حادثات پر حادثات: کراچی کی ہیوی ٹریفک شہریوں کے لیے موت کا پروانہ بن گئی

ڈمپرز اور ہیوی ٹریفک کراچی والوں کے لیے موت کا پروانہ لیے سڑکوں پر دنداتے پھرتے ہیں۔ شہر میں ہیوی ٹریفک کے حادثات اور ان میں انسانی جانوں کی ہلاکت کا معاملہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ گذشتہ ماہ ملیر ہالٹ کے مقام پر ایک اندودہناک حادثہ پیش آیا تھا جس میں 26 سالہ نوجوان اپنی حاملہ بیوی کے ہمراہ ٹینکر کی ٹکر سے جاں بحق ہوگیا تھا۔ اس حادثے کے نتیجے میں نومولود کی پیدائش سڑک پر ہوئی تھی وہ کلی بن کھلے ہی مرجھا گئی تھی۔ حادثے کی ویڈیو کلپس نے ہر دل کو دہلا دیا تھا۔ عوام اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان واقعات کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا اور پولیس سے ہیوی ٹریفک کے متعلق قوانین پر عمل در آمد کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ہیوی ٹریفک کے باعث ہونے والے حادثات کی روک تھام اور قانون پر عمل کروانا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے مگر اب کراچی میں یہ حادثات لسانی فساد کا رنگ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال بدھ کو رات گئے نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگی پر ہونے والا واقعہ ہے جس میں 8 سے زائد ٹینکرز اور ڈمپرز کو آگ لگادی گئی۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کی رات ایک نوجوان ڈمپر کی ٹکر سے شدید زخمی ہوگیا جس کے رد عمل میں لوگوں نے سڑک پر چلنے والے مختلف ہیوی ٹریفک کو نذر آتش کردیا۔ پولیس اور انتظامیہ نے صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ عینی شاہدین کے مطابق عوام اتنی مشتعل تھی کہ نوجوان کے زخمی ہونے کے بعد سڑک سے گذرتی ہوئی ہر ہیوی ٹریفک کو روک کر آگ لگادی گئی۔ ایک ٹرک کے نذر آتش ہونے کے بعد شہر کی صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ سہراب گوٹھ کے مقام پر ہیوی ٹریفک ڈرائیورز نے سڑک بلاک کرکے احتجاج کیا۔ اس موقع پر آئل ٹینکر اینڈ ڈمپر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی لیاقت محسود مسلحہ افراد کے ساتھ اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ہوئے۔ حاجی لیاقت کا کہنا تھا کہ ہم قانون ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے مگر ہمیں مجبور کیا جارہا ہے اگر انتظامیہ ٹینکر جلانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی تو ہمیں بتائے ہم خود سارے معاملات حل کردیں گے۔ حاجی لیاقت 12 اپریل کو مہاجر قوقی مومنٹ حقیقی کے چئرمین آفاق احمد کی جانب سے ہیوی ٹریفک کے خلاف احتجاج کرنے کے خلاف 16 اپریل کو احتجاج کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر آفاق احمد کو احتجاج کرنے سے نہیں روکا گیا تم ہم بھی ملک گیر احتجاج کریں گے۔ کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی فیض اللہ خان نے حالیہ ہیوی ٹریفک حادثات پر پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں 80 کی دہائی کے لسانی فسادات کی جھلک دیکھائی دے رہی ہے جو کہ ایک طالبہ بشری زیدی کی تیز رفتار بس سے جاں بحق ہوجانے کے بعد پیش آئے تھے۔ چند گھنٹوں میں اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ہیوی ٹریفک کو آگ لگا دینا کسی منظم سازش کا خدشہ ظاہر کرتا ہے کیونکہ عوام کبھی اس طرح منظم انداز میں یہ کام کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے ایک آئل ٹینکر اور ڈمپر ایسوسی ایشن کا کیا تعلق بنتا ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے خلاف احتجاج کا اعلان کرے؟ میری مختلف ٹرک ڈرائیور سے بات ہوئی ہے وہ خود حاجی لیاقت کے اس احتجاجی کال کے بعد اپنے روزگار کے لیے فکر مند ہیں کہ ہمیں کیوں اس معاملے میں فریق بنایا جارہا ہے۔ آفاق احمد کی پوری سیاست مہاجروں کے نام پر ہے یہ بات درست ہے کہ انہیں کبھی بھی مہاجر ووٹرز کی بڑی حمایت حاصل نہیں رہی مگرایسا لگتا ہے کہ بانی ایم کیو ایم پر پابندی لگنے کے بعد جو خلا کراچی کی مہاجر سیاست میں پیدا ہوگیا ہے وہ پر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس معاملے پر صرف آواز اٹھاسکتی ہیں۔ ٹریفک قوانین پرعمل در آمد کو یقینی بنانا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے اب شہر میں لسانی فسادات کا خدشہ ہے، ٹریفک حادثات اور ان واقعات کی روک تھام خالصتاً انتظامی معاملہ ہے اور اس کو اسی طرح حل کرنا ضروری ہے۔ فیض اللہ خان کا کہنا تھا پولیس میں رشوت خوری کے معاملات کی وجہ سے ہیوی ٹریفک سڑکوں پر ٹائمنگ کے علاوہ بھی چلتا ہے یہ معاملہ جب تک رہے گا مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ٹریفک حادثات میں اہم چیز غیر مصدقہ خبروں کا سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہونا بھی ہے۔ حالیہ حادثے میں جو نوجوان زخمی ہوا اس کی حالت خطرے سے باہر تھی مگر سوشل میڈیا پر کسی خاتون کے ہلاک ہونے کی غلط خبر بھی چلائی گئی، ہیوی ٹریفک حادثے میں 12 اور 25 افراد کے زخمی ہونے کی بے بنیاد خبروں کی وجہ سے مزید اشتعال کو جنم دیا گیا یہ ساری ذمہ داری عوام اور بالخصوص میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرے تاکہ صحاقتی ذمہ داریاں احسن انداز میں پوری ہوسکیں۔ سینئر صحافی فیصل حسین جو اپنے بے باک تجزیوں کی وجہ سے مشہور ہیں انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری اپنی پوسٹ میں لکھا کہ شہر کی صورتحال حساس اور نازک ہے اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں کسی بھی قسم کے جذباتی ردعمل سے گریز کریں فساد کا کسی کو فائدہ نہیں ہوتا نقصان سب کا ہوتا ہے لگتا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس عام شہریوں کے جذبات مشتعل کرنے کا اسکرپٹ ہے لہذا وہ دانستہ اس ایجنڈے پر ہیں آپ ان کی باتوں پر کان مت دھریں ہر صورت میں شہر کا امن قائم رکھنے کی کوشش کریں ڈمپرڈرائیورز کے ردعمل میں کسی بھی لسانی اکائی کو زمہ دار سمجھنا یا اس کے خلاف اپنا ردعمل دینا کسی بھی طور مناسب عمل نہیں ہے اور نہ ہی زمہ دارانہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت اقدامات کرے ڈمپر ایسوسی ایشن کے صدر لیاقت محسود کے اشتعال انگیز بیان کا نوٹس لے کر اس کے خلاف فوری کارروائی
ٹرمپ کی ایران پر معاشی پابندی: دبئی میں بیٹھا انڈین شہری امریکا کے نشانے پر

امریکا نے ایرانی تیل کی غیر قانونی فروخت روکنے کیلئے نئی اور سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ صرف معاشی دباؤ نہیں بلکہ عالمی سیاست کی وہ شطرنج کی چال ہے جو آنے والے دنوں میں خطے کے حالات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم انڈین شہری جگویندر سنگھ ایرانی تیل کی نقل و حمل میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔ اس کی کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ خفیہ شپنگ نیٹ ورکس کے ذریعے ایرانی نیشنل آئل کمپنی اور ایرانی فوج کیلئے تیل کی ترسیل کرتی رہی ہیں۔ یہ صرف ایک شخص کی بات نہیں، امریکی محکمہ خزانہ نے 30 سے زائد بحری جہازوں کا نیٹ ورک بھی بلیک لسٹ کر دیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ ایران کو عالمی پابندیوں سے بچانے کے لیے “شیڈو فلیٹس” کا حصہ تھے۔ ان بحری جہازوں کے ذریعے ایران اپنا تیل خاموشی سے عالمی منڈیوں تک پہنچاتا رہا۔ گزشتہ روز امریکا نے ایران کے ایٹمی پروگرام سے جڑے مزید 5 اداروں اور ایک فرد پر بھی پابندیاں لگائیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکا ایران کو ایک لمحے کے لیے بھی کھل کھیلنے دینے کو تیار نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران کی یہ خفیہ تیل ڈپلومیسی بند ہوگی؟ یا یہ سرد جنگ مزید شدت اختیار کرے گی؟مزید پڑھیں: ‘وقت آ گیا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کیا جائے’ فرانسیسی صدر
