April 19, 2025 10:20 pm

English / Urdu

وفاقی حکومت کا غیر قانونی افغان شہریوں کو ملازمت یا رہائش دینے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان

وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے کہا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ملازمت، گھر یا دکان کرائے پر دینے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ غیر ملکیوں کے انخلا کی تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی اور 30 اپریل کے بعد کوئی غیر ملکی ویزے کے بغیر پاکستان میں نہیں رہے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ملازمت، گھر یا دکان کرائے پر دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ مزید پڑھیں: سقوطِ ڈھاکہ، بنگلادیش نے پاکستان سے معافی کا مطالبہ کر دیا طلال چوہدری نے بتایا کہ افغان حکومت سے رابطے جاری ہیں، نائب وزیراعظم کی سربراہی میں ایک وفد افغانستان جارہا ہے۔ واضح رہے پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان شہریوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور یکم اپریل سے اب تک 40 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو واپس بھیجا گیا ہے۔

آئی ٹی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، مارچ 2025 میں 34 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں

پاکستان نےمارچ 2025 میں اپنی اب تک کی سب سے زیادہ ماہانہ آئی ٹی برآمدات ریکارڈ کیں ہیں، جو کہ 34 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں۔  یہ 12فیصد  سال بہ سال اور ماہ بہ ماہ اضافہ کی عکاسی کرتا ہے، جو بڑھتی ہوئی عالمی طلب اور معاون گھریلو پالیسی اقدامات دونوں کو واضح کرتا ہے،مارچ کی یہ کارکردگی گزشتہ 12 ماہ کی اوسط یعنی 31 کروڑ 10 لاکھ سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ مالی سال 2025 کے پہلے نو مہینوں میں کل آٹی برآمدات  دو ارب 80 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جو کہ سال بہ سال 24 فیصد زیادہ ہے، اس کارکردگی نے پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کو سال کے اختتام سے قبل ہی گزشتہ مالی سال کی برآمدات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے مسلسل 18 مہینوں سے آئی ٹی برآمدات میں سال بہ سال اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جس کا آغاز اکتوبر 2023 سے ہوا تھا۔ تجزیہ کار اس مستقل نمو کو مختلف اسٹریٹجک عوامل کے ساتھ جوڑتے ہیں، جن میں ریگولیٹری اصلاحات، روپے کا استحکام اور پاکستانی کمپنیوں کی بین الاقوامی سطح پر پھیلتی ہوئی موجودگی شامل ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسیوں نے اس ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر وہ قدم جس کے تحت آئی ٹی برآمد کنندگان کو اپنی برآمدی آمدنی کا 50 فیصد تک مخصوص فارن کرنسی اکاؤنٹس میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، جو اس سے قبل 35 فیصد تک محدود تھی۔ اس فیصلے سے نہ صرف منافع کو مؤثر طریقے سے دوبارہ سرمایہ کاری کے قابل بنایا گیا ہے بلکہ کمپنیوں کو بیرون ملک اپنے آپریشنز کو بہتر طریقے سے سنبھالنے میں بھی مدد ملی ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، تقریباً 62 فیصد مقامی آئی ٹی کمپنیاں ان خصوصی غیر ملکی اکاؤنٹس کو برقرار رکھتی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سیکٹر نے عالمی توسیع کے لیے نئے مالیاتی آلات کو اپنایا ہے۔ حکومت کے ‘اوران پاکستان’ اقتصادی منصوبے کا مقصد مالی سال 2029 تک سالانہ آئی ٹی برآمدات کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانا ہے، جس کے لیے اگلے چار سالوں میں تقریباً 28 فیصد کی کمپاؤنڈ سالانہ ترقی کی شرح کی ضرورت ہوگی۔

علی امین گنڈا پور  نے معدنیات بل کے معاملے پر وفاقی وزیربرائے توانائی کو قانونی نوٹس بھجوا دیا

