دہشتگردی کے خلاف حکمتِ عملی: سندھ حکومت نے انتظامات کر لیے

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا 32 واں اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم سیاسی و انتظامی شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں سینئر وزیر شرجیل انعام میمن، وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل محمد اویس دستگیر، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل محمد شمریز، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، انسپیکٹر جنرل پولیس غلام نبی میمن، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبوں میں اپیکس کمیٹیوں کی تشکیل پر گفتگو کی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ سندھ حکومت نے دہشت گردی کو قابو کرنے کے لیے مؤثر پالیسی اپنائی ہے اور صوبے میں دہشت گردی، منشیات اور دیگر سنگین جرائم کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں شہریوں کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ صوبے کو دہشت گردی، منشیات اور دیگر جرائم سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کو مزید بہتر کیا جائے گا۔ انہوں نے اجلاس میں بتایا کہ گزشتہ اپیکس کمیٹی اجلاس کی روشنی میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے مزید سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت کراچی میں دو سینٹرز کام کر رہے ہیں اور صوبے بھر میں 31 فرینڈلی پولیس اسٹیشنز قائم کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ دس پولیس تھانوں کو اپگریڈ کیا گیا ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ اسلحہ کی نمائش پر سیکشن 144 لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے نجی گاڑیوں پر سول ڈریس میں گارڈز کے خلاف کارروائی تیز کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں پر پولیس لائٹس، رنگین شیشے، فینسی نمبر پلیٹس اور اسلحہ کی نمائش کے خلاف صوبے بھر میں 1474 ایف آئی آرز درج کی گئیں جن پر 34.6 ملین روپے کا جرمانہ وصول کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ آپریشنز کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی پولیس تینوں صوبوں کے ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن کرنے کے لیے رابطہ کر رہی ہے۔ سندھ پولیس اور رینجرز کچے میں مشترکہ آپریشن کر رہی ہیں اور دونوں صوبوں میں ایک ہی گینگ کے ڈاکوؤں کی موجودگی کی اطلاع ملی ہے جو دونوں طرف جرائم کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے تینوں صوبوں کی رابطہ کاری سے مشترکہ آپریشن پلان بنانے کا فیصلہ کیا۔ مزید برآں، حب پر مشترکہ چیک پوسٹ قائم کرنے کے لیے 214 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں تاکہ سندھ-بلوچستان بارڈر پر اسمگلنگ اور دیگر جرائم کو روکا جا سکے۔ سندھ حکومت نے فیوژن سینٹر ڈی جی نارکوٹکس آفس میں قائم کیے ہیں جس کے تحت ایجنسیوں کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن سے نارکوٹکس کرائم کی کھوج مزید مؤثر ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ سال 2025ء میں انسداد دہشت گردی کے 23 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 7 چالان کیے گئے، 4 کو سزائیں ہوئیں اور باقی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سال 2024ء میں بھی دو مقدمات میں سزائیں ہوئیں۔ وزیراعلیٰ نے انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی پراسیکیوشن کو مضبوط کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ سال 2025ء میں دہشت گردوں کے خلاف 318 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 153 مقدمات درج کر کے 84 مجرم گرفتار کیے گئے اور 12 دہشت گرد مارے گئے۔ اس کے علاوہ سندھ پولیس نے چائنیز کی سکیورٹی کے لیے خصوصی یونٹ قائم کیا ہے تاکہ سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے چائنیز باشندوں کو سکیورٹی فراہم کی جا سکے۔ سندھ حکومت نے پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو مزید مضبوط کرنے کے لیے 3.6 بلین روپے مختص کیے ہیں، تاکہ جدید آلات، سافٹ ویئرز اور فرانزک ٹولز کی خریداری کی جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے ذریعے مزید دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے گا۔
مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا لیکن سرحدوں کو محفوظ بنانا ضروری ہے، ترجمان دفترِ خارجہ

پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے حالیہ ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں امریکا کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ پر پاکستان کے ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کے اس اقدام کو نوٹ کیا ہے اور اس معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ ترجمان نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ٹیرف کا اثر ترقی پذیر ممالک پر ہو رہا ہے اور اس مسئلے کا حل نکالنا ضروری ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے ساتھ مشکل وقت میں تعاون کیا ہے، لیکن پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور ان کا کنٹرول ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔ یواے ای میں پاکستانی ویزوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستانی شہریوں پر ویزوں کی پابندی مکمل نہیں ہے اور اس سلسلے میں کوئی نئی پابندیاں نہیں لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، انھوں نے آئی ایف آر پی انٹرنیشنل فورینرز ریٹرن پروگرام کے نفاذ پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے عمل پر عمل کر رہا ہے۔ امریکا کے بگرام ائیر بیس کی قیام کی افواہوں کو سوشل میڈیا پر زیر بحث لانے والے معاملے پر شفقت علی خان نے کہا کہ یہ ایک افغان اور امریکی حکومت کا آپسی مسئلہ ہے اور پاکستان اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے بیلاروس کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ وزیر اعظم 10-11 اپریل کو بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے، جس دوران وہ صدر لوکاشینکو سے ملاقات کریں گے اور دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے بات چیت کریں گے۔ اس دورے کا مقصد پاکستان اور بیلاروس کے درمیان تعاون کو فروغ دینا اور متعدد معاہدوں پر دستخط کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور امریکا کے وزرائے خارجہ سے ٹیلیفونک بات چیت کی اور دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے آخر میں کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ عالمی مسائل پر بات چیت کے ذریعے تعاون بڑھایا جائے، اور اسی سلسلے میں پاکستان نے میانمار کے زلزلہ متاثرین کے لیے 35 ٹن امدادی سامان بھیجا ہے۔
افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی: ارشد ‘چائے والا’ کا بھی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا گیا

مردان کا رہائشی ارشد خان، جو 2016 میں ایک چائے والے کے طور پر سوشل میڈیا پر مشہور ہو گیا تھا، اس نے اپنے CNIC اور پاسپورٹ کے بلاک ہونے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ ارشد خان کا کیس ایک قانونی جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں نہ صرف حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھایا جا رہا ہے بلکہ اس کے ذاتی حقوق اور شہرت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ارشد خان کی شہرت 2016 میں اُس وقت بڑھی جب اس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی وہ تصویر اُس وقت کی سب سے مشہور میم بن گئی، جس میں ارشد خان چائے کی ٹھیلے پر نظر آ رہا تھا اور اس کا اسٹائل نیا اور منفرد تھا۔ اس تصویر نے ارشد کو راتوں رات شہرت کی بلندیاں عطا کیں اور اس کے بعد وہ ایک مشہور شخصیت بن گیا۔ لیکن اب وہ ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہے۔ ارشد خان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دیا گیا ہے اور حکومتی ادارے اس کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تجدید سے انکار کر رہے ہیں۔ اس معاملے کی وضاحت دیتے ہوئے ارشد خان کے وکیل، بیرسٹر عمر اعجاز گلانی نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشد خان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے حکومتی ادارے جان بوجھ کر اس کے حقوق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ بیرسٹر گلانی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ارشد خان کا خاندان ملک کی شہریت کے حوالے سے مکمل طور پر دستاویزی ریکارڈ رکھتا ہے اور حکومتی اداروں کی جانب سے 1978 سے پہلے کے رہائشی ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک واضح مثال ہے کہ حکومتی ادارے ارشد خان کے حقوق کو غیر ضروری طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ اس درخواست کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جاوید حسن نے وفاقی حکومت اور دیگر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت نے 17 اپریل تک تمام متعلقہ فریقوں کو جواب دینے کی ہدایت کی ہے اور اس دوران ارشد خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے نادرا اور وزارت داخلہ کے افسران کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے پانچ سالہ ’سیاحتی ویزے‘ کا اجرا کردیا

متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو پانچ سالہ ملٹی پل انٹری وزٹ ویزا جاری کرنے کا اعلان ایک بڑی اور خوش آئند پیش رفت ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ماضی قریب میں ویزہ پالیسیز سے متعلق غیر یقینی صورت حال نے عوامی تشویش کو جنم دیا تھا۔ یہ اعلان پاکستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر حماد عبید ابراہیم سالم الزابی نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات گورنر ہاؤس کراچی میں ہوئی جہاں کئی اہم امور زیرِ بحث آئے، جن میں سب سے نمایاں ویزا سے متعلق مسائل کا حل اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری کے امکانات تھے۔ سفیر ذابی نے بتایا کہ اب پاکستانی شہری، اگر تمام شرائط پر پورا اُترتے ہیں، تو وہ بغیر کسی ضامن یا میزبان کے پانچ سالہ ویزا حاصل کر سکتے ہیں، جس کے تحت وہ متعدد بار متحدہ عرب امارات کا سفر کر سکیں گے۔ یہ ویزا ان افراد کے لیے بھی موزوں ہے جو خاندانی وزٹ، کاروباری سرگرمیوں، یا سیاحت کے لیے بار بار یو اے ای جانا چاہتے ہیں۔ یہ سہولت اگرچہ خوش آئند ہے، تاہم اس کا پس منظر کچھ پیچیدہ ہے۔ حالیہ مہینوں میں یو اے ای حکومت نے پاکستانی شہریوں کی اسکروٹنی میں اضافہ کیا تھا، جس کی وجہ ملک میں داخل ہونے والے کچھ افراد کی جانب سے مبینہ غیر قانونی سرگرمیاں، جیسے کہ بھیک مانگنا یا سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ مواد پھیلانا تھیں۔ سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیوں میں اس مسئلے پر بحث بھی ہوئی اور بتایا گیا کہ وزٹ ویزے کے غلط استعمال کی وجہ سے یو اے ای حکومت نے ویزوں کے اجرا پر غیر رسمی بندشیں لگائی تھیں۔یہ بھی پڑھیں: صدر کی دعوت پر وزیر اعظم شہباز شریف بیلاروس کا دو روزہ دورہ کریں گے یو اے ای کے کراچی قونصل جنرل ڈاکٹر بخیت عتیق الرمیتھی نے بھی سوشل میڈیا پر نامناسب رویوں کی نشاندہی کی تھی اور کہا تھا کہ ایسے طرزِ عمل ویزا رد کیے جانے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں پانچ سالہ ویزے کی دستیابی نہ صرف پاکستانیوں کے لیے ایک نئی امید ہے بلکہ دونوں ممالک کے باہمی اعتماد کی بحالی کا اظہار بھی ہے۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ سفیر ذابی نے گورنر سندھ کو دبئی قونصلیٹ کے ویزا سینٹر کا دورہ کرنے کی دعوت دی، جو ممکنہ طور پر ویزا سہولتوں میں مزید بہتری کا اشارہ ہے۔ تاہم، پاکستانی شہریوں کو اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے قوانین، سوشل میڈیا ضوابط اور مہذب رویے کا خاص خیال رکھنا ہوگا تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی پابندی یا مشکل صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وزیراعظم شہباز شریف دو روزہ سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچ گئے

وزیرِاعظم شہبازشریف بیلاروس کے دو روزہ سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچ گئے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے منسک کے وکٹری سکوائر کا دورہ کیا اور یادگار پر پھول رکھے۔ وکٹری سکوائر جنگِ عظیم دوم میں جاں بحق فوجی اہلکاروں کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وزیرِاعظم کے ہمراہ نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار، وزیرِاطلاعات عطاء اللہ تاڑر اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی موجود ہیں۔ وزارتِ خارجہ، حکومتِ پاکستان کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی دعوت پر 10 اور 11 اپریل 2025 کو جمہوریہ بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے۔ اس اعلیٰ سطحی وفد میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز، دیگر وزراء اور سینئر حکام شامل ہیں۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ نومبر 2024 میں صدر لوکاشینکو کے اہم دورۂ پاکستان کے تسلسل میں ہو رہا ہے۔ اپنے قیام کے دوران، وزیراعظم پاکستان صدر لوکاشینکو سے ملاقات کریں گے، جس میں دوطرفہ دلچسپی کے شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان اور بیلاروس کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جن میں فروری 2025 میں آٹھویں مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس اور اپریل 2025 میں ایک اعلیٰ سطحی مخلوط وزارتی وفد کا بیلاروس کا دورہ شامل ہیں۔ ان روابط نے وزیراعظم کے دورے کی راہ ہموار کی ہے۔ دورے کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کی توقع ہے۔ ترجمان کے مطابق، وزیراعظم کا یہ دورہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان مضبوط اور مسلسل شراکت داری کا مظہر ہے، جو دونوں ممالک کے باہمی مفاد اور خطے میں امن و ترقی کے لیے اہم ثابت ہوگا۔
’ہم چین کے گنواروں سے قرض لیتے ہیں‘ امریکی نائب صدر کے بیان پر طوفان برپا

دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ چکی ہے لیکن اس بار یہ طوفان کسی فوجی مشق، تجارتی معاہدے یا ٹیکنالوجی کی جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جملے کا مرہون منت ہے۔ امریکا کے نومنتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے ایک امریکی ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے چینی شہریوں کو “گنوار” کہہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم چین کے گنواروں سے قرض لیتے ہیں تاکہ ان ہی کے بنائے ہوئے گنوارانہ سامان کو خرید سکیں۔” یہ الفاظ گویا خنجر بن کر چینی شہریوں کے سینے میں جا لگے۔ بیجنگ نے نہ صرف اس بیان کو “جہالت اور غرور کا مظاہرہ” قرار دیا بلکہ اسے امریکا کے چہرے کا اصل عکس بھی کہا۔ دوسری جانب چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سخت ردعمل میں کہا کہ “یہ بیان صرف بے ادبی نہیں بلکہ ایک قوم کی توہین ہے۔” چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غصے کی لہر دوڑ گئی، صارفین نے جے ڈی وینس کو “بدتمیز دہقانی سیاستدان” اور “سفارتی تباہی” جیسے القابات سے نوازا۔ ایک صارف نے لکھا کہ “جو شخص گاؤں سے نکل کر وائٹ ہاؤس پہنچا، وہ آج دنیا کے سب سے بڑی قوم کو گنوار کہہ رہا ہے؟” یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا جب امریکا اور چین کے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں چین پر 125 فیصد نئے تجارتی ٹیرف عائد کر دیے ہیں، ایک اور چنگاری جو تجارت کی جنگ کو بھڑکا سکتی ہے۔
ہم نے پارٹی بنائی ہے ہم کیوں چھوڑیں گے، فواد چوہدری

پاکستان میں بدلتی سیاسی صورتحال کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے۔ محتلف پارٹیز اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ سے سیاست میں حرکت پیدا کرتا رہا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسی موضوع پر اظہارخیال کیا۔
پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی: کرپٹو سے کروڑوں کمانا کتنا آسان

کرپٹو کرنسی ایک ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی ہے جو بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کا سب سے معروف نام بٹ کوائن ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی ہزاروں اقسام کی کرپٹو کرنسیاں موجود ہیں جیسے ایتھیریئم، رِپل، اور لائٹ کوائن۔ کرپٹو کرنسی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی مرکزی بینک یا حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوتی، بلکہ اسے ڈی سینٹرلائزڈ نیٹ ورک پر چلایا جاتا ہے جو شفافیت اور سیکیورٹی فراہم کرتا ہے۔ لین دین کو محفوظ بنانے کے لیے جدید انکرپشن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا سفر قدرے متنازع رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2018 میں کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد باضابطہ طور پر کرپٹو کی خرید و فروخت پر پابندی رہی، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں لاکھوں افراد کرپٹو مارکیٹ سے منسلک رہے۔ حالیہ برسوں میں حکومت اور متعلقہ اداروں نے کرپٹو سے متعلق قوانین اور پالیسیز پر غور شروع کیا ہے، تاکہ اسے ایک منظم دائرے میں لایا جا سکے۔ پاکستان میں کرپٹو کا مستقبل امید و خوف کے درمیان جھول رہا ہے۔ اگر حکومت مناسب قانون سازی کرے اور عوام کو مالیاتی تعلیم فراہم کی جائے تو کرپٹو نہ صرف سرمایہ کاری کا نیا در کھول سکتی ہے بلکہ نوجوانوں کے لیے روزگار اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے مواقع بھی پیدا کر سکتی ہے۔ دوسری جانب، اگر مناسب نگرانی اور سیکیورٹی میکانزم نہ بنائے گئے تو یہ فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ لہٰذا، پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا مستقبل حکومت کی پالیسی سازی، ادارہ جاتی فریم ورک، اور عوامی شعور پر منحصر ہے۔
پاکستانی معدنیات: کیا امریکا کی نظریں اسلام آباد پر ہیں؟

