زمین، پانی اور جدید ٹیکنالوجی: پنجاب کا مستقبل گرین کیسے؟

پاکستان کی تاریخ میں زرعی ترقی کے کئی دور آئے، لیکن دو ادوار نے اس شعبے میں فیصلہ کن موڑ دیا۔ ایک 1960 کی دہائی میں صدر ایوب خان کا “سبز انقلاب”اور دوسرا موجودہ وقت میں حکومتِ پنجاب اور دیگر اداروں کا مشترکہ منصوبہ “گرین پاکستان انیشیٹو”۔ ان دونوں کا مقصد کسان کو بااختیار بنانا، ملک کو زرعی خود کفالت کی طرف لے جانا اور خوراک کی سلامتی یقینی بنانا رہا ہے، اگرچہ دونوں منصوبوں کے انداز اور ٹیکنالوجی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایوب خان کا سبز انقلاب ایک ایسا وقت تھا جب پاکستان کو خوراک کی شدید قلت، زرعی پیداواری کمزوری اور فرسودہ کھیتی باڑی کے طریقوں کا سامنا تھا۔ ایوب حکومت نے مغربی ممالک کی معاونت سے جدید بیج، کیمیکل کھاد، کیڑے مار ادویات اور ٹیوب ویل متعارف کرائے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا بلکہ زرعی شعبے سے منسلک افراد کی آمدن بھی بڑھی۔ 1960 میں گندم کی پیداوار جہاں 3.35 ملین ٹن تھی، وہ 1980 کی دہائی تک 12 ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ یہ سب کچھ سرکاری پالیسیوں، صنعت کاری کے فروغ اور پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن جیسے اداروں کے ذریعے ممکن ہوا۔ پی آئی ڈی سی نے صنعتوں کو فروغ دیا، جس سے زرعی آلات اور کھاد کی مقامی پیداوار ممکن ہو سکی۔ دوسری طرف گرین پاکستان انیشیٹوایک بالکل مختلف تناظر میں سامنے آیا ہے۔ یہ منصوبہ حکومتِ پنجاب، فوج، نیشنل لاجسٹک سیل، پرائیویٹ کمپنیوں اور مقامی کسانوں کی اشتراک سے تشکیل پایا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد صرف زرعی پیداوار بڑھانا نہیں بلکہ ڈیجیٹل زراعت، ماحولیاتی بہتری، خوراک کی سیکیورٹی اور جدید کاروباری ماڈلز کے ذریعے دیہی معیشت کو تبدیل کرنا ہے۔ چولستان کے ریگستان میں 5000 ایکڑ پر مشتمل سمارٹ ایگرو فارم اس منصوبے کی ایک جھلک ہے، جہاں ڈرپ ایریگیشن، سولر ٹیوب ویلز اور کلاؤڈ بیسڈ ڈیٹا سسٹم کے ذریعے زراعت کی جا رہی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی غیر زرخیز زمین کو قابلِ کاشت بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں سب سے دلچسپ پہلو “لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم” ہے، جو کسانوں کو زمین کی صحت، بارش کی پیش گوئی، فصلوں کی نگرانی، پانی کے لیول اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ڈیجیٹل معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ سسٹم کسانوں کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے اور نقصان کو کم کرتا ہے۔ پنجاب میں قائم کیے گئے “گرین ایگری مالز” کے ذریعے کسانوں کو معیاری بیج، کھاد، اور ادویات مناسب قیمتوں پر مہیا کی جا رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف پیداوار میں بہتری آ رہی ہے بلکہ کسانوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے کسان محمد سلیم کا کہنا ہے کہ ہمیں پہلے ناقص بیج ملتے تھے، اب جو کچھ گرین ایگری مال سے لیتے ہیں وہ قابلِ اعتماد ہوتا ہے۔ ہماری کپاس اور گندم کی پیداوار میں نمایاں فرق آیا ہے۔” زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے منسلک ماہرِ زراعت ڈاکٹر فاطمہ کے مطابق ایل آئی ایم ایس جیسے سسٹمز نے دیہی علاقوں میں زراعت کو جدید سائنس سے جوڑ دیا ہے، جو پاکستان کے لیے ایک انقلابی قدم ہے۔” ماہرِ معیشت علی رضا کا تجزیہ ہے کہ “یہ منصوبہ صرف زرعی ترقی کا نہیں بلکہ معاشی استحکام اور روزگار کے مواقع بڑھانے کا بھی ہے۔ اگر اسے تسلسل سے جاری رکھا جائے تو پاکستان لاکھوں نوکریاں پیدا کر سکتا ہے اور زرعی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔” گرین پاکستان انیشیٹو کا دعویٰ ہے کہ اس کے ذریعے 4 ملین روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے، اور زرعی شعبے کو بین الاقوامی معیار پر لایا جائے گا۔ اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، فارمرز کو مائیکرو فنانس، اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ ایوب خان کا سبز انقلاب اپنے وقت کا غیرمعمولی منصوبہ تھا، جس نے کسان کو پہلی بار قومی معیشت کا محور بنایا۔ آج بھی  پنجاب حکومت کی قیادت میں ایک  بارپھرسبز انقلاب جنم لے رہا ہے  جو ڈیجیٹل، ماحول دوست اور پائیدار ترقی پر یقین رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ اگر مکمل سنجیدگی اور تسلسل سے جاری رہا تو پاکستان ایک بار پھر زرعی طاقت بن کر ابھر سکتا ہے۔اس منصوبے سے  نہ صرف  پاکستان  اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے قابل بن جائے گابلکہ دنیا کو بھی خوراک برآمد کرنے کے قابل ہوجائے گا۔