“جھک جاؤ یا نتائج بھگتو” امریکا نے ایران پرمزید پابندیاں لگا دیں

واشنگٹن نے تہران پر ایک اور سفارتی حملہ کر دیا، جوہری مذاکرات سے محض 48 گھنٹے قبل امریکا نے ایران کے مزید پانچ اداروں اور ایک اہم شخصیت پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام ادارے ایران کے متنازع جوہری پروگرام سے منسلک ہیں۔ بظاہر تو یہ صرف پابندیاں ہیں مگر درپردہ پیغام بہت واضح ہے کہ “یا تو جھک جاؤ، یا نتائج بھگتو۔” پابندیوں کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔ لیکن اس نئی چال نے ایک بار پھر حالات کو کشیدگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں کہا کہ “ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ضرورت پڑی تو فوجی طاقت استعمال کریں گے اور اسرائیل ہمارے ساتھ ہوگا۔” ایران پر دباؤ بڑھانے کی یہ حکمت عملی واشنگٹن کی پرانی پالیسی کا تسلسل ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا مذاکرات اب بھی ممکن ہیں؟ یا پھر خطے میں ایک اور تنازع جنم لینے والا ہے؟

کراچی میں ڈمپر حادثہ: ایک ٹکر، 9 گاڑیاں نذرِ آتش

شہر قائد ایک بار پھر آگ، غصے اور چیخ و پکار کی لپیٹ میں آگیا، جہاں نارتھ کراچی کے پاور ہاؤس چورنگی پر ایک معمولی ٹریفک حادثے نے دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔  ایک ڈمپر کی موٹرسائیکل کو ٹکر کیا لگی، مشتعل ہجوم نے انتقام کی ایسی آگ بھڑکائی جس میں نو گاڑیاں خاکستر ہو گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ڈمپر کا ڈرائیور محض 17 یا 18 سالہ لڑکا تھا جو ریس لگاتے ہوئے پاور ہاؤس چورنگی کے قریب پہنچا اور اچانک اُس کی بے قابو گاڑی ایک موٹرسائیکل سے ٹکرا گئی، جس پر سوار شخص شدید زخمی ہو گیا۔  آس پاس لوگوں نے ڈرائیور کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ فرار ہونے کی کوشش میں مزید دو موٹرسائیکلوں پر چڑھ دوڑا۔  خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن علاقے میں اشتعال کی چنگاری بھڑک چکی ہے۔ پھر وہی ہوا جو اکثر غصے میں اندھے ہجوم کرتے ہیں، ڈمپروں اور واٹر ٹینکروں کو گھیر کر اُن پر پٹرول چھڑکا گیا اور پھر شعلوں نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔  دیکھتے ہی دیکھتے پانچ ڈمپر اور چار واٹر ٹینکر آگ کی نذر ہوگئے۔ پولیس کے مطابق یہ پرتشدد کارروائیاں صرف پاور ہاؤس چورنگی تک محدود نہ رہیں۔ فور کے چورنگی اور سرجانی کے بابا موڑ پر بھی واٹر ٹینکروں کو نذر آتش کیا گیا۔  صورتحال اتنی خراب ہو چکی تھی کہ پورے علاقے میں رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔  فائر بریگیڈ کی ٹیمیں بروقت پہنچیں اور کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ ڈمپر ایسوسی ایشن کے رہنما لیاقت محسود میڈیا کے سامنے آئے اور اپنی فریاد پیش کی۔  ان کا کہنا تھا کہ “میری 11 گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اگر واقعی کوئی زخمی ہوا ہے تو اُسے سامنے لایا جائے، ہماری گاڑیوں کو جلانے والے کہاں سے آئے؟ حکومت ہمیں تحفظ دینے میں ناکام کیوں ہوئی؟” پاور ہاؤس چورنگی کا معاملہ ابھی تھما نہیں تھا کہ سپر ہائی وے پر ڈمپر ڈرائیوروں نے احتجاج شروع کر دیا۔ لدھا ہوا کچرا سڑک پر گرا کر ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیا گیا۔  سہراب گوٹھ کے آس پاس کئی گھنٹوں تک گاڑیاں رینگتی رہیں اور عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر پولیس نے بھی حرکت میں آتے ہوئے رات گئے علاقے میں کریک ڈاؤن شروع کیا۔  سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل ویڈیوز کی مدد سے مشتبہ افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کئی افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور پولیس کا کہنا ہے جبکہ حالات پر مکمل کنٹرول ہے۔ ایس ایس پی سینٹرل نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم نے پاور ہاؤس کی تمام سڑکیں کھول دی ہیں، امن و امان کو خراب کرنے والے عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔” یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کراچی میں ہیوی گاڑیوں کی غفلت سے ہونے والے حادثات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔  صرف گزشتہ 99 دنوں میں 78 افراد ان گاڑیوں کی زد میں آ کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 256 ہو چکی ہے۔

