‘نجکاری نہیں چلے گی‘ گرینڈ ہیلتھ الائنس کا احتجاج شدت اختیار کر گیا

لاہور کی مرکزی شاہراہ مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے مقام پر لگے خیمے، ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے مرد و خواتین، سڑکوں پر لیٹے طبی عملے کے ارکان اور ان کے چہروں پر چھائی تھکن۔ یہ مناظر پنجاب کے سرکاری اسپتالوں سے تعلق رکھنے والے ان ہزاروں ملازمین کے احتجاج کی عکاسی کرتے ہیں جو “نجکاری کے خلاف جدوجہد” کے نعرے کے ساتھ گزشتہ 13روز سے سراپا احتجاج ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر سلمان حسیب نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب حکومت نے پہلے بنیادی مراکز صحت پرائیوٹائز کر دیے، اب بڑے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ جس سے محکمہ صحت کے دو لاکھ سے زائد ملازمین کے روزگار اور شہریوں کو سستی صحت کی سہولیات کو شدید خطرہ ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مطابق حکومت پنجاب “ہیلتھ فیسیلیٹیز مینجمنٹ کمپنی” کے ذریعے سرکاری اسپتالوں کی خدمات نجی شعبے کو منتقل کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ پالیسیاں عوام دشمن ہیں اور صحت کے شعبے کو منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرنے کی کوشش ہیں۔ یہ احتجاج مارچ 2025 کو اس وقت شروع ہوا جب مختلف طبّی شعبوں سے وابستہ ملازمین نے ابتدائی طور پر ہڑتال کا اعلان کیا۔ اپریل کو گرینڈ ہیلتھ الائنس نے لاہور میں دھرنے کا آغاز کیا۔ 18 اپریل کو مظاہرین نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئیں، لاٹھی چارج، واٹر کینن اور گرفتاریوں کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ کچھ مظاہرین گرمی کی شدت کے باعث بے ہوش ہوگئے، جنہیں موقع پر ہی طبی امداد دی گئی، مظاہرے میں شامل گرینڈ ہیلتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر شعیب نیازی کی حالت بھی خراب ہوگئی۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر شعیب نیازی اور سلمان حسیب کو پولیس ساتھ لے کر چلی گئی اور مؤقف اختیار کیا کہ ہم ڈاکٹرز کے نمائندوں کو مذاکرات کے لیے لے کر جارہے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر شعیب نیازی نے کہاکہ پولیس کی جانب سے مذاکرات کا کہا جارہا ہے، اگر ہمیں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو مظاہرین دھرنا جاری رکھیں۔ لاہور کے چلڈرن اسپتال اور جنرل ہسپتالوں کی او پی ڈیز نے کام کرنا بند کر دیا ہے، جب کہ شہر کے دیگر سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز جاری ہیں۔ لاہور میں بنیادی مراکز صحت کی نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کا پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا تیرہ روز سے جاری ہے۔ پولیس تشدد کے خلاف ینگ ڈاکٹرز نے آج پنجاب بھر کے سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی بند کردی ہے۔ لاہور کے جنرل، میو، گنگا رام، سروسز اور جناح اسپتال میں ینگ ڈاکٹرز او پی ڈی بند کراتے ہیں، جسے انتظامیہ دوبارہ بحال کردیتی ہے۔ دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کا کہنا ہے نجکاری سے بے روزگار ہوجائیں گے، نجکاری کا فیصلہ واپس لیاجائے، جب تک حکومت مذاکرت کرنےاورمطالبات منظورنہیں کرلیتی دھرنا جاری رہے گا۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی سلمٰی بٹ نے کہا کہ کسی کے روزگار پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ آٹ سور سنگ کی مبینہ طور پر اس لیے تکلیف ہے کہ اب روزانہ حاضری چیک ہو گی اور عملے کو روزانہ آنا پڑے گا۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اراکین اسمبلی نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کی توجہ اس جانب دلائی اور کہا کہ حکومت کو اس آٹ سورسنگ میں کم از کم ملازمین کی ریٹائر منٹ سے پہلے تک ملازمت برقرار رکھی جائے تو اسپیکر کے استفسار پر صوبائی وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب حکومت کے پی ایچ ایف ایم سی کی نگرانی میں بی ایچ یو اور آر ایچ سی چل رہے تھے، جس کی جون میں نگرانی ختم ہو جائے گی۔ حکومت نوے فیصد ملازمین کومتبادل روزگار فراھم کرے گی، جس میں ڈاکٹرز، ایل ایچ وی، نرس، آیا اور درجہ چہارم کے ملازمین شامل ہیں۔ یہ احتجاج صرف ڈاکٹروں تک محدود نہیں بلکہ اس میں آل پنجاب پیرا میڈیکل اسٹاف فیڈریشن، لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن، ینگ نرسز ایسوسی ایشن، کلاس فور یونین اور مختلف ٹیکنیکل اینڈ نان-ٹیکنیکل ملازمین کی نمائندہ تنظیمیں شامل ہیں۔ یہ اشتراک اس احتجاج کو ایک جامع صوبائی تحریک کی صورت دے رہا ہے۔ صحت جیسے بنیادی انسانی حق پر نجکاری کی چھاپ نے نہ صرف طبّی عملے کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا ہے، بلکہ وہ غریب اور محروم طبقہ بھی شدید متاثر ہوا ہے، جو سرکاری اسپتالوں کو اپنی واحد امید سمجھتا ہے۔ جب صحت جیسا حساس شعبہ پالیسی تضادات، عدم اعتماد اور احتجاج کی زد میں آ جائے تو اثر صرف اداروں پر نہیں پڑتا بلکہ ہر بیمار اور اس کے گھرانے تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومت اور طبّی عملہ جذبات سے ہٹ کر ہوش سے کام لیں، ایک دوسرے کا مؤقف سنیں اور ایسے پائیدار حل کی طرف بڑھیں جو نہ صرف ملازمین کے خدشات کا ازالہ کرے بلکہ عام آدمی کو بروقت اور باوقار علاج کی سہولت بھی یقینی بنائے۔ کیونکہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو نقصان صرف اداروں کا نہیں، پورے معاشرے کا ہو گا۔
پنجاب یونیورسٹی کی 7 خواتین سمیت 12 اساتذہ 11 کروڑ 55 لاکھ کی اسکالر شپس لے کر ‘مفرور’، کارروائی کا فیصلہ

پنجاب یونیورسٹی کے 12 اساتذہ 11 کروڑ 55 لاکھ روپے کی سکالرشپ حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک جا کر مفرور ہو گئے۔ یونیورسٹی نے ان اساتذہ سے رقوم کی واپسی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو خط لکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جب کہ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو بھی ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بلاک کرنے کے لیے مراسلے ارسال کیے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے 56 اساتذہ کو بیرون ملک پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے کروڑوں روپے کی اسکالرشپ فراہم کی گئی تھی، جن میں سے 12 اساتذہ نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد معاہدے کے تحت یونیورسٹی جوائن نہیں کی۔ قانون کے مطابق ان اساتذہ کو پی ایچ ڈی کے بعد کم از کم پانچ سال یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دینا تھیں، تاہم انہوں نے واپس آ کر ڈیوٹی جوائن نہیں کی۔ ترجمان پنجاب یونیورسٹی کے مطابق مفرور اساتذہ کو معاہدے کے تحت کروڑوں روپے کی رقم واپس کرنا تھی، جس کی عدم ادائیگی پر انہیں یونیورسٹی سروس سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق فرح ستار (جی آئی ایس سینٹر) ستر لاکھ، سید محسن علی (جی آئی ایس سینٹر) ایک کروڑ چالیس لاکھ، کرن عائشہ (انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز) ایک کروڑ، رابعہ عباد (شعبہ ایم ایم جی) نوے لاکھ، خواجہ خرم خورشید (آئی کیو ٹی ایم) چوراسی لاکھ روپے کی عدم ادائیگی پر مفرور قرار دیے گئے ہیں۔ اسی طرح صدف رؤف، ضیاءالدین بشیر اور رابعہ عارف (انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ) بھی سکالرشپ لے کر فرار ہو چکے ہیں۔ ہیلی کالج آف کامرس کی شمائلہ اسحاق ایک کروڑ اکسٹھ لاکھ، عثمان رحیم (سنٹر فار کول ٹیکنالوجی) بہتر لاکھ، سلمان عزیز (کالج آف انجینئرنگ) نوے لاکھ، محمد نواز (جی آئی ایس) بہتر لاکھ، جویریہ اقبال (پی یو سی آئی ٹی) ساٹھ لاکھ، سیماب آرا اور سامعہ محمود (ایڈمنسٹریٹو سائنسز) بالترتیب ایک کروڑ اور ایک کروڑ سولہ لاکھ روپے کی ادائیگی کیے بغیر فرار ہو چکی ہیں۔ مزید پڑھیں: فیکٹ چیک: ‘مہنگے پیٹرول سے سڑک کی تعمیر’ حکومت پیٹرول کی مد میں پاکستانیوں سے 15 روز میں کتنا ٹیکس وصول کرتی ہے؟ یونیورسٹی نے ان تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی جا سکے۔
