شادی میں نوٹ نچھاور کرنے پر دولہے کو چھ ماہ قید

پاکستان میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں نوٹ نچھاور کرنا عام سی بات ہے اور اس کے خلاف کوئی ایکشن لینے والا بھی نہیں ہے، لیکن ایسی رسم پر دوسرے ممالک میں سزا بھی ہو سکتی ہے۔ افریقی ملک نائجیریا میں شادی پر دولہے کو نوٹ نچھاور کرنا خاصا مہنگا پڑ گیا اور عدالت نے دولہے کو چھ ماہ قید کی سزا سنا دی۔ پولیس نے دولہے کے خلاف پیسے کے ناجائز استعمال کا نہ صرف مقدمہ درج کیا بلکہ اسے چھ ماہ قید کی سزا بھی سنائی۔ یہ واقعہ گزشتہ برس دسمبر کا ہے جب یہ دولہا میاں اپنی شادی پر ڈانس کرتے ہوئے پیسے لٹا رہے تھے۔ عبداللہ موسیٰ حسینی کو اعتراف جرم کرنے پر نائجیریا کے شہر کانو کی ہائیکورٹ نے سزا سنائی۔ واضح رہے کہ نائجیریا میں اکنامک اینڈ فنانشل کرائمز کمیشن اس رسم کے خلاف مہم چلا رہا ہے اور اسے پیسے کی بے توقیری قرار دیا جاتا ہے۔ عبداللہ موسیٰ کی گرفتاری نائجیریا کے مرکزی بینک کے 2007 کے ایکٹ کے تحت اس جاری مہم کے تناظر میں ہی عمل میں لائی گئی۔ اس قانون میں لکھا ہے کہ ملکی کرنسی کو لٹانا، اس پر ڈانس کرنا اور پاؤں سے مسلنا جرم ہے، جس کی کم سے کم سزا چھ ماہ یا 50 ہزار نایرا (نائجیریا کی کرنسی) تک جرمانہ ہو سکتی ہے یا یہ دونوں سزائیں بھی سنائی جا سکتی ہیں۔ نائجیریا کے کمیشن کا کہنا ہے کہ عبداللہ موسیٰ نے اپنی شادی کی تقریب میں ایک لاکھ نائجیرین نایرا لٹائے اور ان پر ڈانس کر کے ان کرنسی نوٹوں کو مسل کر رکھ دیا۔ واضح رہے کہ اسی جرم کی پاداش میں گزشتہ برس ایک ٹرانسجینڈر اور ایک اداکارہ کو بھی چھ ماہ قید کی سزا ہوئی تھی۔
سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: ’کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں ہوتی ہیں‘

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں ہوتی ہیں، اس لیے کیسز وہاں بھیجے جاتے ہیں؟ عام عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں ہوتے؟ سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کے دوران خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر جرم ڈیفنس آف پاکستان یا سروس ڈیفنس آف پاکستان سے متعلق ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ڈیفنس آف پاکستانکی تعریف کیا ہے؟ جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر ڈیفنس آف پاکستان کی تعریف میں جائیں تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ریلویز اسٹیشنز بھی اس تعریف کے زمرے میں آتے ہیں۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ڈیفنس آف پاکستان اور ڈیفنس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ممنوعہ جگہ میں داخل ہونا بھی ایک خلاف ورزی ہے۔ کنٹونمنٹ کے اندر شاپنگ مالز بن چکے ہیں، اگر میرے پاس اجازت نامہ نہیں ہے اور میں زبردستی اندر داخل ہو جاؤں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہوگا؟ 1967 کی ترمیم کے بعد ٹو ڈی ٹو کا کوئی کیس نہیں آیا، یہ پہلا کیس ہے جو ہم سن رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:ملٹری کورٹ سزائیں، پشاور ہائیکورٹ نے دائر تمام درخواستیں مسترد کر دیں جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ لاہور، کوئٹہ اور گوجرانوالہ میں کینٹ کے علاقے ہیں، ایسے میں تو سویلینز انڈر تھریٹ ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئٹہ کینٹ میں تو آئے روز اس نوعیت کے جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شاپنگ مالز کو ممنوعہ علاقہ قرار نہیں دیا جاتا۔ کراچی میں 6 سے 7 کینٹ ایریاز ہیں، وہاں ایسا تو نہیں ہے کہ مرکزی شاہراہوں کو بھی ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہو۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے پانچ سے چھ ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں، وہاں تو ممنوعہ علاقہ نوٹیفائی نہیں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے ایک مرتبہ اجازت نامہ نہ ہونے کی وجہ سے کینٹ ایریا میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اگر ڈیفنس آف پاکستان کی تعریف میں جائیں تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس میں آتے ہیں۔ پاکستان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ شروع سے موجود ہے۔ آرمی ایکٹ ایک درست قانون ہے، مگر جب سے آئین میں آرٹیکل 10اے آیا ہے، تو پہلے والی چیزیں ختم ہو چکی ہیں۔ ملٹری ٹرائل کے لیے آزادانہ فورم کیوں نہیں ہے؟ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی۔
بائیکاٹ یا قانون شکنی؟ کے ایف سی حملے کے بعد اضافی نفری تعینات

