وہ ملک جس کی کرنسی امریکی ڈالر سے بھی تگڑی ہے

یورپ میں واقع ایک منفرد ملک “لبرلینڈ” دنیا بھر میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ ملک نہ صرف ٹیکس فری ہے بلکہ آن لائن شہریت فراہم کرتا ہے، جہاں کوئی مستقل رہائش پذیر نہیں، پھر بھی مکمل نظام حکومت، آئین اور قومی اسمبلی موجود ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں موجود لبرلینڈ کے سفیر نے بتایا کہ لبرلینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جو شہریوں کو آن لائن شہریت فراہم کرتا ہے۔ اس کا ویزا پراسیس نہایت آسان، تیز اور کم خرچ ہے، جس کے ذریعے کسی بھی فرد کے لیے اس ملک کی سیر کرنا ممکن ہے۔ لبرلینڈ دریائے ڈینیوب کے مغربی کنارے پر واقع ہے، جو کروشیا اور سربیا کے درمیان ایک خودمختار ریاست کے طور پر قائم ہے۔ اس خطے کو بعض نقشوں میں “گورنجاسیگا” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قریبی اہم شہر کروشیا اور بیکی مونسٹر (سربیا کا خودمختار صوبہ) ہیں۔ لبرلینڈ کے سفیر نے بتایا کہ یہاں کا پورا حکومتی ڈھانچہ فعال ہے، اگرچہ ابھی کوئی مستقل آبادی وہاں مقیم نہیں۔ اس ریاست نے خود کو آزاد جمہوریہ کے طور پر متعارف کروایا ہے اور اس کا مستقبل میں یورپ کے بڑے ممالک میں شامل ہونے کا خواب ہے۔ پاکستانی طلباء کے لیے لبرلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے کئی مواقع موجود ہیں۔ سفیر کے مطابق، لبرلینڈ کی ایک ورچوئل یونیورسٹی فعال ہے جو پاکستانی طلباء کو اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلباء میں سے 50 فیصد کو اسکالرشپ کی صورت میں فیس کی واپسی کی سہولت دی جاتی ہے۔ یہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے یورپ کی ڈگری حاصل کرنے کا ایک سنہرا موقع ہے۔ سفیر کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں لبرلینڈ دنیا بھر میں ایک اہم مقام حاصل کرے گا اور اس کا اثر و رسوخ عالمی سطح پر محسوس کیا جائے گا۔

‘ افغانستان میں غیر قانونی اسلحہ’ مارکو روبیو کا پاکستانی وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ

دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، پیر کے روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان پہلی باضابطہ ٹیلی فونک گفتگو ہوئی۔ یہ رابطہ مارکو روبیو کے امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلا براہ راست تبادلہ خیال تھا۔ گفتگو کے دوران دو طرفہ تعلقات، اقتصادی تعاون، علاقائی سلامتی، اور انسداد دہشت گردی جیسے اہم موضوعات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اسحاق ڈار نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے ملک کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے خاص طور پر تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر مارکو روبیو نے بھی امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون میں دلچسپی ظاہر کی، خاص طور پر اہم معدنیات کے شعبے میں۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت اور تجارت دونوں ممالک کے مستقبل کے تعلقات میں مرکزی حیثیت رکھیں گے۔ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی، جس میں اسحاق ڈار نے 2013 سے 2018 کے دوران پاکستان کی کامیاب کوششوں کا ذکر کیا۔ مارکو روبیو نے ان اقدامات کی تعریف کی اور دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے امریکی عزم کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 2021 میں امریکی انخلاء کے بعد پیچھے رہ جانے والے امریکی فوجی سازوسامان کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ گفتگو کے اختتام پر دونوں فریقین نے قریبی رابطے میں رہنے اور مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ دفتر خارجہ کے مطابق یہ بات چیت دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے ایک نئے باب کے آغاز کی علامت ہے۔

امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ

امریکا کی نامور یونیورسٹیوں میں پاکستانی اور دیگر مسلم ممالک کے طلبا کے ویزے ایک لمحے میں منسوخ کر دیے گئے ہیں اور یہ فیصلہ بغیر کسی پیشگی اطلاع یا قانونی کارروائی کے کیا گیا ہے۔  اس اقدام نے عالمی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑادی ہے اور یونیورسٹیوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ ویزے منسوخ کرنے کا عمل نہ صرف امریکی حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے بلکہ اس میں خاص طور پر ان طلبا کو نشانہ بنایا گیا ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔  دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کچھ طلبا ایسے بھی ہیں جنہوں نے کسی مظاہرے میں حصہ نہیں لیا پھر بھی ان کے ویزے منسوخ کر دیے گئے۔ یہ صورت حال طلبا اور تعلیمی اداروں کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن تعلیمی اداروں میں یہ ویزے منسوخ کیے گئے ہیں ان میں ہارورڈ، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور یونیورسٹی آف مشیگن جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔  یہ بھی پڑھیں:‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی یو سی ایل اے میں 12 طلبا اور گریجویٹس کے ویزے منسوخ ہوئے ہیں جبکہ یونیورسٹی آف مشیگن کے ایک طالب علم کو ملک چھوڑنا پڑا۔  ان ویزوں کی منسوخی کی سب سے بڑی وجہ سیوس سسٹم کے آڈٹ کو بتایا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس عمل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور قانونی کارروائی نہ ہونے کے سبب اس عمل کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔  دوسری جانب یونیورسٹیز نے اپنے طلبا کو قانونی مدد فراہم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، جبکہ طلبا تنظیموں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے اور ویزا منسوخیوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ بین الاقوامی طلبا اب بے یقینی کی کیفیت میں ہیں کہ کہیں ان کے ویزے بھی اچانک منسوخ نہ کر دیے جائیں۔  یہ فیصلہ امریکی حکومت کی جانب سے ایک قدم پیچھے جانے کی جانب اشارہ کرتا ہے جہاں طلبا کے حقوق اور آزادی اظہار کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔  اس صورتحال نے امریکا کے تعلیمی نظام پر گہرا اثر ڈالا ہے جو طلبا کے لیے ایک سوال چھوڑ رہا ہے کہ آیا وہ مستقبل میں اس نظام پر اعتماد کر سکتے ہیں یا نہیں۔ مزید پڑھیں:جنوبی چینی سمندر کا تنازع: کیا تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہونے جا رہی ہے؟

سمندری تنازع: کیا تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہونے جا رہی ہے؟

جنوبی چینی سمندر، جو نہ صرف عالمی تجارت کے لیے اہم ہے بلکہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے، جہاں اس سمندر میں قدرتی خزانہ چھپا ہے وہیں بیشتر ممالک کے درمیان سنگین تنازعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔ چین، ویتنام، فلپائن، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی جیسے ممالک اس سمندر پر اپنی ملکیت جتاتے ہیں اور ان کے دعوے ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ چین کا سب سے بڑا دعویٰ اس کی “نو ڈیش لائن” کے تحت ہے جو 1947 میں جاری کیے گئے ایک نقشے پر مبنی ہے۔ یہ لائن جنوبی چینی سمندر کے وسیع حصے پر پھیلی ہوئی ہے اور چین اسے اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس کا حق اس علاقے پر سینکڑوں سال پرانا ہے جب کہ دیگر ملکوں کے لیے یہ دعویٰ غیر منطقی اور غیر قانونی ہے۔ دوسری جانب ویتنام، فلپائن اور دیگر ممالک چین کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقے تاریخ میں کبھی چین کے زیر اثر نہیں آئے۔ ویتنام کا دعویٰ ہے کہ اس کا ان علاقوں پر 17ویں صدی سے تسلط رہا ہے لیکن چین کی طاقتور فوجی موجودگی اور بحری گشت نے علاقے میں کشیدگی بڑھا دی ہے اور یہ تنازعہ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس تنازعے نے کئی مرتبہ علاقائی جھڑپوں کی شکل اختیار کی ہے۔ 1974 میں چین نے ویتنام سے پیراسیل جزائر چھینے جس کے نتیجے میں 70 سے زائد ویتنامی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد 1988 میں ایک اور جھڑپ ہوئی جس میں ویتنامی بحریہ کو شدید نقصان پہنچا۔ 2012 میں چین اور فلپائن کے درمیان اسکاربورو شول پر کئی ہفتوں تک کشیدگیاں جاری رہیں۔ حال ہی میں 2023 میں فلپائن نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ چین نے اس کی کشتیوں پر لیزر شعاعیں ڈالی ہیں جس سے کشتیوں کے عملے کی آنکھوں میں تکلیف ہوئی۔ ان واقعات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ سے بچنے کی کوششیں جاری ہیں اور عالمی طاقتیں بھی اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس تنازعے میں صرف جنوبی ایشیا کے ممالک ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ امریکا، جو اس مسئلے میں نیوٹرل رہنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اپنی “فریڈم آف نیویگیشن” کارروائیوں کے تحت جنوبی چینی سمندر میں اپنی فوجی موجودگی بڑھاتا جا رہا ہے۔ چین کو یہ کارروائیاں اشتعال انگیز لگتی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ اس سب کے علاوہ جاپان بھی اس مسئلے میں فریق بن چکا ہے حالانکہ اس کا براہ راست کوئی دعویٰ تو نہیں ہے لیکن جاپان نے فلپائن اور ویتنام کو سمندری تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پر یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آیا اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے گا یا پھر سفارتی مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے گا۔ جنوبی چینی سمندر کی اہمیت صرف اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ یہاں کی ماہی گیری کی صنعت اور قدرتی وسائل بھی اس تنازعے کا حصہ ہیں۔ یہ سمندر دنیا بھر میں سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے والے علاقوں میں سے ایک ہے اور لاکھوں افراد کی روزگار کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح اس سمندر میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہونے کا بھی امکان ہے جو کئی ممالک کے لیے اقتصادی طور پر اہم ہیں۔ اگرچہ اس علاقے کا مکمل قدرتی وسائل کا جائزہ نہیں لیا گیا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سمندر دنیا کے کچھ سب سے اہم قدرتی وسائل کا حامل ہو سکتا ہے جو اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی امن کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ اس علاقے میں کشیدگی سے بچنا ضروری ہے لیکن اس کے لیے عملی حل کیا ہو گا یہ ایک بڑا سوال ہے۔ جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ نہ صرف اس علاقے کے ممالک کے لیے بلکہ پورے عالمی امن کے لیے ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ طاقتور ممالک کی شمولیت، قدرتی وسائل کا تنازعہ اور عالمی تجارت کی اہمیت اس علاقے کو خاص بنا دیتی ہے۔ اس تنازعے کا حل عالمی سفارتکاری اور سنجیدہ مذاکرات پر منحصر ہے اور یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ مسئلہ ایک عالمی جنگ کی شکل اختیار کرے گا یا اس کا کوئی پائیدار حل نکلے گا۔

