مارچ میں پاکستان کو 4.1 بلین ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر موصول ہوئیں، گورنر سٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے آج پیر کو بتایا کہ مارچ 2025 میں پاکستان کو 4.1 بلین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، جو ایک نیا ماہانہ ریکارڈ ہے۔ انہوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ اس اضافے سے معیشت، زرمبادلہ کے ذخائر اور درآمد کنندگان کے لیے لیکویڈیٹی کو فائدہ پہنچا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ترسیلات نے ایک ماہ میں 4 بلین ڈالر کی حد کو عبور کیا ہے۔ مارچ 2024 میں یہ 2.95 بلین ڈالر تھیں، جس کے مقابلے میں سالانہ بنیاد پر یہ 37 فیصد بڑھی ہیں۔ فروری 2025 کے 3.12 بلین ڈالر کے مقابلے میں ماہانہ بنیاد پر بھی تقریباً 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جولائی 2024 سے مارچ 2025 تک، ملک کو کل 28 بلین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، جو پچھلے سال کی اسی مدت میں موصول ہونے والے 21.04 بلین ڈالر کے مقابلے میں 33.2 فیصد زیادہ ہیں۔ گورنر نے بتایا کہ جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 14 بلین ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2025 میں پاکستان کو 26 بلین ڈالر کا غیر ملکی قرض ادا کرنا ہے، لیکن حکومت کو امید ہے کہ اس میں سے 16 بلین ڈالر یا تو واپس کیے جائیں گے یا دوبارہ سرمایہ کاری کی جائے گی، جس سے اصل ادائیگی کا دباؤ 10 بلین ڈالر تک کم ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ معیشت میں بحالی کے ابتدائی آثار موجود ہیں، لیکن مالی سال 2025 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو اب تقریباً 3 فیصد رہنے کا امکان ہے، جو پہلے 4.2 فیصد سے زیادہ کا اندازہ تھا۔ اس کی وجہ زرعی شعبے کی توقع سے کم کارکردگی ہے۔ جنوری میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے معاشی اہداف درست سمت میں جا رہے ہیں، اور قرضوں اور ادائیگیوں کا توازن قابو میں ہے۔ مرکزی بینک نے بتایا کہ اس اضافے کی وجہ رسمی بینکاری چینلز کے استعمال، رمضان جیسے موسمی عوامل، اور شرح مبادلہ میں استحکام ہے، جس نے قانونی طریقوں سے پیسہ بھیجنے کو فروغ دیا۔ ترسیلات زر پاکستان کی بیرونی معیشت کو سہارا دیتی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرتی ہیں، اور گھریلو سطح پر آمدنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ خلیجی اور یورپی ممالک سے بھی کچھ حد تک ترسیلات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ریکارڈ آمد پاکستان کو مختصر مدت میں کچھ ریلیف فراہم کرتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک کو بیرونی مالی دباؤ اور مہنگائی کا سامنا ہے۔ ترسیلات کے بڑھنے سے زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط ہوں گے، روپے کی قدر بہتر ہوگی، اور تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی کی امید ہے۔ گھریلو سطح پر ترسیلات زندگی کے اخراجات، علاج، تعلیم اور رہائش کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور بیرونی مالیاتی خلا کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ ڈیجیٹل اور رسمی بینکاری چینلز کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے، اور عوام میں آگاہی مہم اور حوالا/ہنڈی نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کی وجہ سے بھی لوگ زیادہ ترسیلات باضابطہ ذرائع سے بھیج رہے ہیں۔