‘نائٹ کلب میں جشن کا سماں تھا اچانک چھت گر گئی’ 184 افراد ہلاک ہوگئے

ڈومینیکن ریپبلک کے دارالحکومت سینتو ڈومنگو میں واقع مشہور نائٹ کلب جیٹ سیٹ میں ایک اندوہناک سانحہ پیش آیا جب چھت گرنے کے نتیجے میں کم از کم 184 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دلخراش واقعے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا ہے، اور متاثرہ خاندانوں کی بےچینی اور کرب نے فضا کو مزید بوجھل بنا دیا ہے۔ یہ سانحہ منگل کی رات روبی پیریز کے کنسرٹ کے دوران پیش آیا، جو کہ ایک مقبول میرنگو گلوکار تھے۔ اس کنسرٹ میں متعدد سیاسی شخصیات، معروف کھلاڑیوں اور دیگر ممتاز افراد نے شرکت کی تھی۔ بدقسمتی سے یہ خوشیوں بھرا لمحہ اچانک قیامت میں بدل گیا، جب آدھی رات کے بعد کلب کی چھت زمین بوس ہو گئی۔ اب تک 155 افراد کو زندہ ملبے سے نکال کر اسپتالوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، لیکن 24 گھنٹوں سے کسی کو زندہ نہ نکالے جانے کے بعد بچ جانے والوں کی امیدیں دھندلانے لگی ہیں۔ ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے سربراہ جوآن مینوئل مینڈیز نے پریس کانفرنس میں یقین دہانی کرائی کہ امدادی کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک آخری لاش نہیں نکال لی جاتی۔ تاہم، اب آپریشن کا محور تلاش و بچاؤ سے منتقل ہو کر لاشوں کی بازیابی کی طرف ہو چکا ہے۔ کلب کے ملبے کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہیں، جو اپنے پیاروں کی تلاش میں تصاویر اور پہنے گئے لباس کی تفصیلات لے کر کھڑے ہیں۔ ان کے چہروں پر بے بسی، آنکھوں میں امید کی جھلک اور دلوں میں دعا کی روشنی اب بھی باقی ہے۔ ایک متاثرہ شخص الیکس ڈی لیون نے بتایا کہ اس کی سابقہ بیوی، اس کے دو بچوں کی ماں، اور ایک قریبی دوست لاپتہ ہیں۔ وہ اپنے 15 سالہ بیٹے کے صدمے، اور 9 سالہ بچے کو سنبھالنے کی کوشش میں ٹوٹ چکا ہے۔ اس حادثے نے فن، کھیل اور سیاست کے کئی معروف چہروں کو بھی متاثر کیا۔ خود روبی پیریز، جن کا کنسرٹ جاری تھا، جان کی بازی ہار گئے۔ وزارتِ ثقافت نے انہیں “ملک کے فن کی عظیم شخصیات” میں سے ایک قرار دیتے ہوئے ان کی یاد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بیس بال کے دو سابقہ مشہور کھلاڑی، آکٹاوے ڈوٹیل اور ٹونی بلانکو، بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں، جبکہ پبلک ورکس کے وزیر کا بیٹا بھی اس سانحے کا شکار ہو گیا۔ صدر لوئس ابیندر نے نہ صرف اس المیے پر قوم سے اظہارِ افسوس کیا بلکہ مونٹی کرسٹی میں متاثرہ گورنر اور معروف بیس بال کھلاڑی نیلسن کروز کی بہن کی آخری رسومات میں بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا، “ہم صرف اس کے نہیں، بلکہ اس عظیم المیے کے تمام متاثرین کے غم میں شریک ہیں۔” یہ سانحہ نہ صرف سینتو ڈومنگو بلکہ پورے ڈومینیکن ریپبلک کے لیے ایک کربناک یادگار بن گیا ہے، جس نے ہر دل کو دکھ اور ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ہے۔