فیکٹ چیک: ‘مہنگے پیٹرول سے سڑک کی تعمیر’ حکومت پیٹرول کی مد میں پاکستانیوں سے 15 روز میں کتنا ٹیکس وصول کرتی ہے؟

چند روز قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس رقم سے سندھ اور بلوچستان میں سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اسی روز حکومت نے مہنگائی سے پریشان پاکستانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے کوٹے پر صدر بننے والے آصف زرداری کے آرڈیننس کے ذریعے پیٹرولیم قیمتوں پر عائد لیوی میں بھی بھاری اضافہ کر دیا۔ پیٹرولیم سیکٹر کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق فی لیٹر پیٹرول 122 روپے میں میسر ہے۔ پاکستان میں پہنچ کر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، ایکسچینج ریٹ کا ایک روپیہ، لیوی فی لیٹر 78 روپے، ان لینڈ فریٹ ایکوزیشن مارجن فی لیٹر تقریبا 7 روپے عائد ہے۔ اس طرح فی لیٹر کل ٹیکس 108 روپے وصول کیا جا رہا ہے۔ ڈیلر اور ڈسٹری بیوشن مارجن ڈال کر پاکستانیوں کو 122 روپے فی لیٹر کا پیٹرول 254 روپے فی لیٹر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ڈیٹا کے مطابق ملک میں جنوری 2025 کے دوران 1.38 ملین ٹن پیٹرولیم مصنوعات استعمال کی گئیں۔ حالیہ ایام میں اس مقدار میں مزید اضافہ ہوا ہے تاہم اگر انہی اعداد کو دیکھا جائے تو پاکستانی 15 روز میں 7 کروڑ 95 لاکھ لیٹر سے زائد کا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ دیگر مدات کو نظر انداز کر کے صرف پیٹرولیم لیوی کا حساب کیا جائے تو پاکستانی 15 روز میں حکومت کو 63 ارب 61 کروڑ روپے کی بھاری رقم ادا کریں گے۔ تمام ٹیکسز شمار کیے جائیں تو پاکستانی 15 روز میں سرکار کو 85 ارب 94 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ادا کریں گے۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں معاشی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب پاکستانی پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں تو ان پر مزید معاشی دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ پاکستان میں تنخواہ دار 38.5 فیصد، کاروباری فرد 50 فیصد جب کہ بینکس اپنی آمدن کا 53 فیصد ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر نے 39 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ ٹیکس کا معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ خریداری پر عملا 25 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس، سڑک پر سفر کریں تو ہائی ویز اور موٹر ویز پر بھاری ٹول ٹیکس، ٹیلیفون وانٹرنیٹ پر ایڈوانس ٹیکس تک عائد ہے جو ہر فرد نے لازما ادا کرنا ہوتا ہے۔ معیشت کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان شہباز رانا کے مطابق ان بھاری ٹیکسوں کا مقصد ترقیاتی و دیگر اخراجات کے لیے وسائل مہیا کرنا ہوتا ہے۔ ‘ایسے میں بھاری بھرکم ٹیکس کی کوئی جسٹیفیکیشن نہیں بنتی۔’
مسلسل چوتھی مرتبہ دنیا کی بہترین کار کا اعزاز، ایسا کیا ہے؟