پاکستان میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم تیز ہوگئی ہے، کراچی میں انٹرنیشنل فوڈ چین کے ایف سی پر نامعلوم افراد کی توڑ پھوڑ کے بعد کے ایف سی نے ڈائنگ کی سروس معطل کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کے روز ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں واقع کے ایف سی اور ڈومینو پیزہ پر مشتعل افراد نے دھاوا بول دیا تھا، جس کے نتیجے ریسٹورنٹ کے شیشے اور املاک کو نقصان پہنچا تھا، جس کے بعد کے ایف سی نے بہادر آباد اور ڈیفنس میں ڈائنگ سروس معطل کردی۔ ڈی آئی جی جنوبی اسد رضا کا کہنا ہے کہ ڈنڈا بردار جتھے کی جانب سے املاک کو نقصان پہنچایا گیا، واقعہ کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، جب کہ اشتعال انگیزی میں ملوث افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، باقی ملزمان ک تلاش جاری ہے۔ دونوں فوڈ چین کے باہر پولیس کی اضافی نفری تعنیات کردی گئی ہے۔ ضلع گڈاپ میں بھی مشتعل افراد نے کے ایف سی پر حملہ کرنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے اس کارروائی کو ناکام بنادیا، ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی کے مطابق انٹرنیشنل برانڈز کے تمام فرنچائز کی سیکیورٹی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملے، مزید 35 افراد شہید انٹرنیشنل برانڈز کے فرنچائز کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ ضلع بھر کے تمام تھانوں کی حدود میں پولیس پٹرولنگ اور اسنیپ چیکنگ میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس تخریب کاری میں ملوث 9 شرپسند وں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے خلاف زور پکڑ رہی ہے۔ اسی سلسلے میں شہر بھر کے بڑے بریانی سینٹرز اور ریسٹورنٹ پر لگے ہوئی غیر ملکی مشروبات کے سائنگ بورڈز بھی مالکان نے ہٹانا شروع کردیے ہیں، جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مزید یہ کہ گزشتہ ہفتے گلشن اقبال میں بھی ایک انٹرنیشنل فوڈ چین کے سامنے نوجوانوں نے پرامن مظاہرہ کیا تھا۔
فلسطینی عوام تنہا اور امتِ مسلمہ صرف تماشائی بن گئی: قومی فلسطین کانفرنس

فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف کل جمعہ کو یومِ مظلوم و محصورینِ فلسطین کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں 1967 سے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور غاصبانہ قرار دے چکی ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مسلمہ عالمی قانون کے تحت ہر قوم کو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کا حق حاصل ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف بھی غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دے چکی ہے۔ اعلامیے کے مطابق فلسطین کے حوالے سے کوئی بھی معاہدہ اہلِ ایمان کو اس جہاد میں شرکت سے نہیں روک سکتا، البتہ فلسطین کے نام پر کسی بھی مسلح کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر مشروط جنگ بندی تک اپنے سفارتی تعلقات معطل کریں۔ اعلامیے میں سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان کو اس معاملے میں پہل کرنی چاہیے۔ مزید پڑھیں: بائیکاٹ یا قانون شکنی؟ کے ایف سی حملے کے بعد اضافی نفری تعینات رکن اسلامی نظریاتی کونسل مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ اہلِ فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔ تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کی بجائے غزہ میں جمع ہوتے۔ستم طریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرپارہے۔ قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ فلسطین میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، معاہدے کے باوجود بمباری جاری ہے، اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے اور نہ ہی عالمی قوانین کی قدر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امتِ مسلمہ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کرسکی۔ آج امتِ مسلمہ قراردادوں اور کانفرنسز پر لگی ہوئی ہے۔
‘وقت آ گیا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کیا جائے’ فرانسیسی صدر

