صحت مند اور توانا زندگی کا راز: ’ورزش زندگی خوبصورت بناتی ہے‘

آج کے تیز رفتار اور مصروف طرزِ زندگی نے انسان کو جہاں بے شمار سہولیات فراہم کی ہیں، وہیں صحت کے مسائل میں بھی غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔ دن بھر دفاتر میں بیٹھے رہنا، ٹیکنالوجی پر انحصار، جسمانی محنت سے دوری، اور غیر متوازن طرزِ زندگی نے انسان کو مختلف جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار بنا دیا ہے۔ نوجوانوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک، سب ہی کسی نہ کسی جسمانی مسئلے یا ذہنی دباؤ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک سادہ، قدرتی اور مؤثر حل جو ہر کسی کی دسترس میں ہے، وہ ہے “ورزش”۔ ورزش نہ صرف جسم کو چاق و چوبند اور متحرک رکھتی ہے بلکہ ذہنی صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ باقاعدہ ورزش دل کی صحت بہتر بناتی ہے، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھتی ہے، ہڈیوں اور پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے، اور نیند کے معیار کو بہتر کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ورزش ذہنی دباؤ کو کم کرتی ہے، دماغی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے، اور انسان کو مثبت طرزِ فکر کی جانب راغب کرتی ہے۔ ورزش دراصل صرف جسمانی سرگرمی نہیں، بلکہ یہ ایک طرزِ زندگی ہے، جو انسان کو ایک فعال، خوش باش اور لمبی عمر کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اچھی صحت اور لمبی زندگی کا راز ورزش ہی میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ورزش کو لازمی جگہ دیں، تاکہ نہ صرف ہم خود صحت مند رہیں بلکہ معاشرہ بھی تندرست اور خوشحال بنے ۔

یمن میں آئل پورٹ پر امریکی فضائی حملہ: 38 معصوم لوگ شہید، 102 زخمی

یمن کی سرزمین ایک بار پھر لہو سے تر ہوگئی، جمعرات کے روز امریکی جنگی طیاروں نے ملک کے مغربی ساحل پر واقع آئل پورٹ راس عیسیٰ پر مہلک حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 38 افراد شہید اور 102 زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ امریکی افواج کی جانب سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی عسکریت پسندوں کے خلاف جاری سب سے بڑے فوجی آپریشن کا حصہ بتایا جا رہا ہے جو مشرق وسطیٰ میں نئی جنگی فضا پیدا کر رہا ہے۔ سپین کے نشریاتی ادارے ایجنسی المسیرہ ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی بندرگاہ نہ صرف عام شہریوں کے لیے ایندھن کا اہم ذریعہ تھی بلکہ وہاں موجود مزدوروں کی بڑی تعداد بھی اس حملے میں متاثر ہوئی جبکہ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے جس کے باعث شہادتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن نے اپنی صفائی میں کہا ہے کہ یہ حملے دراصل حوثیوں کی معاشی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں جو کہ امریکا کے مطابق خطے میں بدامنی کا سبب بن رہے ہیں اور “اپنے ہی ہم وطنوں کا استحصال کر رہے ہیں”۔ امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ “یہ حملے حوثی گروپ کو ایندھن سے حاصل ہونے والی آمدنی سے محروم کرنے کے لیے ضروری تھے۔” یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کیسے فلسطینیوں کا ورثہ تباہ کر رہا ہے؟ اس کے علاوہ حوثی قیادت کا کہنا ہے کہ امریکی حملے صرف عسکری اہداف پر نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے مطابق مارچ میں دو روز تک جاری رہنے والے امریکی حملوں میں بھی 50 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ نومبر 2023 سے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے بین الاقوامی بحری جہازوں پر درجنوں ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ حملے دراصل اسرائیل کے خلاف احتجاج کا حصہ ہیں جو غزہ پر جاری مظالم کے جواب میں کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران یہ حملے تھم گئے تھے مگر حالیہ ہفتوں میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کی تجدید کے بعد حوثیوں نے دوبارہ حملے شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا تاہم اس کے بعد کسی حملے کی ذمہ داری انہوں نے واضح طور پر قبول نہیں کی۔ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر حوثیوں نے اپنے حملے بند نہ کیے تو وہ اپنی کارروائیاں مزید تیز کر دے گا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ ایک خطرناک اعلان ہے جو خطے میں مزید بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے۔ یمن میں راس عیسیٰ بندرگاہ پر امریکی حملہ نہ صرف وہاں کے مکینوں کے لیے قیامت خیز لمحہ تھا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نئے تنازعے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوامِ متحدہ اور علاقائی طاقتیں اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی ضمیر اس خون ریزی کے خلاف جاگے گا یا صرف مذمتی بیانات ہی جاری ہوتے رہیں گے؟ مزید پڑھیں: غزہ پر ظلم کی انتہا: اسرائیلی بمباری میں مزید 32 فلسطینی شہید ہوگئے

