اربوں کا بینک اسکینڈل، انڈیا کا مفرور جیولر بیلجیم میں گرفتار

بیلجیم سے ایک ایسی خبر آئی ہے جس نے انڈیا کے مشہور بینک فراڈ کیس کو ایک بار پھر سرخیوں میں لا کھڑا کیا ہے۔ سات سال سے مفرور، انڈیا کا مطلوب ترین جیولر مہول چوکسی بالآخر قانون کی گرفت میں آ گیا۔ انڈیا کی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایک معتبر ذرائع نے  عالمی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو تصدیق کی ہے کہ چوکسی کو بیلجیم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ وہی مہول چوکسی ہے جس پر اپنے بھتیجے نیرو مودی کے ساتھ مل کر انڈیا کے دوسرے بڑے سرکاری بینک، پنجاب نیشنل بینک (PNB) کو تقریباً 2 ارب ڈالر کے فراڈ میں جھونکنے کا الزام ہے۔ 2018 میں سامنے آنے والے اس اہم مالیاتی اسکینڈل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا جب PNB کی ممبئی برانچ میں اس منفرد دھوکہ دہی کا انکشاف ہوا۔ مہول چوکسی، جو گیتانجلی جیمز کا منیجنگ ڈائریکٹر رہا ہے، اس نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انڈیا کی تحقیقاتی ایجنسیوں پر جانبداری کا الزام لگایا تھا۔  2018 میں ایک خط کے ذریعے اس نے دعویٰ کیا کہ “تحقیقاتی ادارے پہلے سے طے شدہ ذہن کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔” جہاں نیرو مودی پہلے ہی برطانیہ میں حراست میں ہے اور ایک ایکسٹراڈیشن اپیل ہار چکا ہے وہیں چوکسی کی گرفتاری ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ انڈین حکومت پہلے ہی اس کی حوالگی کے لیے درخواست دے چکی ہے تاہم قوی امکان ہے کہ چوکسی میڈیکل گراؤنڈز پر اس کا دفاع کرے گا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا نے 2008  کے ممبئی حملوں کے ایک اہم ملزم کو انڈیا کے حوالے کیا اور یہ بلاشبہ انڈیا کے لیے انصاف کی جانب ایک اور قدم ہے۔ مزید پڑھیں: یورپی یونین کا فلسطین کے لیے 1.8 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان

مسلم فوجوں کا یہ کام ہے کہ وہ جہاد کریں، حافظ نعیم الرحمان

حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ جب سے جہاد کا فتویٰ اور بائیکاٹ مہم شروع ہوئی ہے تو ن لیگ نے اس کے خلاف مہم شروع کردی۔ مسلم لیگ ن سن لے اگر تم جہاد اور اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کے خلاف مہم چلارہے ہو تو کھل کر سامنے آؤ یا پیچھے ہٹ جاؤ۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں کہاں ہیں، امریکہ و اسرائیل کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے۔ آپ اپنی پارٹی کے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن 7 ہزار شہداء کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے حکمران کیوں بزدلی دکھاتے ہیں، رازق اللہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تھا، اس وقت لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم نہیں تھا۔ اللہ کے راستے مظلوم کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ پاکستان کو ترقی دے گا۔ اس وقت لیاقت علی خان سے کہا گیا تھا کہ اسرائیل کو مان لو ہم تمہیں بہت کچھ عطا کردیں گے۔ لیاقت علی خان نے قوم کی ترجمانی کی اور کہا کہ ہم پاکستان قوم کی فروخت نہیں کرسکتے۔