گندم تیار مگر خریدار نہیں: مریم سرکار کے متنازع فیصلے سے کسان پریشان

اس سال گندم کا سیزن کسانوں کے لیے پچھلے سال سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ مارکیٹ میں خریدار کم ہیں اور قیمتیں 2,200 سے 2,300 روپے فی من تک گر چکی ہیں، جو کہ پیداوار کی لاگت سے بھی کم اور حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی قیمت سے تقریباً آدھی ہیں۔ پنجاب، جو ملک کی 75 فیصد گندم پیدا کرتا ہے، کی فصل ابھی تیار ہو رہی ہے، اور کسانوں کی امیدیں، جو وزیراعلیٰ پنجاب کے وعدوں پر مبنی تھیں، اب مایوسی میں بدل چکی ہیں۔ گزشتہ سال جب پنجاب حکومت نے خریداری نہیں کی تھی، تب وفاقی حکومت نے دوسرے صوبوں کے ساتھ مل کر 30 لاکھ ٹن گندم خریدی تھی، جس سے قیمتوں کو کچھ سہارا ملا تھا۔ لیکن اس سال حکومت نے بغیر کسی واضح منصوبے کے اچانک خریداری بند کر دی، جو آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی کوششوں کا حصہ لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے پالیسی کی سطح پر کئی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ پہلے، ماضی میں حکومت 5 سے 7 ملین ٹن گندم خریدتی تھی، جو کہ کاشتکاروں کی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ جانے والی گندم کا نصف حصہ ہوتا تھا۔ اچانک حکومتی عدم دلچسپی نے مارکیٹ میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔ حکومت نے کوئی نیا نظام متعارف نہیں کروایا اور نہ ہی نجی ملرز یا ذخیرہ کرنے والوں کو سہولت دی کہ وہ اضافی گندم خرید سکیں۔ اگر حکومت آہستہ آہستہ اس عمل سے نکلتی، تو نجی شعبے کو تیاری کا وقت مل سکتا تھا۔ دوسرے، پہلے فلور ملز، چھوٹے خریدار، شہری خاندان اور فیڈ ملز خریداروں میں شامل تھے، جبکہ بڑے ذخیرہ اندوز دور رہتے تھے کیونکہ حکومت ذخیرہ اندوزی کو جرم سمجھتی تھی۔ لیکن اب جب حکومت نے خود خریداری روک دی ہے، تو فلور ملیں اور نجی ذخیرہ کرنے والے ہی بڑے خریدار بننے والے ہیں۔ سرکاری اسٹاک اب فلور ملوں کو دستیاب نہیں، تو وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ یا تو سال بھر کا اسٹاک پہلے ہی خرید لیں یا پھر سال بھر تھوڑا تھوڑا خریدیں۔ اس فیصلے میں سود کی شرح، ذخیرہ کرنے کے اخراجات، اور فصل کے خراب ہونے کا خدشہ بھی شامل ہے۔ نجی ذخیرہ اندوز بھی یہی سب سوچتے ہیں اور ان کے لیے 25 سے 30 فیصد منافع ہی گندم ذخیرہ کرنے کو فائدہ مند بناتا ہے۔ اگر حکومت زبردستی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے، تو نجی خریداروں کا منافع ختم ہو جاتا ہے، جیسے گزشتہ سال پنجاب میں ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت نہ تو فلور ملیں اسٹاک بنا رہی ہیں، اور نہ ہی ذخیرہ کرنے والے میدان میں آ رہے ہیں، جس سے مارکیٹ میں گندم کی خریداری بہت کم ہو گئی ہے۔ تیسرے، حکومت نے اپنے پرانے ذخیرے کا بھی خیال نہیں رکھا، جسے 3,900 روپے فی من پر خریدا گیا تھا، اور اب اس کی قیمت 5,000 روپے فی من ہو چکی ہے۔ قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے حکومت کو نقصان ہوا۔ مزید یہ کہ فصل آنے سے پہلے پنجاب حکومت نے 1.2 ملین ٹن گندم مارکیٹ میں ڈال دی، جس سے نئی فصل کی طلب بھی متاثر ہوئی۔ ان سب پالیسی غلطیوں نے گندم کی مارکیٹ کو بری حالت میں پہنچا دیا ہے۔ اب صرف بڑے خریدار باقی رہ گئے ہیں، جن کے پاس پیسہ بھی ہے اور مارکیٹ کو قابو میں کرنے کی طاقت بھی۔ اس کے بجائے، اگر کسانوں کو مالی سہولت دی جائے اور گندم ذخیرہ کرنے کی سہولت بہتر بنائی جائے، تو وہ فصل کٹنے کے بعد فوراً بیچنے پر مجبور نہ ہوں گے۔ کسان کارڈ، جو قرض دینے کے لیے بنایا گیا تھا، اب کسانوں کے لیے مسئلہ بن چکا ہے۔ جن کسانوں نے ربیع کی فصل کے لیے قرض لیا تھا، انہیں 30 اپریل تک قرض واپس کرنا ہے، بالکل اسی وقت جب گندم کی کٹائی ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ مجبوراً اپنی فصل سستے داموں بیچ رہے ہیں۔ قرض کی مدت کو چھ سے بڑھا کر بارہ ماہ کرنا زیادہ بہتر ہوگا، اور ادائیگی کی تاریخ کو اکتوبر تک بڑھانا چاہیے تاکہ کسان کو دونوں فصلوں سے آمدنی مل سکے۔ قرض کی حد کو 150,000 روپے سے بڑھا کر 300,000 روپے کرنے سے بھی کسانوں کی مالی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ چھوٹی تبدیلیاں کسانوں کو فوری فروخت سے بچا سکتی ہیں اور مارکیٹ میں قیمتوں کو بہتر رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔

طاغوت کے ہتھیار کو طاغوت کے خلاف استعمال کریں گے، حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعتِ اسلامی نے کہا ہے کہ آج کے حکمران امریکہ و اسرائیل کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی امریکہ و اسرائیل کی مزمت کرو، ٹرمپ سے آشیرباد وصول کرنے کے لیے سب لائن بنا کر کھڑے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ جب سے جہاد کا فتویٰ اور بائیکاٹ مہم شروع ہوئی ہے تو ن لیگ نے اس کے خلاف مہم شروع کردی۔ مسلم لیگ ن سن لے اگر تم جہاد اور اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کے خلاف مہم چلارہے ہو تو کھل کر سامنے آؤ یا پیچھے ہٹ جاؤ۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ ہم طاغوت کے ہتھیار کو طاغوت کے خلاف استعمال کریں گے۔ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں گے۔ ہم جہاد کے فتوے کے بعد مسلم امہ کے افواج کا کام ہے کہ وہ جہاد کریں۔ ہم الاقصی اور فلسطین کے بچوں کے لیے مرنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکہ و اسرائیل کے غلاموں تم اپنی سازشوں سے امت کے جذبہ جہاد کو کم نہیں کرسکتے۔

آئی سی سی نے افغان خواتین کرکٹرز کے لیے خصوصی فنڈ کا اعلان کردیا

آئی سی سی نے اتوار کو ایک اعلان کیا، جس کے تحت افغان خواتین کرکٹرز کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی جائے گی تاکہ ان کو کھیل جاری رکھنے میں مدد حاصل ہو سکے۔ اس اقدام کا مقصد افغان کھلاڑیوں کو مالی امداد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ کھیل کی دنیا میں واپس آ سکیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں۔ آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس ٹاسک فورس میں ایک “خصوصی فنڈ” تشکیل دیا جائے گا جو افغان خواتین کرکٹرز کو براہ راست مالی مدد فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ ایک جدید تربیتی پروگرام بھی شروع کیا جائے گا جس میں عالمی معیار کی سہولتیں، تربیت اور ذاتی نوعیت کی رہنمائی فراہم کی جائے گی تاکہ یہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر سکیں۔ آئی سی سی کے چیئرمین جے شاہ نے اس اقدام کے بارے میں کہا کہ “ہم ہر کھلاڑی کو مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں چاہے ان کے حالات جیسے بھی ہوں۔” اس خصوصی منصوبے میں انڈیا کے کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی)، انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) اور کرکٹ آسٹریلیا کی شراکت داری شامل ہو گی، جس کے تحت افغان خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک مکمل اور جامع ہائی پرفارمنس پروگرام مرتب کیا جائے گا۔ یہ پہل افغان کرکٹرز کے لیے ایک دروازہ کھولے گی، جس سے ان کی زندگی میں نئی امید کی کرن پیدا ہوسکے گی۔ مزید پڑھیں: چھکوں کی بارش مگر تماشائی غائب، پی ایس ایل کی رونق کہاں گئی؟