Kia کی نئی الیکٹرک گاڑی EV3 کو سال 2025 کی ورلڈ کار آف دی ایئر کا ایوارڈ ملا ہے۔ یہ اعلان 16 اپریل کو کیا گیا۔ یہ مسلسل چوتھا سال ہے کہ Hyundai Motor Group کی کسی گاڑی نے یہ مشہور اعزاز حاصل کیا ہے۔ اس سے پہلے 2022 میں Ioniq 5، 2023 میں Ioniq 6 اور 2024 میں EV9 کو یہ ایوارڈ ملا تھا۔ یہ ایوارڈ دنیا کے تین سب سے اہم گاڑیوں کے انعامات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس موقع پر Hyundai کی ایک اور چھوٹی الیکٹرک گاڑی، Casper Electric کو “سال کی بہترین الیکٹرک کار” کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہ تقریب نیویارک انٹرنیشنل آٹو شو میں ہوئی۔ کمپنی کے ایک نمائندے نے کہا، “یہ ایوارڈز ہماری الیکٹرک گاڑیوں کے اعلیٰ معیار کا ثبوت ہیں۔” EV3 اور Casper Electric دونوں چھوٹی SUV گاڑیاں ہیں جو 2024 کے دوسرے حصے میں جنوبی کوریا میں لانچ کی گئیں۔ یہ گاڑیاں اپنی کشادہ اندرونی جگہ اور جدید فیچرز کی وجہ سے کافی پسند کی جا رہی ہیں۔ گاڑیوں کے تجزیہ کار ادارے Carisyou Data Institute کے مطابق، 2025 کی پہلی سہ ماہی میں یہ دونوں ماڈل جنوبی کوریا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی الیکٹرک گاڑیاں رہیں۔ Kia کے CEO سونگ ہو-سنگ نے کہا، “یہ ایوارڈ ہمارے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی اور خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ دنیا کو پائیدار نقل و حرکت کے حل دے رہے ہیں۔” ورلڈ کار ایوارڈز کے لیے صرف وہی گاڑیاں اہل ہوتی ہیں جو کم از کم دو براعظموں میں ہر سال 10 ہزار سے زیادہ فروخت ہوں۔ اس سال 30 ممالک سے 96 ماہر صحافیوں نے انعامات کے لیے گاڑیوں کا انتخاب کیا۔
نائجیریا میدان جنگ بن گیا، گلہ بانوں کے حملے سے 17 کسان جاں بحق

نائجیریا کے وسطی صوبے بینو میں جمعرات کے روز مشتبہ گلہ بانوں نے ایک حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 17 افراد جان سے گئے۔ پولیس کے مطابق یہ حملے کسانوں اور گلہ بانوں کے درمیان جاری پرتشدد تصادمات کے پس منظر میں ہوئے، جو ایک طویل عرصے سے نائجیریا کے شمالی وسطی علاقے میں شدت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب دو دن قبل ہی اوٹکپو علاقے میں 11 افراد کی جان لی گئی تھی اور محض ایک ہفتہ پہلے پڑوسی ریاست پلاٹاؤ میں بھی گن مینوں کے حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیقات کے مطابق 2019 سے اب تک یہ تصادم 500 سے زائد افراد کی جان لے چکے ہیں اور 22 لاکھ سے زیادہ افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جمعہ کی صبح گبگیر میں پانچ کسانوں کو قتل کرنے کے بعد، حملہ آوروں نے پولیس کی کارروائی کے دوران فائرنگ کر دی جس سے مزید 12 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پولیس حکام کے مطابق حملے بینو کے مختلف علاقوں میں پھیل چکے ہیں جس سے لوگوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ حملے نائجیریا کے زرعی علاقے کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر غذائی بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔ مزید پڑھیں: فلسطین کی حمایت یا کچھ اور؟ امریکا میں 1500 طلبا کے ویزے منسوخ
سرکس: زندگی کا وہ میلہ، جو وقت کی دھول میں کھو گیا

ورلڈ سرکس ڈے ہر سال اپریل کے تیسرے ہفتے کو منایا جاتا ہے۔ اس بار یہ دن آج 19 اپریل کو منایا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا دن ہے جو نہ صرف ایک فن کی یاد دلاتا ہے، بلکہ ان بے آواز ہنر مندوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی زندگیاں تماشا بنادیں۔ سرکس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ قدیم روم کے سرکس میکسمس سے لے کر چین کے سلطنتی درباروں میں دکھائے جانے والے کرتب، اور یورپ کے بادشاہی میلوں تک… یہ فن ہر دور میں لوگوں کو حیرت زدہ کرتا آیا ہے۔ لیکن جس سرکس کو آج ہم جانتے ہیں، وہ اٹھارویں صدی کے آخر میں برطانیہ سے ابھرا۔ فلپ ایسٹلے نامی گھڑسوار نے ایک دائرے میں گھوڑے دوڑاتے ہوئے کرتب دکھانے شروع کیے۔ اسی دائرے کو آج بھی ‘سرکس رِنگ’ کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ فن پوری دنیا میں پھیل گیا اور بیسویں صدی تک سرکس ایک عالمی تفریح بن چکا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سرکس صرف ایک تماشا تھا؟ یا ایک آرٹ؟ کیا وہ خیمے صرف کھیل کا میدان تھے؟ یا روح کی گہرائی سے جڑے رنگ؟ پاکستان میں سرکس کی اپنی ایک الگ دنیا ہوا کرتی تھی۔ 1960، 70 اور 80 کی دہائی میں ‘رنگیلا سرکس’، ‘شمعو سرکس’، ‘لکی ایرانی سرکس’ اور ‘عالمی برادرز سرکس’ جیسے نام ہر چھوٹے بڑے شہر میں معروف تھے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے دور سے بھی پہلے سرکس ہی عوام کے لیے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ گاؤں، قصبے، شہر۔ جہاں بھی سرکس کا خیمہ لگتا، وہاں گویا زندگی کا میلہ لگ جاتا۔ مگر جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی، سکرین نے اسٹیج کی جگہ لے لی۔ کھیل، فلم اور انٹرنیٹ نے سرکس کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آج پاکستان میں چند ہی سرکس باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی معاشی مشکلات، سکیورٹی خدشات، اور جدید تفریحی ذرائع کے باعث شدید دباؤ میں ہیں۔ ورلڈ سرکس ڈے کا مقصد یہی ہے کہ ہم اس فن کو فراموش نہ کریں۔ ہم ان فنکاروں کو یاد رکھیں جو زمین پر چلنے والے جادوگر تھے… اور آج بھی ہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیت، جسمانی تربیت، اور فنی مہارت کیسے ایک ساتھ مل کر ایسا تماشا پیدا کر سکتی ہے جو نسلوں کے دلوں میں بس جائے۔ تو آئیے، اس ورلڈ سرکس ڈے پر ہم ان کہانیوں، ان چہروں، ان یادوں کو خراجِ تحسین پیش کریں… جو کبھی ہمارے بچپن کا خواب ہوا کرتے تھے۔
فلسطین کی حمایت یا کچھ اور؟ امریکا میں 1500 طلبا کے ویزے منسوخ

امریکا میں صدر ٹرمپ کی حکومت کے تحت ایک وسیع پیمانے پر ہونے والی امیگریشن کارروائی نے 1500 سے زائد بین الاقوامی طلبہ اور حالیہ گریجویٹس کو متاثر کیا ہے۔ ان طلبہ کے ویزے یا سٹیٹس کو منسوخ یا ختم کر دیا گیا ہے اور یہ کارروائی امریکا کے 40 مختلف ریاستوں میں واقع 130 سے زائد تعلیمی اداروں کے طلبہ پر اثر انداز ہوئی ہے۔ یہ طلبہ مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک شامل ہیں اور ان کے ویزے یا سٹیٹس کی منسوخی کا کوئی واضح سبب ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو بھی یہ معلومات اس وقت ملیں جب انہوں نے وفاقی ڈیٹا بیس میں چیک کیا۔ متعدد تعلیمی اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں ملی اور نہ ہی حکومت نے ان کے طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے کی کوئی خاص وجہ بتائی۔ جیسے کہ مڈل ٹینیسی اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایک ترجمان جمی ہارٹ نے بتایا کہ “یونیورسٹی کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ یہ بس وفاقی نظام میں تبدیلی کی اطلاع ملی اور طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔” اسی طرح، یونیورسٹی آف اوریگن کے ترجمان ایرک ہوالڈ نے بھی بتایا کہ چار بین الاقوامی طلبہ کے ویزے منسوخ کیے گئے ہیں لیکن انہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان طلبہ پر کس قسم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی کے تحت کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں موجود غیر ملکی طلبہ کو اپنی تعلیم پر فوکس کرنا چاہیے اور وہ ملک میں کسی بھی قسم کی احتجاجی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو سکتے۔ اس پالیسی کا مقصد امریکا میں “ایکسٹریم” نظریات کے پھیلاؤ کو روکنا اور تعلیم کے ماحول کو برقرار رکھنا ہے۔ ادھر، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (UCLA) نے اطلاع دی ہے کہ ان کے 12 طلبہ یا حالیہ گریجویٹس کے ویزے منسوخ کیے گئے ہیں، اور ان کی ویزہ منسوخی کا سبب “ویزا پروگرام کی شرائط کی خلاف ورزی” بتایا گیا ہے۔ ایک نیا وفاقی مقدمہ اس صورتحال کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کیا گیا ہے جس میں 133 غیر ملکی طلبہ کی نمائندگی کی جا رہی ہے۔ یہ مقدمہ اس بات کی وضاحت چاہتا ہے کہ حکومت کی جانب سے طلبہ کے ویزے منسوخ کرنا غیر قانونی ہے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ نے اس مسئلے پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا۔ تاہم، اس تمام صورتحال نے غیر ملکی طلبہ اور ان کے تعلیمی اداروں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ مزید پڑھیں: جوہری پروگرام کا مستقبل: ایران اور امریکا مسقط کے بعد آج روم میں ملاقات کریں گے
