’یہ ریلیف نہیں استحصال ہے‘ کسان تنظیموں نے پنجاب حکومت کے مالیاتی پیکج کو مسترد کر دیا

پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کے کاشتکاروں کے لیے 15 ارب روپے کے مالیاتی پیکج کے اعلان کے باوجود، کسان تنظیموں نے اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے اور اسے بااثر طبقے کے فائدے کے لیے قرار دیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس پیکج کا مقصد گندم کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کے اثرات سے کسانوں کو بچانا ہے، جبکہ کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ ریلیف نہیں بلکہ استحصال ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق، 550,000 گندم کے کاشتکاروں کو براہ راست مالی امداد دی جائے گی، جو کسان کارڈ کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، کسانوں کو رواں سال آبپاشی اور مقررہ ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔ حکومت نے چار ماہ کے لیے مفت اسٹوریج اور الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسید (ای وی آر) کی سہولت بھی متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے تاکہ کاشتکار موسمیاتی اثرات اور مارکیٹ کے دباؤ سے محفوظ رہ سکیں۔ ای وی آر سسٹم کے تحت، کسان اپنی گندم ذخیرہ کر کے اس کے عوض بینکوں سے اس کی قیمت کا 70 فیصد تک قرض حاصل کر سکیں گے۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس نظام سے کسانوں کو فوری مالی مدد ملے گی اور وہ گندم کی بہتر قیمت کا انتظار کر سکیں گے۔ مزید اقدامات میں فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈرز کو بینک آف پنجاب سے 100 ارب روپے تک کے قرضے دیے جانے کی سہولت شامل ہے، جن پر مارک اپ حکومت ادا کرے گی۔ ان اداروں کو گندم کی لازمی خریداری کی پابندی کا سامنا ہوگا اور کل گندم اسٹوریج کی گنجائش کا 25 فیصد تک ذخیرہ کرنا بھی لازم ہوگا۔ حکومت نے وفاقی سطح پر گندم اور گندم کی مصنوعات کی برآمدات کی اجازت کے لیے بھی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ساتھ ہی، گندم کی نقل و حمل پر صوبائی و ضلعی سطح پر عائد پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں تاکہ گندم کی مارکیٹنگ کا عمل مزید موثر ہو سکے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ حکومت کسانوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے گی اور انہیں نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس نگران حکومت نے گندم کی درآمدات کے باعث کسانوں سے مقامی خریداری نہیں کی، جس سے گندم کی قیمت گر گئی تھی۔ تاہم، کسان رہنماؤں نے اس پیکج کو سرمایہ داروں کے لیے قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ کسانوں کو 4000 روپے فی من گندم کا ریٹ درکار ہے، جو حکومت نے فراہم نہیں کیا۔ ان کے بقول، یہ پیکج جاگیرداروں اور بااثر طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔ کسان اتحاد کے مرکزی چیئرمین خالد حسین باٹھ نے بھی پیکج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ای وی آر سسٹم امیر طبقے کے لیے بنایا گیا ہے، جبکہ دیہات میں کسانوں کے پاس ذخیرہ کرنے کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پیکج دراصل فلور ملز اور لائسنس ہولڈرز کو نوازنے کا طریقہ ہے، جس میں اصل کسان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ پاسکو اور محکمہ خوراک جیسے اداروں کو کمزور کر رہی ہے، جو کہ کسانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ خالد باٹھ کا کہنا تھا کہ جب تک گندم کا سرکاری ریٹ مقرر نہیں کیا جاتا، کسان مارکیٹ کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ دونوں رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پیکج پر نظرثانی کرے اور کسانوں کو حقیقی معنوں میں فائدہ پہنچانے والے اقدامات اٹھائے، بصورت دیگر کسانوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
