April 19, 2025 10:22 pm

English / Urdu

ٹرمپ کی حکومت بس اپنے امیر دوستوں کو اور امیر بنا رہی ہے، سابق امریکی صدر جو بائیڈن

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مہنگائی میں نمایاں کمی کا دعویٰ کر کے عوام کو حیران کر دیا۔ ان کے مطابق پیٹرول سمیت روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور امریکی معیشت ایک مثبت سمت میں بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہم نے مہنگائی کے جن کو قابو میں کر لیا ہے اور عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔” سرکاری اعداد و شمار بھی اس دعوے کی تائید کرتے ہیں جن کے مطابق مارچ کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں غیر متوقع کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سابق صدر جو بائیڈن نے شکاگو میں ایک کانفرنس کے دوران ٹرمپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “صدر ٹرمپ کے اخراجاتی منصوبے عمر رسیدہ افراد کی سماجی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔” بائیڈن نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک 7 ہزار سے زائد ملازمین کو نکالا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ نئی حکومت مڈل کلاس کو پیچھے دھکیل کر اپنے امیر دوستوں کو اور امیر بنانا چاہتی ہے، یہ لوگ خود کو سمجھتے کیا ہیں؟” امریکا کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا مہنگائی میں کمی واقعی ٹرمپ کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے؟ مزید پڑھیں: لبنانی صدر کا حزب اللہ کے ہتھیاروں کو حکومتی تحویل میں لینے کا اعلان