بیساکھی کے موقع پر دہشت گردی کا منصوبہ ناکام، 2 ملزمان گرفتار

سی ٹی ڈی نے بیساکھی کے موقع پر دہشتگردی کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے راولپنڈی سے دو دہشتگردوں کو گرفتار کرلیا۔ گرفتار ملزمان کی شناخت بادل سنگھ اور سورج سنگھ کے نام سے ہوئی ہے جن کا تعلق ننکانہ صاحب سے بتایا گیا ہے۔ ان گرفتار دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد برآمد ہوا، جو بیساکھی کے موقع پر ممکنہ طور پر سکھ یاتریوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہونا تھا۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق یہ کارروائی انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر کی گئی، جبکہ پنجاب بھر میں گزشتہ چند دنوں کے دوران دہشتگردوں کے خلاف 189 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، جن کے نتیجے میں 10 دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان آپریشنز کا دائرہ لاہور، بہاولپور، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور جہلم تک پھیلایا گیا۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں ہفتے 2053 کومبنگ آپریشنز کیے گئے جن میں 82 ہزار 473 افراد سے تفتیش کی گئی اور 263 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: امریکی گانگرس کے وفد کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی تعریف ادھر بیساکھی کے موقع پر ہزاروں سکھ یاتری پاکستان پہنچے ہیں جو اپنے روحانی پیشوا بابا گرونانک دیو جی اور دیگر مقدس مقامات پر حاضری دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کو فروغ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یاتریوں کے احترام میں گوردوارہ جنم استھان میں عالمی معیار کے 100 کمرے تعمیر کیے جا رہے ہیں اور ملک بھر کے گوردواروں کی تزئین و آرائش جاری ہے۔ یاد رہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سکھ یاتری گرونانک سمیت اپنے دیگر مذہبی رہنماؤں سے عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے پاکستان آتے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی سے جہاں دہشتگردی کا خطرہ ٹل گیا، وہیں پاکستان نے ایک بار پھر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ یہاں اقلیتیں مکمل آزادی اور تحفظ کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض ادا کر سکتی ہیں۔ مزید پڑھیں: جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما پروفیسرخورشید احمد انتقال کرگئے

آئس اسٹوپا: گلگت بلتستان کی سرد وادیوں میں پانی کی کمی کا دلچسپ علاج

گلگت بلتستان کی سرد وادیوں میں پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے مقامی کسانوں نے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ سردیوں میں برف سے بنے مصنوعی گلیشیئر تیار کر رہے ہیں، جنہیں آئس اسٹوپا کہا جاتا ہے۔ یہ برف کے بڑے ڈھانچے ہوتے ہیں، جو سردیوں میں پانی کو فضا میں چھڑک کر جمائے جاتے ہیں۔ جب موسم بہار آتا ہے اور قدرتی برفانی پگھلنا شروع نہیں ہوتا، تب یہ آئس اسٹوپا آہستہ آہستہ پگھلتے ہیں اور فصلوں کے لیے ضروری پانی فراہم کرتے ہیں۔ یہ خیال مقامی سطح پر پیدا نہیں ہوا بلکہ انڈیا کے زیرِ قبضہ لداخ سے آیا، جہاں ماہرِ ماحولیات سونم وانگچک نے تقریباً ایک دہائی قبل اس تکنیک کو متعارف کروایا۔ حسین آباد کے ایک کسان غلام حیدر ہاشمی نے بتایا کہ انہوں نے یوٹیوب پر اس کے بارے میں دیکھا اور خود سے پہلا مصنوعی گلیشیئر بنایا۔ یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر کے مطابق یہ طریقہ تب کام کرتا ہے جب پانی کو سرد ہوا میں چھڑکا جائے تاکہ وہ فضا میں ہی جم جائے اور برف کی شکل اختیار کرے۔ محمد رضا نامی کسان نے بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں میں آٹھ آئس اسٹوپا بنائے گئے ہیں، جن میں تقریباً دو کروڑ لیٹر پانی محفوظ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے فصلیں بونے کے لیے جون تک انتظار کرنا پڑتا تھا، اب وہ اس سے کہیں پہلے کھیتی شروع کر سکتے ہیں۔ قریبی گاؤں پاری سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کسان بشیر احمد کا کہنا ہے کہ پانی کی بہتر دستیابی سے اب وہ سال میں تین مرتبہ فصلیں اگا سکتے ہیں، جن میں گندم، جو اور آلو شامل ہیں، جبکہ پہلے صرف ایک فصل ممکن تھی۔ یہ طریقہ مہنگے انفراسٹرکچر جیسے پانی کے ذخائر یا ٹینکوں کی ضرورت کے بغیر کام کرتا ہے اور مقامی جغرافیہ و موسم کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ 2018 میں پہلے آئس اسٹوپا کی کامیابی کے بعد گلگت بلتستان کے بیس سے زائد دیہاتوں میں یہ تکنیک اپنائی جا چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور حکومتِ پاکستان کے مشترکہ موسمیاتی پروگرام کے تحت اب سولہ ہزار سے زائد افراد اس نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقے موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں درجہ حرارت عالمی اوسط سے دو گنا تیزی سے بڑھ رہا ہے اور برف باری میں واضح کمی آ چکی ہے۔ ماہر برفانیات شیر محمد کے مطابق پہلے اکتوبر سے اپریل تک شدید برف باری ہوتی تھی، لیکن اب سردیاں خشک ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں مقامی آبادی نے محدود وسائل کے باوجود ایک سادہ، سستا اور مؤثر حل اختیار کیا ہے۔ حسین آباد کے ایک نوجوان یاسر پاروی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر سب پر یکساں ہے، یہاں نہ کوئی امیر ہے نہ غریب، ہم سب اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ایک تجربہ کیا، اور خوش قسمتی سے یہ کامیاب رہا۔

