ایران اور امریکا میں ’مذاکرات‘ کے دروازے کھلنے کا امکان

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدہ ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے بشرطیکہ امریکا اپنی پوزیشن میں نرمی لائے اور سنجیدہ مذاکرات کا حصہ بنے۔ یہ بیان انہوں نے اس وقت دیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو اپنے دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ عراقچی نے کہا کہ “اگر امریکا نے اچھے ارادے کے ساتھ بات چیت کی تو ہم معاہدہ کر سکتے ہیں لیکن یہ بات چیت صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب امریکا اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے اور ایران پر عائد سخت پابندیاں ختم کرے‘‘۔ امریکا نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور ایران نے جوہری پروگرام میں تیزی سے پیشرفت شروع کر دی۔ لیکن اب پانچ سال بعد موقع آیا ہے جس میں امریکا نے ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کی تجویز دی ہے حالانکہ ایران اس صورت میں بات چیت کو بے معنی سمجھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا دروازہ کھل سکتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “اگر بات چیت کامیاب نہیں ہوئی تو ایران کو خطرہ ہو گا اور میں یہ نہیں چاہتا، مگر اگر معاہدہ نہ ہوا تو بمباری ہو سکتی ہے۔” ٹرمپ کے اس بیان کے بعد عالمی سطح پر ایک ہلچل مچ گئی ہے اور ایران نے اس دھمکی کو سختی سے رد کیا۔ روس اور چین نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مشاورت کا آغاز کیا ہے اور دونوں ممالک نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ ایران اور امریکا کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ روسی حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا کہ یہ مذاکرات ایران کے جوہری مسئلے پر کشیدگی کم کرنے کی سمت میں اہم قدم ہو سکتے ہیں۔ چین نے بھی امریکا پر تنقید کی ہے کہ “امریکا کو اپنے غلط اقدامات کو ترک کر دینا چاہیے اور طاقت کا استعمال ختم کر دینا چاہیے۔” چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کو ایران کے ساتھ مذاکرے میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایک پائیدار حل تک پہنچنا چاہیے۔ اس صورتحال میں ایران کی نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا اپنی پابندیاں ختم کرے اور ایران کے جوہری حقوق کا احترام کرے۔ عراقچی نے یہ واضح کیا کہ “ہم براہ راست مذاکرات کو قبول نہیں کرتے اور ہمارے لیے یہ زیادہ اہم نہیں کہ مذاکرات کا طریقہ کیا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نتائج نکلتے ہیں۔” اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور ایران اپنے اختلافات کو حل کر پائیں گے یا عالمی برادری کو ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا؟
رجیم چینج آپریشن: ’پاکستان پرقبضہ کرنے کا منصوبہ تھا‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 9 اپریل 2022 صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک موڑ تھا۔ ایک ایسا موڑ جس پر آئینی و غیر آئینی بیانیے، سیاسی صف بندیاں، ریاستی ادارے اور عوامی شعور سب تقسیم ہو گئے۔ اُس رات عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا لیکن اس سے پہلے اور بعد میں جو کچھ ہوا اسے تحریکِ انصاف نے ‘رجیم چینج آپریشن’ کا نام دیا۔ کب کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ بچے بچے کو ازبر ہے مگر ٹائم لائن، شواہد اور بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بہت سارے نکات ابھی بھی قارئین سے پوشیدہ ہیں۔ مارچ 2022 میں عمران خان نے ایک عوامی جلسے میں ‘خفیہ خط’ لہرایا، جسے بعد ازاں ‘سائفر’ کہا گیا۔ یہ امریکی اہلکار ڈونلڈ لو کی مبینہ گفتگو پر مبنی تھا جس میں عمران حکومت کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ وزیرِاعظم کے بقول یہ پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی ‘واضح دھمکی’ تھی۔ وزارت خارجہ نے اس سائفر پر امریکی سفارت خانے کو ’ڈی مارش‘ کیا۔ ایک غیر معمولی اقدام جو کسی بھی ملک میں سفارتی ناراضی کا اظہار ہوتا ہے۔ عمران خان نے اسے ‘رجیم چینج’ کی کھلی کوشش قرار دیا۔ 3 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے قبل ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اسے مسترد کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ یہ ایک غیر ملکی سازش کا حصہ ہے جو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 5 کے خلاف ہے۔ عمران خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی جو صدر نے فوراً منظور کر لی۔ یہ اقدام فوری طور پر عدالت میں چیلنج ہوا، سپریم کورٹ نے رات کو عدالتیں کھول کر آئینی عمل کو بحال کرنے کی راہ ہموار کی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 7 اپریل کو فیصلہ سنایا کہ قاسم سوری کی رولنگ غیر آئینی تھی اور عمران خان حکومت کو بحال کر دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ہر صورت ووٹنگ کرائی جائے۔ بالآخر 9 اپریل کی رات، شدید سیاسی کھینچا تانی میں اسد قیصر کےاستعفیٰ اور ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ 174 ووٹوں سے عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیے گئے۔ تحریکِ انصاف نے اس تبدیلی کو ‘رجیم چینج آپریشن’ کا نام دیا۔ سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے بقول “یہ حکومت گرانے کا نہیں، پاکستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ عمران خان کو اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ وہ امریکا کے سامنے جھکنے کو تیار نہ تھے۔” سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “رجیم چینج نہیں ہونی چاہیے تھی اس چینج نے ترقی کرتے پاکستان کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا، پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اسے اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ پاکستان پر کوئی بھی اپنے فیصلے تھونپ نہیں سکتا۔” بعد ازاں عمران خان نے عوام سے رابطہ مہم شروع کی جس کا نعرہ “امپورٹڈ حکومت نامنظور” تھا۔ ملک بھر میں جلسے جلوس ہوئے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی مظاہرے کیے۔ سائفر پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ، کابینہ بریفنگ اور بعد ازاں آڈیو لیکس نے معاملے کو مزید گمبھیر بنا دیا۔ ایک مبینہ آڈیو میں عمران خان اور ان کی ٹیم کو یہ کہتے سنا گیا کہ “ہم نے صرف کھیلنا ہے سائفر کے ساتھ، ہم امریکا کا نام نہیں لیں گے، بس اپنی narrative build کرنی ہے۔” اس سے مخالفین کو موقع ملا کہ وہ اسے ‘سازشی بیانیہ’ قرار دیں جبکہ پی ٹی آئی کا اصرار تھا کہ یہ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ تھا۔ پی ٹی آئی کے رجیم چینج کے بیانیے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، خواتین کارکنان اور سابق وزراء کو بھی گرفتار کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی، شہباز گل، فواد چوہدری سمیت درجنوں کارکنان کو بغاوت، سائفر لیکس، اور ‘ریاست مخالف’ تقاریر کے الزامات میں حراست میں لیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور صحافتی تنظیموں نے بھی اس پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ 9 مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا لیکن اس کا فوری ردعمل پورے ملک میں محسوس ہوا۔ پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد سڑکوں پر آ گئی جس سے عدالتیں بند ہو گئیں اور سڑکیں جام ہوگئیں۔ اس کے بعد 9 مئی کو ملک میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ حکومت نے ان واقعات کو ‘ریاست دشمنی’ قرار دے کر ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا۔ 9 اپریل 2022 سے لے کر آج تک پاکستان ایک مسلسل سیاسی ہنگامہ خیزی، بیانیے کی جنگ، آئینی سوالات اور ریاستی اعتماد کے بحران سے دوچار ہے۔ ایسے میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں جیسا کہ عمران خان کو واقعی غیر ملکی دباؤ پر ہٹایا گیا؟ یا یہ ایک جمہوری، آئینی تبدیلی تھی جسے سازش کا رنگ دیا گیا؟ کیا ریاستی ادارے واقعی ‘نیوٹرل’ رہے؟ ان سوالات کا ابھی تک پوری طرح جواب نہیں مل سکا لیکن یہ ضرور طے ہے کہ ‘رجیم چینج’ اب ایک سیاسی اصطلاح سے بڑھ کر عوامی شعور کا حصہ بن چکی ہے اور یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
یکجہتی فلسطین: ’غزہ کا محاصرہ توڑنا ہوگا‘

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری ممالک مسلمانوں کے قتلِ عام پر خاموش رہتے ہیں، مسلمان ممالک نے آواز نہ اٹھائی تو ان میں سے ایک بھی نہیں بچے گا۔ امیر جماعتِ اسلامی پاکستان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت اسرائیل کی دہشتگردی کا سب سے بڑا سپورٹر امریکا ہے، یورپی یونین ہے، برطانیہ ہے اور ایک طرح سے مغرب نے اپنے چہرے پر جو نقاب اوڑھی ہوئی تھی، وہ اب اتر چکی ہے۔ ’مغرب کی ڈارک ایجز والی تصویر ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئی ہے اور سب پر عیاں ہوگئی ہے، یہ ظالموں کی مدد کرتے ہیں، غزہ جسے انھوں نے پہلے ہی 80 فیصد سے 90 فیصد تباہ کردیا تھا، اس کا اب حال یہ ہے کہ اب شاید ہی کوئی بلڈنگ کوئی عمارت آج بچی ہوئی ہو‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہزاروں افراد ابھی بھی ملبے کے ڈھیر تلے دبے ہوئے ہیں، چند ممالک کو چھوڑ کر پوری دنیا کے ممالک جس طرح بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان سب کا ایک ایجنڈا ہے اور انھوں نے تقسیم پیدا کی ہوئی ہے کہ اگر مرنے والے مسلمان ہیں تو آواز نہیں اٹھائی جائے گی۔ امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ اگر چار معصوم بچے ہلاک ہوجاتے تو امریکا کی جانب سے زبردست شور سننے کو ملتا، مگر غزہ میں شہادتوں کی تعداد تقریباً 25 ہزار ہوچکی ہے اور اگر خواتین ملا لی جائیں تو یہ تعداد تقریباً 45 ہزار بنتی ہے، اسرائیل نے اسپتالوں تک کو نہیں چھوڑا اور تہس نہس کرکے رکھ دیے ہیں، لیکن کسی نے کچھ نہیں بولا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلم کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے تو بےحسی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے، یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اسرائیل اتنا طاقت وار ہوجائے، یوں دندناتہ پھرے اور نسل کشی کرتا رہے۔ مسلم ممالک کے پاس فوجی ہیں، میزائل ٹیکنالوجی ہے، چاروں طرف عرب ممالک کے ہونے کے باوجود اگر مسلم ممالک کے ساتھ ایسا ہورہا ہے، تو عرب ممالک کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہودیوں کے ساتھ مل کر امریکا کے زیرِسایہ ہوکر شاید یہ بچ جائیں گے، ان میں سے ایک بھی نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ تمام مسلمان ممالک آگے بڑھیں، فریڈم فلوٹیلا طرز پر غزہ کا محاصرہ توڑنا ہوگا ۔ وزیراعظم سے حافظ نعیم الرحمن کی ملاقات: فلسطینیوں کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے، شہباز شریف اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف سے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں تین رکنی وفد نے ملاقات کی ہے، جس میں دونوں رہنماؤں نے عالمی سطح پر غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری اور ظلم و ستم کے خلاف تشویش کا اظہار کیا۔ اس ملاقات میں وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف نہتے فلسطینی عوام کے حق میں واضح ہے اور ہم عالمی فورمز پر ہمیشہ ان کے حقوق کی آواز اٹھاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ “غزہ کے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی حمایت پاکستان کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے، اور ہم اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔” وزیرِ اعظم نے عالمی قوتوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا فلسطینیوں کے حقوق کے لئے عملی اقدامات کرے۔ حافظ نعیم الرحمان نے وزیرِ اعظم کو غزہ میں اسرائیلی بمباری کے حالیہ واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ظلم اور جبر نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے دردناک ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں۔ ملاقات میں توانائی کے شعبے میں حالیہ اصلاحات پر بھی گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کر کے عوامی ریلیف کی کوشش کی ہے اور وہ توانائی کے شعبے میں مزید اصلاحات لانے کے لئے دن رات محنت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ “ہماری حکومت عوام کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔” اس موقع پر نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ اور آصف لقمان قاضی بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے یقین دلایا کہ پاکستان کی ترقی کا سفر جاری رہے گا اور عوامی خدمت کا عزم مزید مضبوط ہو گا۔
پینٹاگون کے چیف نے نیٹو میں تعینات امریکی فوجی نمائندے کو برطرف کر دیا

امریکی وزیر دفاع پٹ ہیگسیٹھ نے نیٹو میں تعینات امریکی فوجی نمائندے وائس ایڈمرل شوشانا کو چیٹ فیلڈ کے عہدے سے ہٹایا ہے۔ پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وائس ایڈمرل چیٹ فیلڈ کو ان کی کم اعتمادی لے ڈوبی ہے۔ یہ برطرفی امریکی فوجی قیادت میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی کا حصہ ہے جس میں چند ماہ کے دوران متعدد اعلیٰ افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ چیٹ فیلڈ کو نیٹو کے ملٹری کمیٹی میں امریکی نمائندہ کے طور پر کام کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن ان کی قیادت کے حوالے سے تحفظات پیدا ہو گئے تھے۔ چیٹ فیلڈ کا کیریئر خاصا قابل ذکر رہا ہے اور وہ ایک تربیت یافتہ ہیلی کاپٹر پائلٹ ہیں اور اپنے کیریئر کے دوران پیسیفک اور گلف کے علاقے میں اہم مشنز کا حصہ رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یورپ میں نیٹو کے اعلیٰ کمانڈر کے معاون خصوصی کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں اور امریکی ایئر فورس اکیڈمی میں سیاسیات کے تدریسی عمل کا بھی حصہ رہیں۔ جب چیٹ فیلڈ کی برطرفی کی خبر منظر عام پر آئی تو اس پر امریکی سیاستدانوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آئے۔ ڈیموکریٹک رکن ایڈم اسمتھ نے اس برطرفی کو امریکی سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دیا اور کہا کہ ’’صدر ٹرمپ کے اقدامات سے ملک کی حفاظت متاثر ہو رہی ہے‘‘۔ سینیٹر جیک ریڈ نے بھی اس اقدام کو ’بلاجواز‘ اور ’شرمناک‘ قرار دیا۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ میں یہ بھی خبر آئی ہے کہ امریکا نیٹو میں اپنی موجودگی کو کم کرتے ہوئے یورپ سے 10,000 فوجی واپس بلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ اقدام نیٹو کے مشرقی علاقے میں اضافی 20,000 فوجیوں کی تعیناتی کے چند سال بعد کیا جا رہا ہے جو 2022 میں روس کی یوکرین پر حملے کے بعد کی گئی تھی۔ یہ خبر اس بات کا غماز ہے کہ امریکا کے یورپ میں فوجی استحکام کے حوالے سے فیصلوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں خاص طور پر جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیٹو کے بارے میں پوزیشن کو مدنظر رکھا جائے جنہوں نے بار بار نیٹو پر تنقید کی اور یورپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی دفاعی ذمہ داریوں میں اضافہ کرے۔ یہ واقعہ نہ صرف امریکی فوجی قیادت کی تبدیلی کا عکاس ہے بلکہ عالمی سیاست میں امریکی پوزیشن کے حوالے سے بھی ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے جس سے نیٹو کے مستقبل اور یورپ میں امریکی فوجی موجودگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔
عالمی برادری غزہ میں ’انسانی توہین‘ پرسخت ردعمل دے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسے دنیا کی نظر سے الگ مسئلہ قرار دیا ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد وہاں کوئی خوراک، ایندھن یا دوا نہیں پہنچ رہی۔ گوتریس نے اس صورتحال کو نہ صرف انسانیت کی توہین قرار دیا ہے بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل عالمی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے مسلسل فضائی حملے اور بمباری نے غزہ کو ایک “قتل گاہ” بنا دیا ہے۔ گوتریس نے کہا ہے کہ “جب ایک طاقت کسی علاقے پر قبضہ کرتی ہے تو اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کھانا، دوا اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرے”۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے اس انسانی توہین پر سخت ردعمل ظاہر کرے۔ اس کے علاوہ گوتریس نے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں امدادی کارکنوں کی شہادت پر بھی شدید مذمت کی اور ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کے عملے کے افراد سمیت کئی انسانی امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔ گوتریس نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی مدد کرنے والے افراد بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کے منصوبے کے بارے میں پوچھے جانے پر گوتریس نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا منصوبہ عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کی حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں رہیں اور اسرائیل کے ساتھ امن وآشتی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرفز: 37 فیصد ٹیکس کے بعد بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار اسی دوران، اسرائیلی افواج نے غزہ میں مسلسل فضائی حملے جاری رکھے جس سے 26 فلسطینی شہید ہوگئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم “ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ غزہ میں ان کے ہسپتالوں اورکلینکس کے قریب بمباری کی جا رہی ہے جو کہ ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں امریکی فوج کی بمباری بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں کم از کم چھ افراد مارے گئے ہیں جب کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے لبنان کے علاقے بقاع اور بعلبک کو نشانہ بنایا۔ ان تمام واقعات نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔یہ بھی پڑھیں: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