پشاور زلمی نے ماہرہ خان کے بعد جنت مرزا کو سوشل میڈیا ایمبیسیڈر مقرر کر دیا

پشاور زلمی نے پاکستان سپر لیگ کے دسویں ایڈیشن کے آغاز سے قبل ایک اور اہم اعلان کرتے ہوئے معروف ٹک ٹاکر جنت مرزا کو ٹیم کا آفیشل سوشل میڈیا ایمبیسیڈر مقرر کر دیا ہے۔ یہ اعلان ٹیم کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کیا گیا، جس کے مطابق جنت مرزا پی ایس ایل 10 کے دوران زلمی کی ڈیجیٹل اور آن لائن مہمات کا حصہ بنیں گی۔ جنت مرزا پاکستان کی سب سے زیادہ فالو کی جانے والی سوشل میڈیا شخصیات میں شمار ہوتی ہیں، اور ان کی شمولیت کا مقصد نوجوانوں میں ٹیم کی مقبولیت کو مزید بڑھانا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر مداحوں سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ پشاور زلمی نے اس سے قبل عالمی شہرت یافتہ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کو ٹیم کا برانڈ ایمبیسیڈر مقرر کیا ہے، جس سے ٹیم کی نمائندگی میں اسٹائل شامل ہوا ہے۔یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل سیزن 10: کون سا میچ کب اور کہاں ہو گا پی ایس ایل کا دسویں ایڈیشن، جسے پی ایس ایل ایکس کے نام سے جانا جا رہا ہے، 11 اپریل سے 18 مئی تک جاری رہے گا۔ ٹورنامنٹ کا افتتاح راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے درمیان میچ سے ہوگا۔ اس سے پہلے شاندار افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جو لیگ کے اس تاریخی ایڈیشن کا آغاز کرے گی۔ مجموعی طور پر 34 میچ کھیلے جائیں گے، جن میں تین ڈبل ہیڈرز 12 اپریل، 1 مئی اور 10 مئی کو ہوں گے۔ بقیہ میچ کراچی، لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں سنگل ہیڈرز کی صورت میں ہوں گے۔ شام کے میچز رات 8 بجے جبکہ سہ پہر کے میچز شام 4 بجے شروع ہوں گے۔ یہ سیزن نہ صرف میدان میں بلکہ میدان کے باہر بھی مداحوں کو تفریح فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، اور ٹیموں کی جانب سے ڈیجیٹل سطح پر کی جانے والی کوششیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ پی ایس ایل صرف ایک کرکٹ ٹورنامنٹ نہیں بلکہ ایک مکمل ایونٹ بن چکا ہے۔

