چھکوں کی بارش مگر تماشائی غائب، پی ایس ایل کی رونق کہاں گئی؟

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دسویں ایڈیشن کا کراچی میں پہلا میچ، جہاں میدان میں چھکوں اور چوکوں کی برسات تھی مگر تماشائیوں کی عدم موجودگی نے ایونٹ کی مقبولیت پر اہم سوالات کھڑے کر دیے۔ نیشنل بینک اسٹیڈیم میں گزشتہ شب کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے درمیان کھیلا گیا ہائی اسکورنگ اور سنسنی خیز میچ، کرکٹ کے چاہنے والوں کے لیے ایک یادگار مقابلہ تھا مگر دلچسپی کی شدت صرف گیند اور بلے تک محدود رہی، اسٹینڈز میں بیٹھنے والے چند تماشائیوں کے علاوہ پورا اسٹیڈیم ویران تھا۔یہ وہی کراچی ہے جسے ’کرکٹ کا شہر‘ کہا جاتا تھا جہاں ماضی میں ہر میچ ہاؤس فل ہوتا تھا مگر اس بار 32 ہزار کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں صرف تین ہزار کے لگ بھگ لوگ نظر آئے۔  کچھ جگہوں پر تو تماشائیوں کی تعداد سیکیورٹی اہلکاروں سے بھی کم محسوس ہوئی۔ میچ رات آٹھ بجے شروع ہوا لیکن شائقین کی آمد کا سلسلہ سات بجے کے بعد ہی سست روی سے شروع ہوا۔  گراؤنڈ میں بیٹھے چند تماشائی کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے مگر میدان کے باہر اور ٹی وی اسکرین پر دیکھنے والے لاکھوں شائقین اس خاموشی کو شدت سے محسوس کرتے رہے۔ میچ میں ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان نے 105 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جبکہ کراچی کنگز کے جیمز وِنس نے 101 رنز بناتے ہوئے ٹیم کو فتح کے قریب پہنچایا۔  اس کے علاوہ خوشدل شاہ کی جارحانہ 60 رنز کی اننگز نے بھی مقابلے میں جان ڈالی۔  آخرکار کراچی کنگز نے یہ میچ چار وکٹوں سے اپنے نام کر لیا مگر جیت کے اس لمحے میں بھی جشن کی وہ گونج سنائی نہ دی جس کی پی ایس ایل سے توقع کی جاتی ہے۔ سابق کپتان وسیم اکرم اور وقار یونس نے کمنٹری کے دوران خالی نشستوں کا ذکر کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا۔ وسیم اکرم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “یہ وہ پی ایس ایل نہیں جو ہم نے چند سال پہلے دیکھا تھا۔” اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹکٹوں کی قیمتیں زیادہ تھیں؟ یا شائقین کا اعتماد لیگ پر سے اٹھ چکا ہے؟ کہیں سیکیورٹی خدشات یا مارکیٹنگ کی کمی تو ذمہ دار نہیں؟  وجوہات جو بھی ہوں مگر ایک بات واضح ہے کہ خالی اسٹیڈیم نے پی ایس ایل انتظامیہ کو ایک بڑا اشارہ دے دیا ہے کہ شائقین کی توجہ واپس حاصل کرنے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ پی ایس ایل صرف کرکٹ کا ایونٹ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کا ایک بڑا برانڈ ہے اور جب برانڈ پر لوگوں کا اعتبار کم ہونے لگے تو خطرے کی گھنٹی بج چکی ہوتی ہے۔ مزید پڑھیں: پی ایس ایل سیزن 10: چھ ایسے بالر جو سب سے زیادہ وکٹیں لے سکتے ہیں

