کیا اسرائیل ہار چکا ہے؟

جب غزہ میں جنگ شروع ہوئی تھی تو سب کا یہی خیال تھا کہ یہ سلسلہ نہیں رکے گا،پھروہی ہوا جس کا ڈرتھا ،دنوں کی جنگ مہینوں پر محیط ہوچکی ہے،فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے اور دہشتگرد ریاست اسرائیل اب تک کسی بھی احتجاج، کسی بھی امن کی کوششوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے آگ اور خون کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے، غزہ میں تو 70 ہزار کے لگ بھگ بچے، بوڑھے جوان اور عورتیں ماری جا چکی ہیں، اس کے علاوہ ایسے ہزاروں افراد ہیں جو لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ پانی سے ارزاں خون مسلم کے پیاسے اسرائیل نے یہ جنگ دیگرعرب ممالک تک پھیلادی ہے،غزہ سے شروع ہونیوالا آگ اور خون کا کھیل پھیل گیا ہے، آگ اور خون کے اس کھیل کی سرپرستی امریکا کررہا ہے اوراس کا صدرایک پراپرٹی ڈیلر کی طرح کی سوچ اپنائے ہوئے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بار بار اس بات پر زور دے رہیں کہ اہل غزہ اپنا علاقہ چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں آباد ہوجائیں تاکہ وہ اس سرزمین پر ایک نئی’کالونی‘ بسا سکیں۔ اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہےکہ اسرائیل نے متعدد حملوں میں صرف خواتین اور بچوں کو ہی نشانہ بناکر قتل کیا۔ خلیجی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے اس بات کا انکشاف کیا  ہےکہ 18 مارچ سے 9 اپریل کے دوران کم از کم 36 اسرائیلی حملوں میں صرف خواتین اور بچوں کو قتل کیا گیا ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ اسرائیلی فوج نے تقریباً 3 ہفتوں کے دوران 224 حملے کیے جن میں رہائشی عمارتوں اور عالمی سطح پر بے گھر افراد کے خیموں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کا کہنا ہےکہ اسرائیل کے کُل 36 حملوں میں صرف خواتین اور بچوں کی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بزالیل سموترچ نے اسرائیلی اسمبلی کو ستمبر 2024 میں بتایا تھا کہ یہ اسرائیلی تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ ہے ، انھوں نے کہا تھا کہ جنگ کا خرچہ 54 ارب سے 68 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے، اسرائیل کی جانب سے لبنان پر بمباری اور پھر جنوبی لبنان پر زمینی حملے کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف میزائل حملے اس قیمت کو مذید بڑھا رہے ہیں، ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ 2025 میں بھی جاری رہتی ہے تو اس جنگ میں وسعت کے بعد لاگت کا تخمینہ 93 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو اسرائیل کی سالانہ آمدن کا چھٹا حصہ ہو گا۔ جنگ پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے بینک آف اسرائیل نے حکومتی بانڈز کی فروخت میں اضافہ کیا ہے تاکہ قرضہ لیا جا سکے ، صرف مارچ 2024 میں آٹھ ارب ڈالر کی رقم ایسے ہی حاصل کی گئی ، اسرائیل ملک کے اندر اور باہر بھی بانڈز فروخت کرتا ہے جن میں بیرون ملک مقیم اسرائیلیوں کے لیے خصوصی بانڈز شامل ہوتے ہیں ، تاہم بینک آف اسرائیل کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بیرون ملک رہنے والے لوگ اسرائیلی حکومت کے بانڈز خریدنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ،بینک