لاس ویگاس کا انقلابی سفیئر:  360ڈگری کی سکرین کے نئے دور کا آغاز

لاس ویگاس کا سفیئر، جو اپنی انفرادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکا ہے، اب ایک نئی قسم کے سینما اور تجربات کی دنیا کا دروازہ کھول رہا ہے۔ یہ گنبد نما سکرین جہاں دیواریں اور چھت ایک ہی سکرین میں بدل جاتی ہیں، دنیا کے سب سے بڑے اور منفرد ڈیجیٹل سنیما تجربے کی نمائندگی کرتی ہے۔ سفیئر کا سائز اور تکنیکی خصوصیات اس کی مقبولیت کا راز ہیں۔ ایک لاکھ 60 ہزار مربع فٹ کی سکرین، جو دیکھنے والوں کو اس قدر متأثر کرتی ہے کہ وہ خود کو منظر کا حصہ محسوس کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس میں نصب 1 لاکھ 60 ہزار سپیکرز کا ساؤنڈ سسٹم ہر شائقین کے لیے دلکش اور جادوئی ثابت ہوتا ہے۔ سفیئر کی تکمیل میں 2 سے 3 بلین ڈالر خرچ ہوئے، جو سینما کی دنیا کے لیے ایک ناقابل یقین رقم ہے۔ لیکن اس منفرد پراجیکٹ کی کامیابی اس رقم کو جواز فراہم کرتی ہے، کیونکہ یہ سینما کا مستقبل بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لاس ویگاس کا سفیئر صرف ایک سنیما نہیں، بلکہ ایک انقلابی تجربہ ہے جس میں ہر زاویہ، ہر منظر اور ہر آواز کو نئے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ سفیئر کے انقلابی سنیما تجربے کے علاوہ، ایک اور نیا رجحان بھی مقبولیت حاصل کر رہا ہے، ڈیجیٹل کمرےصارفین کو اعلی ریزولیوشن ویژول کے ساتھ گھیر لیتے ہیں، جس میں 360° ڈسپلے اور ورچوئل رئیلٹی جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کمرے کی مدد سے آپ ساحل سمندر کا سکون، جنگل کی پُرسکون فضا، یا شہر کے منظر کی ہلچل کا تجربہ کر سکتے ہیں، وہ بھی بغیر کمرے سے باہر نکلے۔