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور نے مائنز اینڈ منرلز بل کے حوالے سے وفاقی حکومت کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے دعووں کو سختی سے مسترد کردیا ،انہوں نے وفاقی وزراء کے دعوؤں کو ہتک آمیز اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے علی پرویز کو قانونی نوٹس بھجوا دیا۔ گنڈا پور نے کہا کہ انہوں نے وفاقی وزیر برائے توانائی علی پرویز ملک اور ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو قانونی نوٹس بھجوایا ہے، جس میں کے پی مائنز اینڈ منرلز بل 2025 سے متعلق الزامات پر ایک ارب روپے ہرجانے اور عوامی معافی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کے پی اسمبلی سے منظور نہ ہونے والے معاملے پر وفاقی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیسے ممکن ہے۔ ایڈووکیٹ علی عظیم آفریدی کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ایک حالیہ ٹی وی پروگرام کے دوران وفاقی وزیر نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ نے معدنیات کی مجوزہ قانون سازی سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔  وزیراعلیٰ کی قانونی ٹیم نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد، بدنیتی پر مبنی اور سیاسی طور پر محرک قرار دیا ہے۔ نوٹس میں دلیل دی گئی ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے اور یہ دعوے بغیر ثبوت کے کیے گئے جس سے وزیر اعلیٰ کی ساکھ اور سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچا۔  یہ انتباہ دیتا ہے کہ اگر مطالبات  معاوضہ اور عوامی پسپائی  15 دنوں کے اندر پورے نہ ہوئے تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔

اسلام آباد پولیس نے غزہ مارچ کے فلوٹ اور بینر لگانے والوں کو گرفتار کر لیا

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 20 اپریل کو ہونے والے یکجہتی غزہ مارچ کی تیاریوں میں مصروف جماعت اسلامی کے کارکنوں کو گرفتار اور سامان قبضہ میں لے لیا گیا۔ پاکستان میٹرز کے نامہ نگار کے مطابق گزشتہ شب غزہ مارچ کی اطلاع دینے کے لیے تیار فلوٹ سیکٹر ای الیون میں تھا، جسے پولیس نے روک کر قبضہ میں لے لیا اور فلوٹ کے ساتھ موجود رضاکاروں کو بھی تھانہ میں روک لیا۔ جماعت اسلامی کی قیادت اور پولیس کے درمیان رابطوں کے بعد فلوٹ اور حراست میں روکے گئے افراد کو رہا کر دیا گیا، تاہم بعد میں کسی اور معاملے کو بنیاد بنا کر چند دیگر کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مزید پڑھیں: ہر گروپ کے ساتھ نگران افسر، اس سال حاجیوں کے لیے معیاری سہولیات کیا ہوں گی؟ پولیس ذرائع کے مطابق دو افراد کو گرفتار کر کے جیل منتقل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی یہ شکایات سامنے آئی تھیں کہ اسلام آباد کے انتظامی معاملات کے ذمہ دار ادارے سی ڈی اے نے اسرائیل مخالف مارچ کی اطلاعی بینرز کو شہر میں مختلف مقامات سے اتارا ہے۔

“اب خدمت مرکز جانے کی ضرورت نہیں” اسلام آباد پولیس نے موبائل ایپ کا اجرا ءکر دیا

اسلام آباد پولیس نے شہریوں کی سہولت اور شکایات کیلیے سمارٹ آئی سی ٹی پی موبائل ایپ متعارف کرائی ہے جس کے ذریعے پولیس خدمت مراکز پر میسر سہولیات   اب شہری گھر بیٹھ کر آن لائن استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایپ سمارٹ آئی سی ٹی پی  (SMART-ICTP APP) کے نام سے گوگل پلے اسٹور سے باآسانی ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔ اس ایپ کے ذریعے آپ گھر بیٹھے کریکٹر سرٹیفکیٹ کی درخواست دے سکتے ہیں اور پولیس ویریفکیشن کی سہولت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، آن لائن شکایات درج کرانے اور براہِ راست آئی جی کمپلینٹ ہیلپ لائن 1715 پر شکایت بھیجنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ ایپ کے ذریعے کرایہ داروں اور گھریلو ملازمین کا اندراج کروائیں اور درج شدہ ایف آئی آر کی کاپی  گھر بیٹھے حاصل کریں۔