کپاس کی درآمدات میں اضافہ، انڈیا امریکی کپاس کا بڑا خریدار بن گیا

انڈیا میں امریکی کپاس کی مانگ اچانک کیوں آسمان چھو رہی ہے؟ کیا یہ صرف قیمتوں کا کھیل ہے یا اس کے پیچھے چین اور امریکا کی تجارتی جنگ کا ہاتھ ہے؟ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ چین نے امریکی کپاس پر ٹیرف 84 فیصد سے بڑھا کر 125 فیصد کر دیا ہے جس کے بعد امریکی کسانوں کو اپنی فصل بیچنے کے لیے نئے بازار تلاش کرنے پڑ رہے ہیں۔ اور اس بار انڈیا ان کا ہدف بن چکا ہے۔ حیرت کن طور پر، فروری سے اپریل تک انڈیا کو امریکی کپاس کی برآمدات 155,260 گانٹھوں تک پہنچ چکی ہیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے، یہ اعداد و شمار امریکی محکمہ زراعت (USDA) نے جاری کیے ہیں۔ انڈیا خود دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کپاس پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن اس سال پیداوار میں 7.84 فیصد کی کمی آئی ہے۔ کپاس ایسوسی ایشن آف انڈیا (CAI) کے مطابق، ملک میں 25 لاکھ گانٹھوں کی کمی کا سامنا ہے جو صرف درآمدات سے پوری ہو سکتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: صدارتی آرڈیننس: حکومت لیوی کی نئی شرح کسی حد کے بغیر مقرر کر سکے گی انڈیا میں امریکی “ایکسٹرا لانگ سٹیپل” (ELS) کپاس پر صرف 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد ہے جبکہ شارٹ سٹیپل کپاس پر یہ ڈیوٹی 11 فیصد ہے جو کہ امریکی ELS کپاس کو نسبتاً زیادہ اقتصادی اور پرکشش بناتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی کپاس کا معیار اور کارکردگی بھی انڈین تاجروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے کیونکہ اس میں جننگ کی زیادہ صلاحیت، فائبر کوالٹی میں بہتری اور لنٹ ییلڈ کی بلند سطح شامل ہے۔ مزید برآں بین الاقوامی سطح پر آئی سی ای کاٹن فیوچرز کی قیمتیں اس سال 5 فیصد تک کم ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں امریکی کپاس انڈین منڈی میں مزید سستی اور مسابقتی بن چکی ہے۔ ان تمام عوامل نے ہندوستان میں امریکی کپاس کی مانگ میں اضافہ کر دیا ہے۔ لازمی پڑھیں: سونا عوام کی پہنچ سے دور، 8600 روپے مزید مہنگا ہو گیا سینٹرل انسٹی ٹیوٹ فار کاٹن ریسرچ کے ڈائریکٹر وائی جی پرساد کا کہنا ہے کہ “انڈیا میں کپاس کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے اور اگلے چند سالوں میں درآمدات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔” انڈیا صرف امریکا سے ہی نہیں بلکہ آسٹریلیا، برازیل اور مصر سے بھی کپاس درآمد کر رہا ہے۔ لیکن امریکی کپاس کی بڑھتی ہوئی مانگ بتا رہی ہے کہ یہ مقابلہ جیتنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری جانب اگر چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ جاری رہی، تو انڈیا کو مزید سستے ریٹ پر کپاس مل سکتی ہے۔ انڈین کپاس کاشتکاروں کے لیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ درآمدات بڑھنے سے مقامی قیمتیں مزید گر سکتی ہیں۔ امریکا کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے جبکہ ہندوستان کے کسانوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ کیا انڈیا کپاس کے بحران پر قابو پا سکے گا؟ یا درآمدات کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا؟ مزید پڑھیں: کیا رواں سال معیشت اور دنیا تباہ ہوجائے گی؟