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ فرانس جون میں فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔فرانس 5 کے ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے میکرون کا کہنا تھا کہ “ہمیں آگے بڑھنا ہوگا، ہم اس اعتراف کی طرف جا رہے ہیں، یہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ وقت کا تقاضا یہی ہے۔”یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ میکرون نے عندیہ دیا ہے کہ اگر فرانس یہ قدم اٹھاتا ہے تو اس کے بدلے مشرق وسطیٰ کے کچھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔یہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ ایک ممکنہ سفارتی کوشش ہے۔ میکرون نے مزید انکشاف کیا کہ جون میں سعودی عرب کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں “دو ریاستی حل” کو عملی شکل دینے اور باہمی تسلیم کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یاد رہے کہ دنیا کے تقریباً 150 ممالک پہلے ہی فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کر چکے ہیں لیکن امریکا، برطانیہ، جرمنی اور خود فرانس جیسے بڑے مغربی طاقتوں نے اب تک ایسا قدم نہیں اٹھایا۔اگر فرانس یہ فیصلہ کرتا ہے تو یہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہو گی بلکہ مشرق وسطیٰ میں دہائیوں پر محیط کشمکش کا نقشہ بھی بدل سکتا ہے۔
رجیم چینج آپریشن کے بعد سب سے زیادہ نقصان ہماری عزت کا ہوا، فواد چوہدری

پاکستان میں بدلتی سیاسی صورتحال کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے۔ محتلف پارٹیز اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ سے سیاست میں حرکت پیدا کرتا رہا ہے۔پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسی موضوع پر اظہارخیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریجیم چینج آپریشن کے بعد سب سے زیادہ نقصان ہماری عزت کا ہوا ہے۔ اسلامی دنیا میں ہمارا نام ہوا کرتا تھا لیکن اب ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملے، مزید 35 افراد شہید

غزہ کے شجاعیہ محلے میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کم از کم 35 فلسطینیوں کی شہادت اور درجنوں کے زخمی ہونے کی خبر ایک بار پھر اس انسانی المیے کی شدت کو ظاہر کرتی ہے جو گذشتہ کئی ماہ سے غزہ پر جاری جنگ نے جنم دیا ہے۔ الجزیرہ اور مقامی طبی ذرائع کے مطابق ملبے کے نیچے اب بھی لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے، اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا ہدف حماس کا ایک سینئر جنگجو تھا، تاہم متاثرہ علاقے کی شدت سے تباہی، درجنوں بے گھر خاندانوں کی ہلاکت اور امدادی کاموں میں مشکلات نے اس دعوے پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ شہری دفاع کے کارکنان اور مقامی افراد ملبے میں پھنسے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ناکہ بندی اور امدادی سامان کی شدید قلت نے ان کی کوششوں کو محدود کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں زخمیوں کا علاج مشکل ہو چکا ہے، اور ادویات و خون کی اشد کمی ہے۔یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری غزہ میں ’انسانی توہین‘ پرسخت ردِعمل دے، اقوام متحدہ اسرائیلی حملوں کے تسلسل، بھوک کے بحران، اور طبی سہولیات کی تباہ حالی نے غزہ کو مکمل انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ جنگ بندی کی کوششیں، جن میں مصر، قطر اور امریکہ شامل ہیں، تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں۔ حماس نے اس تازہ حملے کو امریکی حمایت سے جاری قتل عام قرار دیتے ہوئے عرب و مسلم دنیا کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار مروان بشارا نے ان کارروائیوں کو نسلی تطہیر سے تعبیر کیا ہے، جب کہ غزہ کے باسیوں کو سیکیورٹی زون سے دور رہنے کا اسرائیلی حکم اس خوف کو تقویت دیتا ہے کہ کہیں یہ قبضے کو مستقل بنانے کی کوشش نہ ہو۔ یہ صورتحال عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہے، جہاں انسانی جانوں کی بے وقعتی، اور مظلوموں کی آہ و بکا کو نظر انداز کرنا ایک گہری اخلاقی گراوٹ کی علامت بنتا جا رہا ہے۔
سندھ کا زرعی بجٹ: موسمیاتی چیلنجز کے مقابل جدید اسکیموں کا اعلان