خلیل الرحمان قمر ہنی ٹریپ کیس: عدالت نے تین ملزمان کو سات سال کی سزا سنا دی

پاکستان کے مشہور ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کو اغوا اور ہنی ٹریپ میں پھنسانے والے تین ملزمان کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سات سال قید کی سزا سنا دی۔ عدالت کے جج ارشد جاوید نے پیر کے روز اس فیصلے کا اعلان کیا جب کہ اس کیس میں دیگر ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق 15 جولائی 2024 کو خلیل الرحمان قمر کو لاہور کے ایک گھر میں بلیو پرنٹ کے تحت پھانسنے کا واقعہ پیش آیا۔ رات کے تقریباً 4:40 بجے جب وہ اس گھر پہنچے تو وہاں ایک خاتون، جن کا نام آمنہ عروج تھا، اس نے انہیں خوش آمدید کہا۔ لیکن جیسے ہی خلیل الرحمان نے بیٹھنے کی کوشش کی تو دروازے پر دستک ہوئی اور اندر داخل ہونے والے سات مسلح افراد نے ان کو اغوا کر لیا۔ ان افراد نے خلیل الرحمان کی تلاشی لے کر ان کی جیب سے 60,000 روپے، ایک آئی فون 11، ایک اے ٹی ایم کارڈ اور قومی شناختی کارڈ ضبط کر لیا۔ مزید براں، ان ملزمان نے خلیل الرحمان سے کہا کہ ان کے پاس اسے مارنے کا حکم ہے اور اس کے بدلے 10 لاکھ روپے کی رشوت طلب کی۔ اغوا کاروں نے ان کے بینک اکاؤنٹس سے 2 لاکھ روپے سے زائد رقم بھی نکالی۔ خلیل الرحمان نے بعد ازاں ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا اور پولیس کے ذریعے ایف آئی آر درج کروائی۔ پولیس نے اس کیس میں 11 ملزمان کے خلاف تحقیقات شروع کی جس میں 17 گواہ عدالت میں پیش ہوئے، جن میں خلیل الرحمان خود، ان کے دوست، پولیس اہلکار اور بینک کے عملے کے افراد شامل تھے۔ عدالت نے تین مرکزی ملزمان آمنہ عروج، ممنون حیدر اور زیشان کو اغوا اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت سات سال قید کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کے بعد خلیل الرحمان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ اس طرح کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمیں اپنے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ مزید پڑھیں: جناح ہاؤس حملہ کیس: میڈیکل کی بنیاد پر ضمانت دی تو تمام قیدیوں کو رہا کرنا پڑے گا، چیف جسٹس