بہتر معیشت یا امریکی دباؤ: پاکستان کا امریکا سے تیل درآمد کرنے پر سوچ بچار

پاکستان پہلی بار امریکا سے خام تیل درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے، اور اس تجویز کے پیچھے صرف توانائی کی ضرورت نہیں بلکہ ایک بڑی معاشی حکمتِ عملی ہے۔ تجارتی عدم توازن کو کم کرنا اور امریکی ٹیرف سے بچاؤ، اس فیصلے کے اہم مقاصد میں شامل ہیں۔ حکومتی ذرائع اور ریفائنری حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ تجویز ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن اس پر غور کیا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس وقت امریکا کی جانب سے 29 فیصد درآمدی ٹیرف کا سامنا ہے، جس کی وجہ تقریباً 3 بلین ڈالر کا تجارتی سرپلس ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے عالمی تجارتی نظام کو ہلا دینے والے اقدامات، خصوصاً درآمدی محصولات میں اضافے نے بہت سے ممالک کو اپنی تجارتی حکمت عملی پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان بھی انہی میں شامل ہے، جو اب امریکی خام تیل خرید کر واشنگٹن کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات میں توازن لانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم کو اس تجویز کی منظوری دینی ہے، لیکن اس سے پہلے حکومتی سطح پر تیزی سے اس پر کام ہو رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ تجویز اُن مصنوعات میں سے ہے جن پر امریکا جانے والے وفد کو بات چیت کرنی ہے۔ حکومت پاکستان یہ دیکھ رہی ہے کہ اس درآمد کے لیے کیا مواقع اور ڈھانچہ میسر ہو سکتا ہے۔ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے، تو پاکستان کی موجودہ تیل اور ریفائنڈ مصنوعات کی درآمدات، جو تقریباً 1 بلین ڈالر سالانہ بنتی ہیں، کا ایک حصہ امریکی مارکیٹ سے حاصل کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان مشرق وسطیٰ، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یومیہ 137,000 بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے۔ Kpler کے مطابق، 2024 میں تیل کی مجموعی درآمدات 5.1 بلین ڈالر رہیں۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سعودی عرب نے فروری میں پاکستان کو 1.2 بلین ڈالر کی تیل فنانسنگ سہولت ایک سال کے لیے بڑھائی ہے۔ سعودی فنڈ برائے ترقی 2019 سے اب تک پاکستان کو تقریباً 6.7 بلین ڈالر کی فنانسنگ مہیا کر چکا ہے۔ اس پس منظر میں امریکا سے تیل کی درآمد نہ صرف ایک متبادل ذریعہ ہو گی بلکہ پاکستان کی تجارتی حکمتِ عملی میں تنوع لانے کی بھی کوشش ہوگی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے اقتصادی ماہر سلمان حیدر کا کہنا ہے، “یہ فیصلہ صرف توانائی کی خریداری نہیں بلکہ ایک جیو اکنامک حکمت عملی ہے۔ پاکستان کو اگر امریکی ٹیرف سے بچنا ہے تو تجارت میں توازن لانا ناگزیر ہے، اور امریکی خام تیل کی خریداری ایک بہتر قدم ہو سکتا ہے۔” اس اقدام پر مختلف آراء بھی سامنے آ رہی ہیں۔ کراچی کے ایک ریفائنری ایگزیکٹو، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی، کا کہنا تھا، “امریکی خام تیل کی خریداری کے لیے ہماری ریفائنریز کو کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی کیونکہ ہم اب تک مشرق وسطیٰ کے ہلکے گریڈ کے تیل پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ تاہم، اگر یہ تجارتی دباؤ کم کرتا ہے تو ان تبدیلیوں کی لاگت برداشت کی جا سکتی ہے۔” ادھر اسلام آباد میں توانائی سے وابستہ امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی فہد ملک کا کہنا ہے، “یہ فیصلہ پاکستان کے امریکی تجارتی تعلقات میں ایک نیا باب کھول سکتا ہے، لیکن اس کے لیے حکومت کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ صرف سیاسی اشاروں پر نہیں، بلکہ مارکیٹ کی حقیقتوں کے مطابق قدم اٹھانا ہوگا۔” پاکستان کے لیے یہ موقع نہ صرف ٹیرف سے بچاؤ بلکہ توانائی کی سپلائی کو متنوع بنانے کے لیے بھی اہم ہو سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر بڑے درآمد کنندگان بھی اسی سمت میں سوچ رہے ہیں۔ انڈیا نے حال ہی میں امریکی LNG منصوبے میں 26 فیصد حصہ خرید کر اس رجحان کو مزید تقویت دی ہے، جبکہ جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان الاسکا کے LNG منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ تمام ممالک امریکی توانائی ذرائع سے جڑ کر نہ صرف اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں بلکہ تجارتی سطح پر امریکہ کو خوش رکھنا بھی ان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی وقت ہے کہ وہ روایتی ذرائع سے آگے نکل کر اپنی توانائی اور تجارتی حکمتِ عملی کو نئے خطوط پر استوار کرے۔ ایک سینئر حکومتی افسر کا کہنا ہے، “یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی درآمدی ڈھانچے، ریفائنری صلاحیتوں، اور عالمی منڈی کی قیمتوں کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن اگر یہ فیصلہ ہو جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف امریکی تعلقات میں بہتری آئے گی بلکہ ہمارے تجارتی کھاتوں پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔” فی الوقت وزارت پٹرولیم نے اس تجویز پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ لیکن اعلیٰ حکومتی حلقے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ تجویز زیر غور ہے اور امریکہ جانے والے وفد کی ایجنڈا فہرست میں شامل ہے۔ آنے والے ہفتوں میں اگر یہ معاہدہ عملی شکل اختیار کر لیتا ہے، تو پاکستان کی توانائی پالیسی میں یہ ایک نمایاں تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان اس اقدام کے ساتھ ساتھ دیگر امریکی مصنوعات کی درآمد پر بھی غور کرے۔ لیکن فی الحال توجہ خام تیل پر مرکوز ہے، کیونکہ یہ فوری طور پر نہ صرف تجارت میں توازن لا سکتا ہے بلکہ توانائی کے شعبے میں ایک نیا باب بھی کھول سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، اور بڑھتی ہوئی درآمدی لاگت شامل ہے۔ اگر امریکی خام تیل کی درآمد سے ان مسائل میں کچھ حد تک کمی آتی ہے تو یہ فیصلہ قابلِ ستائش ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تجویز صرف فائلوں تک محدود رہتی ہے یا عملی اقدام میں بدلتی ہے۔ اگر حکومت صحیح فیصلے اور بروقت اقدامات کرے، تو یہ فیصلہ مستقبل میں پاکستان کی توانائی خود مختاری اور تجارتی سفارتکاری کا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