ٹرمپ انتظامیہ کا ہارورڈ یونیورسٹی پر دباؤ، غیر ملکی طلباء کے داخلے پر پابندی کی دھمکی دے دی

امریکا کی معروف یونیورسٹی ہارورڈ ایک بار پھر حکومت کے نشانے پر آ گئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہارورڈ نے غیر ملکی طلباء سے متعلق معلومات فراہم نہ کیں تو اس کی غیر ملکی طلباء کو داخلہ دینے کی اجازت منسوخ کر دی جائے گی۔ محکمہ داخلی سلامتی کی سیکرٹری، کرسٹی نوئم، نے بدھ کے روز نہ صرف دو وفاقی گرانٹس، جن کی مالیت 2.7 ملین ڈالرز تھی، ان کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا بلکہ ہارورڈ کو ایک سخت لہجے میں خط بھی لکھا۔ اس خط میں یونیورسٹی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 30 اپریل تک ان غیر ملکی طلباء کی تفصیلات فراہم کرے جو مبینہ طور پر “غیر قانونی اور پرتشدد سرگرمیوں” میں ملوث ہیں۔ کرسٹی نوئم نے بیان دیا کہ “اگر ہارورڈ یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی رپورٹنگ ذمہ داریوں پر مکمل عمل کر رہا ہے تو اسے غیر ملکی طلباء داخل کرنے کی اجازت کا حق کھو دینا پڑے گا۔” یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کی مختلف جامعات، بالخصوص ہارورڈ، میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف طلباء کے مظاہرے زور پکڑ چکے ہیں۔ ان مظاہروں کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامی “ملک دشمن، شدت پسند اور یہود دشمن” قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ مظاہرین، جن میں کئی یہودی طلباء اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں، انہوں نے اس بیانیے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ کی صورت حال پر عالمی برادری کی خاموشی: مسلم ممالک کا کیاکردار ہونا چاہیے؟ ہارورڈ یونیورسٹی نے نوئم کے خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم قانون کی پاسداری کرتے ہیں لیکن اپنی خود مختاری اور آئینی حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔” ٹرمپ انتظامیہ نے صرف گرانٹس نہیں روکی بلکہ اب IRS (محکمہ محصولات) کے ذریعے ہارورڈ کی ٹیکس فری حیثیت ختم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ سی این این کے مطابقIRS جلد ہی اس بارے میں حتمی فیصلہ سنا سکتا ہے۔ ہارورڈ کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اقدام نہ صرف غیر قانونی ہوگا بلکہ مالی امداد اور میڈیکل ریسرچ جیسے شعبوں کو بھی شدید نقصان پہنچائے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی تعلیمی اداروں کے خلاف یہ مہم صرف ہارورڈ تک محدود نہیں رہی۔ کولمبیا، پرنسٹن، براؤن، کارنیل اور نارتھ ویسٹرن جیسی بڑی یونیورسٹیوں کے فنڈز بھی یا تو منجمد کیے جا چکے ہیں یا ان پر پابندی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان اقدامات کی آڑ میں DEI (ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن) پروگرامز، ٹرانس جینڈر پالیسیز اور ماسک پہننے جیسے مسائل کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اسے آزادی اظہار، تعلیمی خود مختاری اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایک خطرناک کریک ڈاؤن قرار دے رہے ہیں۔ اسلاموفوبیا اور عرب مخالف جذبات پر بڑھتی ہوئی خاموشی بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ کیا ہارورڈ جیسی قدیم و باوقار یونیورسٹی، جس کا سرمایہ 53.2 ارب ڈالر سے زائد ہے حکومت کے اس دباؤ کے آگے جھک جائے گی؟ یا پھر آئینی حقوق کے دفاع میں کھڑی ہو کر ایک نئی جدوجہد کی بنیاد رکھے گی؟مزید پڑھیں: برطانیہ میں مسلمانوں کی 85 قبروں کی بےحرمتی، پولیس نے اسلاموفوبک جرم قرار دے دیا