جناح ہاؤس حملہ کیس: میڈیکل کی بنیاد پر ضمانت دی تو تمام قیدیوں کو رہا کرنا پڑے گا، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں جناح ہاؤس حملہ کیس کے مرکزی ملزم علی رضا کی ضمانت کی درخواست نے نیا رخ اختیار کر لیا، جب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “اگر میڈیکل بنیاد پر ضمانت دے دی گئی تو پھر تمام قیدیوں کو رہا کرنا پڑے گا۔” تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ہر نوجوان کی بیماری کو بنیاد بنا کر اگر ضمانت دی جائے تو یہ انصاف کے نظام پر سوالیہ نشان ہوگا۔ علی رضا کے وکیل، سمیر کھوسہ نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کی عمر صرف 20 سال ہے وہ شدید بیمار ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کا آڈیو یا ویڈیو ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ اس پر پنجاب کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ علی رضا کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ڈنڈے سے اہلکاروں کو زخمی کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ علی رضا کی موجودگی موقع پر ثابت ہے اور وہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے میں شریک رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’نوجوان ہونا کوئی لائسنس نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے لو۔ اگر علی رضا واقعی بیمار ہے تو پراسیکیوٹر جنرل خود اس معاملے پر غور کریں لیکن عدالت کو قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ دینا ہوگا۔‘‘ عدالت نے مزید سماعت بدھ تک ملتوی کر دی لیکن اس کیس نے ایک بار پھر 9 مئی 2023 کے ہولناک واقعات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے ترک کمپنیوں سے معاہدے 9مئی 2023 کو عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کی شروع ہوئے تھے۔ لاہور میں مظاہرین نے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کا دفتر جلایا بلکہ جناح ہاؤس، جو کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہے، اس پر بھی حملہ کر دیا تھا۔ سرکاری و نجی املاک کو آگ لگائی گئی، درجنوں گاڑیاں جل گئیں اور جی ایچ کیو راولپنڈی کا گیٹ بھی توڑ دیا گیا تھا۔ ان ہنگاموں میں 8 افراد جان سے گئے اور 290 زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بعد ازاں کارروائی کرتے ہوئے ملک بھر سے 1900 سے زائد افراد کو گرفتار کیا، اور فوجی عدالتوں نے کارروائی کرتے ہوئے 25 مجرمان کو 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں دیں جن میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی شامل تھے۔ دوسری جانب علی رضا کی بیماری، نوجوانی اور ویڈیو شواہد کی غیرموجودگی کو ایک طرف رکھیں، لیکن ریاست کا مؤقف یہ ہے کہ ایسے افراد کو رعایت دینا باقی قیدیوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ یہ کیس اب صرف ایک ضمانت کا نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کے عدالتی اور سیاسی نظام کا ٹیسٹ کیس بنتا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز ہونے والی آئندہ سماعت میں کیا فیصلہ ہوگا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مزید پڑھیں: امریکی گانگرس کے وفد کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی تعریف

ریکوڈک منصوبے کے لیے پہلے مرحلے کی فنڈنگ کی منظوری: 7،500 ملازمتیں پیدا ہوں گی

ریکوڈک منصوبہ ایک اہم ترقیاتی موڑ پر آیا ہے، جہاں ایک جامع فزیبلٹی اسٹڈی کے بعد پہلے مرحلے کی فنڈنگ کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی نے رپورٹ کیا ہے۔ منصوبے سے اندازاً 74 ارب ڈالر کا مفت کیش فلو پیدا ہونے کی توقع ہے، جو پاکستان کی معیشت میں خاطر خواہ بہتری کا باعث بنے گا۔ 2025 کے پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم کے دوران عالمی سرمایہ کاروں نے ریکوڈک سمیت دیگر معدنی ذخائر میں گہری دلچسپی ظاہر کی، جو ملک کی معدنی ترقیاتی صلاحیت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ ریکوڈک منصوبہ حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کے اشتراک سے بیرک گولڈ کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس کی سالانہ پروسیسنگ کی صلاحیت 2034 تک 45 ملین ٹن سے بڑھا کر 90 ملین ٹن تک کی جائے گی۔ اس منصوبے سے مقامی آبادی کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے۔ تعمیراتی مرحلے کے دوران تقریباً 7,500 افراد کو ملازمت دی جائے گی، جب کہ طویل مدتی بنیادوں پر 4,000 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ریکوڈک کاپر اور گولڈ پراجیکٹ کے لیے عالمی قرض دہندگان سے دو ارب ڈالر سے زائد کی مالی معاونت متوقع ہے، اور تیسرے سہ ماہی میں ٹرم شیٹس پر دستخط کیے جائیں گے۔ منصوبے کی پیداوار کا آغاز 2028 میں متوقع ہے، جب کہ اس کے پہلے مرحلے کی مالیات پر مختلف قرض دہندگان کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان کے معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ مقامی ترقی، روزگار اور معیشت کے استحکام کے لیے بھی ایک کلیدی کردار ادا کرے گا۔