پی آئی اے کی نجکاری کا اعلان، اگلے ہفتے سے بولیاں لگائی جائیں گی

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری کے عمل میں حکومت پاکستان ایک مرتبہ پھر متحرک ہو گئی ہے اور اگلے ہفتے 51 سے 100 فیصد حصص خریدنے کے لیے اظہارِ دلچسپی طلب کیے جائیں گے۔ وزارت نجکاری نے جمعرات کو اعلان کیا کہ نجکاری کمیشن بورڈ نے نہ صرف نئی بولیوں کی منظوری دی ہے بلکہ ممکنہ خریداروں کے لیے پری کوالیفکیشن کے معیار بھی طے کر لیے گئے ہیں۔ یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے دو دہائیوں میں پہلی بار سالانہ منافع ظاہر کیا ہے، جو ایک مثبت علامت سمجھی جا رہی ہے۔ حکومت کی یہ کوشش بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سات ارب ڈالر کے پروگرام کے تحت ریاستی اداروں میں اصلاحات اور کیش نکالنے والے خسارے میں چلنے والے اداروں سے چھٹکارے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ گزشتہ سال کی نجکاری کی کوشش ناکام رہی تھی، کیونکہ صرف ایک بولی موصول ہوئی تھی، جو مارکیٹ ویلیو سے کم یعنی 300 ملین ڈالر سے بھی کم کی پیشکش پر مشتمل تھی۔ اس تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے، حکومت نے اس بار قومی ایئرلائن کا زیادہ تر پرانا قرضہ خود اپنے کھاتے میں منتقل کر دیا ہے تاکہ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے کمپنی کو پرکشش بنایا جا سکے۔ مشیر برائے نجکاری محمد علی نے حال ہی میں کہا تھا کہ پچھلی کوشش کے دوران سامنے آنے والے تمام قانونی، مالیاتی اور آپریشنل مسائل کو حل کر دیا گیا ہے تاکہ اس بار سنجیدہ اور موزوں سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے۔ پی آئی اے کی ممکنہ فروخت پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہو سکتی ہے، خاص طور پر موجودہ مالیاتی دباؤ کے پیش نظر جہاں حکومت کو غیر ضروری اخراجات کم کرنے اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

غزہ پر ظلم کی انتہا: اسرائیلی بمباری میں مزید 32 فلسطینی شہید ہوگئے

غزہ کے شہر خان یونس میں آج صبح ظلم کی انتہا کردی، جب اسرائیلی فضائی حملے میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد شہید ہو گئے۔ ملبے تلے دبی لاشوں کی چیخیں، بچوں کے جلے ہوئے کھلونے اور ماؤں کی سسکیاں یہ تمام مناظر دنیا کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونے چاہییں مگر عالمی ضمیر تاحال خاموش ہے۔ جمعرات کے دن اسرائیلی افواج کی بمباری نے کم از کم 32 اور نہتے فلسطینیوں کی جان لے لی، جبکہ جنوبی خان یونس کے خیموں پر کیے گئے حملے میں ایک اور خاندان مکمل طور پر شہید کر دیا گیا۔ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے نمائندے اس بربریت کو “جان بوجھ کر انسانی امدادی ڈھانچے پر کیا گیا حملہ” قرار دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ سے وابستہ 12 امدادی تنظیموں نے ایک متفقہ بیان میں کہا ہے کہ “غزہ ہماری نسل کی سب سے بدترین انسانی ناکامی ہے”۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 51,065 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 116,505 زخمی ہیں۔ غزہ میڈیا آفس کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی شہداء کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں ہزاروں وہ بھی شامل ہیں جو ملبے تلے دفن ہو چکے ہیں۔ یاد رہے اس جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا جب حماس کے حملوں میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد قید کر لیے گئے۔ لیکن اس کے بعد اسرائیل نے جو قیامت فلسطینیوں پر ڈھائی وہ انسانی تاریخ پر ایک سیاہ داغ بن چکی ہے۔ دنیا خاموش ہے مگر غزہ چیخ رہا ہے، ظلم بڑھتا جا رہا ہے اور شہداء کی تعداد تاریخ کے اوراق پر خون سے لکھی جا رہی ہے۔  مزید پڑھیں: اسرائیل کیسے فلسطینیوں کا ورثہ تباہ کر رہا ہے؟

غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ، تعلیم ختم: 130طلبہ نے امریکی امیگریشن پر مقدمہ دائر کر دیا

130 سے زائد بین الاقوامی طلبہ، جنہوں نے امریکا میں اپنی تعلیم اور مستقبل کو بچانے کے لیے وفاقی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ان طلبہ کا الزام ہے کہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے ان کے اسٹوڈنٹ ویزے اچانک اور غیر قانونی طور پر منسوخ کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف اپنی تعلیم سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ گرفتاری، نظربندی اور ملک بدری کے خطرے سے بھی دوچار ہو گئے۔ یہ مقدمہ سب سے پہلے 11 اپریل کو ریاست جارجیا میں 17 طلبہ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر سے مزید 116 طلبہ اس قانونی جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ کیس اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، ان طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کے ویزے SEVIS (اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر انفارمیشن سسٹم) ڈیٹا بیس سے ان کی تفصیلات بغیر کسی معقول وجہ کے ہٹا کر منسوخ کیے گئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان ویزا منسوخیوں کے پیچھے کوئی واضح وجہ نہیں دی گئی۔ بعض طلبہ نے محض ٹریفک چالان یا پرانے اور بند مقدمات کو ممکنہ وجہ قرار دیا۔ یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کے وزیر دفاع سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے ایک چینی طالبعلم، جو جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں انجینئرنگ کا ڈاکٹریٹ کر رہا ہے اس کو یونیورسٹی نے بتایا کہ اس کا ویزا کسی “کریمنل ریکارڈ چیک” کے بعد منسوخ کر دیا گیا مگر اس ریکارڈ میں کسی جرم کی وضاحت نہیں دی گئی۔ وہ مانتا ہے کہ شاید یہ کسی پرانے ٹریفک کیس کی بنیاد پر ہوا ہو حالانکہ اس کا کوئی مجرمانہ ماضی نہیں۔ اسی طرح، نیویارک انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم ایک انڈین طالبعلم نے بتایا کہ اس پر شاپ لفٹنگ کا الزام لگایا گیا تھا مگر عدالت نے اسے باعزت بری کر دیا۔ اس کے باوجود اس کا ویزا منسوخ کر دیا گیا اور اب وہ نہ صرف تعلیم سے محروم ہے بلکہ امریکا میں قیام کا قانونی حق بھی کھو بیٹھا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ SEVIS سے ان طلبہ کی تفصیلات کا اخراج انہیں مستقبل میں دوبارہ امریکا میں داخلے کے حق سے بھی محروم کر سکتا ہے۔ درخواست گزاروں نے اٹارنی جنرل پام بونڈی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم اور ICE کے عبوری ڈائریکٹر ٹوڈ لیونز کو فریق بنایا ہے اور ویزوں کی بحالی کی درخواست کی ہے۔ یہ مقدمہ نہ صرف طلبہ کے حقوق کا مسئلہ بن چکا ہے بلکہ یہ اس وسیع تر امیگریشن پالیسی کا بھی حصہ ہے جس نے ٹرمپ دور میں غیر ملکیوں، بالخصوص طلبہ، کو نشانے پر رکھا۔ مزید پڑھیں: اسرائیل کیسے فلسطینیوں کا ورثہ تباہ کر رہا ہے؟

پنجاب میں شدید بارشوں سے نو افراد جاں بحق، ہیٹ ویو اور مزید طوفانی موسم کا الرٹ جاری