پاکستانی تاج محل: جہاں وقت بھی رک کر آہیں بھرتا ہے

ہم سب انڈیا میں موجود محبت کی علامت سمجھے جانے والے تاج محل کو تو جانتے ہیں۔ لیکن کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی کوئی ایسا محل ہے، جو کسی عاشق کا دل چیرتا ہوا نوحہ ہو؟ تو آئیے آپ کو لے چلتے ہیں ایک ایسی کہانی کی جانب جس کی بنیاد صرف اینٹوں سے نہیں، بلکہ یادوں سے رکھی گئی تھی۔ نور محل، بہاولپور کی دھرتی پر کھڑا ایک خاموش گواہِ محبت ہے۔ یہ ایک ایسا گواہ ہے جو صدیوں سے سوال کر رہا ہے کہ میں جس کے لیے بنایا گیا، وہ یہاں کیوں نہ رکا؟1872 میں ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان چہارم نے اطالوی طرز پر ایک محل تعمیر کروایا اور اس کا نام نور محل رکھا گیا۔ شاید اس “نور” کے نام پر جس کی روشنی نواب کی زندگی کا مرکز تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس محل کو ایک ملکہ کے لیے بسایا گیا تھا۔ ہر دیوار، ہر کمرہ، ہر فانوس اسی ملکہ کی شان اور آرام دہ زندگی کے لیے بنایا گیا۔ لیکن محل کی بالکونی سے جب ملکہ عالیہ نے قریب ہی واقع قبرستان کو دیکھا تو اس کی روح پر ایک ایسی اداسی چھا گئی، جس کے بعد اس نے یہاں زندگی بسر کرنے سے انکار کر دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا محبت کی یہ عظیم نشانی محض ایک رات کی کہانی بن کر رہ گئی؟ محل کی تعمیر ریاستی انجینئر مسٹر ہینن کی نگرانی میں ہوئی، جس میں اطالوی اور اسلامی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ 44 ہزار 600 مربع فٹ پر پھیلے اس محل کی 3 منزلیں ہیں۔ اس محل میں بلند ہال، چوگوشیہ برج اور شرقی غربی کمرے گویا ہر گوشہ، شاہانہ جمال کا آئینہ ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب ملکہ چلی گئی تو کیا محل بھی سنسان ہو گیا؟ تو اس کا جواب ہے نہیں۔ ملکہ کے جانے کے بعد یہ محل نوابوں کے سرکاری مہمان خانے میں تبدیل ہو گیا۔ اس محل میں ہی خواجہ ناظم الدین نے قیام کیا، یہاں نواب بہاول خان پنجم کی دستاربندی ہوئی، ادھر ہی برطانوی وائسرائے کا دربار بھی سجا۔ محل کے اندر بڑے ہال میں چاندی کی کرسی، قد آدم آئینے بھی نصب کیے گئے جن میں انسان کبھی موٹا تو کبھی دبلا نظر آتا ہے۔ ایسے میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا یہ سب کھیل تھا یا وقت کا عکس؟ کیا واقعی ہر عظمت کے پیچھے کوئی محرومی چھپی ہوتی ہے؟1906 میں اس محل کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی، جس پر اس وقت 30 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔ اس محل کی بنیاد میں ریاست کے سکے رکھے گئے۔ کیا یہ سکہ، صرف کرنسی تھی؟ یا پھر وقت کا گواہ؟ آج نور محل کی دیواروں پر ریاستی اسلحہ، عباسی نوابوں کی تصاویر اور قائداعظم محمد علی جناح کے زیرِ استعمال اشیاء سمیت یادگار لمحات محفوظ ہیں۔ بعد ازاں 1997 میں یہ محل پاکستان آرمی کے حوالے کر دیا گیا۔ اب یہ محل سیاحوں کے لیے روزانہ صبح سے شام تک کھلا رہتا ہے۔ لیکن جب سیاح اس محل کی دیواروں کو چھوتے ہیں تو کیا وہ اس ادھوری محبت کو محسوس کرتے ہیں جو کبھی ان ستونوں کے نیچے دبی رہ گئی تھی؟ کیا آپ نے کبھی کسی ایسی جگہ قدم رکھا ہے جہاں خاموشی بھی سوال کرتی ہو؟ کیا یہ محل ایک عاشق کی ہار ہے یا پھر اس کی لازوال محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ؟ تو سوچیے! کیونکہ کچھ کہانیاں صرف سنائی نہیں جاتیں محسوس بھی کی جاتی ہیں۔