جوہری پروگرام کا مستقبل: ایران اور امریکا مسقط کے بعد آج روم میں ملاقات کریں گے

ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات کا ایک نیا دور آج ہفتہ کو شروع ہو رہا ہے، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ ہفتے مسقط میں ہونے والی بات چیت کے بعد ایک اہم پیش رفت ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی روم پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ امریکی سفیر سٹیو وٹ کوف کے ساتھ عمان کی ثالثی میں ہونے والی اعلیٰ سطحی بات چیت میں شریک ہوں گے۔ یہ مذاکرات 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد سے اب تک کی سب سے بلند سطح کی سفارتی کوشش تصور کی جا رہی ہے۔ دونوں فریقوں نے گزشتہ بات چیت کو مثبت قرار دیا تھا، لیکن اب بھی دونوں کے درمیان گہرا عدم اعتماد موجود ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں کا الزام لگاتے رہے ہیں، جس کی ایران بار بار تردید کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران اس وقت 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے، جو کہ 2015 کے معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد سے بہت زیادہ ہے، لیکن ہتھیاروں کے درجے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح سے ابھی نیچے ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ جانتی ہے کہ یہ عمل آسان نہیں ہوگا، لیکن وہ ہر قدم ہوشیاری سے اٹھا رہے ہیں۔ عراقچی کا کہنا تھا کہ ایران امریکی رویے پر مشکوک ہے لیکن پھر بھی مذاکرات میں حصہ لے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے ایران کے لیے فوجی کارروائی کی دھمکی کے باوجود، انہوں نے حالیہ بیان میں کہا کہ وہ فوجی آپشن کے استعمال کے لیے جلدی میں نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے اور اب مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاہدہ حاصل کرنے کے لیے وقت کم رہ گیا ہے۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کی خلاف ورزیوں پر “اسنیپ بیک” میکانزم کو فعال کریں، جس سے اقوام متحدہ کی پابندیاں خودبخود بحال ہو جائیں گی۔ ایران نے اس پر تنبیہ کی ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ ایران مذاکرات میں صرف پابندیوں کے خاتمے اور جوہری پروگرام پر گفتگو پر تیار ہے۔ عراقچی کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے غیر حقیقت پسندانہ مطالبات نہ کیے تو معاہدہ ممکن ہے۔ ایران نے یورینیم افزودگی کے حق کو ناقابل گفت و شنید قرار دیا ہے، جبکہ امریکی وفد اسے مکمل طور پر روکنے پر زور دے رہا ہے۔ ایرانی فوجی حکام اور انقلابی گارڈز نے واضح کیا ہے کہ ایران کی میزائل صلاحیتیں اور علاقائی اثر و رسوخ مذاکرات سے باہر ہیں۔ ایران کے رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے عوام سے کہا ہے کہ وہ ان مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں کیونکہ ان کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ادھر اسرائیل نے بھی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کے پاس روک تھام کے لیے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ مذاکرات جاری ہیں، مگر فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا ہنوز قائم نہیں ہو سکی۔
