالر صرف تیار شدہ گارمنٹس سے حاصل ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری اس شدید امریکی ٹیرمز کے اثرات سے نکل پائے گی؟ یا یہ مسئلہ بنگلہ دیش کی معیشت پر طویل مدتی اثرات چھوڑے گا؟  اس وقت بنگلہ دیش کے گارمنٹس مینوفیکچررز ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ امریکی مارکیٹ سے واپس جانے کی صورتحال کو روکا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ دنیا بھر میں دوسرے سب سے بڑے گارمنٹس ساز ملک بنگلہ دیش کے کاروباری رہنما ان مشکلات کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں۔  مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی

پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم: معدنی وسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش

اسلام آباد میں دو روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 کا آغاز ہو گیا ہے، جس میں دنیا کے مختلف ممالک سے اعلیٰ سطحی وفود شرکت کر رہے ہیں۔ اس فورم کا مقصد پاکستان کے معدنی وسائل میں سرمایہ کاری کے مواقع کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، اور مختلف ممالک کے وفود کے ہمراہ اس اہم ایونٹ میں شریک ہوئے۔ امریکہ، چین، سعودی عرب، روس، فن لینڈ اور ترکی سمیت کئی ممالک کے نمائندے اس فورم میں موجود ہیں۔ امریکی وفد کی قیادت ایرک مائر کر رہے ہیں، جب کہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ بھی اجلاس میں شریک ہیں۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور فورم کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان معدنی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھا کر عالمی مالیاتی اداروں، خصوصاً آئی ایم ایف پر انحصار ختم کر سکتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس فورم کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید بڑھے گا اور ملک میں معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ مزید پڑھیں: امریکی وفد کا اسلام آباد دورہ کیا اثرات مرتب کرے گا؟ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقتصادی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، اور تمام معاشی اشاریے مثبت سمت کی عکاسی کر رہے ہیں۔ انہوں نے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن ان وسائل کے مؤثر استعمال کے لیے بھرپور سرمایہ کاری ضروری ہے۔ اسحاق ڈار نے نوجوان آبادی کو ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ فورم معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرے گا۔ وزیر تجارت جام کمال نے بلوچستان کو معدنی ذخائر سے مالا مال صوبہ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ان کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں کی شرکت اس اعتماد کی غماز ہے جو دنیا پاکستان کے معدنی شعبے پر رکھتی ہے۔ وزیر پٹرولیم علی پرویز ملک نے کہا کہ پاکستان کے معدنی وسائل میں پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور آزاد کشمیر بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سرمایہ کاروں کے لیے قوانین کو آسان بنا رہی ہے تاکہ مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومتی کوششوں سے ملک میں زرمبادلہ میں اضافہ، مہنگائی میں کمی اور اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے، جسے عالمی اداروں جیسے موڈیز اور فیچ نے بھی سراہا ہے۔ بیرک گولڈ کمپنی کے سی ای او مارک برسٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان معدنی وسائل کے لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے، اور ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کمپنی مقامی آبادی کے لیے صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے منصوبے بھی شروع کرے گی، اور چھوٹے کاروباروں کے فروغ میں بھی بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 ایک اہم قدم ہے جو ملک کے قدرتی وسائل کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور پائیدار معاشی ترقی کی بنیاد رکھنے کے لیے راہ ہموار کرے گا۔

بیساکھی تہوار: پاکستان نے 6500 ہندوستانیوں کو ویزے جاری کر دیے

نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے پیر کو اعلان کیا کہ پاکستان نے آئندہ بیساکھی تہوار کے موقع پر 6,500 سے زائد ویزے ہندوستانی سکھ یاتریوں کو جاری کیے ہیں۔ یہ تہوار موسم بہار کی فصل کی خوشی میں منایا جاتا ہے اور سکھ برادری کے لیے خاص طور پر پنجاب اور شمالی ہندوستان کے علاقوں میں نئے سال کے آغاز اور روحانی تجدید کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس موقع پر مذہبی تقریبات کا مرکز گوردوارہ پنجہ صاحب ہوگا، جو اسلام آباد سے تقریباً 45 کلومیٹر شمال مغرب میں حسن ابدال کے مقام پر واقع ہے۔ یاتریوں کا یہ دورہ 10 سے 19 اپریل کے درمیان متوقع ہے اور اس دوران وہ گوردوارہ ننکانہ صاحب، گوردوارہ کرتار پور صاحب سمیت کئی دیگر اہم مذہبی مقامات پر بھی حاضری دیں گے۔ مزید پڑھیں: امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا پاکستانی ہائی کمیشن کے ناظم الامور نے بیان میں کہا کہ بڑی تعداد میں جاری کیے گئے ویزے اس پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں جس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا اور لوگوں، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان بہتر افہام و تفہیم پیدا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسے مقدس اور روحانی سفر کو مستقبل میں بھی سہولت فراہم کرتا رہے گا۔ گوردوارہ پنجہ صاحب کو اس لیے خاص اہمیت حاصل ہے کہ یہاں ایک ایسی چٹان ہے جس پر سکھ عقیدے کے مطابق بانیِ مذہب گرو نانک کے ہاتھ کا نشان ہے۔ بیساکھی کے دن سکھ دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ کے ذریعے قائم کی گئی خالصہ کی یاد بھی منائی جاتی ہے، جو سکھ مذہب میں روحانی بیداری، قربانی اور کمیونٹی کی تشکیل کی علامت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1974 کے پروٹوکول کے تحت سکھ یاتریوں کو مذہبی عبادت گاہوں کے دورے کی اجازت دی جاتی ہے، اور یہ روایت آج بھی قائم ہے، جس کے تحت ہزاروں بھارتی سکھ ہر سال پاکستان کے مقدس مقامات کا سفر کرتے ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کا واپس جانے سے انکار، حکومت کی مشکلات مزید بڑھ گئیں