پاکستان کا ٹیکس سسٹم ’غیر منصفانہ اور ناقص‘ ہے، عالمی بینک

عالمی بینک نے پاکستان کے موجودہ ٹیکس نظام پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے غیر منصفانہ اور ناقص قرار دیا ہے۔ اس نے زور دیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے اور خاص طور پر جائیداد اور دیگر غیر رسمی آمدنی کے ذرائع کو مؤثر طور پر ٹیکس نظام میں شامل کیا جائے۔ عالمی بینک کے مطابق جب تک آمدنی کے تمام ذرائع بشمول جائیداد اور زرعی شعبے کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لایا جاتا، اس وقت تک تنخواہ دار طبقے پر بوجھ میں کمی ممکن نہیں۔ عالمی بینک نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پاکستان کا محصولات کا نظام وقتی فائدے ضرور دیتا ہے، لیکن اس سے طویل مدتی معاشی مواقع ضائع ہو رہے ہیں۔ اس بات کا اظہار اسلام آباد میں ہونے والی ایک مالیاتی کانفرنس میں کیا گیا، جس کا انعقاد پائڈ نے کیا۔ ورلڈ بینک کے لیڈ کنٹری اکنامسٹ ٹوبیاس ہاک نے کہا کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ ایک مثبت پیش رفت ہے، مگر اب جائیداد کے شعبے کو بھی مؤثر انداز میں رجسٹر اور ٹیکس نیٹ میں لانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ٹیکس فائلرز کی کم تعداد پر بھی تشویش ظاہر کی، کہ 24 کروڑ کی آبادی میں صرف 50 لاکھ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان میں زیادہ تر ٹیکسز جی ایس ٹی جیسے بالواسطہ ذرائع سے اکٹھے کیے جاتے ہیں، جو نچلے طبقے پر اضافی بوجھ بنتے ہیں۔ پائڈ کے وائس چانسلر ندیم جاوید نے ترقیاتی بجٹ میں کرپشن کی سنگین صورتحال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 40 فیصد بجٹ کمیشن کی صورت میں ضائع ہو جاتا ہے، اور بغیر کمیشن دیے کوئی بل کلیئر نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال ادارہ جاتی شفافیت کی شدید کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ پرائم انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر علی سلمان نے موجودہ ودہولڈنگ ٹیکسز کی پیچیدگی پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق ملک میں 88 مختلف ودہولڈنگ ٹیکسز لاگو ہیں، جن میں سے 45 کی سالانہ آمدن ایک ارب روپے سے بھی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نظام میں وضاحت اور سادگی کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو اور ٹیکس نظام مؤثر بن سکے۔ مجموعی طور پر عالمی بینک اور مقامی ماہرین کی آراء اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے ٹیکس نظام کو انصاف، شفافیت اور شمولیت کے اصولوں پر استوار کرنے کے لیے فوری اور بنیادی اصلاحات درکار ہیں۔
برطانیہ میں مسلمانوں کی 85 قبروں کی بےحرمتی، پولیس نے اسلاموفوبک جرم قرار دے دیا

لندن کے علاقے ہارٹفورڈشائر میں ایک چونکا دینے والی خبر ملی ہے، جس میں کارپینڈرز پارک لان قبرستان میں واقع مسلم سیکشن میں 85 قبروں کو بےرحمی سے نقصان پہنچایا گیا۔ جن قبروں کو نشانہ بنایا گیا ان میں اکثریت نومولود بچوں اور کم سن معصوموں کی تھی۔ پولیس نے ابتدائی طور پر کئی امکانات پر غور کیا مگر جیسے جیسے شواہد سامنے آئے، معاملہ صاف ہوتا گیا کہ یہ ایک سوچی سمجھی، مذہبی نفرت پر مبنی واردات تھی۔ ہارٹفورڈشائر پولیس کے چیف سپرنٹنڈنٹ جون سمپسن نے تصدیق کی کہ “ہم اب اس دل دہلا دینے والے واقعے کو اسلاموفوبک جرم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔” پولیس کی تحقیقات مقامی اتھارٹی، برینٹ کونسل، کے ساتھ قریبی تعاون سے جاری ہیں۔ چونکہ قبریں ان خاندانوں کی تھیں جو ممکنہ طور پر اب مقامی علاقے میں مقیم نہیں لہٰذا ان متاثرہ خاندانوں سے رابطہ ایک حساس اور وقت طلب عمل بن چکا ہے۔ ہیرٹفورڈشائر ایسوسی ایشن آف مسلم پولیس کے چیئر، سارجنٹ عرفان اسحٰق نے اس افسوسناک واقعے پر مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی اور غصے کا کھل کر اظہار کیا۔ اُن کے مطابق “ہم پوری مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہیں، اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تاخیر سے نفرت انگیز جرم قرار دینا ان کے لیے تکلیف دہ تھا۔” یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں ایم پوکس وائرس: ماہرین نے اب تک کا سب سے خطرناک وائرس قرار دے دیا قبرستان میں اب بھی پولیس کی مسلسل موجودگی ہے تاکہ عوام کو تحفظ کا احساس دلایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ خاندانوں کو ذہنی و جذباتی مدد فراہم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس واقعے کی خبر جیسے ہی عام ہوئی، لندن بھر میں مذمت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ برینٹ کونسل کے رہنما، کونسلر محمد بٹ نے قبرستان کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی۔ انھوں نے اس حملے کو “قابل شرم اور انسانیت سوز” قرار دیا اور کہا کہ “یہ شہر سب کا ہے یہاں نفرت اور تعصب کی کوئی جگہ نہیں۔” سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ تنظیم ‘ان-نسا سوسائٹی’ نے اپنے بیان میں کہا کہ “کارپینڈرز پارک کے مسلم حصے میں قبروں کی بےحرمتی کا علم ہمیں میڈیا سے نہیں بلکہ ذاتی طور پر ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے پیارے یہاں دفن ہیں اور ہم غمزدہ اور پریشان ہیں۔” پولیس اب عوام سے اپیل کر رہی ہے کہ 11 اپریل بروز جمعہ دوپہر 1 بجے سے لے کر 12 اپریل بروز ہفتہ شام 5 بجے تک اگر کسی نے قبرستان کے آس پاس مشکوک سرگرمی دیکھی ہو تو فوری اطلاع دیں۔ مزید پڑھیں: چائلڈ پروٹیکشن افسر سے مجرم تک، برطانوی رکن پارلیمنٹ کمسن بچوں سے جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار
نئی تحقیق کی روشنی میں زمین کے علاوہ کس سیارے پر جاندار بستے ہیں؟

جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے سائنس دانوں نے ایک اجنبی سیارے K2-18 b کے ماحول میں ایسی گیسوں کی موجودگی دریافت کی ہے جو زمین پر صرف جانداروں کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ دریافت ایک ممکنہ تاریخی سنگ میل سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ یہ ہماری زمین کے باہر زندگی کے مضبوط ترین اشاروں میں سے ایک ہے۔ مذکورہ گیسوں میں ڈائمتھائل سلفائیڈ اور ڈائمتھائل ڈسلفائیڈ شامل ہیں، جو زمین پر زیادہ تر مائکروبیل زندگی، خصوصاً سمندری طحالب یا فائٹوپلانکٹن سے پیدا ہوتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ براہِ راست زندگی کی موجودگی کا اعلان نہیں کر رہے، لیکن یہ گیسیں حیاتیاتی عمل کا اشارہ ضرور دیتی ہیں، جسے “بایوسگنیچر” کہا جاتا ہے۔ تحقیق کی قیادت کرنے والے ماہر فلکیاتی طبیعیات دان نکو مدھوسودھن کے مطابق، یہ دریافت نظام شمسی سے باہر زندگی کی تلاش میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب ہم نے ممکنہ طور پر قابل رہائش سیارے میں حیاتیاتی نشانات کا پتہ لگایا ہے، اور یہ مشاہداتی فلکیات کی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ K2-18 b سیارہ زمین سے 8.6 گنا زیادہ وزنی اور 2.6 گنا زیادہ چوڑا ہے، اور یہ اپنے ستارے کے “رہنے کے قابل زون” میں گردش کرتا ہے، جہاں مائع پانی موجود ہو سکتا ہے۔ اس کا میزبان ستارہ ایک سرخ بونا ہے جو زمین سے 124 نوری سال کے فاصلے پر لیو برج میں واقع ہے۔ ویب ٹیلی سکوپ کے ابتدائی مشاہدات نے پہلے ہی اس سیارے کے ماحول میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کی تصدیق کی تھی، اور اب نئی گیسوں کی دریافت اس مفروضے کو مزید تقویت دیتی ہے کہ یہ ایک ایسی دنیا ہو سکتی ہے جہاں مائکروبیل زندگی موجود ہو۔ سائنس دانوں نے محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے اور زور دیا ہے کہ مزید مشاہدات ضروری ہیں تاکہ اس دریافت کی تصدیق ہو سکے۔ تاہم، یہ تحقیق اس بات کا واضح اشارہ ضرور دیتی ہے کہ ہم اپنے نظام شمسی سے باہر زندگی کے امکانات کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور ممکنہ طور پر کائنات میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔
غزہ کی صورت حال پر عالمی برادری کی خاموشی: مسلم ممالک کا کیا کردار ہونا چاہیے؟

غزہ پر اسرائیلی بمباری کے مسلسل جاری سلسلے اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتلِ عام نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 7اکتوبر کو شروع ہونے والی نسل کشی کی یہ جنگ تاحال ختم نہیں ہوسکی اور وقت کے ساتھ اسرائیل حملوں نے شدت پکڑ لی ہے، جہاں بچوں، عورتوں، بزرگوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز یونیسف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 18 مارچ سے شروع ہونے والے نئے جنگی جنون میں 322 سے زائد بچے شہید اور 609 کے زخمی ہوئے ہیں، مگر عالمی برادری ابھی تک خاموش ہے اور یہ خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت بڑی طاقتیں محض تشویش کا اظہار کر کے خاموش ہو جاتی ہیں، جب کہ زمین پر انسانی جانیں روزانہ کی بنیاد پر ضائع ہو رہی ہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 18,000 بچے شہید، 21,000 ملبے تلے دب کر لاپتہ، 34,000 زخمی، 15,000 زندگی بھر کے لیے معذور اور 39,000 سے زائد بچوں یتیم و مسکین ہوگئے ہیں۔ 17,000 بچے ایسے ہیں جن کے والدین جاں بحق ہوچکے ہیں۔ 18 مارچ کو اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا شب خون مارا جس کے نتیجے میں 400 سے زائد بے گناہ افراد مارے گئے۔مگر اس پر بھی تشویش کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہ ملا۔ پاکستان ہمیشہ فلسطین کے مسئلے پر ایک واضح اور دوٹوک مؤقف رکھتا آیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی بنیاد پر پاکستان فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے ۔ 23 نومبر 2023 کو سابق صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ پاکستان فلسطین کے دوریاستی حل کی بھرپور حمایت کرتا ہے، مگر عوام کی جانب سے فلسطین کے دوریاستی حل کو مکمل طور پر مسترد کیا گیا ہےاور بعض حلقوں نے کہا ہے کہ جو فلسطین کے دوریاستی حل کی بات کرتا ہےگویا وہ چپکے چپکے سے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اسحاق جان شحانی کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں فلسطین کا عملی حل صرف اور صرف دو ریاستی منصوبے پر عمل کرنے سے ہوگا ۔ وزیراعظم، وزیر خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکام کئی بار عالمی برادری سے اپیل کر چکے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکا جائے اور فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔ غزہ کی اس بدترین صورتِ حال میں، مسلم دنیا کا ردعمل عمومی طور پر مایوس کن رہا ہے۔ کچھ ممالک نے زبانی مذمت پر اکتفا کیا، تو بعض نے مکمل خاموشی اختیار کی۔ پاکستان میں اس رویے پر عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کی امتِ واحدہ کا تصور اس وقت بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا واقعی مسلم ممالک کے پاس اتنی سفارتی و اقتصادی طاقت نہیں کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال سکیں؟ مسلم دنیا کے باہمی اختلافات فلسطینی کاز کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں؟ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) جسے مسلم دنیا کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم تصور کیا جاتا ہے، اس وقت غیرفعال نظر آتی ہے۔ ایک دو بیانات جاری کر دینا کافی نہیں، کیونکہ زمین پر حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے، ان کے گھروں کو ملبے میں بدلا جا رہا ہے اور دنیا تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ پاکستان نے او آئی سی میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا باقی ممالک بھی اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ پروفیسر اسحاق جان نے کہا ہے کہ او آئی سی کے تمام ممالک نے ٹیکنالوجی میں مطلوبہ ترقی اور زمینی حقائق کی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خود میں کوئی خاطر خواہ اور حیران کن عملی قدم ابھی تک نہیں اٹھایا تو اس سے یہ توقع ایک مردے گھوڑے میں جان ڈالنے کے برابر ہوگی۔ پاکستانی عوام اور میڈیا نے بارہا یہ سوال اٹھایا ہے کہ عالمی میڈیا، بالخصوص مغربی میڈیا، فلسطینیوں کی قربانیوں کو کیوں نظر انداز کرتا ہے؟ کیوں ہمیشہ اسرائیل کا بیانیہ غالب رکھا جاتا ہے؟ میڈیا رپورٹس اور خصوصی پروگرامز میں بارہا یہ بات اجاگر کی گئی کہ دنیا کا میڈیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دوہرا معیار اپنا رہا ہے۔ اگر یہی کچھ کسی مغربی ملک میں ہوتا تو کیا ردِعمل مختلف نہ ہوتا؟ مغربی میڈیا کی غیر جانبداری کو توڑنے کےلیے مسلم میڈیا ہاؤسز کو کیا حکمتِ عملی اپنانی چاہیے؟ ایک اور سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب دنیا یوکرین کے مسئلے پر متحد ہو کر روس کے خلاف بیانات اور پابندیاں عائد کر سکتی ہے، تو فلسطین کے معاملے پر ایسی یکجہتی کیوں نظر نہیں آتی؟ کیا فلسطینی مسلمانوں کی جان اتنی بے وقعت ہے؟ پاکستان میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکن، وکلاء اور طلبہ تنظیمیں ان سوالات کو مسلسل اٹھا رہے ہیں۔ پروفیسر اسحاق جان شحانی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے دوست چین کو ساتھ ملا کر ایک ایٹمی ملک اور عالمی سلامتی کونسل کا ایک غیر مستقل رکن ہونے کے ناطے ایک سفارتی سطح پہ کوششیں کر کے عالمی برادری کو اپنی بات سننے پر سوچنے کی طرف موڑ سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ چائنہ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں بھر پور آواز اٹھائے ۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے، سیمینارز، اور سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر فلسطینیوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں “غزہ کے لیے انصاف” کے عنوان سے ریلیاں نکالی جا چکی ہیں، جن میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ پاکستانی عوام کی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟ پاکستان کے عوام اور تجزیہ نگاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ صرف بیانات اور مذمتی قراردادیں کافی نہیں۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ مسلم ممالک مل کر ٹھوس سفارتی، تجارتی اور بین الاقوامی سطح پر اقدامات اٹھائیں؟ کیا او آئی سی کو اقوامِ متحدہ میں فلسطینیوں کے لیے ایک مشترکہ