21 سال بعد منافع: کیا پی آئی اے اپنے سنہری دور میں جا سکتی ہے؟

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) نے مالی سال 2024 کے سالانہ نتائج جاری کر دیے ہیں، جنہیں پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ ان نتائج کے مطابق، قومی ایئرلائن نے 21 سال کے طویل وقفے کے بعد خالص منافع حاصل کیا ہے، جو ادارے کے لیے ایک تاریخی اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے نے رواں سال 3.9 ارب روپے کا آپریشنل منافع حاصل کیا، جبکہ خالص یا نیٹ منافع 2.26 ارب روپے رہا۔ مالی کارکردگی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی آئی اے کا آپریٹنگ مارجن 12 فیصد سے تجاوز کر گیا، جو کہ عالمی سطح پر بہترین سمجھی جانے والی ایئرلائنز کی کارکردگی کے ہم پلہ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی آئی اے نے آخری مرتبہ منافع سال 2003 میں حاصل کیا تھا، جس کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک ادارہ مسلسل خسارے کا شکار رہا۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت پاکستان کی سرپرستی میں پی آئی اے میں متعدد جامع اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ ان اصلاحات کے تحت پی آئی اے کی افرادی قوت اور غیر ضروری اخراجات میں واضح کمی کی گئی، منافع بخش روٹس کو مستحکم کیا گیا، نقصان دہ روٹس بند کر دیے گئے، اور ادارے کی بیلنس شیٹ کو ریسٹرکچر کیا گیا۔ ان اقدامات کا مقصد ادارے کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانا اور اسے دوبارہ خود انحصار ادارہ بنانا تھا۔ پی آئی اے کے دوبارہ منافع بخش ادارہ بننے سے نہ صرف اس کی ساکھ میں نمایاں بہتری آئے گی بلکہ یہ ملک کی معیشت کے لیے بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کامیابی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی یہ اعلیٰ مالیاتی کارکردگی نجکاری کے عمل میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پی آئی اے کو ایک جدید، منافع بخش اور عالمی معیار کی ایئرلائن بنانے کے عزم پر قائم ہے، اور یہ حالیہ نتائج اس عزم کی عملی مثال ہیں۔