پی ایس ایل کے دسویں ایڈیشن میں مختلف کیا ہے؟

پاکستان سپر لیگ کا دسواں ایڈیشن آج سے کراچی میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ تمام ٹیمیں گراؤنڈ میں اپنے جوہر دکھانے کو تیار ہیں۔ اس مرتبہ پی ایس ایل 10 کو شائقین کے لیے مزید پرکشش بنانے کے لیے کئی دلچسپ اقدامات کیے گئے ہیں۔ ہر میچ میں مکمل اردو کمنٹری کا آغاز، میچز کے دوران ریفل ٹکٹ کے ذریعے انعامات، اور پلیئر ٹریکنگ ٹیکنالوجی جیسی جدتیں شامل ہیں۔ کمنٹری ٹیم میں عالمی کرکٹ کے نمایاں نام، جیسے سر الیسٹر کک اور مارک نکولس بھی شامل ہیں۔ ایونٹ کو 32 کیمروں اور جدید ٹیکنالوجی سے کور کیا جائے گا، اور دنیا بھر کے شائقین مختلف چینلز اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر میچز دیکھ سکیں گے۔ ٹیموں کے کپتانوں نے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ شاداب خان نے کہا کہ وہ شائقین کے سامنے بہترین کھیل پیش کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی نے لاہور قلندرز کی کھلاڑیوں کی تیاری کے مشن پر زور دیا۔ محمد رضوان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل اب ہر پاکستانی خاندان کا حصہ بن چکی ہے۔ مزید پڑھیں: پی ایس ایل سیزن 10: کون سا میچ کب اور کہاں ہو گا سعود شکیل نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی واپسی کے عزم کا اظہار کیا، جبکہ بابراعظم نے گزشتہ غلطیوں سے سیکھنے اور مضبوط کارکردگی دکھانے کا عہد کیا۔ حسن علی نے کراچی کنگز کی جارحانہ حکمت عملی کی طرف اشارہ کیا، خاص طور پر پاور پلے میں۔ پشاور زلمی کے کپتان بابراعظم کا کہنا ہے کہ اس سیزن میں ہم اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ ہم نے پچھلے دو ایڈیشنز میں کیا کھویا اور انہی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔ ہم نے بولنگ اور بیٹنگ دونوں شعبوں میں اپنا مرکز مضبوط کیا ہے تاکہ ہم کھیل کے کسی بھی مرحلے پر جدوجہد نہ کریں۔ کراچی کنگز کے نائب کپتان حسن علی کا کہنا ہے کہ کراچی کنگز نے اپنی بیٹنگ میں فائر پاور لانے کے لیے اپنا کمبینیشن تبدیل کیا ہے اور ہم ابتدا ہی سے جارحانہ انداز میں کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ پاور پلے آپ کے جیتنے کے امکانات کو بڑھانے کی کلید ہے۔

ہم چاہتے ہیں عوام کو ریلیف ملے، مگر آئی ایم ایف کا اعتماد ضروری ہے، وزیر خزانہ

مہنگائی کی چکی میں پس رہی عوام کے لئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نہ صرف بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کی کوشش کر رہی ہے بلکہ تنخواہ دار طبقے کے لیے بھی ایک جامع ریلیف پیکج تیار کر لیا گیا ہے جو آئندہ وفاقی بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔ نجی نشریاتی چینل سے انٹرویو کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ عوامی ریلیف کے لیے بڑے فیصلے حتمی مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلتا رہا تو جولائی سے پہلے ہی بجلی کے بلوں میں کمی محسوس کی جا سکے گی۔  انہوں نے مزید کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ عام آدمی کو بجٹ سے پہلے ہی کچھ ریلیف ملے۔” تاہم وزیر موصوف نے واضح کیا کہ اس پیکج کی تفصیلات فی الحال عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات کے بعد ہی عام کی جائیں گی۔  انہوں نے کہا کہ “آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینا ضروری ہے تاکہ معاشی نظم و ضبط برقرار رکھا جا سکے۔” یہ بھی پڑھیں: دہشت گردوں کا منصوبہ ناکام: کراچی کی PAF مسرور ایئربیس تباہی سے بال بال بچ گئی ذرائع کے مطابق سرکاری و نجی شعبے نے اب تک بجٹ سے متعلق 98 فیصد تجاویز حکومت کو جمع کرا دی ہیں جن پر وزارت خزانہ کی ٹیم نہایت سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔  وزیر خزانہ نے یقین دہانی کروائی کہ جن سفارشات کو بجٹ میں شامل کیا جائے گا ان کے متعلق تمام متعلقہ فریقین کو پیشگی اطلاع دی جائے گی اور جن تجاویز کو شامل نہ کیا جا سکے اور ان کی وجوہات بھی وضاحت کے ساتھ بیان کی جائیں گی۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ “یکم جولائی سے بجٹ مکمل طور پر نافذ العمل ہو جائے گا اور بعد ازاں کسی قسم کی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جائے گی تاکہ بروقت اور مؤثر عمل درآمد ممکن ہو سکے۔” آئی ایم ایف کے ساتھ جاری معاملات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ مئی تک اسٹاف لیول معاہدے کو ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری مل جائے گی۔  ان کا کہنا تھا کہ تمام طے شدہ اہداف چاہے کچھ دیر سے ہی سہی، مکمل کر لیے گئے ہیں۔ لازمی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں تعلیم سے محروم بچوں کے لیے داخلہ مہم پر غور تاجر برادری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکس وصولی میں بہتری آئی ہے اور تاجر دوست اسکیم کو ٹیکس کے اہداف سے مشروط نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ وزارت خزانہ کے تحت رواں سال کے آخر تک “ٹیکس پالیسی ڈویژن” قائم کیا جائے گا تاکہ پالیسی اور عملدرآمد میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اب ایک ایسا آسان فارم متعارف کروایا جا رہا ہے، جسے ہر ٹیکس دہندہ خود بخود بغیر کسی مدد کے ادا کرسکے گا۔ یہ خبریں اس بات کی علامت ہیں کہ حکومت عوامی مفادات کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ معاشی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والا بجٹ صرف وعدوں کا مجموعہ ہوگا یا واقعی ایک “خوشحال پاکستان” کی بنیاد رکھے گا۔مزید پڑھیں: نیپرا نے بجلی ایک روپے 71 پیسے سستی کرنے کی منظوری دے دی