عالمی منڈی میں تیل سستا، پاکستان میں بھی 8 روپے فی لیٹر کمی کا امکان

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اگلے پندرہ دنوں کے دوران 8 روپے فی لیٹر تک کمی کا امکان ہے، جس سے عوام کو مہنگائی کے دباؤ سے کچھ راحت ملنے کی توقع ہے۔ عالمی تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب حکومتی ذرائع کے مطابق پیٹرول، ڈیزل اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 8.27 روپے فی لیٹر تک کمی ہو سکتی ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے فی لیٹر کی کمی متوقع ہے۔ اس کے علاوہ، کیروسین آئل کی قیمت میں 7.47 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 7.21 روپے فی لیٹر کی کمی آنے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ یہ کمی عالمی تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے سبب ہو رہی ہے جو پاکستانی صارفین کے لیے خوشخبری ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: سبزیوں کی قیمت میں نمایاں کمی کردی، مریم سرکار کا دعویٰ گزشتہ ماہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں صرف ایک روپیہ فی لیٹر کی کمی کی تھی، جس کے بعد پیٹرول کی قیمت 254.63 روپے فی لیٹر تک پہنچی تھی۔ اس سے قبل حکومت نے مارچ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے عوام کی توقعات کو تقویت ملی تھی کہ آئندہ قیمتوں میں کمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں پیٹرول بنیادی طور پر نجی ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ان قیمتوں میں کمی سے middle-class اور lower-middle-class طبقے کے افراد کو خاصا فائدہ ہو گا، کیونکہ ان کے لیے سفر کرنا پہلے ہی مہنگا پڑ رہا تھا۔ اس کے علاوہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں کمی سے بھی نقل و حمل کے اخراجات میں کمی آئے گی جو کہ غذائی اجناس اور دیگر اشیاء کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر یہ کمی واقع ہوتی ہے تو یہ عوام کے لیے ایک بڑی راحت کی علامت ہوگی جو کہ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا یوٹرن: چینی الیکٹرانکس پر 145 فیصد ٹیرف ختم کردیا

پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے ترک کمپنیوں سے معاہدے

ترکی اور پاکستان نے سمندر کے کنارے تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کی ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس معاہدے پر اسلام آباد میں منعقدہ 2025 پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں دستخط ہوئے، جس میں 40 آف شور بلاکس پر مشترکہ بولی شامل ہے۔ تلاش کا دائرہ مکران اور سندھ طاس تک پھیلا ہوا ہے، جہاں ایک حالیہ جیولوجیکل سروے میں وسیع ذخائر کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ترکی کی سرکاری کمپنی ٹی پی اے او، پاکستان کی تین بڑی توانائی کمپنیوں ماری انرجی، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے ساتھ مل کر فروری سے شروع ہونے والے بولی کے عمل میں حصہ لے گی۔ تین سالہ تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا آف شور تیل و گیس ذخائر رکھنے والا ملک ہو سکتا ہے۔ اگر ان ذخائر کی تصدیق ہو جائے تو یہ پاکستان کے لیے توانائی کے میدان میں ایک گیم چینجر ثابت ہو گا اور درآمدی ایندھن پر انحصار میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں توانائی کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری محدود رہی ہے۔ 2023 میں شیل کمپنی نے اپنے آپریشنز سعودی آرامکو کو بیچ کر ملک سے نکلنے کا فیصلہ کیا، جبکہ کئی آف شور بلاکس پر پہلے کی نیلامیوں میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی۔ لیکن حکام کو امید ہے کہ ترکی کے ساتھ یہ نئی شراکت داری سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے گی۔ وزیر توانائی محمد علی کے مطابق پاکستان کے پاس 235 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں، جن میں سے 10 فیصد کو کھولنے کے لیے 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ اس سرمایہ کاری سے ملک کو آئندہ دس سالوں میں توانائی کے شدید بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سمندری پانیوں میں کوبالٹ، نکل، اور نایاب زمینی عناصر جیسے قیمتی معدنیات بھی موجود ہیں۔ حکام نیلی معیشت کو فروغ دینے کے لیے سمندری وسائل، ماحولیاتی سیاحت، اور بائیو ٹیکنالوجی پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم، پاکستان کے پاس فی الحال گہرے سمندر میں کان کنی کی ٹیکنالوجی کی کمی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے قانون سازی میں بہتری، شفاف طرز حکمرانی، اور سرمایہ کاروں کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہو گی۔