نہ بیٹنگ چلی، نہ باؤلنگ بچا سکی: آر سی بی کو ہوم گراونڈ میں شکست

بنگلورو کے لیے ایک اور شام مایوس کن ثابت ہوئی ایک اور شکست اور ایک بار پھر انہی ہاتھوں سے جنہیں کل تک وہ اپنی طاقت سمجھتے تھے۔ آئی پی ایل 2025 میں رائل چیلنجرز بنگلور کی ہوم گراؤنڈ بدقسمتی کی علامت بنتی جا رہی ہے جہاں وہ تیسری بار پے در پے شکست کا شکار ہوئے۔ جمعہ کی رات، بارش سے متاثرہ مقابلے میں پنجاب کنگز کے یوزویندر چہل نے اپنی سابقہ ٹیم کے خلاف بہت اچھی پرفارمنس دی۔ صرف 11 رنز دے کر دو قیمتی وکٹیں، جن میں جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرنے والے راجت پٹی دار کی وکٹ بھی شامل تھی، چہل نے پنجاب کو پانچ وکٹوں سے کامیابی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ اس سے قبل گجرات کے محمد سراج اور دہلی کے کے ایل راہل، دونوں سابقہ بنگلور کھلاڑی اپنی نئی ٹیموں کے لیے چمک چکے ہیں اور بنگلور کو اُن کے ہی میدان پر دھول چٹا چکے ہیں۔ ٹاس ہارا اور اوپر سے بیٹنگ کا بحران، ٹیم صرف 95 رنز بنا سکی جس میں ٹم ڈیوڈ کی ناقابل شکست 50 رنز کی اننگز ہی واحد اُمید بنی۔ مگر پنجاب کے نیہال وادھیرا نے 33 رنز کی دھواں دار اننگز کھیل کر جیت کی راہ ہموار کی۔ آسٹریلوی فاسٹ باؤلر جوش ہیزل وُڈ نے اعتراف کیا کہ ٹیم ہوم گراؤنڈ پر اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں سست رہی۔ انکا کہنا تھا کہ “ہمیں ہوم گراونڈ میں حالات سے بہتر طور پر ہم آہنگ ہونا ہوگا۔” بنگلور اب تک اپنے تمام چاروں میچز باہر کے میدانوں میں جیت چکی ہے لیکن ہوم گراؤنڈ کی نحوست توڑنا اب ان کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اتوار کو پنجاب سے دوبارہ ٹکر میں کیا کوئی بدلا ہوا بنگلور نظر آئے گا یا کہانی ویسی ہی رہے گی؟ مزید پڑھیں: پاکستان ویمنز ٹیم نے ویمنز ورلڈ کپ 2025 کے لیے کوالیفائی کر لیا
دنیا زراعت میں آسمان چھو رہی ہے اور ہم وقت ضائع کر رہے ہیں، شہباز شریف

وزیر اعظم شہباز شریف نے زرعی پالیسی پر بلائے گئے ایک میں دوٹوک انداز میں کہا کہ کہ ’’دنیا زراعت میں آسمان چھو رہی ہے اور ہم وقت گنواتے رہے‘‘۔ اس اجلاس میں قومی زرعی پالیسی کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر غور کیا گیا۔ اجلاس کا مقصد صرف تجاویز اکٹھی کرنا نہیں تھا، بلکہ اب کی بار عملی اقدامات پر زور تھا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ’’اللہ نے پاکستان کو زرخیز زمین، ماہر زرعی افرادی قوت اور انتھک کسان دیے، مگر ہم نے ان مواقع کو ضائع کر دیا۔‘‘ وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ پاکستان کبھی کپاس اور گندم میں خود کفیل تھا مگر آج فی ایکڑ پیداوار شرمناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی صلاحیتوں کو جگانا ہو گا ورنہ ہم مزید پیچھے رہ جائیں گے۔ تجاویز میں ڈیجیٹل زراعت، مصنوعی ذہانت، اور بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل تھا۔ کسانوں کے لیے مرکزی ڈیٹابیس، کیو آر کوڈز، اور آف سیزن اجناس کی اسٹوریج اور ویلیو ایڈیشن کے لیے چھوٹے صنعتی یونٹس قائم کرنے کی تجاویز بھی زیر غور آئیں۔ شہباز شریف نے دو ہفتوں کے اندر قابلِ عمل سفارشات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے فوری ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب زراعت پر پرانے طریقے نہیں چلیں گے، جدیدیت ہی ہماری بقاء ہے۔‘‘ اجلاس کے شرکاء نے اعتراف کیا کہ زرعی انقلابی اقدامات اب ناگزیر ہو چکے ہیں۔ سائنسی تحقیق، نوجوانوں کی توانائی، اور جدید ٹیکنالوجی کو یکجا کر کے ہی پاکستان دوبارہ زرعی میدان میں اپنا کھویا ہوا مقام پا سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: غریب افغانی اپنے ملک جائیں جبکہ دولت مند یہاں رہ سکتے ہیں، کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