تعلیم میں ٹیکنالوجی کی دھوم: مصنوعی ذہانت کی حیران کن خدمات

آج کا دور تیز رفتار ترقی کا ہے جہاں ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں کردار مصنوعی ذہانت کا ہے، جو نہ صرف صنعتی میدانوں میں انقلاب لا رہی ہے بلکہ تعلیم جیسے نازک اور اہم شعبے میں بھی نئے امکانات کے دروازے کھول رہی ہے۔ اے آئی کی مدد سے اب تدریس کا عمل زیادہ مؤثر، دلچسپ اور سیکھنے والوں کی انفرادی ضروریات کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ اساتذہ کی معاونت ہو، طالب علموں کی رہنمائی، یا تعلیمی مواد کی تیاری، مصنوعی ذہانت ہر قدم پر مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ یہ تمہید اس بات کا اظہار ہے کہ کس طرح اے آئی تدریس کے روایتی انداز کو جدید خطوط پر استوار کر رہی ہے اور علم کی دنیا میں نئی جہتیں متعارف کرا رہی ہے۔

 ہرڈ اور میکڈونلڈ جزائر: جہاں انسان ناپید، مگر امریکی ٹیکس پہنچ گئے

دنیا کے نقشے پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں نہ کوئی بازار ہے نہ بندرگاہ اور نہ ہی کوئی رہائشی آبادی، مگر امریکی تجارتی پابندیاں وہاں بھی پہنچ گئیں۔ آسٹریلیا کے جنوب مغرب میں 4,000 کلومیٹر دور برف سے ڈھکے، آتش فشانی سرزمین پر مشتمل ‘ہیئرڈ اور میکڈونلڈ جزائر’ بھی حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لگائے گئے تجارتی محصولات (ٹیرِفز) کی زد آگیا۔ جب یہ خبر سامنے آئی کہ ان غیرآباد، سنسان اور سرد ترین جزائر کو بھی امریکی محصولات کا سامنا ہے تو سوشل میڈیا پر مزاحیہ میمز کی بھرمار ہو گئی۔  خاص طور پر جزائر کے سب سے مشہور مکین ‘کنگ پینگوئنز’ کے تصویری خاکے دنیا بھر میں وائرل ہو گئے۔ مگر سائنسدان کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان برفانی جزیروں پر صرف پینگوئنز نہیں بستے بلکہ یہاں ایک ایسی نایاب حیاتیاتی دنیا چھپی ہوئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ یہ جزائر کسی فلمی مناظر کا حصہ لگتے ہیں، چوٹیوں پر برف، نیچے شور مچاتی لہریں، برفانی تودے اور ہر طرف خاموشی میں چیختی ہوئی ہوا۔ محقیقہ ڈاکٹر جسٹین شا جو 2003 میں یہاں دو ماہ تک قیام کر چکی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ “یہ زمین کا دنیا کا وہ کونہ ہے جہاں انسانی نشان نہیں ملتے، یہاں نہ کوئی بندرگاہ ہے نہ ہوائی پٹی۔ ہم وہاں ربڑ کی کشتیوں میں اترے۔ یہ تجربہ کسی سائنس فکشن فلم سے کم نہ تھا۔” جزائر پر موجود ایک پرانا تحقیقی مرکز جو 1955 میں چھوڑ دیا گیا تھا وہ آج صرف ٹوٹی پھوٹی لکڑی اور زنگ آلود دھاتوں کی صورت میں موجود ہے جو ہر پل یہاں کے کٹھور موسم کی مار سہہ رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں شدید بارشیں: مختلف ریاستوں میں 100 افراد ہلاک ہوگئے میرین ایکولوجسٹ اینڈریو کانسٹیبل 2004 میں 40 دنوں کی ایک سائنسی مہم کی قیادت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “نو دن تک ہمارا جہاز سمندر کے طوفانوں میں ہچکولے کھاتا رہا۔ دس میٹر اونچی لہریں تھیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔” مگر جب ساحل تک رسائی ملی تو جو کچھ اُنہوں نے دیکھا وہ حیرت انگیز تھا۔ انہوں نے بتایا کہ “ہزاروں پینگوئنز، ہاتھی نما سمندری مہر، رنگ برنگے پرندے اور پگھلتے گلیشیئرز کی گونج تھی۔” یہ علاقہ ماہرین کے لیے قدرت کی آخری “لیب” جیسا ہے جہاں نہ انسانی مداخلت ہے، نہ آلودگی، صرف فطرت اپنے اصل روپ میں ہے۔ ماہرین حیران ہیں کہ آخر ان بےآباد جزیروں پر ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا سایہ کیوں پڑا؟ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ ممالک ان دور افتادہ علاقوں کو بطور “ری ایکسپورٹ زون” استعمال کرنا چاہتے ہوں تاکہ امریکی محصولات سے بچا جا سکے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایسی کوئی تجارتی سرگرمی ممکن ہی نہیں۔ یہ زمین کا وہ حصہ ہے جہاں “دنیا کو جوں کا توں” دیکھنے کا موقع ملتا ہے، جہاں ہر قدم فطرت کے راز کھولتا ہے اور ہر منظر حیران کر دیتا ہے۔ مزید پڑھیں: سیاحت کے لیے آئے ہسپانوی خاندان کا ہیلی کاپٹر نیویارک میں گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک

انڈیا میں شدید بارشیں: مختلف ریاستوں میں 100 افراد ہلاک ہوگئے

انڈیا اور نیپال میں شدید بارشوں اور بدلتے موسم کے باعث خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے، جس میں بدھ سے اب تک تقریباً 100 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں مزید غیر متوقع بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، جس سے عوامی تحفظ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انڈین ریاست بہار میں، جہاں بارش سے جڑے حادثات جیسے بجلی گرنا، دیواریں گرنا اور پانی میں بہہ جانے کے واقعات پیش آئے، کم از کم 64 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتر پردیش میں مقامی میڈیا کے مطابق 20 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موسمیاتی محکمہ نے مغربی علاقوں میں شدید گرمی کی وارننگ جاری کی ہے، جبکہ مشرقی اور وسطی علاقوں میں گرج چمک، تیز ہوا اور طوفانوں کے خطرات ہیں۔یہ بھی پڑھیں: ہسپانوی سیاحوں کا ہیلی کاپٹر نیویارک میں گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک ادھر نیپال میں بھی صورت حال خراب ہے۔ آسمانی بجلی گرنے اور طوفانی بارش کے باعث کم از کم آٹھ افراد جان بحق ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے مطابق کئی دیہی علاقوں میں نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں گرمی کی شدت میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہے گا، جو کہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں کے لیے تشویشناک ہے۔ یہ تمام واقعات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو واضح کرتے ہیں، جہاں ایک طرف جان لیوا گرمی ہے، تو دوسری طرف غیر متوقع اور خطرناک بارشوں نے انسانی زندگی اور بنیادی ڈھانچے کو شدید متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں حکومتی اداروں اور عوام دونوں کو مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔

ہسپانوی سیاحوں کا ہیلی کاپٹر نیویارک میں گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک

نیویارک کے دریائے ہڈسن میں سیاحتی ہیلی کاپٹر کا افسوسناک حادثہ ہوا، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حادثہ ایک بار پھر فضائی سیاحت میں حفاظت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔ حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک ہسپانوی خاندان، تین بچے، پائلٹ اور سیمنز کمپنی کے ایگزیکٹو آگسٹن ایسکوبار شامل ہیں۔ حادثے کی ویڈیو میں ہیلی کاپٹر کو دریا میں الٹا گرتے ہوئے دیکھا گیا۔ امدادی کشتیوں اور غوطہ خوروں نے فوری طور پر کارروائی کی، لیکن چار افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جبکہ دو زخمی بعد میں اسپتال میں دم توڑ گئے۔ یہ ہیلی کاپٹر، بیل 206 ماڈل، نیویارک ہیلی کاپٹر ٹورز کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ یہ تقریباً 3 بجے دن فلائٹ پر روانہ ہوا اور جارج واشنگٹن برج تک پہنچنے کے بعد نیچے کی سمت مڑتے ہی چند منٹوں میں دریا میں گر گیا۔ حادثے کے وقت ہیلی کاپٹر “اسپیشل فلائٹ رولز ایریا” میں تھا، جہاں ایئر ٹریفک کنٹرول فعال نہیں ہوتا۔یہ بھی پڑھیں: برطانیہ اور یوکرین کا تاریخی اجلاس: کیا عالمی رہنما امن کے راستے پر قدم بڑھائیں گے؟ یہ واقعہ نیویارک میں سیاحتی ہیلی کاپٹر سروسز کے بڑھتے ہوئے رجحان اور حفاظتی اقدامات کی کمی پر توجہ مبذول کراتا ہے۔ شہر کے گرد درجنوں ہیلی کاپٹرز روزانہ سینکڑوں سیاحوں کو فضائی نظارے فراہم کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ حادثے کی مکمل تحقیقات فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن اور نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کریں گے، جس کی قیادت NTSB کے پاس ہوگی۔ یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے غم کی گھڑی ہے بلکہ نیویارک میں سیاحتی پروازوں کی نگرانی اور پالیسیوں پر نظرثانی کی بھی اشد ضرورت ظاہر کرتا ہے۔