لاہور کے نوجوان ڈاکٹرز احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

لاہور میں نوجوان ڈاکٹروں کا احتجاج چھٹے روز بھی شدید گرمی کے باوجود جاری ہے۔ یہ احتجاج صرف تنخواہوں یا سہولیات کا معاملہ نہیں، بلکہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں موجود بنیادی مسائل کو اجاگر کر رہا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (YDA) کے مطابق ان کے بنیادی مطالبات میں نئی بھرتیاں، سروس اسٹرکچر کی بہتری، مستقل نوکریوں کی فراہمی، اور کام کے محفوظ حالات شامل ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں عملے کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے موجودہ ڈاکٹروں پر غیرمعمولی بوجھ ہے۔ اس کے علاوہ طبی آلات کی کمی، ناقص سہولیات، اور انتظامیہ کی عدم دلچسپی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ یہ احتجاج اب صرف ڈاکٹروں کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ پنجاب کی نگران حکومت، بالخصوص وزیر اعلیٰ مریم نواز کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ احتجاجی ڈاکٹروں نے مختلف شہروں میں سروسز اسپتال، جنرل اسپتال، جناح اسپتال سمیت دیگر بڑے مراکز میں جزوی ہڑتال کی ہے جس سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ او پی ڈی سروسز متاثر ہو رہی ہیں اور کئی سرکاری اسپتالوں میں آپریشنز ملتوی کیے جا رہے ہیں۔ مریم نواز کی حکومت کے لیے یہ احتجاج ایک امتحان ہے کیونکہ صحت کے شعبے میں اصلاحات ان کے منشور کا اہم حصہ رہی ہیں۔ اگر یہ مسائل جلد حل نہ ہوئے تو عوامی ناراضی میں اضافہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب حکومت عوامی ریلیف کے دعوے کر رہی ہے۔ اس ویڈیو رپورٹ میں ہم آپ کو دکھائیں گے کہ اصل میں احتجاج کے پیچھے کیا حقائق ہیں، ڈاکٹرز کی شکایات کتنی جائز ہیں، اور اسپتالوں کا نظام کیسے دباؤ کا شکار ہو رہا ہے۔ کیا پنجاب کا صحت کا نظام واقعی خطرے میں ہے؟ دیکھیے مکمل رپورٹ اور جانیے زمینی حقائق۔

دارالعلوم حقانیہ اور بنوں حملوں میں ملوث نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا ہے، آئی جی کے پی

آئی جی خیبرپختونخوا ذوالفقار حمید نے ایک کامیابی کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور بنوں کینٹ پر ہونے والے حملوں میں ملوث نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا ہے۔  انکا کہنا ہے کہ ان حملوں میں کئی معصوم جانوں کا ضیاع ہوا تھا اور اب ان مجرمانہ سرگرمیوں کے پیچھے چھپے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ذوالفقار حمید کا کہنا ہے کہ دونوں حملوں کے حوالے سے اہم شواہد ہاتھ لگے ہیں اور کئی مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ ان کی گرفتاری کے بعد مزید تفصیلات سامنے آئیں گی جو اس پورے نیٹ ورک کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کریں گی۔ یاد رہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خودکش حملے کی کارروائی کے دوران جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد شہید ہوگئے تھے۔  اسی طرح بنوں کینٹ پر حملے کے دوران سکیورٹی فورسز نے 16 دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا جبکہ اس آپریشن میں 6 جوان بھی شہید ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ایک نئی تحقیقات کا آغاز بن چکا ہے جس سے نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورے ملک کی سکیورٹی کے حوالے سے ایک مثبت پیغام جا رہا ہے۔ ان کارروائیوں سے جڑے تمام حقائق اور گرفتاریوں کے بعد جو نئی تفصیلات سامنے آئیں گی وہ عوامی سطح پر مزید تشویش پیدا کر سکتی ہیں۔ مزید پڑھیں: پشاور میں دہشتگردوں کا حملہ: ایکسائز کے 3 اہلکار شہید، حملہ آور فرار

یکجہتی فلسطین کے لیے کراچی میں غیرمعمولی احتجاج، 22 اپریل کو ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان 