ون ڈے کرکٹ میں آئی سی سی کا دو گیندوں کے اصول میں تبدیلی پر غور

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) رواں ہفتے ہرارے میں ہونے والے اہم اجلاسوں میں اس تجویز پر غور کر رہی ہے کہ ون ڈے میچ کی ہر اننگز میں 35ویں اوور کے بعد صرف ایک گیند استعمال کی جائے۔ وہی دو گیندوں والا اصول، جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے رائج ہے اب ماضی کا قصہ بن سکتا ہے۔ یہ انقلابی تجویز آئی سی سی مینز کرکٹ کمیٹی کی جانب سے دی گئی ہے جس کی سربراہی سابق بھارتی کپتان سارو گنگولی کر رہے ہیں۔ اس تجویز کے مطابق اننگز کا آغاز تو دو نئی گیندوں کے ساتھ ہی ہوگا لیکن 34 اوورز مکمل ہونے کے بعد فیلڈنگ ٹیم کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ دونوں گیندوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے جس کے ساتھ میچ کے باقی 16 اوورز مکمل کیے جائیں گے۔ اور غیر منتخب گیند کو بطور ریزرو محفوظ رکھا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا میں گیند کی تبدیلی کا وقت 25 اوورز تجویز کیا گیا تھا مگر کمیٹی نے طویل مشاورت کے بعد 34 اوورز پرانے گیند کے ساتھ آگے کھیلنے کو زیادہ مناسب سمجھا۔ اس تجویز کا مقصد ہے کہ بیٹنگ اور بولنگ کے درمیان وہ توازن پیدا کرنا جو جدید دور کی ہائی اسکورنگ ون ڈے کرکٹ میں اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ اصول 2011 سے نافذ ہے جب دو نئی گیندیں متعارف کروائی گئی تھیں تاکہ گیند کو زیادہ چمکدار اور تیز رکھا جا سکے۔ مگر اس سے بولرز، خاص طور پر اسپنرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور میچز بیٹنگ ڈومینیٹ بنتے چلے گئے۔ اب آئی سی سی تمام بورڈز سے اس تجویز پر رائے طلب کر رہا ہے اور اگر اکثریت نے ہری جھنڈی دکھائی تو یہ نیا قانون جولائی میں ہونے والی آئی سی سی کی جنرل میٹنگ میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف “پلئینگ کنڈیشنز” کی سطح پر ہوگی لہٰذا بورڈ کی باقاعدہ منظوری درکار نہیں ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ قدم واقعی کھیل کا توازن بحال کر پائے گا یا صرف ایک تجربہ بن کر رہ جائے گا؟ مزید پڑھیں: شعیب اختر نے پاکستان سپر لیگ میں نئی فرنچائز “پنڈی ایکسپریس” کی شمولیت کا مطالبہ کردیا

لبنانی صدر کا حزب اللہ کے ہتھیاروں کو حکومتی تحویل میں لینے کا اعلان

لبنان کے صدر جوزف عون نے ایک اعلان کیا ہے، قطر کے دورے کے دوران 15 اپریل کو ایک غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں صدر نے کہا کہ وہ 2025 کو ایسا سال بنانا چاہتے ہیں جب پورے ملک میں صرف ریاست کے پاس ہتھیار ہوں اور کوئی بھی مسلح گروہ ریاستی اختیار سے باہر نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے تاکہ تنظیم کو پرامن انداز میں غیر مسلح کیا جا سکے۔ صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ “ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور تمام ہتھیار ریاست کے ماتحت ہوں۔” صدر جوزف عون نے اس خیال کو بھی مسترد کیا کہ حزب اللہ کے جنگجوؤں کو فوج میں علیحدہ یونٹ کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق جو افراد چاہیں وہ لبنانی فوج میں شامل ہو سکتے ہیں، لیکن الگ سے کسی گروپ کی شکل میں نہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ بڑھ رہا ہے اور لبنان اندرونی طور پر بھی معاشی اور سیاسی چیلنجز سے نبردآزما ہے۔ صدر جوزف عون کا کہنا تھا کہ ریاستی کنٹرول سے باہر ہتھیاروں کی موجودگی اب ناقابل قبول ہے۔ کیا یہ اقدام لبنان کو ایک نئے دور میں داخل کرے گا یا حزب اللہ کی طرف سے مزاحمت کی نئی لہر جنم لے گی؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر صدر جوزف عون نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ لبنان اب مزید غیر ریاستی ہتھیاروں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مزید پڑھیں: سوڈان کے علاقے دارفور میں حملے سے جاں  بحق افراد کی تعداد تین سو ہو گئی: اقوام متحدہ