دہشت گردوں کا منصوبہ ناکام: کراچی کی PAF مسرور ایئربیس تباہی سے بال بال بچ گئی

پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی نے دہشت گردی کا ایک منصوبہ ناکام بنا دیا ہے جو اگر کامیاب ہو جاتا تو کراچی کے دل میں قیامت برپا ہو سکتی تھی۔  مسلح حملہ آوروں کا ہدف ملک کی سب سے اسٹریٹیجک ایئربیس PAF مسرور تھی لیکن بروقت کارروائی نے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ ذرائع کے مطابق یہ انتہائی پیچیدہ اور خطرناک منصوبہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ “فتنہ الخوارج” (FAK) کے ایک مرکزی کمانڈر نے تیار کیا تھا۔  وہ کمانڈر نہ صرف خودکش حملہ آوروں کا ماسٹر مائنڈ ہے بلکہ ماضی میں کئی ہائی پروفائل حملوں میں بھی مطلوب رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملے، مزید 35 افراد شہید حملے کی منصوبہ بندی تیرہ ماہ سے جاری تھی، دہشت گردوں کی ایک نو رکنی ٹیم جس میں پانچ افغان شہری بھی شامل تھے، وہ لوگ افغانستان سے پاکستان داخل ہوئے اور انہوں نے ایئربیس کے قریب ایک رہائشی علاقے میں خفیہ ٹھکانے بنائے جبکہ کئی ہفتوں تک ایئربیس کی نگرانی بھی کرتے رہے۔ ان کا مقصد تھا کہ ایئربیس کے ایک پہلے سے شناخت شدہ مقام سے داخل ہو کر جہازوں کو تباہ کریں، انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچائیں، اور زیادہ سے زیادہ دیر تک ایئربیس پر قابض رہیں۔  منصوبے کے مطابق یہ حملہ آور آخری سانس تک لڑنے اور شہادت کی نیت سے آئے تھے۔ لیکن پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی کی عقابی نگاہیں ان کے ہر قدم پر تھیں، ایک طویل اور خفیہ نگرانی کے بعد جب دہشت گرد حتمی کارروائی کے لیے حرکت میں آئے تو ایجنسی نے فوری خفیہ اور مربوط آپریشن کے ذریعے ان تمام افراد کو مختلف شہروں سے گرفتار کر لیا۔ اس آپریشن سے نہ صرف ایک بڑی تباہی کو روکا گیا بلکہ فتنہ الخوارج کے ایک اہم نیٹ ورک کو بھی توڑ کر رکھ دیا۔  یاد رہے کہ یہ وہی نیٹ ورک ہے جو نومبر 2024 میں کراچی کے سائٹ ایریا میں چینی انجینئروں پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا۔ گرفتار ہونے والا مرکزی کمانڈر وہی شخص ہے جس نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور بعد ازاں افغانستان فرار ہو گیا تھا۔  ذرائع کے مطابق یہ شخص بارودی سرنگوں (IEDs) کا ماہر ہے اور افغان طالبان کے ساتھ نیٹو اور ISAF کے خلاف جنگ میں شامل رہا ہے۔ ابتدائی تفتیش یہ بتاتی ہے کہ اس سازش کے پیچھے صرف دہشت گرد گروہ ہی نہیں بلکہ کچھ دشمن خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی منظم کوششیں کر رہی ہیں۔  گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک بین الاقوامی ایونٹ پر بھی ایسا ہی منصوبہ ناکام بنایا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز انٹیلیجنس ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر لمحہ چوکس اور مستعد ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی لیکن قوم کا عزم مضبوط ہے اور دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کا جذبہ برقرار ہے۔مزید پڑھیں: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ

پاناما کی بندرگاہیں امریکا کے سپرد: کینال کے گرد فوجی گھیرا، کیا پاناما بھی دوسرا عراق بننے جا رہا ہے؟

