85 ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ، طالبان حکومت نے دہشتگرد تنظیموں کو بیچ دیا؟

برطانوی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان نے امریکا کی جانب سے 2021 میں چھوڑے گئے فوجی ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد کو یا تو دہشتگرد تنظیموں کو فروخت کر دیا ہے یا انہیں دیگر ذرائع سے بیرونِ ملک سمگل کر دیا گیا ہے۔ اسلحے کی یہ مبینہ ترسیل اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں کی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی ہتھیار القاعدہ سے منسلک تنظیموں تک پہنچ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے وابستہ گروہوں کو طالبان کے زیر اثر علاقوں میں امریکی ساختہ اسلحہ دستیاب ہے، جو کہ علاقائی و عالمی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان حکومت فوجی سازوسامان کے کم از کم نصف کا حساب نہیں دے سکی۔ کمیٹی کے مطابق اندازاً پانچ لاکھ کے قریب فوجی ہتھیار اور دیگر ساز و سامان اب گم شدہ یا غیر رجسٹرڈ ہیں۔ برطانوی میڈیا نے قندھار کے مقامی صحافی کے حوالے سے بتایا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تقریباً ایک سال تک امریکی ہتھیار کھلے عام مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے رہے، تاہم اب یہ تجارت خفیہ انداز میں جاری ہے۔ ان ہتھیاروں میں بندوقیں، بکتر بند گاڑیاں، نائٹ ویژن آلات، اور دیگر جدید فوجی ٹیکنالوجی شامل ہے۔ طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تمام ہتھیاروں کی حفاظت اور محفوظ ذخیرہ کرنے کے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ان کے بقول، سمگلنگ یا نقصان کے کسی بھی دعوے میں صداقت نہیں، اور یہ محض پروپیگنڈہ ہے۔ دوسری جانب، افغانستان کی تعمیر نو پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے سیگار (SIGAR) نے بھی رپورٹ دی ہے کہ امریکا کی جانب سے چھوڑے گئے فوجی سامان کی اصل تعداد کم از کم 10 لاکھ کے قریب تھی، جن میں سے بڑی تعداد کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے تقریباً 85 ارب ڈالر مالیت کا جدید امریکی اسلحہ افغانستان میں چھوڑ دیا، جو اب نہ صرف طالبان بلکہ ممکنہ طور پر ان کے اتحادی دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں بھی ہے۔ یہ انکشافات عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ امریکی ساختہ مہلک ہتھیاروں کی دہشت گرد تنظیموں تک رسائی نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس معاملے پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی ممکنہ کارروائی یا انکوائری مستقبل قریب میں متوقع ہے۔
روس کا یوکرین پر میزائل حملہ، ایک شہری جاں بحق، درجنوں زخمی

یوکرین کا شمال مشرقی شہر خارکیف جمعہ کی علی الصبح دھماکوں سے گونج اٹھا، جب روس نے اچانک میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ اس ہولناک حملے میں کم ازایک شخص جاں بحق جبکہ 82 افراد زخمی ہوئے جن میں چھ معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں کئی کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس حملے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر لکھا کہ “روس نے ہمارے شہروں اور لوگوں کو گڈ فرائیڈے کے دن بھی نہیں بخشا۔ بیلسٹک میزائل، کروز میزائل، اور ‘شاہد’ ڈرونز سے حملے کر کے ایک بار پھر اپنی دہشتگردی ثابت کر دی۔” ریسکیو اہلکاروں نے متاثرہ عمارتوں سے خون میں لت پت زخمیوں کو نکالا اور جائے وقوعہ پر ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔ یہ بھی پڑھیں: پولیس افسر کے بیٹے نے سرکاری پستول سے یونیورسٹی میں 6 افراد کو گولیاں مار دی عالمی خبررساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ لوگ زمین پر تڑپ رہے تھے جبکہ عمارتوں کے شیشے اور دیواریں بکھر چکی تھیں۔ یوکرین کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ روس نے خارکیف پر چار میزائل داغے جن میں سے تین بیلسٹک مزائل تھے اور ان میں کلسٹر وارہیڈز نصب تھے۔ انہوں نے کہا کہ “روس ایک دہشتگرد مشین ہے اور جب تک اسے طاقت سے جواب نہ دیا جائے یہ رکے گا نہیں۔” خارکیف کے میئر ایگور ‘تیرے خوف’ کے مطابق ابتدائی اطلاعات میں 15 رہائشی عمارتوں کے تباہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، حملے میں ایک تعلیمی ادارہ اور کاروباری مرکز بھی زد میں آئے۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب حال ہی میں امریکا کی ثالثی میں روس اور یوکرین کے درمیان توانائی تنصیبات پر حملوں کی ممانعت پر اتفاق ہوا تھا۔ مگر صدر زیلنسکی کے مطابق روس نے توانائی کے بجائے اب عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا یوکرین معاہدہ: دونوں ممالک میں قیمتی معدنیات پر مفاہمت طے پا گئی
’اسرائیل کی ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس، فوج ہار چکی، مزاحمت کار ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں‘ حافظ نعیم کا ملتان میں خطاب

جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمان نے فلسطین سے یکجہتی اور امریکی سرپرستی میں جاری اسرائیلی حملوں کی مزمت کے لیے 26 اپریل کو پاکستان میں ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف جماعتِ اسلامی کے زیرِانتظام غزہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس کی قیادت امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کی۔ ریلی کا آغاز سہ پہر چار بجے گھنٹہ گھر چوک سے ہوا جبکہ اختتام کچہری چوک پر کیا گیا۔ مارچ میں ایک بڑی تعداد شریک تھی ، مارچ کے لیے مختص جگہ کم پڑ گئی اور سٹیج کے پیچھے بھی شرکاء موجود رہے۔ مزید پڑھیں:کیا اسرائیل ہار چکا ہے؟ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ اسرائیل کی ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور فوج ہار چکی ہے، مزاحمت کار ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ انہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ پرسوں 20 اپریل کو اسلام آباد میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ غیرت اور حمیت کا جنازہ ان چھپن اسلامی ملکوں کے سربراہان نے نکال دیا ہے۔ ہم خطاکار اور گناہگار ضرور ہیں، مگر یہ امت بے حمیت نہیں ہے، اس کی حمیت اور غیرت جاگ رہی ہے اور لوگ پوری دنیا میں اب بیدار ہورہے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ملتان میں آج تک لوگوں نے اس طرح کا سمندر نہیں دیکھا ہوگا، اولیاء کی یہ سرزمین اب بیدار ہوچکی ہے۔ حکمران تو حکمران اپوزیشن بھی واشنگٹن سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے، یہ سب انجمن غلامان امریکہ ہیں، پوری امت غزہ کے ساتھ ہے۔ اپنی پوزیشن واضح کریں کس کے ساتھ ہیں؟، حکمرانوں سے مطالبہ انھوں نے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کریں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ وہ قوم کے جذبات کی نمائندگی کریں یا پھر ان کے سروں سے ہٹ جائیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اور علما ء اکرام کے فتویٰ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، یہ دراصل اسرائیل کے ایجنٹ ہیں، احتجاج اور بائیکاٹ مہم کو منظم کیا جائے گا، اسرائیل کے حمایتیوں کو قوم نشان عبرت بنا دے گی۔ حافظ نعیم الرحمان نے مطالبہ کیا کہ حکومت اسلامی ملکوں کے آرمی اور نیول چیفس کا اجلاس بلا کر اسرائیل کو وارننگ جاری کرے، اس بات کو سمجھے کہ فلسطین ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، صہیونی افواج ہمارے بچوں کو مارے گی تو ہم امت میں بیداری پیدا کریں گے اور انتقام لیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل کا ہدف پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام اور گریٹر اسرائیل ہے۔ فلسطین ہمارا دل ہے، سب تیاری کریں بائیکاٹ کی کمپین آگے بڑھے گی۔ امیر جماعتِ اسلامی نے اعلان کیا کہ 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال ہو گی، پورا پاکستان بند ہو گا، دینی قیادت آن بورڈ ہے، اہل فلسطین کے حق میں گلوبل اسٹرائیک کو لیڈ کریں گے، ماؤں بہنوں کی غزہ مارچز میں آمد کو انقلاب کی نوید سمجھتے ہیں۔ امیر جماعت نے کہا کہ غزہ سے ہمارا تعلق قرآن و ایمان کا ہے، حماس کے مجاہدین عالمی طاقتوں کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہیں، اسرائیل بچوں اور ہسپتالوں پر بم پھینک رہا ہے، نہتوں کو نشانہ بنا رہا ہے، فاسفورس بموں سے جسموں کا جلا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی دہشت گردی کا سب سے بڑا سپورٹر ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ و اسرائیل دونوں شامل ہیں اور انہیں یہ طاقت مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کی وجہ سے ملی ہے، اسرائیل کو تو حماس نے معمولی اسلحہ سے شکست دے دی، حماس امت کے ماتھے کا جھومر ہے، حماس نے مزاحمت کی تاریخ رقم کرری، یہ پوری انسانیت کے مظلوموں پر احسان ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا امریکہ کی تاریخ دہشت گردی واقعات سے بھری پڑی ہے، ریڈ انڈینز کے قتل سے لے کر جاپان پر ایٹم بم گرانے تک امریکہ نے ہرجگہ ظلم کیا، ویت نام، عراق اور افغانستان تک امریکہ انسانیت کا قاتل ہے، امریکہ کسی کا وفادار نہیں، یہ حکومتوں کو اور حکومتی افراد کو استعمال کرتا ہے اور پھر پھینک دیتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سب امریکی مظالم کے خلاف سب متحد ہو جائیں، حیران ہیں جب ہم کہتے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل کی مذمت کریں، حکومت اور اپوزیشن امریکہ کی مذمت نہیں کرتے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ انہوں نے کہا جو یہ سوال کرے گا کہ بائیکاٹ سے کیا ہو گا وہ اسرائیل اور امریکا کا ایجنٹ ہے، اسرائیل کے خلاف سوشل میڈیا کے کمپین کرنے والے اناڑی نہیں کھلاڑی ہیں، دشمن کا ہتھیار دشمن کے خلاف ہی استعمال کریں گے۔۔ ‘‘اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی تو عوام نشان عبرت بنادیں گے’’ امیر جماعتِ اسلامی کا تنبیہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی نے سوچا بھی کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے تو واضح بتا دیتا ہوں کہ عوام انہیں عبرت کا نشان بنا دیں گے، حکومت تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں سے بات کرے، پوری دنیا میں وفود بھیجے جائیں اور فریڈم فلوٹیلا کی طرز پر آگے بڑھا جائے، غزہ کا محاصرہ توڑیں۔ حافظ نعیم الرحمان مارچ اپنے خطاب میں فلسطین پر اسرائیلی مظالم، عالمی طاقتوں کی خاموشی اور مسلم دنیا کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ مارچ کے شرکا سے امیر جماعت اسلامی پنجاب جنوبی سید ذیشان اختر ، امیر ضلع ملتان صہیب عمار صدیقی، مقامی رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ مارچ کے شرکا نے فلسطینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بینرز اور پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے، ایک نوجوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور انڈین وزیراعظم نریندرا مودی کو جوتے مارنے والی مشین اٹھا رکھی تھی۔ مزید پڑھیں: نیتن یاہو! تم سے یہ امت ایک ایک ظلم کا انتقام لے گی، حافظ نعیم کا غزہ مارچ سے خطاب واضح رہے کہ مارچ کے سلسلے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، ٹریفک کے لیے متبادل راستے بھی تجویز کیے گئے تاکہ شہریوں کو آمد و رفت میں دشواری نہ ہو۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی اس سے قبل بھی مختلف شہروں میں غزہ مارچ، احتجاجی ریلیاں
فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت: مسلم امہ کو کیا کرنا چاہیے؟

غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا قتلِ عام، انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس پر محض مذمتی بیانات کافی نہیں۔ مسلم ممالک کو اس نازک صورتحال میں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کیا جا سکے بلکہ عالمی سطح پر ایک مضبوط اسلامی مؤقف بھی سامنے آ سکے۔ سینیئر صحافی ایثار رانا کا کہنا ہے کہ غزہ میں تاریخ کا بدترین ظلم ہو رہا ہے اور اس پر مسلمانوں کو غیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور غیرت یہ ہے کہ اس پر وہ ااعلانِ جنگ کر دیں۔
امریکا یوکرین معاہدہ: دونوں ممالک میں قیمتی معدنیات پر مفاہمت طے پا گئی

یوکرین اور امریکا کے درمیان وہ لمحہ بالآخر آ ہی گیا جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ جمعرات کو کییف اور واشنگٹن نے ایک مفاہمت (MoU) پر دستخط کیے، جو یوکرین میں موجود قیمتی اور نایاب معدنیات کی تلاش و ترقی کے سلسلے میں ایک جامع معاہدے کی پہلی اہم کڑی ہے۔ یہ معاہدہ صرف کاغذی کارروائی نہیں بلکہ ایک نئی عالمی شراکت داری کا اشارہ ہے جس کے پیچھے موجود محرکات سیاسی بھی ہیں اور اقتصادی بھی۔ یوکرین کی نائب وزیراعظم و وزیر معیشت، یولیا سویریڈینکو نے اس پیش رفت کو “نئی شروعات” قرار دیا اور کہا کہ ” ہم خوش ہیں کہ اپنے امریکی شراکت داروں کے ساتھ ایک اہم قدم اٹھا چکے ہیں۔ یہ معاہدہ نہ صرف اقتصادی شراکت داری کی بنیاد رکھتا ہے بلکہ یوکرین کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ کاری فنڈ کے قیام کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔” دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ تب طے پایا جب کچھ ہی ماہ قبل وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر وولودیمیر زلنسکی اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک ملاقات شدید تلخی ہوئی تھی۔ یہ بھی پڑھیں: یمن میں آئل پورٹ پر امریکی فضائی حملہ: 38 معصوم لوگ شہید، 102 زخمی اطلاعات کے مطابق اس ملاقات کے دوران ماحول اس قدر گرم ہو گیا کہ ممکنہ معاہدے پر دستخط بھی مؤخر کر دیے گئے۔ امریکا، جس نے یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں بھرپور عسکری امداد دی، اب امریکا ان وسائل کا “بدلہ” چاہتا ہے اور یہ بدلہ ہے یوکرین کی زمین میں چھپی وہ معدنیات جن کی دنیا کو اشد ضرورت ہے بالخصوص ٹیکنالوجی، دفاع اور توانائی کے شعبوں میں۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” ہمارا معدنیات کا معاہدہ تیار ہے جو غالباً اگلے ہفتے دستخط کیا جائے گا۔ یہ وہی معاہدہ ہے جس پر ہم نے پہلے اصولی اتفاق کیا تھا مگر اب ہم براہ راست بڑے معاہدے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ 80 صفحات پر مشتمل دستاویز ہیں جو ہمارے تعلقات کو نئی جہت دے گی۔” یوکرین کی طرف سے اگرچہ حتمی دستخط کی تاریخ نہیں دی گئی لیکن صدر زلنسکی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ معاہدہ آن لائن بھی سائن کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے گی۔ یہ پیش رفت صرف یوکرین اور امریکا کے تعلقات کا ایک نیا باب ہی نہیں بلکہ روس کے خلاف یوکرین کی مزاحمت کے بیانیے کو بھی ایک نئی توانائی فراہم کرتی ہے۔ مزید پڑھیں: پولیس افسر کے بیٹے نے سرکاری پستول سے یونیورسٹی میں 6 افراد کو گولیاں مار دی