پنجاب میں گزشتہ دو دن کے دوران شدید بارشوں، ژالہ باری اور آسمانی بجلی کے نتیجے میں کم از کم نو افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ آنے والے دنوں میں مزید خراب موسم کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے شمالی اور وسطی پنجاب کے مختلف علاقوں کے لیے 18 اور 19 اپریل کو شدید موسم کی وارننگ جاری کی ہے، جس میں آندھی، گرج چمک، ژالہ باری اور تیز بارش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ خراب موسم نہ صرف انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ ٹرانسپورٹ، بجلی کی ترسیل اور زرعی فصلوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ این ڈی ایم اے کی ایڈوائزری میں خبردار کیا گیا ہے کہ تیز ہواؤں سے درخت اور بجلی کے کھمبے گر سکتے ہیں، جبکہ اولے گاڑیوں، چھتوں، سولر پینلز اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایمرجنسی رسپانس ٹیموں کو الرٹ کر دیا گیا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کو بھی چوکنا رہنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں عوام کو غیر ضروری سفر سے گریز، بلند درختوں اور بجلی کی تاروں سے دور رہنے اور سرکاری ایپس و چینلز کے ذریعے اپ ڈیٹ رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق، لیہ اور کوٹ ادو میں آسمانی بجلی گرنے سے دو افراد جاں بحق جبکہ کئی مقامات پر مکانات کو نقصان پہنچا۔ ریسکیو ٹیموں اور مشینری کو مکمل تیاری کے ساتھ متحرک کر دیا گیا ہے، اور متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جائے گی۔ ایک اور رپورٹ میں ہیٹ ویو کا الرٹ جاری کیا گیا ہے جو خیبر پختونخوا، بلوچستان، پوٹھوہار، مری اور دیگر علاقوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ شدید گرمی سے جنگلات میں آگ لگنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے، جبکہ گلیشیئر کے پگھلنے سے گلگت بلتستان اور چترال میں جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ تین ماہ کی موسمی پیشن گوئی کے مطابق، اپریل سے جون تک ملک میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت اور کم بارشیں ہوں گی، جس سے زرعی پیداوار، پانی کی دستیابی اور غذائی تحفظ متاثر ہو سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچنے کا امکان ہے۔ عوام کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ہیٹ ویو کے دوران غیر ضروری دھوپ سے گریز کریں، پانی کا استعمال زیادہ کریں اور گرمی سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اپنائیں۔