پاناما ایک بار پھر امریکا کی توجہ کا مرکز، ایک بار پھر متنازعہ معاہدہ اور ایک بار پھر وہی سوال، کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ امریکا اور پاناما کے درمیان حال ہی میں طے پانے والے ایک نئے سیکیورٹی معاہدے نے خطے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔  اس معاہدے کے تحت امریکی فوجی اہلکار اب پاناما کینال کے گرد موجود متعدد فوجی اڈوں پر نہ صرف تربیتی مشقیں کر سکیں گے بلکہ دیگر “غیر متعین سرگرمیوں” کے لیے بھی تعینات ہو سکیں گے۔ یہ معاہدہ بظاہر تو بے ضرر معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اثرات غیرمعمولی حد تک گہرے ہو سکتے ہیں۔ جب امریکی وزیر دفاع ‘پیٹ ہیگستھ’ پاناما کے دورے پر پہنچے تو صدر ‘جوس راؤل ملینو’ نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ“اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں آگ لگ جائے تو مستقل امریکی اڈے بنا لیجیے۔” یہ جملہ محض جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے وہ تاریخی تلخیاں چھپی ہیں جو پاناما کے سینے پر آج بھی داغ کی مانند موجود ہیں۔ 1989 میں امریکی حملہ، مانویل نوریگا کی معزولی اور سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت۔ یہ سب واقعات آج بھی پاناما کہ شہریوں کے ذہن میں تازہ ہیں، حالانکہ نئی ڈیل میں امریکا کو مستقل فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن “غیر معینہ مدت تک فوجی موجودگی” کی شق نے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ، جو رواں برس دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں وہ بارہا چین کی پاناما میں بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں پر تنقید کر چکے ہیں۔  ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ چین نے پاناما کینال جیسے “اثاثے” پر غیرمعمولی اثر قائم کر لیا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے نہ صرف سیکیورٹی ڈیل پر زور دیا بلکہ چین کی بندرگاہی کمپنی “پاناما پورٹس کمپنی” پر دباؤ ڈال کر اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چینی کمپنی کی جگہ اب ایک امریکی سرمایہ کاری ادارہ، بلیک راک لے رہا ہے جس نے 19 ارب ڈالر میں دنیا بھر کے 43 بندرگاہی اثاثے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جن میں پاناما کی دو بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔ بیجنگ نے اس پیش رفت پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس سودے کی اینٹی ٹرسٹ تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ یعنی صرف پاناما ہی نہیں اب یہ معاملہ عالمی سطح پر امریکا اور چین کے درمیان ایک نئے سفارتی محاذ کا آغاز بن چکا ہے۔ پاناما کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور بینرز پر لکھا ہے کہ “یہ کینال ہماری ہے کسی کا ذاتی اسلحہ خانہ نہیں۔” سیاسی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا اپنی عسکری موجودگی کو بڑھانے پر اصرار کرتا ہے تو یہ معاہدہ نہ صرف خطے میں بے چینی کا باعث بنے گا بلکہ پاناما کی اندرونی سیاست کو بھی عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گا۔مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایران پر معاشی پابندی: دبئی میں بیٹھا انڈین شہری امریکا کے نشانے پر

