چین کا امریکی ٹیرف کے جواب میں 125٪ ٹیرف لگانے کا اعلان، عالمی تجارت متاثر

بیجنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے کے فیصلے کے جواب میں امریکی درآمدات پر ٹیرف میں 125 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اقدام امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے اور عالمی سپلائی چین کو متاثر کرنے کا خطرہ ہے۔ چین کی اس جوابی کارروائی نے عالمی معیشت میں غیر یقینی کی صورتحال کو بڑھا دیا ہے۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں یہ ہفتہ غیر یقینی صورتحال کا شکار رہا، جبکہ سرمایہ کاروں نے سونے کو محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر چنا، جس کی قیمت ریکارڈ سطح تک جا پہنچی۔ اسی دوران امریکی 10 سالہ بانڈ کی شرح منافع میں نمایاں اضافہ ہوا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سرمایہ کار امریکی معیشت پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ ایک حالیہ امریکی سروے سے معلوم ہوا ہے کہ افراط زر کے خدشات 1981 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔ مالیاتی ماہرین اب کساد بازاری کے امکانات کو پہلے سے زیادہ سنگین قرار دے رہے ہیں۔یہ بھی پڑھیں: کیا ایران کا جوہری پروگرام کامیاب ہوگا؟ واشنگٹن اور تہران آج عمان میں مذاکرات کریں گے صدر ٹرمپ نے معاشی بےچینی کو کم کرنے کی کوشش کی اور پیش گوئی کی کہ مستقبل میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب امریکہ مختلف ممالک سے بہتر تجارتی معاہدے کر لے گا تو محصولات میں نمایاں کمی آ جائے گی، اور یہ شرح 10 فیصد تک بھی محدود ہو سکتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اب تک 75 سے زائد ممالک امریکا سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں، اور مستقبل قریب میں کئی تجارتی معاہدے متوقع ہیں۔ ہندوستان اور جاپان ان ممالک میں شامل ہیں جو امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات کی راہ پر گامزن ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور چین کی جانب سے ایک دوسرے پر عائد کی جانے والی محصولات دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارت کو شدید متاثر کر سکتی ہیں، جس کی مالیت 2024 میں 650 ارب ڈالر سے زائد تھی۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ اگر امریکا پر حملہ کیا جائے گا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں کمی آئی ہے، جبکہ سرمایہ کاروں نے سونے اور دیگر محفوظ اثاثوں کی طرف رخ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی ڈوبتی نیّا، کیا کوئی نئی قیادت پارٹی سنبھال پائے گی؟

پاکستان تحریک انصاف 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سے مسلسل سیاسی کشیدگی کا شکار ہے اور اب تک اپنی سیاست کو مستحکم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ پارٹی کو قانونی مسائل، اندرونی اختلافات اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے، جس کے باعث اس کی تنظیمی اور انتخابی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ سانحہ 9 مئی کے بعد پارٹی کو ایک بڑے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب وہ رہنما بھی کنارہ کش ہو گئے، جنہوں نے کبھی عمران خان کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں۔ دوسری طرف جو افراد پارٹی قیادت کے ساتھ وفادار رہے، انہیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔حالیہ دنوں میں پارٹی کی قیادت کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ پارٹی کے اندر گروپنگ ہو گئی ہےایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی میں مصروف ہیں، بعض رہنماؤں کی جانب سے باقاعدہ پریس کانفرنسز کے ذریعے ایک دوسرے کے فیصلوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور بیانات میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں افضل مروت کو پارٹی کے عہدے سے دستبردار کیا گیا تو افضل مروت نے الزام لگایا کہ میرے خلاف سازش کی گئی ہے جس بنیاد پر عمران خان نے میرے خلاف ایکشن لیا، اسی طرح پارٹی میں الزام بازی کا کھیل ابھی بھی جاری ہے جو مزید پی ٹی آئی کے مستقبل میں مشکلات درپیش کرے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ عمران خان کے بغیر پارٹی کی سیاسی ساکھ متاثر ہوگی یا نہیں۔ اس حوالے سے سینئر تجزیہ نگار اسماعیل قاسم نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کا زیادہ تر دارومدار عمران خان کی شخصیت اور کرشماتی قیادت پر رہا ہے۔ تاہم، اگر پارٹی کوئی متبادل بااثر اور قابل قیادت نہ پیش کر سکی تو اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا وجود ممکن نہیں، یہ جملہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت ان کے حریفوں نے بھی کئی دفعہ دہرایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان خود ایک نظریہ ہیں اور اسی نظریہ کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی کو ووٹ ملتے ہیں۔ پاکستان میں نوجوان ووٹرز عمران خان کی قیادت کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ووٹ دیتے ہیں اور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان پارٹی میں نہیں ہوں گے تو پی ٹی آئی کی ساکھ محفوظ نہیں رہے گی۔ اس حوالے سے اسماعیل قاسم نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے اندر کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو عمران خان کی سطح کی مقبولیت اور قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔ البتہ، کچھ رہنما جیسے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر تجربہ کار ضرور ہیں، مگر عوامی سطح پر ان کی پذیرائی محدود ہے۔ عمران خان کی قید کے بعد سے پی ٹی آئی میں بہت زیادہ اختلافات پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے پارٹی کی قیادت کو نقصان پہنچایا۔ اسماعیل قاسم کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی عمران خان کے بنائے ہوئے نظریات کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کچھ حد تک مقبولیت برقرار رکھی جا سکتی ہے، لیکن قیادت میں خلا کی صورت میں پارٹی میں زوال کا خدشہ موجود رہے گا۔ عمران خان کی غیر موجودگی میں پارٹی میں پیدا ہونے والے اختلافات اور ان کے نتیجے میں کئی رہنماؤں کا پارٹی سے بے دخل ہونا، پارٹی کی وحدت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اسماعیل قاسم نے اس حوالے سےکہا کہ عمران خان کی غیر موجودگی میں مختلف دھڑوں کے درمیان قیادت کے حصول کی کشمکش بڑھ سکتی ہے، جس سے پارٹی میں مزید تقسیم کا خدشہ ہو گا۔ خیال رہے کہ عمران خان کو گزشتہ الیکشن میں نوجوانوں نے ووٹ دیے تھے اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو جوش و خروش کے ساتھ ووٹ ملنا صرف عمران خان کی ذات کی وجہ سے تھا۔ اب اگر عمران خان پارٹی کا حصہ نہ ہوں گے تو وہ جوش و خروش نظر نہیں آئے گا۔ اس حوالے سے اسماعیل قاسم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر ووٹرز عمران خان کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، اس لیے ان کے بغیر پارٹی کو اسی جوش و خروش سے ووٹ ملنا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر قیادت کوئی متبادل اور مضبوط شخص فراہم کرے تو کچھ ووٹرز پارٹی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ عمران خان کے بغیر پارٹی کی پالیسی بھی متاثر ہو گی جس سے مزید پی ٹی آئی کی ساکھ مزید شدت اختیار کر جائے گی اس حوالے سےسیاسات کے پروفیسر محمد حمزہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پارٹی کی اہم سیاسی شخصیت ہیں۔ ان کی رہنمائی اور فیصلے پارٹی کی سمت اور نظریات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کو ایک واضح رہنما کی کمی محسوس ہو سکتی ہے۔ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں نے بھی پارٹی کو خیرآباد کہہ دیا تھا اور عمران خان کی قید کے بعد پارٹی کی قیادت میں اختلافات نے جنم لیا۔ اب بھی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما متحد ہو سکیں گے یا نہیں۔ اس حوالے سے محمد حمزہ نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب نہ ہوں، کیونکہ عمران خان کی موجودگی میں ہی پارٹی کے مختلف دھڑے اکٹھے تھے۔ تاہم، اگر رہنمائی مضبوط ہو تو پارٹی کو کچھ حد تک متحد رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی پر مزید پابندیاں لاگو ہو سکتی ہیں، جس سے مستقبل میں پارٹی کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ پروفیسر محمد حمزہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مستقبل صرف قانونی مسائل پر نہیں، بلکہ اس کی عوامی مقبولیت اور داخلی استحکام پر بھی منحصر ہوگا۔ اگر پارٹی اپنی پالیسی اور قیادت میں توازن قائم رکھ سکے تو وہ پابندیوں کو بھی کامیابی سے