روس کا ایسٹر پر ایک روزہ جنگ بندی کا اعلان، یوکرینی حکام کے مطابق حملے بدستور جاری

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ہفتے کے روز ایسٹر کے موقع پر یوکرین میں ایک روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا، لیکن یوکرین نے اس اقدام کو محض دکھاوا قرار دیا اور الزام لگایا کہ روسی افواج نے توپ خانے سے گولہ باری جاری رکھی۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس کو بھروسے کے قابل نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس نے گزشتہ ماہ ایک ایسی ہی تجویز کو رد کر دیا تھا، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں پیش کی گئی تھی۔ پوٹن کا یکطرفہ اعلان واشنگٹن کے اس انتباہ کے بعد سامنے آیا کہ اگر روس اور یوکرین نے امن مذاکرات میں سنجیدگی نہ دکھائی تو امریکا ان سے کنارہ کش ہو سکتا ہے۔ پیوٹن نے ہفتہ شام چھ بجے سے اتوار رات آدھی رات تک تمام فوجی کارروائیاں روکنے کا حکم دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اٹھایا جا رہا ہے، اور انہوں نے توقع ظاہر کی کہ یوکرین بھی اس کی پیروی کرے گا۔ تاہم انہوں نے روسی افواج کو ہدایت کی کہ وہ کسی بھی خلاف ورزی یا اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار رہیں۔ جنگ بندی کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد کیف میں فضائی حملے کے سائرن بجنے لگے۔ جنگ بندی کے نافذ ہونے کے بعد بھی دارالحکومت اور اس کے گردونواح میں خطرے کی گھنٹیاں بجتی رہیں، جس سے یوکرینی دعوے کو تقویت ملی کہ جنگ بندی پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ صدر زیلنسکی نے ایک بیان میں کہا کہ جنگ بندی شروع ہونے سے صرف 45 منٹ پہلے تک یوکرین کے طیارے روسی فضائی حملوں کا دفاع کر رہے تھے۔ انہوں نے اسے پیوٹن کی طرف سے انسانی جانوں سے کھیلنے کی ایک اور کوشش قرار دیا۔ ان کے مطابق روسی توپ خانے کی فائرنگ اور دیگر حملہ آور کارروائیاں متعدد محاذوں پر جاری رہیں۔ یوکرینی فوج کے اعلیٰ کمانڈر اولیکسینڈر سرسکی کا حوالہ دیتے ہوئے زیلنسکی نے دعویٰ کیا کہ جنگ بندی کے باوجود روسی افواج نے گولہ باری جاری رکھی، اور ان کی طرف سے کوئی حقیقی امن کوشش دکھائی نہیں دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نام نہاد جنگ بندی روس کے کرسک اور بیلگوروڈ کے علاقوں پر لاگو نہیں ہوتی، جہاں سرحد پار سے یوکرینی حملے جاری تھے اور روسی افواج بھی بھرپور جواب دے رہی تھیں۔ زیلنسکی نے کہا کہ لڑائی بدستور جاری ہے، اور روسی افواج کے حملے رکنے کے بجائے مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ماسکو کے بیانات اور اقدامات میں تضاد ہے، اور ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف امریکا بھر میں احتجاج، مظاہرین میں شدید غصہ کیوں؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات کے خلاف ہفتے کے روز امریکا بھر میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر اپنے غصے اور تشویش کا اظہار کیا۔ یہ مظاہرے “50501” کے نام سے منظم کیے گئے، جن کا مقصد امریکا میں انقلابی جنگ کے آغاز کی 250 ویں سالگرہ کے موقع پر عوامی آواز کو اجاگر کرنا تھا۔ مظاہرین واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس، مختلف ریاستوں میں ٹیسلا ڈیلرشپس اور شہروں کے مرکزی علاقوں میں جمع ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف ٹرمپ انتظامیہ کی اندرونی پالیسیوں بلکہ امیگریشن اور انسانی حقوق سے متعلق فیصلوں پر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ کئی مظاہرین نے Kilmar Ábrego García کی جلاوطنی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا، جسے مبینہ طور پر غلطی سے ایل سلواڈور بھیج دیا گیا۔ گیہاد ایلگینڈی نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ چاہیں تو ابریگو گارسیا کی واپسی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے۔ احتجاج کے دوران مختلف پلے کارڈز بھی دکھائی دیے جن پر “کوئی بادشاہ نہیں” جیسے نعرے درج تھے، جو امریکی تاریخ میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی یاد دلاتے ہیں۔ میساچوسٹس میں ہونے والی تقریبات میں بھی لوگوں نے امریکی انقلاب کے آغاز کی یاد میں ایسے ہی پیغامات اٹھا رکھے تھے۔ صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی کے آثار گیلپ اور روئٹرز/اپسوس کے تازہ ترین سروے میں سامنے آئے ہیں۔ جنوری میں عہدہ سنبھالتے وقت ان کی منظوری کی شرح 47 فیصد تھی، جو اب کم ہو کر 43 فیصد رہ گئی ہے۔ خاص طور پر معیشت کے شعبے میں کارکردگی سے متعلق عوام کی رائے مزید منفی ہوئی ہے، جس میں منظوری کی شرح 42 فیصد سے گھٹ کر 37 فیصد رہ گئی۔ ان مظاہروں سے ایک بات واضح ہوئی کہ امریکہ میں سیاسی تقسیم اور عوامی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ آزادی، انصاف اور شہری حقوق کے لیے عوامی جدوجہد نئی شدت کے ساتھ سامنے آ رہی ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

