22 اپریل یکجہتی غزہ ہڑتال، پاکستان بزنس فورم کا حمایت کا اعلان

پاکستان بزنس فورم کراچی نے ایک اعلان کیا ہے کہ 22 اپریل 2025 بروز منگل کو ہونے والی ملک گیر شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی مکمل حمایت کی جائے گی۔  یہ ہڑتال فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے منعقد کی جارہی ہے اور کراچی کے تاجر برادری نے اس تاریخی موقع پر اپنے کاروبار بند رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پاکستان بزنس فورم کے صدر، جناب سہیل عزیز نے تمام تجارتی اداروں، مارکیٹ یونینز، صنعت کاروں، اور دکانداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ 22 اپریل کو اپنے کاروبار بند کریں اور فلسطینی عوام کے ساتھ اپنے اتحاد کا عملی ثبوت دیں۔  ان کا کہنا تھا کہ “یہ ہڑتال صرف ایک احتجاج نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں اور ان کے درد میں شریک ہیں۔” یہ ہڑتال نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک کے اتحاد کی علامت ہے۔ کراچی کے تمام تجارتی مراکز میں اس ہڑتال کے دوران ہر سطح پر رابطہ کمیٹیاں فعال ہوں گی تاکہ یہ احتجاج بھرپور اور کامیاب ہو سکے۔ پاکستان بزنس فورم نے اپنے تمام عہدیداروں، صدر، نائب صدور، سیکریٹریز، اور ممبران کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے ذاتی کاروبار بھی بند رکھیں اور اس تحریک میں شامل ہوں۔  ان کا کہنا تھا کہ یہ ہڑتال فلسطینی عوام کے حقوق کی جنگ کا حصہ ہے اور ہمیں اس میں مکمل طور پر شامل ہونا ہے۔ پاکستان بزنس فورم کا ماننا ہے کہ اس ہڑتال کے ذریعے دنیا کو ایک واضح پیغام جائے گا کہ پاکستانی عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ پاکستان بزنس فورم کراچی نے آخر میں تاجر برادری سے اپیل کی ہے کہ “آئیں، 22 اپریل کو ہم سب مل کر اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور یہ ثابت کریں کہ ہم صرف کاروباری لوگ نہیں، بلکہ انسانیت کے علمبردار بھی ہیں۔”مزید پڑھیں: اے این ایف کا ملک بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن، 97 کلوگرام سے زائد منشیات برآمد

اے این ایف کا ملک بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن، 97 کلوگرام سے زائد منشیات برآمد

منشیات فروشوں کے گرد اے این ایف نے گھیرا تنگ کر دیا ہے، ملک بھر میں پانچ بڑے کریک ڈاؤنز کے دوران 97.842 کلوگرام منشیات برآمد کر لی گئی، جن کی مالیت 6 کروڑ روپے سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بھیجے جانے والے ایک پارسل کی معمولی سی تلاشی نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا، جب کپڑوں میں مہارت سے چھپائی گئی 8.750 کلوگرام ہیروئن برآمد ہوئی، جو برطانیہ روانہ کی جا رہی تھی۔ ادھر کراچی میں ایک کوریئر آفس سے سری لنکا کے لیے بھیجے جانے والے پارسل میں 3.6 کلوگرام ہیروئن نے اے این ایف کی تفتیشی مہارت کا پول کھول دیا۔ کوئٹہ کے کچلاک بائی پاس پر واقع غیر آباد مقام سے 60 کلو چرس اور 20 کلو ہیروئن کی برآمدگی نے ایک اور خفیہ نیٹ ورک کا پردہ چاک کر دیا۔ لاہور میں ڈیفینس روڈ کے قریب ایک گاڑی سے 4 کلو آئس پکڑی گئی، جبکہ طورخم زیرو لائن کے قریب 1.492 کلو آئس اسمگلنگ کے لیے چھپائی گئی تھی۔ ایک ملزم گرفتار کرلیا گیا ہے اور پولیس نے مقدمہ بھی درج کرلیا جبکہ تحقیقات جاری ہیں۔ مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور، اسرائیلی مظالم کی مذمت

امریکا نے اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالر کے ٹینک انجن فروخت کرنے کی منظوری دیدی