وہ تین نہیں چار تھے

وہ تین نہیں چار یار تھے،چار روشن ستارے تھے۔ جن کی عمریں قیام پاکستان کے وقت، ۱۵ ۱۵ سال تھیں۔جنہوں نے  ۱۹۵۰ کے عشرے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے سید ابوالاعلی مودودی کے لٹریچر سے متاثر ہو کر دین اسلام کی ترویج اور اس کو ایک ضابطہ حیات کے طور پر نافذ کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا، اسلامی جمیعت طلبہ  کو منظم کرنے اور طلبہ کو اسلام کے پرچم تلے لا کر ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی ایک بڑی قوت بنانے میں مرکزی کردار اداکیا اور تعلیم اور جمیعت سے فراغت کے بعد بھی اس مشن کو زندگی بھر جاری رکھا اور اس کا سارا وقت دین کی سربلندی کےلئے وقف کئے رکھا۔انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے نوجوان نسل کو بڑا متاثر کیا اور ان کی زندگیاں بدل دیں اور دنیا بھر میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔  وہ چار یار پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر اسرار احمد، خرم جاہ مراد اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری تھے۔ اتفاق دیکھئے کہ ان چار یاروں کا پیدائش کا سال بھی ایک ہی ۱۹۳۲ ہے۔ان میں سب سے بڑے  پروفیسر خورشید احمد تھے جن کی پیدائش ۲۳ مارچ ۱۹۳۲کی ہے جب کہ ڈاکٹر اسرار احمد ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ میں، خرم جاہ مراد۔ ۳ نومبر ۱۹۳۲ میں اور ڈاکٹر ظفر اسحٰق انصاری ۲۷ دسمبر ۱۹۳۲میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر اسرار پروفیسر خورشید سے ۳۴ دن، خرم جاہ مراد ۷ ماہ ۱۰ دن اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ۹ ماہ اور ۴ دن چھوٹے تھے۔پروفیسر خورشید نے ان میں سب سے زیادہ عمر پائی انتقال کے وقت ان کی عمر ۹۳ سال اور ۲۰ دن تھی۔جب کہ ڈاکٹر اسرار ۱۲ دن کم ۷۸ برس کی عمر میں ۴۱ اپریل ۲۰۱۰ کو اپنے خالق سے جا ملے۔اس کو بھی حسن اتفاق ہی کہیں گے کہ پروفیسر خورشید اور ڈاکٹر اسرار کی پیدائش اور وفات کا مہینہ اپریل ہی ہے۔خرم جاہ مراد اس دنیائے فانی میں ۶۴ سال ایک ماہ اور ۱۶ دن کی بھرپور زندگی گزار۱۹ دسمبر ۱۹۹۶ کو خالق  حقیقی سے جا ملے اور ان چاروں میں سب سے چھوٹے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ۸۳ سال ۸ ماہ اور تین دن کی عالمانہ اور داعیانہ زندگی جی کر ۲۴ اپریل ۲۰۱۶ کو اپنے رب عظیم کے حضور پیش ہو گئے۔ان چاروں کے خاندان قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان چاروں کو اردو، انگریزی، عربی اور فارسی اور مقامی زبانوں میں لکھنے اور تقریر کرنے کی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہوا تھا۔  ہم اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ان چاروں سے ہمارے مراسم رہے، سب سے زیادہ پروفیسر خورشید سے رابطہ اور تعلق رہا جس کا دورانیہ ۱۹۶۴ سے آخر تک ۶۱ سال ہے، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری سے ان کے سعودی عرب سے واپسی کے بعد سے ان کے انتقال تک ۳۲/۳۳ سال، خرم جاہ مراد سے ان کی قید سے واپس آنے کے بعد چند برس اور سب سے کم ڈاکٹر اسرار سے تعلق رہا۔