مسجد کے حجرے سے کوچنگ سینٹر کے کمرے تک، آنکھ کھلی رکھنی ہوگی

چار سالہ علی کو اب رنگوں سے ڈر لگتا ہے۔ وہ جب بھی اپنی کاپی پر رنگ بھرنے بیٹھتا ہے تو اس کی چھوٹی سی انگلیاں کانپنے لگتی ہیں۔ اس کی ماں، شمیم بی بی، جب اسے گود میں بٹھا کر پیار کرنا چاہتی ہیں تو وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ لاہور کے ایک متوسط علاقے میں رہنے والا علی ان ہزاروں بچوں میں سے ایک ہے جو جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ لیکن علی کے چہرے پر لکھی یہ دردناک کہانی معاشرے کی آنکھوں سے اکثر اوجھل رہتی ہے۔ ہر سال 18 نومبر کو بچوں کے جنسی استحصال کے خاتمے کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم ایک دن موم بتیاں جلا کر تصویریں کھینچیں، بلکہ اصل مقصد ان خاموش چیخوں کو آواز دینا ہے جو اکثر دیواروں کے پیچھے، بند کمروں میں دب جاتی ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز کی تعداد حیران کن ہے۔ NGO ساحل کی رپورٹ کے مطابق صرف 2023 میں 4000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف “آئس برگ کا سرا” ہے۔ زیادہ تر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ وجہ؟ خوف، شرمندگی، اور سب سے بڑھ کر، “کیا کہیں گے لوگ؟” پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کراچی کے سوشل ورکر اور بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے عمران شہزاد بتاتے ہیں، “اکثر والدین کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ کسی اذیت سے گزر رہا ہے۔ بچہ جب خاموش ہو جائے، باتیں کرنے سے گریز کرے، یا اچانک رویے میں تبدیلی آئے، تو یہ علامات ہوتی ہیں جنہیں ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔” لیکن کیا صرف آگاہی کافی ہے؟ ہم بطور معاشرہ کب یہ سمجھیں گے کہ بچے صرف جسمانی طور پر نہیں، بلکہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں؟ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے پشاور کی رہائشی طیبہ نور جو خود بچپن میں ایسے ہی ایک واقعے سے گزری ہیں، کہتی ہیں، “مجھے کئی سال لگے یہ سمجھنے میں کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اس نے میری شخصیت بدل دی۔ میں اعتماد کھو بیٹھی۔ لیکن سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب میں نے اپنی ماں کو بتایا، تو انہوں نے کہا خاموش رہو، خاندان کی عزت کا سوال ہے۔” یہی وہ رویہ ہے جو مجرموں کو مزید طاقت دیتا ہے۔ اگر ہم بچوں کی بات سننے کو تیار نہیں، تو وہ کس پر بھروسہ کریں گے؟ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے ماہر اور معروف وکیل آصف محمود کے مطابق، پاکستان میں موجود قوانین جیسے کہ “زینب الرٹ بل 2020” اور “تحفظِ اطفال ایکٹ 2016” ایک اچھی شروعات ضرور ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم نے قانون تو بنا لیا، مگر زمین پر پولیس کو نہ ٹریننگ ہے، نہ وسائل۔ کئی دفعہ تو ایف آئی آر درج کروانا بھی پہاڑ چڑھنے جیسا مشکل ہوتا ہے۔” میڈیا، اسکول، والدین اور حکومت؛ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول مہیا کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں سے متعلق گفتگو کو شرم، حیا اور غیرت کے پردے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے بول نہیں پاتے، اور مجرم آزاد گھومتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے لاہور کی ایک پرائمری اسکول ٹیچر مہرین فاطمہ کہتی ہیں، “ہم نے اب اپنے اسکول میں ’سیفٹی ایجوکیشن‘ کے نام سے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے ایکپاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے چھوٹا پروگرام شروع کیا ہے۔ بچوں کو ان کے جسم کی حدود، ’گڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ کچھ والدین اسے پسند نہیں کرتے، مگر وقت آ گیا ہے کہ ہم بچوں کو ان کے حقوق سکھائیں۔” مسئلہ صرف دیہات یا کم پڑھے لکھے علاقوں تک محدود نہیں۔ شہروں میں، بڑے بڑے گھروں اور اسکولوں میں بھی یہ درندے موجود ہیں۔ اور زیادہ تر کیسز میں جاننے والا، قریبی رشتہ دار یا پڑوسی ملوث ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے عدالتی نظام میں بچوں کو انصاف ملتا ہے؟ بدقسمتی سے نہیں۔ اکثر مقدمات سالوں تک چلتے ہیں، اور جب تک فیصلہ آتا ہے، متاثرہ بچہ عمر کے اُس حصے میں پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں وہ ماضی کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، لیکن عدالتی کاروائی اسے بار بار اس واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور بچوں پر تحقیق کرنے والے مبشر شاہ کہتے ہیں، “ہمیں ایک ایسا نظام بنانا ہو گا جو بچے کی حفاظت کو مقدم سمجھے۔ اسکولوں میں کونسلنگ لازمی ہونی چاہیے، اور میڈیا پر بچوں کے استحصال کے موضوعات پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ جب تک ہم خاموش رہیں گے، تب تک علی جیسے ہزاروں بچے خاموشی سے اپنی معصومیت کھوتے رہیں گے۔” یہ عالمی دن صرف ایک یاد دہانی ہے، ایک کال ہے ہم سب کے ضمیر کے لیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محفوظ ہوں، تو ہمیں ان کی آواز بننا ہو گا۔ گھر کے دروازے کے اندر، اسکول کی دیواروں کے بیچ، مسجد کے حجرے سے لے کر کوچنگ سینٹر کے کمرے تک، ہر جگہ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ علی اب بھی رنگوں سے ڈرتا ہے، مگر اس کی ماں نے اب ہمت پکڑ لی ہے۔ وہ اب ہر میٹنگ میں، ہر تقریب میں، یہ بات ضرور کہتی ہیں، “ہم نے پہلے دیر کر دی، آپ نہ کریں۔ اپنے بچوں سے بات کریں۔ ان کی خاموشی کو سمجھیں۔” شاید یہی پہلا قدم ہے ایک محفوظ مستقبل کی طرف۔ جہاں بچپن صرف گڑیا، گاڑی اور کہانیوں کی دنیا تک محدود ہو، نہ کہ ایسی یادوں سے بھرا ہو جنہیں کوئی بھی یاد نہیں رکھنا چاہتا۔ اگر ہم نے آج ان بچوں کے لیے آواز نہ اٹھائی، تو کل کو ہمیں خود اپنی خاموشی کا حساب دینا پڑے گا۔