جیسے ہی سندھ حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری کے آخری مراحل میں داخل ہوئی تو محکمہ زراعت کی ایک اہم بیٹھک نے سیاسی، ماحولیاتی اور زرعی حلقوں میں اہم فیصلے کیے ہیں۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی تو دوسری طرف پانی کی سنگین قلت، ان دونوں چیلنجز نے زرعی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں مستقبل کی زراعت کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رکھنے اور کم پانی والی جدید زرعی اسکیموں پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں محکمہ زراعت کے اعلیٰ افسران، سیکریٹری زراعت سہیل احمد قریشی، ایڈیشنل سیکریٹری ادریس کھوسو، ڈپٹی سیکریٹری احمد علی شیخ، ڈی جی ندیم شاہ اور دیگر شریک تھے۔ یہ اجلاس ایک نئے زرعی دور کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس میں سردار محمد بخش مہر نے واضع پیغام دیا ہے کہ “موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں پانی کی کمی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور مستقبل کی زراعت جدید اور کم پانی والی ٹیکنالوجی پر منحصر ہوگی۔” اسی مقصد کے تحت بجٹ میں ایسی اسکیمیں شامل کی جا رہی ہیں جو زراعت کو کم پانی میں بھی ممکن بنائیں گی۔ 772 ڈرپ ایریگیشن سسٹم، جن سے 12,190 ایکڑ زمین کو فائدہ پہنچے گا جو کہ پہلے ہی کسانوں کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے شمسی توانائی سے چلنے والے 536 ٹیوب ویلز پر بھی سبسڈی دی ہے تاکہ بجلی کی بڑھتی قیمتوں سے کسانوں کو تحفظ ملے۔ دوسری جانب 24,191 خواتین کو کچن گارڈن کٹس فراہم کی گئی ہیں جو نہ صرف گھریلو ضرورتیں پوری کر رہی ہیں بلکہ انہیں بااختیار بھی بنا رہی ہیں۔ اس اجلاس میں “بینظیر ہاری کارڈ” اسکیم کے تحت کسانوں کی آن لائن رجسٹریشن کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب تک 15,000 ہاری آن لائن جبکہ 16,000 مینوئل طریقے سے رجسٹر ہو چکے ہیں۔ وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کا ہر ہاری اس سہولت سے مستفید ہو۔” اس کے علاوہ زرعی مشینری پر سبسڈی دینے کی تجویز بھی بجٹ میں شامل کی گئی ہے تاکہ کسان جدید آلات سے لیس ہو کر اپنی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔ اس اقدام سے نہ صرف فصل کی لاگت کم ہوگی بلکہ پیداوار بھی دوگنی ہو سکتی ہے۔ سندھ حکومت کی یہ کوشش بظاہر ایک انقلابی قدم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کسان ان جدید تقاضوں کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ ان اسکیموں سے پوری طرح مستفید ہو پائیں گے؟ یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے چولستان کینال منصوبے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کروا دی
گرین پاکستان انیشیٹو: ’چولستان کینال کی تعمیر کومعطل رکھا جائے‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں ایک قرارداد جمع کرائی جس میں انہوں نے “گرین پاکستان انیشیٹیو” کے تحت سندھ کے پانی کے حقوق پر اثر انداز ہونے والے چولستان کینال منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس قرارداد کو اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کی قیادت میں تیار کیا گیا تھا اور اس میں پارٹی کے اہم رہنماؤں جیسے زرتاج گل، علی محمد خان اور مجاہد خان نے دستخط کیے۔ قرارداد میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چولستان کینال کے منصوبے کو فوراً روکے تاکہ سندھ کے پانی کے حقوق اور زرعی شعبے پر اس کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ پی ٹی آئی نے حکومت سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ صوبہ سندھ کے اعتراضات کو سنجیدگی سے لے اور تمام متعلقہ فریقوں کی مشاورت کے بغیر اس منصوبے پر کسی بھی قسم کا فیصلہ نہ کرے۔ قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا کہ پنجاب کے چولستان کینال منصوبے، جو کہ 2024 کے اکتوبر میں سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کی منظوری سے شروع ہوئے ہیں، اب سندھ کے پانی کی فراہمی، زرعی پیداوار اور ماحولیاتی نظام پر سنگین اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اس قرارداد میں وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ چولستان کینال کی تعمیر کو اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ کونسل آف کامن انٹرسٹس (سی سی آئی) سے رسمی اجازت نہ مل جائے۔ پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 154 اور 155 کے تحت اس منصوبے کی منظوری ضروری ہے اور سندھ کے پانی کے حقوق کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ سندھ کے 48.76 ملین ایکڑ فٹ پانی کی فراہمی کی ضمانت دی جانی چاہیے اور کوٹری بیراج کے نیچے 10 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ماحولیاتی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی حفاظت کی جا سکے۔ یہ قرارداد اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ سندھ کے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے 1991 کے معاہدے کی مکمل عملداری ضروری ہے۔ پی ٹی آئی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ایریسا) کی پانی کی فراہمی کے حوالے سے ایک آزاد آڈٹ کرایا جائے جس میں ماہرین کی ایک غیرجانبدار ٹیم شامل ہو تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آیا منصوبہ سندھ کے آبی حقوق سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی کی قرارداد میں شفاف مشاورت اور فیصلوں کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ چولستان کینال منصوبے کے حوالے سے تمام فیصلے سندھ کے منتخب نمائندوں، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کیے جائیں اور ان مشاورتوں کی کارروائیوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ کسی بھی شک و شبے کی گنجائش نہ ہو۔ اس قرارداد کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس منصوبے پر سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان تیز ہوتی ہوئی لفظی جنگ نے اس تنازعہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کراچی میں گزشتہ اتوار کے روز ہونے والی ایک احتجاجی ریلی میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس منصوبے کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور کراچی کی پانی کی فراہمی کو متاثر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ دریں اثنا، سندھ اسمبلی نے مارچ میں اس منصوبے کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں اس منصوبے کے آغاز کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ سندھ کے سیاسی حلقوں میں اس مسئلے پر شدید اختلافات نظر آ رہے ہیں۔
یوکرین جنگ: ‘روس چینی شہریوں کو فوج میں بھرتی کر رہا ہے’