اب کوئی معاہدہ نہیں ہوگا، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی صرف مستقل جنگ بندی کے بدلے ہوگی، حماس لیڈر

غزہ کی زمین خون سے رنگی ہو ئی ہے لیکن اس بار حماس نے اس جنگ کو ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ “اب صرف اسی وقت بات ہوگی جب مکمل امن قائم ہوگا، اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جائیں اور تمام فلسطینی قیدی آزاد ہوں، اب کوئی وقتی جنگ بندی یا عارضی معاہدہ قبول نہیں ہوگا۔” یہ اعلان حماس کے اعلیٰ رہنما خلیل الحیا کی جانب سے کیا گیا ہے، جنہوں نے ایک براہِ راست ٹیلیویژن خطاب میں کہا کہ ’’ہم مزید ٹکڑوں میں امن قبول نہیں کریں گے اب صرف جامع معاہدہ ہوگا اور جنگ کا اختتام، قیدیوں کا تبادلہ اور غزہ کی تعمیر نو۔‘‘ خلیل الحیا، جو حماس کی مذاکراتی ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں، انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو پر شدید تنقید کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ “نیتن یاہو عبوری معاہدوں کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جبکہ میدان میں اُن کے قیدی مارے جا رہے ہیں۔ ہم ایسی خون آشام پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔” یہ بھی پڑھیں: 85 ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ، طالبان حکومت نے دہشتگرد تنظیموں کو بیچ دیا؟ اس بیان کے ساتھ ہی خطے میں سفارتی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے۔ حماس نے اسرائیل کو دو ٹوک الفاظ میں پیغام دے دیا ہے کہ اب بات چیت صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے، جب ہر محاذ بند ہو اور ہر فلسطینی قیدی اپنے گھر واپس لوٹیں۔ ادھر غزہ میں زمینی حقائق دن بدن مزید خونی شکل اختیار کر رہے ہیں اور خان یونس کے مشرق میں بنی سہیلہ کے علاقے پر ایک اور اسرائیلی حملہ، جس نے ایک ہی خاندان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ شہری دفاع کے ترجمان محمود باسل کے مطابق “برکا خاندان کے گھر پر کی گئی بمباری میں 10 افراد شہید ہوئے جن کی لاشیں ملبے سے نکالی گئیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد تاحال معلوم نہیں۔‘‘ یہی نہیں، جمعرات کو کیے گئے اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید 40 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں بارہا جنگ بندی کا مطالبہ کر چکی ہیں، مگر غزہ میں موت کا رقص جاری ہے۔ مزید پڑھیں: پولیس افسر کے بیٹے نے سرکاری پستول سے یونیورسٹی میں 6 افراد کو گولیاں مار دیں