یورپی یونین کا فلسطین کے لیے 1.8 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان

یورپی یونین نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ فلسطینی عوام کے لیے امید کی نئی کرن بن کر سامنے آنے والا یہ اقدام 1.6 ارب یورو (تقریباً 1.8 ارب ڈالر) کی ایک زبردست مالی پیکج کی صورت میں آیا ہے، جو اگلے تین سالوں تک فلسطینی اتھارٹی کو فراہم کیا جائے گا۔ یورپی کمشنر برائے مشرقی بحیرہ روم ‘دوبراوکا شوئیکا’ نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ یہ امداد محض مالی تعاون نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی میں شفافیت، اصلاحات اور بہتر طرز حکمرانی کی ایک نئی بنیاد بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی خود کو بہتر بنائے تاکہ وہ نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ اسرائیل کے لیے بھی ایک بااعتماد اور مضبوط شراکت دار کے طور پر ابھرے۔” یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ کے مابین ایک اعلیٰ سطحی سیاسی ڈائیلاگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ یہ اجلاس پیر کو لکسمبرگ میں منعقد ہو گا، جو فلسطین-یورپی تعلقات میں ایک تاریخی لمحہ ہو گا۔ یہ بھی پڑھیں: مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ کے لیے تیار رہنا، امریکا کی ایران کو دھمکی اس مالی پیکج کے تحت 620 ملین یورو براہ راست فلسطینی اتھارٹی کی بہتری اور اصلاحات کے لیے مختص ہوں گے، 576 ملین یورو مغربی کنارے اور غزہ میں “بحالی و استحکام” کے لیے دیے جائیں گے جبکہ یورپی انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے 400 ملین یورو کے قرضے بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ یورپی یونین فلسطینیوں کی سب سے بڑی مالی مدد فراہم کرنے والی طاقت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ستم ختم ہو، تو فلسطینی اتھارٹی نہ صرف مغربی کنارے بلکہ غزہ کی بھی بااختیار انتظامیہ بنے۔ تاہم، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت مسلسل اس خواب کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے نہ صرف فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرتی ہے بلکہ غزہ کو بھی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کے خلاف ہے۔ اس پس منظر میں یورپی یونین کا یہ فیصلہ ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ لازمی پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا

موہنجو داڑو کے 92 فیصد راز ابھی بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل

معروف مورخ اور محقق پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ شر نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے مشہور قدیم شہر موہنجو دڑو کی اب تک صرف آٹھ فیصد کھدائی ہوئی ہے، جبکہ اس کے بیشتر حصے اب بھی زمین کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔ وہ جامعہ سندھ، جامشورو کے انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی میں ایک لیکچر دے رہے تھے، جس کا انعقاد ایم ایچ پنہور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر شر نے کہا کہ مزید کھدائی سے نئی اور اہم دریافتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ انہوں نے موہنجو دڑو کو صرف آثارِ قدیمہ کا مقام نہیں بلکہ علم، دانش اور ثقافتی عظمت کا خزانہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مقام قدیم سندھ کی ذہانت، تہذیب اور ترقی کی تصویر پیش کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موہنجو دڑو کی زبان نہ تو دراوڑی ہے اور نہ ہی کسی مشہور رسم الخط سے تعلق رکھتی ہے بلکہ یہ ایک منفرد اور اب تک ناقابلِ فہم زبان ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس مقام کی تاریخی اہمیت کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے اور اس کے تعلیمی، فنی اور سماجی نظام کو دنیا کے سامنے لایا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر شر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سائنس اور تحقیق کے لیے فنڈز میں اضافہ کرے اور موہنجو دڑو کو ایک عالمی تعلیمی مرکز کے طور پر اجاگر کرے۔ اسی تقریب میں، جامعہ سندھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھومبتی نے کہا کہ سندھ کی تاریخ، خاص طور پر تقسیم کے بعد، تحقیق کی کمی کا شکار ہے۔ انہوں نے سندھی زبان کے تحفظ کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے اور انگریزی و سندھی دونوں زبانوں میں ڈگریوں کے اجرا کا اعلان بھی کیا۔ اس لیکچر میں کئی مشہور سکالرز اور محققین نے شرکت کی، جن میں ڈاکٹر بھائی خان شر، ڈاکٹر فیاض لطیف چانڈیو، ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ، اور دیگر شامل تھے۔

مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ کے لیے تیار رہنا، امریکا کی ایران کو دھمکی

دنیا کو ایک بار پھر جنگ کی بو محسوس ہونے لگی ہے، ایران کے جوہری پروگرام پر امریکی موقف نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کردی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کی زبان سے نکلے الفاظ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک اعلان جنگ کے مترادف سمجھے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ہم نے پہلے بھی اپنی فوجی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم دوبارہ کریں گے۔” یہ الفاظ دنیا کو 2003 میں عراق کی جنگ کی یاد دلواتے ہیں، لیکن اس بار ہدف ایران ہے، وہی ایران جس پر مغرب کو شبہ ہے کہ وہ جوہری بم کی تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں شروع ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کو عالمی میڈیا نے ایک نئی امید کا نام دیا، لیکن امریکی قیادت کے بیانات اس امید پر شبہات کے بادل لے آئے ہیں۔ پیٹ ہیگسیتھ نے سی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نہ صرف مذاکرات کو “نتیجہ خیز” قرار دیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر سفارتکاری ناکام ہوئی تو فوجی آپشن میز پر موجود ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقف کو مزید سخت بناتے ہوئے بدھ کے روز اعلان کیا کہ “اگر ایران پیچھے نہ ہٹا تو اسرائیل کے ساتھ مل کر کارروائی بالکل ممکن ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نہ صرف اس میں شامل ہوگا بلکہ ممکنہ طور پر قیادت بھی کرے گا۔ ان الفاظ نے مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ ایران کی جانب سے البتہ مکمل خاموشی نہیں بلکہ ایک بار پھر جوہری ہتھیار بنانے کی تردید کی گئی ہے۔ تہران کا مؤقف واضح ہے کہ “ہم پرامن جوہری توانائی چاہتے ہیں، نہ کہ تباہی کے ہتھیار۔” مگر دوسری جانب مغربی انٹیلیجنس رپورٹس یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول سے صرف چند ہفتوں کے فاصلے پر ہے۔ یاد رہے کہ یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کرچکا ہے جب صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کی تھی۔ اس فیصلے نے نہ صرف عالمی اعتماد کو مجروح کیا بلکہ ایران کو دوبارہ اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے کا بہانہ بھی فراہم کر دیا۔ اب سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا ایک اور جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے؟ یا سفارت کاری کی باریک لکیر پر توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا

غزہ میں چھ جوان بھائی اپنے لوگوں کے لیے خوراک لے جا رہے تھا مگر اسرائیلی بمباری نے ان کے قدم ہمیشہ کے لیے روک دیے۔  چھ کے چھ بھائی ایک ساتھ زمین پر گرے، خون سے لت پت۔ ان کی عمریں 10 سے 34 سال کے درمیان تھیں لیکن جذبہ ایک جیسا، انسانیت کی خدمت۔ یہ منظر کوئی فلمی سین نہیں، بلکہ حقیقت ہے۔ ان بھائیوں کے والد، زکی ابو مہدی جو خود اس جنگ میں کئی رشتہ داروں کو کھو چکے ہیں نم آنکھوں سے کہتے ہیں کہ “میرے بیٹوں کے ہاتھ میں صرف روٹی تھی، بندوق نہیں، پھر بھی وہ شہید کر دیے گئے۔” غزہ پر اسرائیلی مظالم رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے، اتوار کے دن ہونے والی بمباری میں کم از کم 37 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے تصدیق کی ہے کہ ایک معصوم بچہ طبی امداد نہ ملنے کے باعث زندگی کی بازی ہار گیا، صرف اس لیے کہ دوا کا راستہ بھی جنگ نے روک دیا۔ یہ بھی پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل شمالی غزہ کا ال اہلی اسپتال، جو کبھی امید کی کرن تھا وہ اب کھنڈر بن چکا ہے۔ اس سے قبل ہفتے کی شب اسرائیلی طیاروں نے اسپتال پر بمباری کر کے نہ صرف وہاں کے مریضوں، بلکہ انسانیت پر بھی حملہ کیا۔ لوگ جو موت سے بچنے کے لیے اسپتال کا سہارا لیتے تھے اب گلیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب نے اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے کھلا انسانی جرم قرار دیا جب کہ برطانیہ نے بھی حملے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ادھر غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک 50 ہزار 944 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جب کہ حکومت کے میڈیا دفتر کا کہنا ہے کہ اصل تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر چکی ہے، کیونکہ ہزاروں افراد ابھی تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ صرف ایک نمبر بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، ضمیر کی جنگ ہے۔ اور جب چھ سگے بھائی صرف اس لیے مارے جائیں کہ وہ بھوکوں کو کھانا دے رہے تھے تو سوال یہ نہیں ہوتا کہ جنگ کب ختم ہوگی… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کب جاگے گی؟ مزید پڑھیں: ‘اس سال کا سب سے بڑا حملہ’ یوکرین میں 21 افراد ہلاک 83 زخمی

امریکی کانگرس کے وفد کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی تعریف