حکمرانوں کی لائن لگی ہوئی ہے کہیں امریکا ناراض نہ ہو جائے، حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے سپیرئیر یونی ورسٹی لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو طاقت امریکا اور مسلم حکمرانوں نے دی ہے۔ حکمرانوں کی لائن لگی ہھے کہیں امریکا ناراض نہ ہو جائے۔ کچھ ممالک آپ کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن میں جنگ چل رہی ہے کہ کون امریکا کا اچھا غلام ہے۔ان سے کوئی اچھے کی امید نہ رکھے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور فلسطین کے درمیان ایک گہرا انسانی اور ایمانی تعلق موجود ہے جو قرارداد پاکستان کے وقت سے قائم ہے۔ ان کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا اور پاکستان کے اس اصولی مؤقف کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 1940 میں لاہور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کے جلسے میں جہاں قرارداد پاکستان پیش کی گئی، وہیں دوسری قرارداد فلسطین کے حق میں منظور کی گئی۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی فلسطین سے وابستگی صرف سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی اور انسانی بنیادوں پر قائم ہے۔
پولیس افسر کے بیٹے نے سرکاری پستول سے یونیورسٹی میں 6 افراد کو گولیاں مار دیں

فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کیمپس پر فائرنگ کے المناک واقعے نے پورے شہر کو لرزا کر رکھ دیا۔ شوٹنگ کا مرکزی کردار کوئی اور نہیں بلکہ لیون کاؤنٹی کے ڈپٹی شیرف کا بیٹا نکلا، جس نے نہ صرف دو افراد کی جان لے لی بلکہ چار دیگر کو شدید زخمی کر دیا۔ یہ واقعہ جمعرات کی دوپہر تقریباً 11:50 بجے پیش آیا جب یونیورسٹی کے مرکزی سٹوڈنٹ یونین بلڈنگ کے قریب یکایک گولیوں کی آواز گونجی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور بڑی تیزی سے بلڈنگ سے باہر نکلا اور بغیر کسی وارننگ کے فائرنگ شروع کر دی۔ 20 سالہ حملہ آور کی شناخت “فینکس اکنر” کے نام سے ہوئی ہے جو خود بھی فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فینکس نے یہ واردات اکیلے انجام دی، اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملے کا کوئی واضح محرک سامنے نہیں آ سکا۔ لیون کاؤنٹی کے شیرف، والٹر میکنیل نے ایک پریس کانفرنس میں افسوسناک انکشاف کیا کہ فینکس نے اپنی ماں کا ذاتی ہتھیار استعمال کیا جو پہلے اس کا سرکاری سروس ویپن تھا۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ پر ظلم کی انتہا: اسرائیلی بمباری میں مزید 32 فلسطینی شہید ہوگئے شیرف نے کہا کہ “بدقسمتی سے، حملہ آور کو اس ہتھیار تک رسائی حاصل ہو گئی جو جائے وقوعہ سے برآمد ہوا۔” یونیورسٹی پولیس چیف، جیسن ٹرمباور کے مطابق، ہلاک ہونے والے دونوں افراد یونیورسٹی کے طالبعلم نہیں تھے تاہم زخمیوں کے حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ عینی شاہد طالبعلم میکس جینکنز نے میڈیا کو بتایا کہ “حملہ آور نے جب سٹوڈنٹ یونین سے باہر قدم رکھا تو لگ بھگ چار سے پانچ گولیاں چلائیں۔ ایک مینٹیننس ورکر جو طلبہ کو محفوظ مقام کی طرف اشارہ کر رہا تھا فینکس نے اسے نشانہ بنایا۔” پولیس اہلکاروں نے جائے وقوعہ پر بروقت پہنچ کر حملہ آور کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی، تاہم اس نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کیا جس کے بعد پولیس نے اسے گولی مار کر قابو پایا۔ حملہ آور سمیت تمام زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس نے اس واقعے کو المیہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔ یاد رہے کہ یہ فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی میں گزشتہ 11 برسوں میں پیش آنے والا دوسرا بڑا فائرنگ کا واقعہ ہے۔ ایک طرف ملک بھر میں اسکول کیمپس پر بڑھتے ہوئے فائرنگ کے واقعات نے خوف و ہراس پھیلایا ہے، تو دوسری جانب اس واقعے نے سوال اٹھا دیے ہیں کہ آخر ایک سرکاری افسر کا بیٹا کیسے اتنی آسانی سے اسلحے تک رسائی حاصل کر سکا؟ مزید پڑھیں: یمن میں آئل پورٹ پر امریکی فضائی حملہ: 38 معصوم لوگ شہید، 102 زخمی
ہمارا جہاد یہ ہے کہ ہم بولیں، حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ جب بھی جہاد کی بات کرو تو کچھ لوگ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتے بلکہ مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ جہادد کا مطلب ہے ہر ممکن کوشش کرنا اور وہ ہم کرتے رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ مذاق اڑاتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ آپ کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
غزہ کی تباہی پر دنیا خاموش، پاکستان میں روشنی کی ایک کِرن

غزہ جل رہا ہے، بچے چیخ رہے ہیں، مائیں دفن ہو رہی ہیں، فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ امریکی سرپرستی میں اسرائیلی ظلم اپنی انتہا پر ہے، اور انسانیت بے بس، ہمارے دل، ہماری آنکھیں، اور شاید ہمارا ضمیر بھی مر چکا ہے۔ مہینوں سے وہاں پانی ہے، نہ بجلی، نہ دوا، اور نہ ہی آواز سننے والا کوئی، دنیا خاموش ہے۔ مسلم دنیا بھی اور شاید ہم بھی۔اسی خاموشی کو توڑنے اور مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے آج سپیریئر یونیورسٹی لاہور میں فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک بامقصد پروگرام منعقد کیا گیا۔پروگرام کے مہمانِ خصوصی جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان تھے، جنہوں نے اپنے خطاب میں فلسطین کی تاریخ، جاری مظالم اور مسلم اُمّہ کی ذمہ داریوں پر مدلل انداز میں گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔پروگرام کے اختتام پر ایک علامتی واک کا انعقاد کیا گیا، جس میں شرکاء نے بینرز اٹھا کر اور پُرسوز نعرے لگا کر فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ واک صرف ایک احتجاج نہیں، ایک پیغام تھا بیداری، اتحاد اور انسانیت کا۔
’دشمن کو اسی کے تِیر سے مارنا چاہیے‘ طلبا اسرائیل بائیکاٹ مہم میں پیش پیش

گزشتہ چند ماہ سے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں نے دنیا بھر میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، بالخصوص پاکستان میں عوامی جذبات شدید ہیں۔ ان حملوں کو امریکہ کی سیاسی و عسکری پشت پناہی حاصل ہونے کے باعث، پاکستانی معاشرے میں اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے خلاف غم و غصہ بڑھا ہے۔ اسی پس منظر میں ملک بھر میں ایک بائیکاٹ مہم زور پکڑ رہی ہے، جس میں نوجوان اور طلبہ ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تحریک نہ صرف معاشی دباؤ کے ذریعے احتجاج کی ایک علامت بن چکی ہے بلکہ یہ اس بات کا مظہر بھی ہے کہ پاکستان کا باشعور طبقہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے سرگرم ہے۔