سقوطِ ڈھاکہ: بنگلادیش نے پاکستان سے معافی کا مطالبہ کر دیا

ڈھاکہ میں ہونے والی خارجہ سیکرٹری سطح کی ملاقات کے دوران بنگلہ دیش نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ 1971 کی جنگ کے دوران ہونے والے مظالم اور نسل کشی کے لیے باضابطہ معافی مانگے۔ یہ مطالبہ اس امید کے ساتھ کیا گیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک مضبوط اور تعمیری بنیاد پر استوار کیا جا سکے۔ ڈھاکہ کے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس پدما میں ہونے والی اس ملاقات میں بنگلہ دیشی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ مسعود بن مومن نے کی جبکہ پاکستان کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے کی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسعود بن مومن نے کہا کہ بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ تمام حل طلب تاریخی معاملات اٹھائے ہیں جن میں 1971 کی جنگ کے مظالم پر معافی، پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی واپسی، مشترکہ اثاثوں میں حصہ داری اور 1970 کے طوفان کے متاثرین کے لیے بھیجی گئی بین الاقوامی امداد کا مسئلہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش پاکستان کو ایک دوست ملک سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک ماضی کے معاملات کو سلجھا کر مستقبل کی طرف بڑھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم فوری حل کی توقع نہیں رکھتے، لیکن یہ ملاقات ایک بڑی پیش رفت ہے۔ پاکستانی وفد نے تمام معاملات پر بات چیت جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔ دونوں اطراف نے تجارت، تعلیم، ثقافت، اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کی خواہش ظاہر کی۔ ملاقات کے بعد آمنہ بلوچ نے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس اور خارجہ امور کے مشیر توحید حسین سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ڈھاکہ کا دورہ کرکے خوشی ہوئی اور ملاقاتیں مثبت رہیں۔ بنگلہ دیشی سیکرٹری خارجہ نے اعلان کیا کہ پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار 27 اور 28 اپریل کو ڈھاکہ کا دورہ کریں گے اور یہ دورہ سفارتی بات چیت کو مزید آگے بڑھانے میں مدد دے گا۔

انڈیا کے جوہری قانون میں ترمیم: امریکا کو سرمایہ کاری کی دعوت

ایک ایسی پیش رفت جو انڈیا کی توانائی کے مستقبل کو نئی سمت دے سکتی ہے، مودی حکومت نے جوہری توانائی کے متنازعہ قوانین میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق حکومت ایک ایسا مسودۂ قانون تیار کر چکی ہے جس کا مقصد غیر ملکی خاص طور پر امریکی، کمپنیوں کو انڈیا کے جوہری توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنا ہے۔ یہ تبدیلیاں صرف قانونی اصلاحات ہی نہیں بلکہ انڈیا کے اس وسیع منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت 2047 تک جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت کو 12 گنا بڑھا کر 100 گیگاواٹ تک لے جایا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسودہ قانون میں ایک اہم شق کو ختم کیا جا رہا ہے جو 2010 کے جوہری ذمہ داری قانون میں شامل تھیں جس کے تحت کسی بھی حادثے کی صورت میں سپلائر کو لامحدود مالی ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ یہی قانون ایک عرصے سے امریکی کمپنیوں جیسے جنرل الیکٹرک اور ویسٹنگ ہاؤس کو انڈیا کی جوہری مارکیٹ سے دور رکھے ہوئے تھا۔ یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین پر میزائل حملہ، ایک شہری جاں بحق، درجنوں زخمی ایک اعلیٰ سرکاری ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “اب وقت آ گیا ہے کہ انڈیا دنیا کو دکھائے کہ وہ صاف توانائی کے میدان میں سنجیدہ ہے اور عالمی سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ اور پرکشش ماحول فراہم کرنا جانتا ہے۔“ تجویز کردہ ترمیم کے مطابق اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو جوہری پلانٹ کا آپریٹر سپلائر سے معاوضہ صرف اس حد تک ہی طلب کر سکے گا جتنا کہ معاہدے میں طے شدہ رقم ہو گی اور وہ بھی ایک خاص مدت کے اندر۔ فی الحال قانون میں نہ تو معاوضے کی کوئی حد متعین ہے اور نہ ہی ذمہ داری کی مدت کی کوئی وضاحت۔ یہ ترمیمات بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں جہاں حادثات کی بنیادی ذمہ داری پلانٹ کے آپریٹر پر عائد ہوتی ہے نہ کہ سپلائر پر۔ یہی وجہ ہے کہ روسی اور فرانسیسی کمپنیاں جن کی حکومتیں انشورنس اور ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہیں، یہ کمپنیاں انڈیا میں پہلے سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ قانونی ترامیم نہ صرف توانائی کے میدان میں انقلاب لا سکتی ہیں بلکہ انڈیا اور امریکا کے درمیان ایک اہم تجارتی معاہدے کے لیے بھی راہ ہموار کریں گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو اس سال متوقع انڈیا-یو ایس ٹریڈ ڈیل کی راہ کھل سکتی ہے جس کا ہدف 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 500 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے، جو 2024 میں محض 191 ارب ڈالر تھی۔ یہ قانون دراصل 1984 کے بھوپال گیس سانحے کے پس منظر میں بنایا گیا تھا جب یونین کاربائیڈ کی فیکٹری میں ہونے والے حادثے میں پانچ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی پس منظر میں انڈیا نے ایک سخت قانون متعارف کرایا تاکہ آئندہ کسی بھی صنعتی یا جوہری حادثے میں متاثرین کو انصاف مل سکے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون نے انڈیا کی جوہری ترقی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ مزید پڑھیں: امریکا یوکرین معاہدہ: دونوں ممالک میں قیمتی معدنیات پر مفاہمت طے پا گئی