امریکا نے اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالر مالیت کے ہیوی وہیکل انجن فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی عروج پر ہے اور اسرائیل اپنی فوجی طاقت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔ امریکی دفاعی سلامتی تعاون ایجنسی نے اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انجن اسرائیلی افواج کو جنگی زون میں تیز رفتار اور محفوظ نقل و حرکت فراہم کریں گے۔  یہ صرف انجن نہیں، بلکہ ایک مکمل پیکیج ہے جس میں پرزہ جات، تکنیکی معاونت، اور لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ اقدام اسرائیل کی سرحدی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط بنائے گا، تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ یہ معاہدہ خطے کے فوجی توازن کو متاثر نہیں کرے گا۔ ماہرین کے مطابق اس پیش رفت سے اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی کو نئی جہت ملے گی اور شاید خطے میں طاقت کا توازن ایک بار پھر لرزنے لگے گا۔ مزید پڑھیں: امریکا انسانی حقوق کا علمبردار یا صرف طاقت کا سوداگر؟

بڑے لوگوں کی صحبت

بڑے لوگوں کی صحبت انسان کو بڑا بنا دیتی ہے’۔ اس مقولے کو مجسم دیکھنا ہو تو پروفیسر خورشید احمد کو دیکھئے۔ ان کے آباؤ اجداد جالندھر کی خاک سے اٹھے اور دلی کے ہو گئے پھر رشتوں ناتوں کا سلسلہ ترکی تک دراز ہو گیا، یوں اس خاندان میں وہ کیفیت پیدا ہوئی جسے اقبال نے سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہہ کر بیان کیا ہے۔پروفیسر خورشید کے والد نذیر احمد قریشی دہلوی ثمہ جالندھری ہوتے ہوئے بھی آفاقی مزاج کے بزرگ تھے، یہی سبب تھا کہ شہر کے ایک متمول تاجر ہونے کے باوجود سیاسی سرگرمیوں میں ہمیشہ فعال دیکھے گئے۔ تحریک خلافت ہو یا تحریک پاکستان، برصغیر کو ہلا کر رکھ دینے والی ان دونوں تحریکوں میں وہ بہت نمایاں تھے۔ اسی مزاج پر انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت بھی کی، خاص طور پر منجھلے بیٹے خورشید احمد کی۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، حکیم اجمل خان اور ایسے ہی مرتبے کے دیگر بزرگ ان کے حلقہؑ احباب میں شامل تھے۔ اِن بلند درجہ علمی، ادبی اور سیاسی شخصیات کی محافل میں وہ بڑے اہتمام سے شریک ہوا کرتے اور اپنے بیٹوں کو بھی ساتھ لے جاتے تاکہ اِن کے مزاج تشکیل میں بھی وہیسے ہی عناصر جگہ پاسکیں جن کی کارفرمائی سے ایسے اکابر پیدا ہوئے۔مولانا محمد علی جوہر کا انگریزی اخبار ‘کامریڈ’ ہو یا اردو اخبار ‘ہمدرد’، ان دونوں اخبارات کی توسیع و اشاعت اور کامیابی میں نذیر احمد قریشی کا حصہ غیر معمولی تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔ تحریک خلافت کا تجربہ رکھنے والے اس بزرگ نے مسلم لیگ کے ایک راہ نما کی حیثیت سے اس میں سرگرم حصہ لیا۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب سید ابوالاعلیٰ مودودی ہندوستان کے علمی و سیاسی حلقوں میں شہرت حاصل کر رہے تھے اور ان کی فکر کا ترجمان ماہ نامہ ‘ترجمان القرآن’ تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا تھا۔ مولانا مودودی بھی نذیر احمد قریشی کے حلقہ احباب میں شامل ہو گئے۔ تاریخ جماعت اسلامی کے ماہر پروفیسر سلیم منصور خالد کہتے ہیں کہ جماعت اور مسلم لیگ کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہوتا تو ان دو شخصیات کے درمیان قربت دیکھنے کو نہ ملتی۔یہ گزشتہ صدی کی تیسری کی دہائی کا واقعہ ہوگا جب مولانا مودودی نے علامہ اقبال کے مشورے اور پنجاب کے ایک زمیندار چوہدری نیاز علی کے مالی تعاون سے مشرقی پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں دار الاسلام کے نام سے ایک علمی و تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کے مشورے اور انتظام کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی قائم کی، نذیر احمد قریشی اس کے ایک نمایاں رکن تھے۔