کراچی میں آج جماعت اسلامی کے زیر اہتمام غزہ یکجہتی مارچ ہوا، جس کا آغاز شام 4 بجے شاہراہ فیصل سے کیا گیا۔ مارچ کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنا اور اہلِ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کرنا تھا۔ شہر کے تمام اضلاع سے قافلوں کی صورت میں شرکاء شاہراہ فیصل پر جمع ہوئے۔ مارچ سے قبل بلوچ کالونی پل سے مرکزی جلسہ گاہ تک ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کی۔ مارچ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کلیدی خطاب کیا۔ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے مسلم حکمران غزہ میں جاری ظلم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ صرف قراردادیں پاس کرنے تک محدود ہے جنہیں امریکا نے ویٹو کردیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ او آئی سی اور عرب لیگ کہاں ہیں جنہیں عرب دنیا کے تحفظ کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی اہل غزہ نے پکارا ہے، اہل کراچی نے ثابت کردیا کہ ہم کل بھی اہل غزہ کے ساتھ تھے اور آج بھی اہل غزہ کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حماس اور اہل فلسطین نے اپنے عزم کے ذریعے ثابت کر دکھایا اور مسلم امہ کے حکمرانوں کو ثابت کردیا ہے، وہ ایمانی جذبے اور ایمانی قوت سے سرشار ہیں، اہل غزہ ایمانی قوت اور اللہ پہ بھروسہ کرکے استقامت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں۔ امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ جانور کے حقوق کی بات کرنے والے اور اقوام متحدہ بتائیں کہ فلسطین میں ظلم کیوں نظر نہیں آرہا؟ کہاں کے او آئی سی اور کہاں ہے عرب لیگ؟ انہیں فلسطین میں جاری ظلم کیوں نظر نہیں آتا۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ کاشف شیخ نے کہا کہ اہل کراچی کو اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے سلام پیش کرتا ہوں۔ اہل غزہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو مدد کے لیے پکاررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عالم اسلام کے حکمرانوں سن لو اب تقریر اور تحریر سے نہیں بلکہ اب عصا اٹھانا پڑے گا۔ اہل ایمان کی رمق اور جہاد فی سبیل اللہ کا عنوان بننے کی ضرورت ہے۔ معصوم بچوں اور خواتین پر بمباری کرکے اسلام کو ختم نہیں کرسکتے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم ابش صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہل کراچی و جماعت اسلامی کراچی کو کامیاب و تاریخی یکجہتی غزہ مارچ پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج اہلیان کراچی نے لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل کر اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے علمائے کرام سے کہنا چاہتے ہیں کہ امت کا ایک ایک بچہ واقف ہے کہ امت پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ چیئرمین القدس اتحاد المسلمین فضیلت الشیخ شیخ مروان ابو العاص نے کہا ہے کہ ہم فلسطینی بھائیوں کی طرف سے پاکستانی بھائیوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ غزہ میں ظلم و بربریت جاری ہے۔ ان کا آڈیو خطاب میں کہنا تھا کہ ہمارے گھروں ، مساجدوں اور اسپتالوں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ اہل غزہ کے مسلمانوں امت کے مسلمانوں سے مدد طلب کررہے ہیں۔ ہمارے بچوں اور عورتوں پر بمباری کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے پاکستانی بھائیو! ہم بیت المقدس اور اہل غزہ کی آزادی کے لیے ڈٹے رہیں گے۔ اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچان لیا ہے۔ غزہ کے بچوں اور خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے صرف باتیں ہی کرتے ہیں عملا کچھ نہیں کیا جارہا۔ مسجد اقصی کو مکمل ہیکل سلیمانی میں تبدیل کرنے میں کوشاں ہیں۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں مسجد اقصیٰ کی آزادی کے بعد مسجد اقصی میں نماز شکرانہ ادا کریں گے۔ مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی رہنما مولانا سید حسن ظفر نقوی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم بچوں کے خون نے عالم اسلام کے مسلمانوں میں یکجتی کی ہے۔ سامراج کی کوشش ہے کہ امت مسلمہ کہ یکجہتی میں دراڑ ڈالی جائے۔ ہم سب اہل غزہ و فلسطین کے ساتھ ہے۔ ہمارا فلسطینی بھائیوں سے ایمانی رشتہ ہے۔ غزہ کے سرزمین سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر زوہیر ناجی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی اور اہل کراچی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل کر مارچ میں شرکت کرکے فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ ہمارے دشمن صیہونی نے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو شہید کیا ہے۔ صیہونی ہمارا دشمن ہے اور وہ اپنی طاقت سے ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ یکجہتی غزہ مارچ میں این ای ڈی کے طلبہ نے اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں کی امداد کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کو 7 لاکھ روپے چیک پیش کیا۔جب کہ دو بچیوں نے بھی اپنی گلگ پیش کی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی اسٹیج آمد پر ان کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا اور پرجوش نعرے لگائے گئے۔قائدین نے ہاتھ اُٹھاکر شرکاء کے نعروں کا جواب دیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے شاہراہِ فیصل پر غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے یکجہتی غزہ مارچ کے لاکھوں کی تعداد میں موجود شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج شہر کراچی نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ شہر عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اہل کراچی کا لاکھوں کی تعداد میں شرکت کا جذبہ ضرور رنگ لائے گا۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو دریا برد کردیا گیا ہے، طاقت ور کی حکمرانی ہے، استعمار اور سامراج فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ آج اگر غزہ کے حالات خراب ہیں، حماس کی لیڈر شپ کو ختم کیا جارہا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا یہودی امت مسلمہ کے غداروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ 22 اپریل کو کراچی سے خیبر ، کشمیر سے چترال تک پورا پنجاب اور پورا سندھ بند ہوگا۔ پاکستان کے عوام بتائیں گے ہم