آئین میں مسلسل تبدیلیاں: کب آئین کو مستقل تسلیم کیا جائے گا؟

پاکستان کے آئین میں مسلسل تبدیلیاں ایک حقیقت بن چکی ہیں۔ پاکستان کے جمہوری سفر کی بنیاد سمجھے جانے والے  1973 کے آئین نے ملک کو ایک واضح قانونی اور سیاسی فریم ورک فراہم کیا۔ لیکن اس میں بار بار کی جانے والی ترامیم نے اس کی پائیداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں پہلی بڑی تبدیلی 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ہوئی، جب 1973 کے آئین کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ایک نیا آئینی فریم ورک متعارف کرایا گیا۔ ضیاء الحق کی حکومت کے بعد، 1990 کی دہائی میں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران کئی بار آئین میں ترمیم کی گئی۔ ان تبدیلیوں کا مقصد حکومتی استحکام کو برقرار رکھنا اور مختلف سیاسی بحرانوں سے نمٹنا تھا۔ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی سیاست پر نمایاں رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئین میں بار بار تبدیلیاں ملک کی جمہوریت کی پختگی کی طرف نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا تھا کہ “پاکستان میں آئین میں بار بار کی جانے والی تبدیلیوں کا ملک کی سیاسی استحکام پر گہرا اثر پڑا ہے۔ آئین کی مستقل مزاجی کسی بھی ریاستی نظام کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگر اس میں بار بار ترامیم کی جائیں تو اداروں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام اعتماد کی کمی کا شکار ہوتی ہے بلکہ سیاسی کشمکش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔” پاکستان میں آئینی ترامیم کا عمل سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تابع رہا ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترامیم کیں، تو کبھی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اسی طرح کی سیاست کی۔ اس کے باوجود، عوام میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آئین میں کی جانے والی یہ ترامیم کیا واقعی ملک کے مفاد میں ہوتی ہیں؟ یا پھر یہ سیاسی جماعتوں کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں؟ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ “پاکستان میں آئینی ترامیم وقتی سیاسی مفادات کے لیے کی جاتی ہے اور یہ عمل ملک میں جمہوریت کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ اگر ترامیم عوامی فلاح کے لیے کی جائیں تو یہ جمہوریت کو مضبوط کرتی ہیں۔ لیکن ذاتی یا کسی خاص جماعت کے مفاد پر مبنی ترامیم ملکی اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں۔” پاکستان میں آئینی ترامیم کے معاملے میں عدلیہ کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں جب آئین میں کچھ ترامیم کی گئیں تو ان ترامیم کو عدلیہ نے چیلنج کیا تھا اور کئی بار عدالتوں نے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس کے بعد 2000 کی دہائی میں جب جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترامیم کیں تو اس کا بھی عدلیہ پر گہرا اثر پڑا۔ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان نے اس معاملے پر کہا کہ “عدلیہ کا آئینی ترامیم پر نظرثانی کا اختیار جمہوری عمل کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ جب عدلیہ غیر جانبدارانہ انداز میں ترامیم کا جائزہ لیتی ہے تو یہ آئینی اقدار اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ تاہم عدالتی مداخلت اگر سیاسی رنگ اختیار کرے تو یہ خود جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔” پاکستان کے عوام ہمیشہ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ جب بھی آئین میں کوئی بڑی ترمیم کی جاتی ہے، تو اس پر مختلف رائے سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگ اسے حکومت کی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں زیادہ تر آئینی ترامیم مخصوص سیاسی حالات اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کے لیے کی گئی ہیں۔ عوامی مفاد کے نام پر ترامیم کی جاتی ہیں لیکن اصل مقصد اکثر اقتدار کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ آئین کی روح کے مطابق ترامیم کا مقصد صرف اور صرف عوامی فلاح ہونا چاہیے جس کا پاکستان میں شدت سے فقدان نظر آتا ہے۔” پاکستان میں آئین کی مستقل حیثیت کو ہمیشہ ایک سوالیہ نشان کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ کئی بار آئین کو معطل کیا گیا، اور اس کی جگہ عارضی آئین یا مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ 1973 کے آئین کو ایک مستحکم اور مستقل آئین کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، مگر بار بار اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ایڈوکیٹ لاہور ہائیکورٹ جعفر جمال نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ “پاکستان میں مستقل اور مستحکم آئین کے حصول کے لیے ہمیں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اتفاق رائے نہ صرف آئین میں کی جانے والی ترامیم کے حوالے سے ہونا چاہیے، بلکہ اس کے نفاذ کے عمل میں بھی ضروری ہے۔ آئین کی مستقل حیثیت کے حصول کے لیے تمام اداروں کو آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔” آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو کتنا اہمیت دی جانی چاہیے؟ کیا آئین میں تبدیلیاں عوام کی خواہشات کے مطابق کی جانی چاہئیں یا سیاسی جماعتوں کے مفاد کے مطابق ہونی چاہیے؟ ان سوالات ک جواب میں ماہر قانون ایڈووکیٹ جعفر جمال نے کہا کہ “ملک میں آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ عوامی حمایت اور مشاورت کے بغیر کی جانے والی ترامیم جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی رائے کے مطابق آئین میں تبدیلیاں کرنے سے جمہوریت کا استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔” پاکستان میں آئینی ترامیم ملکی ترقی پر بھی کسی حد تک اثر ڈالتی ہیں۔ آئین میں کی جانے والی تبدیلیاں اقتصادی ترقی کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور نقصان دہ بھی۔ ایڈووکیٹ جمال جعفر کے مطابق “آئینی ترامیم کا اثر ملک کی ترقی پر مختلف طریقوں سے پڑتا ہے۔ اگر یہ ترامیم حکومتی اداروں کے درمیان طاقت کی تقسیم کو