یہ پس منظر اور ماحول تھا جس میں 23 مارچ 1932ء کو آنکھ کھولنے والے نوعمر خورشید احمد نے پرورش پائی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور میں کچھ دن گزار کر کراچی منتقل ہو گیا۔ کراچی آمد کے بعد خورشید احمد کی زندگی کے اُس حصے کی ابتدا ہوتی ہے جس میں والد کے بعد ان کے بڑے بھائی ضمیر احمد نے بھی ان کی تربیت میں حصہ لیا۔ یہ ضمیر احمد وہی ہیں 1985ء میں جن کا انتقال پاکستان نیوی کے وائس ایڈمرل کی حیثیت سے ہوا۔ ایڈمرل ضمیر احمد زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمیعت طلبہ کے ایک نمایاں کارکن تھے جن کی دیکھا دیکھی خورشید احمد بھی جمیعت میں شامل ہوئے اور تھوڑے ہی دنوں میں ممتاز حیثیت اختیار کر گئے۔اُس زمانے میں کراچی کے طالب علموں میں ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا طوطی بولتا تھا۔ ڈی ایس ایف بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی طلبہ کی بڑی تنظیم تھی جو کمیونسٹ پارٹی کی نگرانی میں کام کرتی تھی۔ یہ تنظیم نئے طلبہ کو متوجہ کرنے کے لیے ‘اسٹوڈنٹس ہیرالڈ’ کے نام سے ایک جریدہ شائع کیا کرتی تھی۔ خورشید احمد جمیعت میں سرگرم ہو ئے تو انھوں نے بھی اسی روایت پر چلتے ہوئے ‘اسٹوڈنٹس وائس’ کے نام سے ایک جریدے کی اشاعت شروع کی۔ جلد ہی جس کے خریداروں کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچ گئی جسے یہ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہو کر اور آواز لگا کر فروخت کیا کرتے تھے۔ پروفیسر خالد کے مطابق اسٹوڈنٹس وائس کی اشاعت بڑھانے میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان میں دیگر کے علاوہ عبدالقدیرنامی ایک طالب علم بھی شامل تھے جنھیں بعد میں ایٹمی سائنس دان کی حیثیت سے عالم گیر شہرت ملی، یعنی ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ ان کا شمار بھی جمیعت کے ہم خیال طلبہ میں ہوتا تھا۔خورشید احمد نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کریں گے، درس و تدریس کو ذریعہ معاش اور صحافت کو اپنے نظریات کے فروغ کا ذریعہ بنائیں گے۔ ان کی یہ تینوں خواہشیں پوری ہوئیں۔ ایک کالج میں لیکچرر شپ شروع کرنے کے بعد وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے منسلک ہو گئے، جماعت میں وہ پہلے ہی شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ اسی زمانے میں تحریک پاکستان کے قائدین مولانا ظفر احمد انصاری اور بعض دیگر علمی شخصیات کی سرپرستی میں ایک ‘رسالہ وائس آف اسلام’ شائع ہوا، خورشید احمد، اب پروفیسر بھی جن کے نام کا حصہ بن چکا تھا، اس کے ایڈیٹر مقرر کیے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد انھیں ایک اور پرچے ‘چراغ راہ’ کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھنے والے چوہدری غلام محمد اس کے بانی اور جماعت ہی سے متعلق ایک دانش ور مولانا نعیم صدیقی اس کے ایڈیٹر تھے لیکن جیسے ہی یہ جریدہ پروفیسر خورشید احمد کی زیر ادارت آیا، اس کا مزاج ادبی سے علمی ہو گیا۔ جریدے نے مختصر عرصے میں اسلامی قانون نمبر، نظریہ پاکستان نمبر اور سوشلزم نمبر شائع کیے۔ یہ نمبر مواد کے اعتبار سے اتنے بھاری بھرکم تھے کہ ملک بھر میں ان کی دھوم مچ گئی اور پروفیسر خورشید کا شمار ملک کے صف اوۤل کے دانش وروں میں کیا جانے لگا۔مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اگرچہ سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا لیکن سیاسی سرگرمی ان کی شروع کی ہوئی تحریک کا محض ایک حصہ تھی، ان کا اصل میدان اسلام کی تعلیمات

معیشت کی بحالی یا نئے مسائل کا آغاز: آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کیا رنگ لائے گا؟