پشاور میں دہشتگردوں کا حملہ: ایکسائز کے 3 اہلکار شہید، حملہ آور فرار

محکمہ ایکسائز کی پیٹرولنگ ٹیم معمول کے مطابق گاڑیوں کی چیکنگ میں مصروف تھی کہ ایک نامعلوم سفید رنگ کی گاڑی نے رکنے کے اشارے کو نظرانداز کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ان کی گولیوں کی بوچھاڑ نے ڈیوٹی پر موجود متعدد ملازمین کو شہید کردیا، جن میں کانسٹیبل افتخار اور کانسٹیبل مجاہد موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے جبکہ انسپکٹر شبیر جو ڈرائیور کی نشست پر موجود تھے وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیے گئے مگر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بھی شہداء کی صف میں شامل ہو گئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب محکمہ ایکسائز کی اینٹیلیجنس ٹیم نوشہرہ کی جانب سے ملنے والی خفیہ اطلاع پر کارروائی کے لیے نکلی تھی۔ حملہ اتنا اچانک اور بھرپور تھا کہ جوابی کارروائی کا موقع بھی نہ ملا۔ اس کے بعد شہداء کی نماز جنازہ پولیس لائن پشاور میں ادا کی گئی، جس میں آئی جی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید، سی سی پی او قاسم خان، ایس ایس پی آپریشنز سمیت اعلیٰ پولیس و ایکسائز حکام نے شرکت کی۔ ان کا جنازہ گارڈ آف آنر کے ساتھ مکمل سرکاری اعزاز کے تحت ادا کیا گیا۔ ایکسائز حکام کے مطابق یہ حملہ نوشہرہ کی حدود میں ہوا اس کے بعد حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔  پشاور ایک بار پھر بے رحم دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عوام کے محافظ کب تک نشانہ بنتے رہیں گے؟ مزید پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدوروں کو قتل کردیا