اسلام آباد کی فضا ان دنوں قدرے مختلف ہے، خاموش مگر گہری سیاسی چہل پہل، سفارتی سرگرمیوں کی غیر معمولی جنبش اور ایک اہم پیغام۔ 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک ایسا مہمان گھوم رہا تھا جو صرف رسمی دورے پر نہیں آیا تھا بلکہ وہ کچھ خاص لے کر آیا تھا جیسا کہ امریکی دلچسپی، سرمایہ کاری اور ایک عالمی دوڑ کا آغاز۔ یہ مہمان کوئی اور نہیں بلکہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے سینیئر عہدیدار ایرک میئر تھے۔ ایرک میئر کا کہنا تھا کہ “صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ دنیا بھر میں قیمتی معدنیات کے قابل اعتماد ذرائع تک رسائی اب امریکا کی ایک تزویراتی ترجیح ہے۔” یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک عالمی اعلان تھا۔ ایک ایسی دوڑ جس میں امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اس کا پارٹنر بنے، زمین کے نیچے دفن ان معدنیات کی بدولت جنہیں عالمی ٹیکنالوجی، دفاع اور صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرک میئر نے پاکستان منرلز انوسٹمنٹ فورم میں شرکت کی اور واضح پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستان کی معدنی دولت اگر ذمہ داری اور شفافیت کے ساتھ تیار کی جائے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی شراکت داروں کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔” اس کے علاوہ میئر نے اور بھی ملاقاتیں کیں جن میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک سمیت کئی کلیدی شخصیات شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے معاشی تعاون، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے تحت باہمی تعاون کی نئی تجاویز پیش کیں۔ ایرک میئر نے امریکی چیمبرز آف کامرس، سابق طالبعلموں اور خارجہ پالیسی کے اسٹیک ہولڈرز سے بھی ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اب صرف “دوستی” کا خواہاں نہیں بلکہ “شراکت داری” کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، ایک ایسی بنیاد جس کی جڑیں معیشت، وسائل اور عوامی تعلقات میں پیوست ہوں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دورے کے بعد کئی امریکی کمپنیاں پاکستان کے معدنی شعبے میں عملی سرمایہ کاری کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس میں صرف لیتیھیم یا کوبالٹ جیسے قیمتی مادے شامل نہیں بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجیز کا خواب بھی جڑا ہے، وہ خواب جو پاکستان کی زمین میں چھپا ہوا ہے اور اب دنیا کی نظریں اس پر ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان عالمی افق پر صرف جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اہم سمجھا جاتا تھا۔ اب منظر بدل رہا ہے۔ اب اہمیت اس دولت کی ہے جو زیرزمین ہے۔
فلسطین کے مسئلے میں کیا باقی ممالک کو ‘نیوٹرل’ رہنا چاہیے؟

پاکستان میٹرز سسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لبر لینڈ کے سفیر نے فلسطین کے مسئلے پر اپنے متنازع بیان کے ذریعے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل صرف سیاسی طاقتوں کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ اس کے لیے علاقائی اور عالمی فریقوں کی جرات مندانہ اور مشترکہ کارروائی ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس مسئلے میں ‘نیوٹرل’ رہنا چاہیے اور ان ممالک کو خود اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ ان کا یہ بیان روایتی بیانیے کو چیلنج کرتا ہے اور سفارتی و عوامی حلقوں میں شدید ردعمل کا باعث بن رہا ہے۔ جب کہ خطے میں کشیدگی بدستور قائم ہے، ان کا بیان جاری مکالمے میں ایک نیا اور اشتعال انگیز زاویہ شامل کر رہا ہے۔