اسرائیل کیسے فلسطینیوں کا ورثہ تباہ کر رہا ہے؟

جب 800 سال پرانا پاشا پیلس اسرائیلی بمباری کی لپیٹ میں آیا تو صرف پتھر نہیں ٹوٹے بلکہ ایک تہذیب ایک تاریخ اور ایک قوم کی شناخت کے نشان بھی راکھ بن گئے۔ غزہ کے مرکز میں موجود یہ عظیم الشان محل جو مملوک اور عثمانی دور کی جیتی جاگتی یادگار تھا اب صرف خاکستر میں دفن ایک ماضی کی کہانی بن چکا ہے۔ یہ وہی پاشا پیلس تھا جہاں نپولین بوناپارٹ نے راتیں گزاریں، جہاں سنہری پتھر کی دیواریں آسمان کو چھوتی تھیں اور جہاں عجائب گھر کے ٹھنڈے ہال سینکڑوں نایاب نوادرات کو محفوظ رکھتے تھے۔ لیکن اسرائیل کے ظالمانہ حملوں نے نہ صرف دیواریں گرا دیں بلکہ اس عمارت کی روح بھی چھین لی۔ عجائب گھر کے ڈائریکٹر حمودہ الدحدہ کی بارہ سالہ بیٹی مروت بھی اس وقت شہید ہوگئی جب ایک دھماکے میں ان کا پورا خاندان اس محل کے ملبے تلے آ گیا۔ یہ صرف ایک عمارت کی کہانی نہیں، یہ فلسطینی تاریخ کی تباہی کا وہ سلسلہ ہے جسے اسرائیلی جارحیت نے بےرحمی سے جاری رکھا ہوا ہے۔  پاشا پیلس کے قریب واقع 700 سال پرانا حمام السمرہ بھی اس تباہی کا شکار ہوا۔ اس کے محافظ، 74 سالہ سلیم الوزیر جو 1970 سے اس تاریخی مقام کے نگہبان تھے، جب جنگ کے بعد پہلی بار واپس لوٹے تو اُن کے سامنے اس پیلس کا صرف ملبہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں نے اپنا ماضی کھو دیا، اپنا خاندان اور اپنے شہر کی اجتماعی یادداشت کا ایک ٹکڑا بھی۔ یہ صرف پتھر نہیں تھے یہ ہماری شناخت تھی۔” منہاج یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر نواب سجاد نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اسرائیلی فوج نے 2024 سے فلسطینی عوام اور ان کے اسلامی مقدس مقامات کی پامالی کر رہی ہے۔ جب کہ یہ بہادر قوم اپنے حقوق پر ثابت قدم ہے اور اسرائیلی فورسز کے حملوں کے باوجود اپنے ورثے کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہے ۔” اسرائیل کی بمباری نے پورے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے 48 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اس کے علاوہ صاف پانی، ادویات، سڑکیں، اسکول، ہسپتال اور مساجد سب کچھ یا تو تباہ ہو چکا ہے یا ناقابلِ استعمال ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین اور برطانوی آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کے دو تہائی ثقافتی ورثے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف ان عمارتوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں مبینہ طور پر حماس کا استعمال ہوتا ہے، لیکن بین الاقوامی ماہرین اور شواہد بتاتے ہیں کہ ان حملوں میں بیشتر تاریخی مقامات کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا جو عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس سب کے علاوہ غزہ کی سب سے قدیم اور بڑی مسجد جامعہ العمری، جس کی بنیاد بازنطینی دور میں رکھی گئی تھی اور بعد میں اسلامی فتح کے بعد گرجا گھر سے مسجد میں تبدیل کر دی گئی، اور اب یہ مسجد بھی اسرائیلی جارحیت کی نظر ہوگئی۔ اس کا تاریخی لکڑی کا منبر تو محفوظ رہا لیکن چھت گر چکی ہے، دیواریں زمیں بوس ہیں اور مینار ٹوٹ بھی چکا ہے۔ یہ صرف عبادت گاہیں یا یادگاریں نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی اجتماعی یادداشت، ان کی شناخت اور مزاحمت کی علامت ہیں۔ منہاج یونیورسٹی سے بین القوامی امور کے ماہر ڈاکٹر سید نعمان علی شاہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک ایسی قابض اور ظالم ریاست بن چکا ہے جو انسانیت کے جنازے پر سیاست کا کھیل کھیل رہا ہے، جس کے ٹینکوں نے نا سمانے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھا اور نا ہی فلسطینی خواتین کو دیکھا اور بس مسلمانوں کی لاشیں گراتے چلے گئے اور اب ان کی نام نہاد جمہوریت مظلوموں کے قبرستان پر کھڑی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسرائیل وہ ناسور ہے جو میڈل ایسٹ کے سینے میں زبردستی گھسا دیا گیا، جہاں نہ عدل ہے نہ رحم، صرف ظلم ہے، بارود ہے اور تباہی ہے۔ بس اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اس بدماش ریاست کو نست و نعبود کردے، آمین۔ دوسری جانب 60 سالہ طارق ہنیہ، جو دہائیوں سے جامعہ العمری کے ٹور گائیڈ تھے وہ کہتے ہیں کہ “جنگ نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے، میرے دوست، میرا گھر اور میری مسجد۔ لیکن ہم اسے دوبارہ تعمیر کریں گے یہ ہمارا وعدہ ہے۔” جہاں دنیا ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے وہیں فلسطینی اپنے ورثے کی قبروں پر کھڑے ہو کر اُمید کی شمعیں روشن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حالات بہتر ہوں تو صرف عارضی تحفظ میں ہی 33 ملین ڈالر خرچ ہوں گے اور مکمل بحالی میں آٹھ سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی سننے والا ہے ہی نہیں کیونکہ دنیا کی نظریں شاپنگ مالز اور بلند و بالا ہوٹلوں پر ہیں، پرانے پتھروں اور شکستہ دیواروں پر نہیں۔ امریکا اور مغربی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، جب کہ فلسطینی نہتے ہونے کے باوجود اپنی شناخت کے لیے، اپنی تاریخ کے لیے اور اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ دنیا نے فلسطینی بچوں کی چیخیں، تباہ شدہ اسکولوں کی خاک اور مسجدوں کے ملبے پر بہتا خون دیکھ کر بھی چپ سادھ لی ہے۔ لیکن غزہ کے لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ “ہم اپنے ماضی کو دوبارہ زندہ کریں گے، اگر کوئی نہیں آیا تو ہم خود اپنی قبروں سے اٹھ کر اپنے ورثے کو از سر نو تعمیر کریں گے۔ کیونکہ یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ انسانیت کا ورثہ ہے۔”