صوابی کے دو بڑے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افغان باشندے گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں لیکن وہ اب بھی اپنے وطن واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔  حالیہ دنوں میں اس حوالے سے ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس کی صدارت اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر اصلاحدین نے کی۔  اس اجلاس کا مقصد افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی تیار کرنا تھا تاکہ یہ عمل پرامن طریقے سے مکمل ہو سکے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ صوابی ضلع میں 53,000 افغان پناہ گزین مقیم ہیں جن میں سے 30,000 گوہاتی کیمپ اور 23,000 گندف کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔  ان کے علاوہ متعدد افغان خاندان ضلع کے مختلف دیہاتوں میں بھی مقیم ہیں۔ یہ کیمپ 1980 میں قائم کیے گئے تھے جب سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک لاکھوں افغان باشندے پاکستان میں پناہ گزین ہو کر رہ رہے ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔  انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں نے پہلے ہی افغانستان واپس جانا شروع کر دیا ہے تاہم جو افغان خاندان قانونی دستاویزات کے ساتھ یہاں مقیم ہیں وہ واپس جانے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔  ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں روزگار کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور نہ ہی وہاں ان کے لیے مناسب رہائش کے انتظامات ہیں اور انہیں یہاں پاکستان میں اپنی زندگی گزارنے کے بہتر مواقع مل رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:‘ افغانستان میں غیر قانونی اسلحہ’ مارکو روبیو کا پاکستانی وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ ایک افغان پناہ گزین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ “ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ طالبان حکومت نے ہمارے لیے کیا انتظامات کیے ہیں۔ ہم واپس جا کر کس طرح اپنی زندگی گزاریں گے، یہ ہم نہیں جانتے۔ یہاں ہمارے بچے بڑے ہو چکے ہیں اور ہمارے پاس روزگار کے وسائل بھی موجود ہیں۔” ایک اور پناہ گزین نے کہا کہ “ہمیں اپنی مٹی، اپنی سرزمین سے محبت ہے، مگر حالات اتنے دشوار ہیں کہ واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہم یہاں محفوظ ہیں، ہمارے بچے سکول جاتے ہیں اور ہم کاروبار کرتے ہیں لیکن افغانستان میں ہمارا کیا ہوگا؟” پاکستان کی حکومت افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور ضلع انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل مکمل طور پر پرامن طریقے سے مکمل کیا جائے گا۔  اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے جو پالیسی تشکیل دی گئی ہے اس کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی کو جلد از جلد مکمل کیا جائے گا۔ تاہم، ابھی تک صوابی کے پناہ گزین کیمپوں سے کسی بھی افغان خاندان نے واپس جانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے حالانکہ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف پناہ گزینوں کے لیے مشکل بن چکی ہے بلکہ پاکستانی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے کہ وہ کس طرح اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرے۔  پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن ان کی مشکلات اور خدشات ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا عالمی تیل کی قیمتوں کی کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کا اعلان

‘نہ کسان کو کچھ ملے اور نہ عوام کو تو یہ حکومت ہے یا کیا ہے’ حافظ نعیم الرحمان

حال ہی میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں اہم حکومتی عہدیداران نے کسانوں سے کیے گئے وعدوں پر بڑھتی ہوئی تشویش پر بات کی۔ گزشتہ سال حکومت نے زرعی شعبے کی بہتری کے لیے اہم وعدے کیے تھے، لیکن اب ان وعدوں پر عمل درآمد مشکوک ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگر حکومت کسانوں کے لیے اعلان کردہ مالی امداد سے پیچھے ہٹتی ہے تو اس کے نتیجے میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں شدید بدامنی پیدا ہو سکتی ہے، جہاں پہلے ہی کسان شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ گفتگو کے دوران کسانوں کے ملکی معیشت میں کلیدی کردار پر زور دیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ اگر ان کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