کے مطابق نو فیصد سے بھی کم بانڈز بیرون ملک مقیم لوگوں کے پاس ہیں ، یہ تعداد ستمبر 2023 کے مقابلے میں تقریبا پانچ فیصد تک کم ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومتی بانڈز پر شرح سود میں اضافہ ہوا اور یوں غیر ملکی خریداروں کی دلچسپی بڑھی، ان کے مطابق حکومت کو جو قرضہ واپس کرنا ہو گا اس پر شرح سود میں ڈیڑھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، اگست 2024 کے آغاز سے تین عالمی مالیاتی کریڈٹ ایجنسیوں، موڈیز، فچ اور اسٹینڈرڈ، نے اسرائیلی حکومت کے قرضوں کی ریٹنگ میں کمی کی ہے، ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کیوں کہ ان ایجنسیوں کو یہ لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت قرضہ واپس نہیں کر سکتی بلکہ ان ایجنسیوں کو حکومت کی حکمت عملی کی وجہ سے خسارے کے بارے میں خدشات ہیں۔ اکتوبر 2023 میں اسرائیلی معیشت مضبوطی سے ترقی کر رہی تھی لیکن جنگ کے بعد سے یہ زوال پذیر ہوئی ہے، گزشتہ سال عالمی بینک کے مطابق اسرائیلی جی ڈی پی اعشاریہ ایک فیصد تک کم ہوا، دوسری جانب بینک آف اسرائیل کا اندازہ ہے کہ رواں سال ترقی کی رفتار صرف اعشاریہ پانچ فیصد تک رہے گی ، ایک سال کے دوران اسرائیل میں کئی کمپنیوں کو عملے کی کمی کی شکایت کا سامنا بھی رہا جس کی وجہ سے ان کی کاروباری صلاحیت اور پیداوار متاثر ہوئی۔  اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حماس سے جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج نے تین لاکھ 60 ہزار ریزرو اہلکاروں کو بلا لیا تھا، اگرچہ ان میں سے بہت سے واپس آ چکے ہیں تاہم لبنان میں کارروائی کے وقت 15 ہزار کو واپس بلا لیا گیا تھا، اس کے علاوہ اسرائیلی حکومت نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر غزہ اور غرب اردن سے دو لاکھ 20 ہزار فلسطینیوں پر بھی اسرائیل میں داخل ہونے پر پابندی لگا رکھی ہے ، اس سے خصوصی طور پر تعمیراتی شعبہ متاثر ہوا ہے جس میں 80 ہزار فلسطینی کام کرتے تھے، ان کی جگہ لینے کے لیے اب سری لنکا، انڈیا اور ازبکستان سے ہزاروں مزدوروں کو رکھا جا رہا ہے، ماہرین کے مطابق اسرائیلی معیشت جنگ ختم ہونے کے بعد ہی دوبارہ مضبوط ہو سکتی ہے۔ بچوں، عورتوں اورنہتے لوگوں کو مار کر اسرائیل سمجھ رہا کہ وہ جنگ جیت چکا ہے مگر اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ وہ جنگ ہار چکا ہے، امریکا جس طرح کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اگر مسلم ممالک آگے بڑھ کر حماس کا ساتھ دیں تو یہ جنگ دنوں، مہنیوں میں ختم ہوجائے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

جلیانوالہ 1919: قتل عام یا بیداری کا آغاز؟

13 اپریل 1919, جلیانوالہ باغ کا وہ دن جب بندوقیں بولیں اور عوام خاموش ہو گئے۔ یہ صرف ایک قتل عام نہ تھا، یہ تاریخ کا وہ لمحہ تھا جہاں خوف اور بیداری ایک ساتھ پیدا ہوئے۔ سو سے زائد برس گزرنے کے باوجود آج بھی  سوال بھی وہی ہے کہ کیا یہ صرف ماضی کی داستان ہے یا آج کا آئینہ؟ آج جب سچ کہنے پر قدغن لگی ہے، جب لفظوں پر پہرہ بیٹھا ہے، جب سوشل میڈیا کی آزادی بھی قانون کی زنجیروں میں جکڑی گئی ہے ، جب کسی کی بات کو آگے پھیلانے پر اٹھایا گیا ہے تو یہ سوال پھرایک بار اٹھا ہےکہ کیا ہماری خاموشی ایک نئی جلیانوالہ لکھنے جا رہی ہے؟ یہ بات ہے 13 اپریل 1919 کی جب امرتسرمیں  بیساکھی کا دن تھا، جسے پنجاب کے لوگ خوشی سے منارہے تھے۔ اسی دن شام کے وقت ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے پورے برصغیر کو لرزا کر رکھ دیا۔ جلیانوالہ باغ کے اندر ہونے والا وہ قتل عام نہ صرف انسانیت پر ایک بدنما داغ بن کر ابھرا، بلکہ آزادی کی تحریک کو بھی ایک نیا رخ دے گیا۔ اس دن ہزاروں لوگ جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے، کچھ اپنے مذہبی تہوار کے لیے اور کچھ رولیٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے۔ رولیٹ ایکٹ کو فروری 1919ء میں برطانوی راج نے نافذ کیا تھا، یہ ایک ایسا قانون تھا جو بغیر مقدمے کسی کو بھی قید کرنے کا اختیار دیتا تھا اور آج بھی اس سے ملتا جلتا ایک بنایا گیا ہے۔  اس ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں غصہ بھڑک اٹھا تھا اور امرتسر میں بھی جذبات قابو سے باہر ہو رہے تھے۔ مارچ کے آخر میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال جیسے قومی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد شہر میں ماحول مزید کشیدہ ہو گیا۔ انگریزوں نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ سڑکوں پر فوجی گشت کرنے لگے اور ہر قسم کے جلسے جلوس پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر 13 اپریل کو ہزاروں لوگ ایک مرتبہ پھر جلیانوالہ باغ میں جمع ہو گئے۔ باغ کی دیواروں کے اندر عوامی جوش و خروش عروج پر تھا، لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ موت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ اسی وقت بریگیڈیئر جنرل ریجینالڈ ایچ ڈائر کو اطلاع ملی کہ جلیانوالہ باغ میں جلسہ ہو رہا ہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو لے کر موقع پر پہنچا۔ داخلی راستے پر توپیں نصب کر دی گئیں۔ پھربغیر کوئی وارننگ دیے، جنرل ڈائر نے حکم دیا کہ فائر کرواور فائرنگ شروع ہو گئی۔ بندوقیں آگ اگلنے لگیں۔ چیخ و پکار، بھاگتے قدم اور دیواروں پر چڑھنے کی کوشش میں کئی افراد گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ سپاہیوں نے تقریباً 10 منٹ تک بلا توقف فائرنگ کی، جب تک کہ گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ محسن  رضا کا کہنا تھا کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس وقت کے برطانوی نمائندے انسانی ہمدردی اور اخلاقی اقدار سے مکمل طور پر عاری ہو چکے تھے۔ جنرل ڈائر نے نہتے، پُرامن مظاہرین پر گولیاں چلوا کر یہ دکھایا کہ ان کے لیے مقامی آبادی کی جان کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ بچوں، عورتوں، بزرگوں کو بھی نہ بخشنا ان کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ تاریخ کا وہ سیاح دن تھا، جس میں انسانیت کا سرِعام قتل کیا گیا، جنرل ڈائر نے رپورٹ میں لکھا کہ میرا مقصد صرف ہجوم کو منتشر کرنا نہیں تھا، بلکہ سبق سکھانا تھا۔اس رپورٹ نے اس سوال کو جنم دیاتھا کہ کیا برطانوی حکومت کے نمائندے کسی انسانی ہمدردی کے جذبے سے عاری ہو چکے تھے؟ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دن  379 افراد شہید اور 1200 سے زائد زخمی ہوئےتھے،  مگر عینی شاہدین اور مقامی ذرائع ان اعداد و شمار کو کم از کم 1000 سے زیادہ بتاتے ہیں۔ ایڈووکیٹ محسن رضا کے مطابق ایسے واقعات سامراجی نظام کی فطرت کو پوری طرح بے نقاب کرتے ہیں۔ جب کوئی قوم دوسری قوم پر طاقت کے ذریعے حکومت کرتی ہے، تو ظلم و ستم اور جبر لازمی امر بن جاتا ہے۔ جلیانوالہ باغ جیسے واقعات سامراجی طاقتوں کی اصل سوچ کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ طاقت کی بنیاد پر عوام کو دبانے اور خوف میں رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ جلیانوالہ باغ کے اندر ایک کنواں تھا، جس میں کئی لوگوں نے جان بچانے کے لیے چھلانگ لگا دی، مگر وہی کنواں ان کا قبرستان بنا تھا۔اس طرح کے واقعات تاریخ میں  سامراجی قوتوں کی بے رحمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سانحے کے بعدپورے ہندوستان  میں کہرام مچ گیاتھا ۔ مہاتما گاندھی نے تحریکِ عدم تعاون کا آغاز کر دیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی ’سر‘ کی اعزازی سند واپس کر دی۔ انگریز حکومت نے دباؤ میں آ کر ’ہنٹر کمیٹی‘ قائم کی، جس نے رسمی تحقیقات کیں، لیکن کسی کو انصاف نہ ملا۔ محسن رضا نے کہا ہے کہ ہنٹر کمیٹی ایک علامتی اور نمائشی قدم تھا، جس کا مقصد عوامی غصے کو وقتی طور پر کم کرنا تھا۔ کمیٹی میں مقامی نمائندگی ناکافی تھی اور جنرل ڈائر کو نہ صرف بری کیا گیا بلکہ بعد میں کچھ حلقوں میں اس کو “ہیرو” قرار دے کر انعامات بھی دیے گئے، جو برطانوی حکومت کی منافقانہ پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سانحے نے قوم میں بیداری کا آغاز کیا، ہندوستانیوں کی سوچ بدلنے لگی۔ لوگ سمجھ چکے تھے کہ صرف پٹیشنز یا قراردادوں سے آزادی نہیں ملے گی بلکہ ایک جامع اور متحدہ مزاحمت کی ضرورت ہے۔ ایڈووکیٹ محسن رضا نے بتایا ہے کہ جلیانوالہ باغ کا قتل عام ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ اس کے بعد مہاتما گاندھی سمیت کئی رہنماؤں نے برطانوی راج کی اصلاح کی بجائے مکمل آزادی کا مطالبہ شروع کیا۔ اس واقعے نے عوام کو یہ باور کرا دیا کہ سامراج کے ساتھ اصلاح کی امید رکھنا ایک فریب ہےاور آزادی ہی واحد راستہ ہے۔ آج بھی جب اس سانحے کو یاد کیا جاتا ہے تو سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہوتی ہے کہ

مزاحیہ اداکاری سے لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے والے کامیڈین جاوید کوڈو انتقال فرما گئے

مزاحیہ اداکاری سے لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرے والے اسٹیج اور ٹی وی کے نامور اداکار و کامیڈین جاوید کوڈو انتقال فرماگئے۔ جاوید کوڈو ایک عرصہ سے علیل تھے، وہ اپنے اپنے پست قد کی وجہ سے ہمیشہ مقبول و معروف رہے تھے۔ انہوں نے بے شمار سٹیج ڈراموں فلموں اور ٹی وی پر کام کیا تھا، وہ 45 سال تک میڈیا انڈسٹری کی خدمت کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ مزید پڑھیں: پاکستانی اسکواش کا درخشاں باب بند، آفتاب جاوید انتقال کر گئے انہوں نے اب تک سٹیج ڈراموں سمیت 150 فلموں اور ڈراموں میں کام کیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1981 میں ڈرامہ سودے باز سے کیا، انہوں نے پنجابی اور اردو فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کا مشہورِ زمانہ ڈرامہ ’آشیانہ‘ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