اتوار کو امریکی کانگریس کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں، جن میں انسدادِ دہشت گردی، علاقائی سلامتی، اور باہمی تعاون پر گفتگو کی گئی۔ وفد نے پاکستان کی مسلح افواج کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد اور ملک کی لچکدار صلاحیت کو سراہا۔ یہ وفد امریکی کانگریس مین جیک برگمین کی قیادت میں آیا تھا، جس میں تھامس سوزی اور جوناتھن جیکسن بھی شامل تھے۔ وفد نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، جنرل منیر سے ملاقات میں علاقائی سلامتی، دفاعی تعاون، اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر بات چیت ہوئی۔ دونوں فریقوں نے باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا۔ ملاقات کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر بھی دستخط کیے گئے۔ وفد نے پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں اور دہشت گردی کے خلاف خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور سلامتی، تجارت، سرمایہ کاری اور معیشت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔ جنرل عاصم منیر نے امریکی وفد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ دیرینہ شراکت داری کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے تاکہ دونوں ممالک کے قومی مفادات کا تحفظ ہو۔ اسی دن وفد نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر پاکستان میں امریکی ناظم الامور نٹالی بیکر، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری، اور وفاقی سیکرٹری داخلہ خرم آغا بھی موجود تھے۔ ملاقات میں انسداد دہشت گردی، بارڈر سیکیورٹی، معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون پر بات ہوئی۔ محسن نقوی نے کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور دنیا کو پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے لیے دہشت گردی کے خلاف ایک دفاعی دیوار بنا ہوا ہے۔ انٹیلیجنس اور ٹیکنالوجی کے اشتراک کو انہوں نے انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے امریکی کانگریس کے وفد کو یقین دلایا کہ حکومت سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ اور سہولیات فراہم کرے گی، اور امریکا کی 2025 میں منرلز انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کا خیر مقدم کیا۔ وزیر مملکت طلال چوہدری نے بتایا کہ جون میں اسلام آباد میں ہونے والا کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم کرے گا۔ امریکی ارکانِ کانگریس نے کہا کہ پاکستان کی قربانیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے پاکستان میں مقیم امریکی پاکستانی کمیونٹی کو باصلاحیت اور محنتی قرار دیا۔ یہ وفد ہفتے کے دن پاکستان پہنچا اور یہ امریکی صدر ٹرمپ کے نئے دورِ حکومت میں پہلا اعلیٰ سطحی کانگریسی دورہ ہے۔ دورے کے دوران وفد نے سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ سے بھی ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ بعد ازاں انہوں نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے بھی ملاقات کی، جس میں ترقیاتی تعاون، مشترکہ منصوبوں، اور باہمی اعتماد پر مبنی شراکت داری پر تبادلہ خیال ہوا۔ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے دیرینہ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکی قیادت کو پاکستان کی معاشی مشکلات اور تین دہائیوں سے مہاجرین، منشیات، ہتھیاروں اور انتہا پسندی جیسے مسائل کے اثرات کو سمجھنا چاہیے۔