وزیر اعظم کا عالمی تیل کی قیمتوں کی کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کا اعلان

عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اب عوام تک پہنچنے والا ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ حکومت اس کمی کو عوام کی جیب میں پہنچانے کے لئے بھرپور اقدامات کرے گی۔ وزیراعظم نے پیر کے روز میری ٹائم سیکٹر میں اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی جس میں انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا جو فائدہ حاصل ہو رہا ہے وہ عوام کو منتقل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ کمی نہ صرف تیل کی قیمتوں تک محدود ہے بلکہ بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی کی صورت میں بھی عوام کو ریلیف دیا جائے گا۔ ’’جیسا کہ پہلے ہم نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بجلی کی قیمتیں کم کر کے دیا اسی طرح اس وقت جو عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی آ رہی ہے اس کا فائدہ بھی عوام کو پہنچائیں گے۔‘‘ وزیر اعظم نے یہ بات بڑی پختگی سے کہی ہے جس سے عوام میں ایک نئی امید کی لہر دوڑ گئی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اس حوالے سے مختلف تجاویز پر غور و خوض جاری ہے اور حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے اصلاحات پر کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’آنے والے مہینوں میں اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔‘‘ مزید پڑھیں:‘ افغانستان میں غیر قانونی اسلحہ’ مارکو روبیو کا پاکستانی وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ ان کا مزید کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کی بدولت بجلی کے نرخوں میں کمی ممکن ہو سکی ہے اور یہی طریقہ میری ٹائم سیکٹر میں بھی اپنایا جا رہا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ عالمی معیشت کی کامیابی سمندری وسائل اور ان تک رسائی سے جڑی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعظم نے بندرگاہوں کو مسابقتی بنانے کے لئے تجارتی ٹیرف پر نظرثانی کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’ریڈ اور یلو چینلز میں کسٹمز کلیئرنس کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ علاوہ ازیں وزیر اعظم نے کنٹینرز کی بندرگاہوں پر موجودگی کا دورانیہ کم کرنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے کی ہدایت بھی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی سمندری معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اس کے علاوہ اس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مزید 2 سے 3 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے جو پاکستانی عوام کے لیے ایک اور اچھی خبر بن کر آئی ہے۔ اس سے قبل چند روز قبل بھی وزیر اعظم نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت گھریلو صارفین کے لیے فی یونٹ قیمت میں 7.15 روپے کی کمی کی گئی تھی جبکہ کمرشل صارفین کے لیے فی یونٹ قیمت میں 8.58 روپے کمی کی گئی تھی۔ اس وقت حکومت کی توجہ صرف توانائی کے شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم نے ملک کی سمندری معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی تجارتی سرگرمیاں مزید تیز ہو سکتی ہیں اور عالمی مارکیٹ میں ملک کی موجودگی مزید مستحکم ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم کے ان اقدامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور فائدہ عوام کو دینے کے لئے سنجیدہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ اقدامات کتنی جلدی عوام تک پہنچتے ہیں اور ان کا اثر کتنا مثبت ہوتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں:میئر کراچی کو بیان بازی کرنے کی بجائے عوامی مسائل کے توجہ دینی چاہیے: فاروق ستار کی پی پی پر تنقید

پاکستان کی 75 فیصد صنعت کسانوں کے کندھوں پر، کسان سراپا احتجاج کیوں ہیں؟

ملک کی معیشت میں زراعت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور کسان اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ طبقہ آج بھی اپنے بنیادی حقوق اور مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، پانی کی قلت، فصلوں کی مناسب قیمت کا نہ ملنا، اور زرعی قرضوں پر سود جیسے مسائل نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ان تمام مسائل کو اجاگر کرنے اور حکومتی توجہ حاصل کرنے کے لیے لاہور میں آل پاکستان کسان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے کسانوں نے شرکت کی۔ کسانوں نے کھلے الفاظ میں اپنے دکھ، پریشانیاں اور مطالبات پیش کیے۔ لیکن افسوسناک بات یہ رہی کہ اس اہم کانفرنس میں حکومت یا متعلقہ اداروں کا کوئی نمائندہ شریک نہ ہوا، جس نے کسانوں کی مایوسی میں مزید اضافہ کر دیا۔ یہ رویہ حکومتی عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر حکومت نے کسانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا تو نہ صرف زراعت کا شعبہ مزید زوال کا شکار ہوگا بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