ٹرمپ کا یوٹرن: چینی الیکٹرانکس پر 145 فیصد ٹیرف ختم کردیا

ایک ایسے وقت میں جب تجارتی جنگ کے بھڑکنے کی توقع کی جا رہی تھی تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک یوٹرن لے لیا ہے۔  امریکی صدر نے چین سے درآمد ہونے والے اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز، ہارڈ ڈرائیوز، پروسیسرز اور سیمی کنڈکٹرز پر لگایا گیا 145 فیصد بھاری ٹیرف اچانک ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن کی جانب سے جاری ہونے والے جمعہ کی رات کے ایک ہنگامی نوٹس میں سامنے آیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں چین پر فینٹانائل کی اسمگلنگ کا الزام عائد کر کے 125 فیصد اضافی ٹیرف نافذ کیا گیا تھا جو پہلے سے لاگو 20 فیصد ٹیرف کے علاوہ تھا۔ لیکن اب انہی اشیاء کو اچانک اس اضافی بوجھ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ ماہرین حیران ہیں کیونکہ یہی وہ مصنوعات ہیں جن کی تیاری امریکا میں تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور ان کی مقامی سطح پر پیداوار دوبارہ شروع کرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ فیصلہ سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ صارفین کے لیے یہ خبر کسی ریلیف سے کم نہیں۔ اگر ٹیرف برقرار رہتا تو اسمارٹ فونز سے لے کر لیپ ٹاپ تک ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو لیتی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ قدم وقتی طور پر سیاسی چال ہے یا ٹرمپ کی تجارتی پالیسی میں واقعی بڑی تبدیلی کی شروعات؟مزید پڑھیں: عالمی ٹیرف جنگ سے سونا ایک بار پھر مہنگا، قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

’رنگین انقلاب ختم ہو گیا ہے‘ سربیا میں صدر کی حمایت میں ہزاروں افراد کا احتجاج

ہفتے کے روز سربیا، کوسوو اور بوسنیا کے قصبوں سے ہزاروں افراد بسوں کے ذریعے بلغراد پہنچے تاکہ صدر الیگزینڈر ووچک کی حمایت میں منعقد ہونے والی ریلی میں شرکت کر سکیں۔ صدر ووچک کی حکومت کو مہینوں سے جاری بدعنوانی مخالف مظاہروں کی وجہ سے سخت دباؤ کا سامنا ہے، اور ان کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ شہر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، اہم سڑکیں بند رہیں اور پارلیمنٹ کے سامنے فاسٹ فوڈ اور مشروبات کے اسٹالز لگائے گئے۔ اس ریلی کو 15 مارچ کو ہونے والے بڑے حکومت مخالف مظاہرے کا ردعمل تصور کیا جا رہا ہے، جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی، جو حالیہ دہائیوں کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ سربیا میں ایک ریلوے اسٹیشن کی چھت گرنے سے 16 افراد کی ہلاکت کے بعد سے عوامی غصہ بڑھا ہے۔ اس واقعے نے حکومت پر بدعنوانی اور انتظامی لاپرواہی کے الزامات کو مزید ہوا دی، جس کے بعد طلباء، اساتذہ اور کسانوں سمیت مختلف طبقات نے احتجاج شروع کیے۔ صدر ووچک، جو پچھلے 12 سال سے اقتدار میں ہیں، مظاہرین کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “رنگین انقلاب ختم ہو گیا ہے” اور اس بات پر زور دیا کہ احتجاج جتنا بھی ہو، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ریلی کا ایک مقصد ووچک کی سربراہی میں نئی سیاسی تحریک کو فروغ دینا بھی تھا، جو سربیائی پروگریسو پارٹی کے ساتھ مل کر حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی یکجا کرے گی۔ اس تحریک کا باضابطہ آغاز تاحال باقی ہے۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے ویڈیو لنک کے ذریعے ریلی سے خطاب کیا اور سربیائی عوام کو ہنگری کی حمایت کا یقین دلایا۔ تاہم، ملک بھر میں کشیدگی برقرار رہی۔ نووی پزار میں حکومت مخالف کارکنوں نے ریلی میں جانے والی بسوں کو قصبے سے باہر نکلنے سے روکنے کی کوشش کی۔ بلغراد میں بھی مظاہرین نے شہر کے مرکز کی جانب آنے والی بسوں پر انڈے پھینکے، جس پر پولیس نے مداخلت کی۔ حالات دن بھر کشیدہ رہے، اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔

ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل

ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان کے دورافتادہ گاؤں “ہزرآباد” میں واقع ایک چھوٹے سے ورکشاپ پر نامعلوم حملہ آوروں نے دھاوا بول دیا۔  یہ وہ جگہ تھی جہاں آٹھ پاکستانی مزدور گاڑیوں کی پالش، پینٹنگ اور مرمت کا کام کرتے تھے۔ یہ محنت کش لوگ، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے سرحد پار روزی کما رہے تھے۔ رات کی تاریکی میں حملہ آور آئے، بے رحمی سے مزدوروں کے ہاتھ پیر باندھے اور قریب سے گولیاں مار کر سب کو ہلاک کردیا۔  مقامی ذرائع کے مطابق حملہ اس قدر اچانک ہوا کہ کسی کو بچ نکلنے کا موقع تک نہ ملا سکا۔  اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز جب جائے وقوعہ پر پہنچیں تو لاشیں خون میں لت پت زمین پر بکھری ہوئی تھیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ان 8 پاکستانیوں کے بہیمانہ قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ایرانی حکومت سے قاتلوں کی فوری گرفتاری و سزا کا مطالبہ کیا۔  انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پورے خطے کے لیے خطرناک ہے اور اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانی ہوگی۔  اس کے علاوہ وزیراعظم نے وزارتِ خارجہ اور ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو میتوں کی واپسی اور لواحقین سے رابطے کی ہدایت کی۔  دفتر خارجہ نے کہا کہ ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور تصدیق کے بعد باضابطہ بیان دیا جائے گا۔  وزیراعلیٰ مریم نواز نے بھی واقعے پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس واقعہ کے بعد اب تک کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر ابتدائی تحقیقات ایک ممکنہ شدت پسند گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو پاک-ایران سرحدی علاقوں میں سرگرم ہے اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ مزید پڑھیں: ‘مذاکرات سے مطمئن’ ایران اور امریکا اگلے ہفتے پھر ملاقات کریں گے دوسری جانب پاکستانی سفارتخانہ حرکت میں آ چکا ہے جبکہ تہران میں موجود سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ان کے نمائندے جائے وقوعہ پر پہنچ چکے ہیں تاکہ لاشوں کی شناخت، قانونی کارروائی اور متاثرہ خاندانوں کی مدد کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی اس واقعے پر شدید ردعمل دیا ہے اور ایرانی حکام سے فوری تحقیقات اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو نے اسے “انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ایسے بزدلانہ حملے دونوں ممالک کے تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہیں۔ ہم ایرانی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے منتظر ہیں تاکہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔” اس سے قبل گزشتہ برس بھی سرحدی شہر سراوان میں نو پاکستانی مزدور اسی طرح قتل کر دیے گئے تھے۔ مسلسل حملوں نے پاکستانی مزدوروں کے اہلخانہ کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے، نہ صرف روزگار کا خواب بکھرتا نظر آ رہا ہے بلکہ اپنوں کو کھو دینے کا ڈر بھی ہر پل منڈلا رہا ہے۔ سیستان بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی، اسمگلنگ، اور نسلی کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ مگر اس حالیہ سانحے نے ثابت کر دیا کہ یہاں غیر ملکی مزدور بھی محفوظ نہیں۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز کا اسپتال پر حملہ: بچوں، عورتوں سمیت درجنوں افراد شہید