ہم نے ان چاروں کے نظریات اور سوچ کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی۔اس لحاظ سے یہ چاروں روشن ستارے ہمارے محسن ہیں۔  یپروفیسر خورشید کا خاندان دہلی سے،خرم جاہ مراد کا خاندان بھوپال سے اور ڈاکٹر ظفر احمد انصاری کا خاندان بھی دہلی سے کراچی پہنچا جب کہ ڈاکٹر اسرار کا خاندان ضلع حصار اور ہریانہ سے لاہور میں آ کر آباد ہوا۔ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک ادارہ، ایک انسٹی ٹیوٹ، ایک تھنک ٹینک اور ایک انجمن تھا جن میں سے ہر ایک کے کام کو دیکھ کر تعجب اور حیرت ہوتی ہے  کہ ایک شخص تنہا اتنا بڑا کام بھی کرسکتا ہے۔ یہ چاروں فکر مودودی کے اصلی وارث، جانشین اور ان کے مشن کے علم بردار تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان چاروں کو علم، تحریر اور تقریر کی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔ ان چاروں کو اردو، انگریزی، عربی اور فارسی اور مقامی زبانوں میں لکھنے اور تقریر کرنے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی کتابوں، اپنی تقریروں اور اپنے عمل سے دنیا بھر میں متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ورثہ اور صدقہ جاریہ کے طور چھوڑا ہے۔ پروفیسر خورشید نے تین تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پالیسیز اسٹڈیز ( IPS ) اسلام آباد، اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر یو کے اور اسلامک مشن کینیا نیروبی، ۱۰۰ سے زیادہ کتب، پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن کی حیثیت میں ۲۲ سال کے دوران کی گئی تقریروں کا مجموعہ اور مختلف یونیورسٹیوں کے قیام میں ان کی رہنمائی اور درجنوں یونیورسٹیوں میں ہزاروں شاگردوں کو چھوڑا ہے۔ انہوں نے ۱۹۹۶ میں خرم جاہ مراد کی وفات کے بعد مولانا مودودی کے ماہ نامہ ترجمان القرآن کے مدیر کی حیثیت سے ان کے مشن کو جاری رکھا اور اس کے اشارات لکھتے رہے۔جس میں وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ملکی اور عالمی حالات کا تجزیہ پیش کرتے تھے۔وہ اپنے انتقال تک اس کے مدیر رہے اور ان کے آخری اشارات فروری ۲۰۲۵ کے ترجمان القرآن میں شائع ہوئے یعنی اپنے انتقال سے ڈیڑھ ماہ پہلے تک وہ پر مغز ، معلوماتی اور علمی اشارات اپنی یاد داشت سے زبانی نقل کرایا کرتے تھے کیوں کہ انہوں نے کافی عرصے سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی اور جسمانی کمزوری کی وجہ اپنے ہاتھ سے لکھنا ترک کر دیا تھا۔  ڈاکٹر اسرار احمد اسلامی جمیعت طلبہ کی نظامت اعلیٰ کے بعد جماعت اسلامی میں تھوڑا عرصہ ہی رہے لیکن جب تک رہے اپنی پوری صلاحیتیں اس کے فروغ اور ترویج کےلئے صرف کرتے رہے۔ لیکن طریقہ کار میں اختلاف رائے کی وجہ سے ۱۹۵۷ میں مولانا امین احسن اصلاحی اور دوسروں کے ساتھ جماعت اسلامی سے اپنی راہیں جداکرلیں لیکن وہ مولانا مودودی کی اقامت دین کی فکر کے ساتھ نا صرف جڑے رہے بلکہ انہوں نے اپنی تحریک کا مشن اور مرکز و محور قرآن کی اسی تعبیر اقامت دین ہی کو بنایا اور خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کی صورت میں قرآن کے اسکالرز کی ایک بے لوث جماعت اور جگہ جگہ قرآنی حلقے اور مراکز قائم کر دیئے جو ان کے مشن کو ملک اور بیرون ملک جاری