پاکستان نے حال ہی میں ایک بار پھر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ خبر ملکی اور عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پا چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دے گا یا ایک نئے اقتصادی بحران کی طرف دھکیل دے گا؟ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تاریخ خاصی پرانی اور پیچیدہ ہے، جس میں ہر نئے معاہدے کے ساتھ امید اور مایوسی کا ایک نیا چکر شروع ہوتا ہے۔ پاکستان نے 1958 میں پہلی مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا، اور تب سے اب تک ملک تقریباً 23 بار اس ادارے سے قرض لے چکا ہے۔ ہر بار معاہدے کے پیچھے یہی دلیل دی گئی کہ معیشت کو سنبھالا دینا ہے، مگر نتائج زیادہ تر متنازع اور عوام کے لیے تکلیف دہ نکلے۔ اگر حالیہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو پاکستان کو شدید مالی دباؤ کا سامنا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ کر 8 ارب ڈالر سے نیچے آ چکے تھے، مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے تجاوز کر گئی، اور روپے کی قدر مسلسل گر رہی تھی۔ ان حالات میں حکومت کے پاس بین الاقوامی مالی امداد کے بغیر کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا نیا معاہدہ تقریباً 3 ارب ڈالر کے قرض پر مشتمل ہے، جس میں سے فوری طور پر 1.2 ارب ڈالر جاری کیے جائیں گے۔ معاہدے کی شرائط میں توانائی پر دی جانے والی سبسڈیز کا خاتمہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، اور روپے کی قدر کو مارکیٹ بیسڈ بنانے جیسے سخت اقدامات شامل ہیں۔ کراچی کے صنعتی علاقے کورنگی میں ایک چھوٹی فیکٹری میں کام کرنے والے 39 سالہ سلیم احمد کا کہنا ہے، “پچھلے سال جب بجلی کے بل میں 3 گنا اضافہ ہوا تو ہمارے گھر کا بجٹ مکمل طور پر بگڑ گیا۔ اب دوبارہ وہی ہو رہا ہے۔ مہنگائی کے ساتھ جینا مشکل ہو چکا ہے۔ ہم نے تو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ ریلیف ملے گا، لیکن یہاں تو اور بھی بوجھ بڑھ رہا ہے۔” یہ رائے صرف سلیم تک محدود نہیں۔ ملک کے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ اس معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ صرف اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کا ایک نیا حربہ ہے، جس کا بوجھ ایک بار پھر عام آدمی پر ہی پڑے گا۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر معیشت ڈاکٹر عدنان رؤف اس معاہدے کو قدرے مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، “یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ملکی معیشت کس نہج پر پہنچ چکی تھی۔ اگر فوری طور پر فنڈنگ نہ ملتی تو دیوالیہ پن کا خدشہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا حکومت ان اصلاحات پر مستقل مزاجی سے عمل کرے گی یا نہیں۔” ڈاکٹر عدنان مزید کہتے ہیں کہ پاکستان کی اصل ضرورت وقتی ریلیف نہیں بلکہ پائیدار اصلاحات ہیں۔ “ہم نے بار بار غلطیوں کو دہرایا ہے۔ پچھلے معاہدوں کے بعد بھی یہی کہا گیا کہ اب ہم خود کفالت کی طرف جائیں گے، مگر نتیجہ وہی نکلا۔ اگر اس بار بھی صرف قرض لیا گیا اور اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ معاہدہ بھی صرف وقتی سہارا ثابت ہو گا۔” ادھر لاہور سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ کاروباری خاتون حرا سلیم کہتی ہیں، “میرا چھوٹا سا آن لائن بزنس ہے، جو میں نے کووڈ کے دوران شروع کیا تھا۔ درآمدی اشیاء پر ٹیکس، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت، اور فریٹ چارجز نے ہمارے منافع کو ختم کر دیا ہے۔ اگر حکومت واقعی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے چھوٹے کاروباروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ ورنہ یہ معاہدہ صرف بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ دے گا۔” پاکستانی عوام کی یہ شکایات بے بنیاد بھی نہیں۔ ماضی میں جب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا، اس کے نتائج عوام تک مہنگائی، بیروزگاری اور مالی دباؤ کی صورت میں پہنچے۔ 2019 کے معاہدے کے بعد ہی پاکستان میں ڈالر کی قیمت 140 سے بڑھ کر 170 روپے تک جا پہنچی تھی، اور مہنگائی کی شرح 10 فیصد سے بڑھ کر 14 فیصد تک چلی گئی تھی۔ اب جبکہ نئے معاہدے کے تحت مزید مالیاتی اقدامات کیے جا رہے ہیں، عوامی مشکلات میں اضافہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔ تاہم کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر معاہدے پر درست طریقے سے عمل کیا جائے اور اصلاحات کو سیاسی فائدے کے بجائے ملک کے مستقبل کے لیے نافذ کیا جائے تو یہ معاہدہ ایک نئے آغاز کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ پاکستان میں معاشی چیلنجز صرف مالیاتی نوعیت کے نہیں بلکہ گورننس، ادارہ جاتی کمزوریوں، اور بدعنوانی جیسے مسائل بھی معیشت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ صرف قرضے لے کر یا وقتی اقدامات سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ جب تک ہر نئی حکومت پرانی پالیسیوں کو بدلنے کی روایت ترک نہیں کرتی، تب تک کوئی بھی معاہدہ، چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہو یا کسی اور ادارے سے، دیرپا نتائج نہیں دے سکتا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت اس معاہدے کو کس طرح سنبھالتی ہے۔ کیا یہ صرف ایک اور قرض ہوگا جو آئندہ حکومت کے لیے درد سر بنے گا، یا یہ واقعی ایک ایسے سفر کا آغاز ہو گا جو پاکستان کو خود انحصاری کی طرف لے جائے گا؟ عوام کی نظریں حکومت پر جمی ہیں، اور امید ہے کہ اس بار یہ معاہدہ ایک مثبت تبدیلی کا باعث بنے، نہ کہ ایک اور معاشی بحران کی تمہید۔ کیونکہ اگر ماضی کی غلطیوں کو نہ روکا گیا، تو آئندہ نسلیں بھی انہی قرضوں اور شرائط کی زنجیروں میں جکڑی رہیں گی۔