اکنامک ڈپلومیسی کے دوراہے پر ٹرمپ پالیسی، تجارتی شطرنج یا معاشی قمار؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے متنازع معاشی فیصلوں کے دفاع میں یہ بیانات بارہا دہرائےکہ ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گےیہ دوا ہے،جو تکلیف دہ تو ہےمگر ضروری ہےلیکن بدھ کی صبح ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا”BE COOL. Everything is going to work out well” تو دنیا پھر ان کے اگلے قدم کے متعلق تجسس میں پڑگئی اور صرف چار گھنٹوں بعد جو خود کو ہر طوفان میں ثابت قدم ظاہر کررہا تھا دباؤ میں آکر پیچھے ہٹ گیا ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ 90 دن کے لیے چین کے علاوہ 75 ممالک کے خلاف بڑھائے گئے تجارتی محصولات (ٹیرِف) عارضی طور پر معطل کر رہے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ممالک پر ریسی پروکل ٹیرف لگائے تو یہ صرف ایک اقتصادی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ یہ پوری دنیا کیلئے ایک جارحانہ پیغام تھا کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں، ہمیں صرف فائدہ چاہیے یہ انداز اکنامک ڈپلومیسی کے بنیادی اصولوں کیخلاف ہے،کیونکہ اکنامک ڈپلومیسی میں باہمی اعتماد، احترام اور مفادات کااشتراک شامل ہوتا ہے امریکہ نے بغیر کسی سفارتی مشاورت کے  یکطرفہ طور پر فیصلے کیے، نہ جی7، نہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیش(ڈبلیو ٹی او)، نہ ہی اپنے نیٹو یا یورپی اتحادیوں کو اعتماد میں لیا۔جس سے امریکی قیادت کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانس، جرمنی، جاپان اور کینیڈا جیسے روایتی اتحادی ممالک پر بھی ٹیرف لگا دیا،دنیا کو ایسا محسوس ہوا کہ امریکہ عالمی تجارتی نظام کے قوانین سے نکل کر ٹریڈ از وارکی پالیسی اپنا رہا ہے،امریکی صدر کے ان اقدامات سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اب اتحادیوں کی قیادت کی بجائے اکیلا سوداگربن چکا ہے؟اکنامک ڈپلومیسی میں کرنسی کا استحکام ایک کلیدی فیکٹر ہوتا ہے امریکی اقدامات سے عالمی مارکیٹ میں ڈالر پر انحصار کم کرنے کی بحث چین، روس اور خلیجی ریاستوں میں زور پکڑ چکی ہے یہ وہی ممالک ہیں جو پہلے سے ڈی ڈالرائزیشن کی طرف جا رہے تھے یعنی امریکہ کے رویے نے خود اپنے مالیاتی اثر و رسوخ کو کمزور کیا ہے۔ ٹرمپ نے چین کو ٹیرِف سے مستثنیٰ نہیں رکھا، مگر باقی دنیا پر بھی ٹیکس عائد کر کے ایک غیر یقینی بلاک تخلیق کر دیا جس کا فائدہ چین نے اٹھایا۔چین نے خود کو استحکام کا مرکز بنا کر پیش کیایورپ، لاطینی امریکہ اور افریقی ممالک نے امریکی مارکیٹ پر انحصار کم کرنے پر غور کرنا شروع کر دیاٹرمپ کی پالیسیز کا خیال تھا کہ امریکہ کا فائدہ پہلے، باقی دنیا بعد میں مگر اکنامک ڈپلومیسی کا اصل اصول یہ ہے کہ مفادات کا اشتراک، تعلقات کا احترام اور اثر و رسوخ کا استحکام سب سے پہلے ہےٹرمپ کی پالیسیاں کم عرصے کے فائدے کیلئے ہیں،مگر ڈپلومیسی لمبی مدت کے اعتماد کا کھیل ہے، جو چین بالکل خاموشی کیساتھ یہ کھیل کھیل رہا ہے اور امریکہ اپنا اتحادیوں سمیت دنیا بھر میں اعتماد کھو رہا ہے۔ ٹرمپ کےاقدامات نے بظاہر عالمی معیشت کو یرغمال بنا دیا ہےچین نے فوری ردعمل میں جوابی ٹیرِف عائد کیے،بین الاقوامی مارکیٹس غیر مستحکم ہو گئیں اور سرمایہ کاروں میں بے یقینی پھیل گئی، دنیا کے معاشی ماہرین اسے گلوبلائزیشن کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھ رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ ٹرمپ خود ہار چکا ہے ؟ٹرمپ کا حالیہ یوٹرن نہ صرف ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ امریکی قیادت کے عالمی تصور کو بھی متزلزل کرتا ہے،ٹرمپ کایوٹرن جو خود کو ایک ناقابلِ شکست سوداگر “ماسٹر نیگوشیئیٹر” اور عالمی شطرنج کا کھلاڑی سمجھتا ہے وائٹ ہاؤس کی ٹیم نے اسے ایک حکمتِ عملی قرار دے کر بچاؤ کی کوشش کی، لیکن حقیقت میں یہ فیصلہ ایک اہم معاشی اور سیاسی شکست ہے اس فیصلے نے امریکہ کو ایک غیر یقینی اور ناقابلِ بھروسا تجارتی شراکت دار بنا دیا ہے امریکی ڈالر، عالمی مالیاتی نظام اور امریکی اقتصادی ساکھ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ واقعی معاشی قیادت کے قابل ہیں؟ ٹرمپ کا خواب وہ امریکہ ہے جو 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں تھا جب دنیا جنگوں سے تباہ حال تھی اور امریکہ ایک معاشی دیو تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اب مینوفیکچرنگ روزگار صرف 8 فیصد رہ گیا ہے جو 1970 کی دہائی میں 30 فیصد سے زیادہ تھا اس کا واپس آنا ایک خواب ہے،ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ صدرات ناکام ہے،مگر ٹرمپ کی غیر معمولی اقدامات اور ان کے خلاف بڑھتے ہوئے ردعمل سے اندازہ ہوتا ہےکہ ان کی صدارت خطرے میں ہے ٹرمپ کی صدارت اب آزمائش کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہےاب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں صدر ٹرمپ اپنی معاشی جنگ کو کیسے سنبھالتے ہیں اور کیا وہ ایک بار پھر اسی انداز میں پلٹیں گے، جیسے وہ پہلےپلٹے ہیں؟  یا ایک نئی جنگ میں کود پڑتے ہیں۔