ہر گروپ کے ساتھ نگران افسر، اس سال حاجیوں کے لیے معیاری سہولیات کیا ہوں گی؟

کراچی میں حاجی کیمپ کے دورے کے دوران وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ حکومت نے حج 2025 کے لیے پاکستانی عازمین کے لیے بہترین انتظامات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تربیتی سیشنز کا معائنہ کرنے آئے تھے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ حاجیوں کو روانگی سے پہلے مکمل رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت کا عملہ حاجیوں کو بریفنگ دے رہا ہے تاکہ وہ سفر کے دوران کسی پریشانی سے بچ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال سرکاری حج اسکیم کے تحت 89 ہزار پاکستانی حج ادا کریں گے جن میں سے 21 ہزار 600 کا تعلق کراچی سے ہوگا۔ مکہ مکرمہ اور عزیزیہ میں معیاری رہائش، سپلٹ ایئر کنڈیشن کے انتظامات، اور بہتر ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس سال کے معاہدوں میں شیلفز سمیت مزید سہولیات شامل کی گئی ہیں۔ سردار محمد یوسف نے کہا کہ وزیراعظم نے انہیں ذاتی طور پر ہدایت دی ہے کہ حاجیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور انہیں زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے تجربات، خصوصاً 2013 سے 2018 کے درمیان، موجودہ انتظامات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوئے۔ مزید پڑھیں: مسجد کے حجرے سے کوچنگ سینٹر کے کمرے تک، آنکھ کھلی رکھنی ہوگی وزیر مذہبی امور نے یہ بھی بتایا کہ ہر حاجی گروپ کے ساتھ ایک نگران افسر تعینات کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں فوری مدد دی جا سکے۔ دوسری جانب سعودی حکام نے بھی آئندہ حج کے لیے انتظامات کا اعلان کیا ہے جن میں منیٰ میں پچاس ہزار مربع میٹر پر مشتمل سایہ دار راستے اور عرفات میں جبل الرحمہ کے اطراف ساٹھ ہزار مربع میٹر پر مشتمل شیلٹرز اور مسٹنگ پنکھوں کی تنصیب شامل ہے۔ ان اقدامات کا مقصد عازمین کو بہتر سہولت فراہم کرنا اور حج کے دوران ان کے آرام کو یقینی بنانا ہے۔