قومی اسمبلی میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور، اسرائیلی مظالم کی مذمت

قومی اسمبلی نے  متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے جس  میں فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے اور غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کی مذمت کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں اقوام متحدہ پر زور دیا گیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے اور جنگ زدہ غزہ کی تعمیر نو میں فعال کردار ادا کرے۔ سیاسی میدان سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے بحث میں حصہ لیا، اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی اور فلسطینی کاز کی حمایت کا اظہار کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے کیے جانے والے مظالم کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ایوان 60 ہزار فلسطینی شہداء کو سلام پیش کرتا ہے اور جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی مسلسل بمباری کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسرائیلی جارحیت عالمی برادری کی ناکامی ہے۔ قرارداد میں فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی افواج کے فوری انخلاء کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ وفاقی وزیر  قانون نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا موقف بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائد نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان صہیونی ریاست کی حمایت نہیں کرے گا اور موجودہ حکومت اس اصول پر مضبوطی سے قائم ہے۔ انہوں نے غزہ میں انسانی بحران کے پیمانے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 65,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا، “فلسطین میں ظلم و بربریت کا ایک نیا باب لکھا گیا ہے، جہاں معصوم شہریوں بشمول بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو نہیں بخشا گیا ہے۔

بانی پی ٹی آئی کا وجود پاکستان کے لیے ضروری ہے: عالیہ حمزہ ملک

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما عالیہ حمزہ ملک کا کہنا ہے کہ ملک میں استحکام کے لیے اس وقت عمران خان کا موجود ہونا بے حد ضروری ہے۔ عوام صرف عمران خان کی آواز سنتے ہیں اور اگر ملک میں آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے تو عمران خان کو سیاسی منظرنامے پر لانا ناگزیر ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی 9 مئی کے مقدمات میں لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر عالیہ حمزہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم معزز عدلیہ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہمارے خلاف مختلف شہروں میں ایک ہی وقت میں ایف آئی آرز درج کی گئیں، تو سوال یہ ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں متعدد شہروں میں کیسے موجود ہو سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کی رہنما صنم جاوید نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کبھی کسی سے ریلیف نہیں مانگا، ہم تو صرف انصاف کی طلب رکھتے ہیں۔ ہم ہر پیشی پر عدالت میں موجود ہوتے ہیں، پھر بھی ہمیں انصاف نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر بار کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس  ریکارڈ موجود نہیں، جبکہ ہم ڈیجیٹل دور میں رہ رہے ہیں، یہ 1970 نہیں کہ ریکارڈ دستی طور پر نکالنا پڑے۔ تمام ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جانا چاہیے اور غیر ضروری بہانے بازی بند ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کی ایک اور رہنما صائمہ کنول نے پاکستان میٹرز سے گفتگو میں کہا کہ پچھلی پیشی پر مجھے عدالت کے گیٹ پر روک لیا گیا اور اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ سب کچھ عدالتی احکامات پر نہیں بلکہ حکومتِ پنجاب کے احکامات پر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی حلقے اس قدر خوفزدہ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کہ عدالت کی جانب سے پیشی کی تاریخ دیے جانے کے باوجود، ہمارے ایم پی ایز پر دباؤ ڈال کر انہیں عدالت میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