لکھاری بننے کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

لکھاری کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ وقت کے لحاظ سے کس طرح لکھنا چاہیے اور لکھنے کے لیے کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان میٹرز سے پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے صدر ساجد خان نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لکھاری کے لیے نہ کوئی عمر کی قید ہے اور نہ ہی تعلیم محدود رکھی گئی ہے مگر مشاہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے، روزانہ کی بنیاد پر آپ کو ہزاروں کہانیاں ملیں گی ان کو لکھنے کے لیے آنکھ چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لکھنے کے لیے درد دل ہونا ضروری ہے آپ کسی بھی چیز کا مشاہدہ کریں اور پھر قلم کہانی ختم کیے بغیر رکے نہ، آپ کی آنکھ میں مشاہدہ کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ساجد خان کا کہنا ہے کہ لکھاری کو ریاستی قانون کو مد نظر رکھ کر لکھنا چاہیے کبھی بھی اپنے ریاستی قوانین کے خلاف نہ جائیں، اگر لکھاری کو کسی چیز سے اختلاف ہو تو اسے اس اختلاف کو بھانپ کر لکھنا آنا چاہیے۔
ممبئی حملہ کیس، پاکستانی نژاد تہور حسین رانا بھارت کے حوالے

2008 کے ممبئی حملوں میں مطلوب پاکستانی نژاد امریکی شہری تہور حسین رانا کو بالآخر انڈیا کے حوالے کر دیا گیا، اسے خصوصی پرواز کے ذریعے انڈیا پہنچایا گیا، انڈین تحقیقاتی ایجنسی اور خفیہ ایجنسی را کی ٹیمیں تہور رانا کو بھارت لائیں۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز کے مطابق انڈین تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ رانا جمعرات کو دہلی پہنچے، جہاں اُن سے سخت سیکیورٹی میں تفتیش کی جائے گی۔ رانا پر انڈیا کی جانب سے دہشت گرد تنظیم لشکرِ طیبہ کی معاونت اور ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ یاد رہے کہ 2011 میں امریکی عدالت نے انہیں ممبئی حملوں کے الزامات سے بری کرتے ہوئے صرف لشکرِ طیبہ کی حمایت پر مجرم قرار دیا تھا۔ رانا کو 2013 میں 14 سال قید کی سزا ہوئی، لیکن وہ 2020 میں صحت کی بنیاد پر رہا ہو گئے، مگر انڈیا کی تحویل کی درخواست پر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ فروری 2025 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد اس حوالگی کی راہ ہموار ہوئی۔ پاکستانی نژاد ڈاکٹر تہور رانا نے پاکستان آرمی کے میڈیکل کور میں خدمات انجام دیں، وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوئے، پھر شکاگو میں امیگریشن اور ٹریول بزنس کا آغاز کیا، جہاں اُن کے بچپن کے دوست اور ممبئی حملوں کے مرکزی کردار ڈیوڈ ہیڈلی سے تعلقات دوبارہ استوار ہوئے۔ وہ کینیڈین شہریت بھی رکھتے ہیں۔ مزید پڑھیں: آئی پی ایل کھیلنا مہنگا پڑگیا، پی سی بی نے پروٹیز کھلاڑی پر پابندی لگا دی انڈین حکام کا دعویٰ ہے کہ رانا نے اپنی کمپنی کے ذریعے ممبئی میں ایک دفتر کھولا، جو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہوا۔ ہیڈلی پہلے ہی امریکی عدالت میں مجرم قرار دیا جا چکا ہے اور اس نے رانا کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر بیانات بھی دیے ہیں۔ انڈین نے رانا پر غداری، دہشت گردی اور حکومت کے خلاف سازش جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔ ممبئی کی ایک عدالت میں اُن کے خلاف عدم موجودگی میں مقدمہ بھی چلایا گیا۔ رانا نے اپنی حوالگی کے خلاف اقوام متحدہ کے انسدادِ تشدد کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ انڈیا میں خصوصاً پاکستانی نژاد ہونے کی وجہ سے اُن کے ساتھ امتیازی سلوک یا تشدد ہو سکتا ہے، مگر امریکی عدالتوں نے یہ مؤقف مسترد کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ تہور حسین رانا کو دہلی کی پٹیالا ہاؤس کورٹ میں پیش کیا جائے گا، عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