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک اور پریشان کن دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم 155 چینی شہری یوکرین کی جنگ میں روس کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب یوکرین کی فوج نے دو چینی جنگجوؤں کو پکڑ لیا جو پہلی بار چین کے براہ راست ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بدھ کے روز زیلنسکی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے جن معلومات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اس تنازعے میں مزید کئی چینی شہری شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چین روس کو نہ صرف فوجی امداد فراہم کر رہا ہے بلکہ اس نے اپنی سوشل میڈیا کی مدد سے چینی شہریوں کو جنگ میں شامل ہونے کے لیے بھی راغب کیا ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ “روس چینی شہریوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر رہا ہے اور یہ سب کچھ بیجنگ کے علم میں ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ جن افراد کو بھرتی کیا گیا ہے انہیں ماسکو میں تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بدلے انہیں ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ زیلنسکی کا کہنا تھا کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ روس اور چین کے تعلقات اس جنگ میں مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ اگرچہ چین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کے شہری روس کے لیے لڑ رہے ہیں مگر زیلنسکی کے دعوے نے عالمی برادری کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے بھی ان رپورٹس کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ یوکرین کے صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر روسی حکام چین کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے شہریوں کو بھرتی کر رہے ہیں تو یہ ایک عالمی خطرہ بن سکتا ہے۔ اس جدید جنگ میں روس کی جانب سے چین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی بالواسطہ یا براہ راست مداخلت نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ زیلنسکی کے مطابق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روس کی جنگ میں شکست قبول کرنے کی کوئی نیت نہیں ہے۔ زیلنسکی نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ “پوتن کے ارادے واضح ہیں وہ جنگ کے خاتمے کے بجائے کسی بھی قیمت پر اسے جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔” یہ دعویٰ نہ صرف یوکرین بلکہ پورے عالمی منظرنامے پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے جس کا جواب صرف وقت ہی دے سکے۔