زرعی ملک میں کسانوں پر حکومتی سرپرستی کا فقدان، گندم تیار مگر خریدنے والا کوئی نہیں

ملک بھر میں گندم کی کٹائی کا موسم شروع ہو چکا ہے اور پنجاب سمیت کئی علاقوں میں کسان اپنی فصلیں میدانوں سے اٹھانے میں مصروف ہیں۔ تاہم اس سال بھی حکومتی سطح پر گندم کی قیمت یا خریداری سے متعلق کوئی باقاعدہ پالیسی سامنے نہیں آ سکی، جس کے باعث کسان طبقہ شدید بے یقینی اور معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ ایک طرف فصل تیار ہے، دوسری طرف یہ واضح نہیں کہ اس کی فروخت کس نرخ پر ہوگی اور خریدار کون ہوگا۔ یہ صورتحال نہ صرف کاشتکاروں کی معاشی حالت پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ ملک کی زرعی معیشت میں موجود چیلنجز کو بھی نمایاں کر رہی ہے۔ کسانوں کی پریشانی اور اوپن مارکیٹ کا رحم و کرم پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کے مطابق کاشتکار کو اس سال بھی اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال بھی گندم کی سرکاری خریداری نہ ہونے کے باعث کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑا، اور یہی صورتحال اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ “آج کسان اپنی پیداوار کی لاگت بھی پوری نہیں کر پا رہا۔ بجلی، کھاد، بیج اور زرعی ادویات اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ کسان اپنے زیور بیچ کر کھیتوں میں سرمایہ لگا رہا ہے، لیکن بدلے میں اُسے مناسب قیمت نہیں ملتی کسان اتحاد کا مؤقف ہے کہ گندم کی موجودہ پیداواری لاگت تقریباً 3300 سے 3400 روپے فی من ہے، جب کہ اوپن مارکیٹ میں قیمت صرف 2200 روپے فی من تک ہے، یعنی فی من تقریباً 900 روپے کا خسارہ۔ سرکاری مؤقف: “اوپن مارکیٹ میں فروخت کی آزادی ہی حل ہے“ پنجاب کے محکمہ خوراک کے ترجمان طلحہ ملک نے اس حوالے سے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت اس سال بھی گندم خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ “گزشتہ سال کی طرح کاشتکار اوپن مارکیٹ میں اپنی گندم جس قیمت پر چاہیں بیچ سکتے ہیں۔ جب حکومت خریداری نہیں کر رہی تو قیمت کا تعین بھی ممکن نہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بین الصوبائی گندم کی نقل و حمل پر پابندیاں ختم کر دی ہیں تاکہ کسان جہاں بہتر نرخ ملے، وہاں اپنی گندم فروخت کر سکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی صوبے سے گندم کی نقل و حمل اور مارکیٹ کی ڈی ریگولیشن کی منظوری دے دی ہے۔ کسان اتحاد کا مطالبہ: کسان اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کا سرکاری نرخ 3900 روپے فی من مقرر کیا جائے، یہاں پر کسان اتحاد کی بات کی جائے تو ان میں بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ کا کہنا ہے کہ گندم کا کم از کم ریٹ 4000 روپے من مقررر کیا جائے  تاکہ کاشتکار کو کم از کم اپنی لاگت وصول ہو سکے۔ خالد کھوکھر   پریس کانفرنس کے دوران کہا: “یہ مسئلہ صرف کسانوں کا نہیں، بلکہ پورے ملک کی فوڈ سیکیورٹی کا ہے۔ اگر کسان کو نقصان ہوا تو ملکی معیشت کو دھچکا لگے گا۔ انھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کی مشیر سلمیٰ بٹ کے بیانات کو کسانوں کی “تضحیک” قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پورے ملک سے کسان اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ پالیسی تضادات: پیداوار میں اضافہ، درآمدات بھی جاری گزشتہ سال پاکستان میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، تاہم نگراں حکومت نے اس وقت 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی، حالانکہ نئی فصل تیار ہو چکی تھی اور ملک بھر کے گوداموں میں 23 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔ وفاقی حکومت کا مؤقف: “آئی ایم ایف معاہدے کے باعث خریداری ممکن نہیں“ وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ، رانا تنویر حسین نے قومی اسمبلی میں تحریری رپورٹ جمع کرواتے ہوئے واضح کیا کہ آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط کے تحت وفاقی حکومت گندم نہیں خرید سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سال 2025 کی گندم کی پیداوار، سال 2026-25 کے لیے ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ وزیر کے مطابق گندم کی درآمد یا برآمد کا فیصلہ مارکیٹ کی طلب کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے گندم پالیسی کی تشکیل کے لیے کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جس کے اب تک دو اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ ماہرین کی رائے: “غیر یقینی پالیسیاں کسان کے لیے تباہ کن ہیں“ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی کی غیر تسلسل اور کسان کو نجی مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ایک خطرناک رجحان ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں گندم جیسی بنیادی اجناس کی قیمت اور پالیسی کا واضح تعین نہ ہونا قومی سلامتی کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ نتیجہ: بحران کا حل صرف فوری اور مربوط پالیسی سازی موجودہ صورتحال میں حکومت کی “فری مارکیٹ” پالیسی ایک طرف کسان کو کمزور کر رہی ہے، تو دوسری طرف ملک کو خوراک کے معاملے میں غیر یقینی میں مبتلا کر رہی ہے۔ گندم کی قیمت کا اعلان، شفاف خریداری کا نظام، اور کسان کی پیداواری لاگت کو مدنظر رکھ کر پالیسی سازی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو نہ صرف کسان سڑکوں پر ہوں گے بلکہ آئندہ سیزن میں گندم کی پیداوار پر بھی براہِ راست اثر پڑ سکتا ہے، جس کے نتائج مہنگائی، فوڈ سیکیورٹی اور دیہی معیشت کی تباہی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