اسرائیلی فورسز کا اسپتال پر حملہ: بچوں، عورتوں سمیت درجنوں افراد شہید

غزہ کی فضا دھماکوں سے لرز اٹھی، اسرائیلی جنگی طیاروں نے شمالی غزہ کے ال اہلی اسپتال پر بےرحمانہ بمباری کی، جہاں مریض، زخمی، اور نوزائیدہ بچوں کی آخری امید دم توڑتی دکھائی دی۔  ڈاکٹرز نے جان کی پروا کیے بغیر مریضوں کو کندھوں پر اٹھا کر اسپتال سے نکالا لیکن بم برسنے کا سلسلہ نہیں تھما۔ نہتے شہری، جن کا گناہ صرف فلسطینی ہونا ہے، یہ سب بار بار نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اس بار اسرائیلی فوج نے وسطی نُصیرات کیمپ اور جنوبی خان یونس کے عوام کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا مگر اب لوگ کہاں جائیں؟ زمین بھی اب ان کے لیے تنگ ہو چکی ہے۔ انسانی تاریخ کا سیاہ باب رقم ہو چکا ہے، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 50,912 فلسطینی شہید اور 115,981 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ حکومت کے میڈیا دفتر کا کہنا ہے کہ اصل شہداء کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں ہزاروں ایسے ہیں جو ملبے تلے دبے ہیں اور شہادت پا چکے۔ ادھر قاہرہ میں مصالحتی مذاکرات جاری ہیں لیکن زمینی حقیقت ہر لمحہ مزید ستم خیز ہو رہی ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے میں 1,139 اسرائیلی ہلاک اور 200 سے زائد قیدی بنائے گئے تھے لیکن جواب میں جو کچھ غزہ پر ٹوٹا، وہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ سب ہونے کے باوجود، عالمی ادارے اس حیوانیت پر خاموش ہیں مگر غزہ کے بےگناہ شہداء گواہ ہیں کہ مظلوم کی آہ دیر سے سہی، خالی نہیں جاتی۔ مزید پڑھیں: روس کے یوکرین پر ڈرون حملے، چار افراد زخمی

مذاکرات سے مطمئن ایران اور امریکا اگلے ہفتے پھر ملاقات کریں گے

ایران اور امریکا نے ہفتے کے روز عمان میں ہونے والی بات چیت کو مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے اگلے ہفتے دوبارہ مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو امریکا فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ وہ مذاکرات کی بنیاد کے قریب پہنچ چکے ہیں، اور اگر اگلے ہفتے اس بنیاد کو طے کر لیا گیا تو حقیقی بات چیت کا آغاز ممکن ہو جائے گا۔ انہوں نے ان مذاکرات کو نتیجہ خیز، پرسکون اور مثبت ماحول میں ہونے والی پہلی براہِ راست بات چیت قرار دیا، جو ایران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ہوئی ہے۔ عراقچی نے مزید کہا کہ دونوں فریق مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں، اور غالب امکان ہے کہ اگلی ملاقات آئندہ ہفتے ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے مذاکرات میں سنجیدگی پائی جاتی ہے اور یہ صرف وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ مسائل پیچیدہ ہیں، لیکن امریکی ایلچی اسٹیون وٹکوف اور ایرانی وفد کے درمیان براہِ راست رابطہ باہمی مفاد کے حصول کی سمت ایک مثبت قدم ہے۔ صدر ٹرمپ نے ہفتے کی رات صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، تاہم انہوں نے مکمل معاہدہ ہونے تک اس پر زیادہ بات نہ کرنے کو ترجیح دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران سے متعلق صورتحال امید افزا ہے۔ پیر کے روز ٹرمپ نے اچانک اعلان کیا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ عمان پہلے بھی مغرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے، خاص طور پر ایران میں قید غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والوں کی رہائی کے سلسلے میں۔