بدترین مہنگائی کے باوجود شہباز سرکار نے بیکری، کنفیکشنری، ڈرنکس پر نیا ٹیکس تجویز کر دیا

وزارت صحت کی ایک رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ 2025-26 کے آئندہ بجٹ میں بیکری، کنفیکشنری، اور دیگر الٹرا پروسیسڈ اشیاء پر 20 فیصد ہیلتھ ٹیکس عائد کیا جائے۔ کچھ ایسی اشیاء جن پر پہلے سے 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) موجود ہے، ان پر یہ ٹیکس 40 فیصد تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے، اور 2028-29 تک اسے بتدریج 50 فیصد تک لے جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ان اقدامات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے صحت کے شعبے میں بہتری لائی جا سکتی ہے، اور غیر صحت بخش اشیاء کی کھپت میں بھی کمی ممکن ہو گی۔ حکومت ان مصنوعات پر ٹیکس لاگو کر کے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے، یعنی عوامی صحت میں بہتری اور صحت کے پروگراموں کے لیے اضافی ریونیو۔ یہ تجاویز وزارت صحت کے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے ساتھ بھی شیئر کی گئی ہیں، تاکہ انہیں آئندہ بجٹ میں شامل کیا جا سکے۔ ان مصنوعات میں گیس والے مشروبات، میٹھے جوس، اسکواش، شربت، کنفیکشنری آئٹمز، آئس کریم، چاکلیٹ، بیکری مصنوعات، چپس، جیم، ساسیجز، گوشت سے بنی مصنوعات، اور دیگر صنعتی طور پر تیار شدہ خوراک شامل ہیں۔ ان پر ٹیکس کی شرح 20 سے بڑھا کر 40، اور پھر 50 فیصد تک کی جائے گی۔ رپورٹ میں بعض نئی مصنوعات کو بھی ایف ای ڈی کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جیسے وہ مصنوعات جن میں دودھ کے قدرتی اجزاء شامل ہوں مگر ان میں چینی یا مٹھاس ملائی گئی ہو۔ ساتھ ہی یہ تجویز دی گئی ہے کہ غیر میٹھے پیک شدہ دودھ، سادہ پانی، اور تازہ پھل و سبزیاں زیرو ریٹڈ کی جائیں تاکہ صحت مند متبادل کو فروغ دیا جا سکے۔ اس پالیسی کی بنیاد بین الاقوامی رجحانات اور عالمی بینک کی سفارشات پر رکھی گئی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ٹیکسیشن کو صحت عامہ کی بہتری کے ایک مؤثر آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ الٹرا پروسیسڈ مصنوعات میں چینی، چکنائی، نمک، اور مختلف کیمیکل شامل ہوتے ہیں جو موٹاپے، ذیابیطس، دل کے امراض اور دیگر مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں 18 سے 40 سال کی عمر کے افراد ان مصنوعات کے سب سے بڑے صارف ہیں، اس لیے ٹیکس کا اثر براہ راست اس عمر گروپ پر ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق، ان اقدامات سے طبی اخراجات میں کمی، صحت مند طرز زندگی، اور قومی معیشت پر مثبت اثرات متوقع ہیں۔