پتنگ بازی: روایت، تہوار یا پھر خطرناک تفریح؟

بسنت محض ایک تہوار نہیں بلکہ  ایک روایت ہے۔ ایک ایسی پہچان جو لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں کی فضاؤں میں برسوں لہراتی رہی۔ یہ تہوار اصل میں بہار کے آنے کی نوید ہے۔ سنسکرت زبان کا لفظ “بسنت” ہی “بہار” کے معنی دیتا ہے۔ چھتوں پر بیٹھے بزرگ، بچوں کی چیخ و پکار اور آسمان پر تیرتی رنگ برنگی پتنگیں، یہ سب کسی جادوئی منظر سے کم نہیں۔ بسنت کے دن لاہور شہر صرف پتنگوں سے نہیں بلکہ رنگوں، خوشبوؤں، قہقہوں اور قوالیوں سے بھی گونجتا تھا۔ خصوصی پکوان، گلیوں میں بجتی موسیقی اور میل جول کا ایک دلکش ماحول یہ سب کچھ لاہوری تہذیب کا حصہ تھا۔ اس تہوار نے صرف دلوں کو نہیں بلکہ معیشت کو بھی جوڑا تھا۔ پتنگ ساز، دھاگہ بنانے والے، چرخیاں تیار کرنے والے، کپڑے، ہوٹل، سیاحت اور ٹرانسپورٹ سب اس تہوار سے جڑے تھے۔ ہزاروں خاندانوں کا روزگار بسنت کی اُڑان سے بندھا تھا۔ لیکن خوشی کے ان رنگوں میں ایک سیاہ لکیر بھی تھی۔ ہر سال درجنوں نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ کیمیکل سے بنی دھاتی ڈور، بے قابو جوش اور احتیاط سے عاری پتنگ باز ان سب نے بسنت کو موت کی ایک تصویر بنا دیا تھا۔ گلے کٹنے کے واقعات، چھتوں سے گر کر ہلاکتیں اور موٹر سائیکل سواروں کی گردنوں پر پڑنے والی خونی ڈور ان المناک حادثات نے اس تہوار کو تنازع کا شکار بنا دیا۔ حکومت کی جانب سے کئی بار پابندیاں لگائی گئیں عدالتی احکامات آئے اور پولیس کو حرکت میں آنا پڑا۔ مگر اس سب کے باوجود، کئی علاقوں میں خفیہ طور پر بسنت کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایڈوکیٹ لہر اسب گوندل نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ  بسنت پر پابندی کا مقصد انسانی جانوں کو بچانا ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔ پتنگ بازی کے دوران تیز دھار ڈور اور موٹر سائیکل سواروں کی اموات جیسے واقعات کم ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ پابندی لاکھوں پتنگ سازوں، خاص طور پر گھریلو خواتین کے روزگار پر بھاری پڑی ہے، جو اب بے روزگار ہو چکی ہیں.” 2009 میں حکومت نے بسنت پر مکمل پابندی عائد کی جس کی واضح وجہ انسانی جان کی قیمت تھی۔ مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی تہوار کو مکمل ختم کرنا ہی واحد حل ہے؟ پتنگ بازی سے وابستہ افراد بے روزگار ہو گئے کئی افراد، جنہوں نے نشے یا جوا چھوڑ کر پتنگ بازی کو اپنایا تھا دوبارہ اندھیری گلیوں میں لوٹ رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بسنت کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟ دنیا کے کئی ممالک، جیسے جاپان اور چین میں پتنگ بازی باقاعدہ ضابطوں کے تحت ہوتی ہے۔ وہاں بڑے بڑے پارک اور سٹیڈیمز اس مقصد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ لہر آسب نے مزید کہا کہ “حکومت کو چاہیے کہ محفوظ پتنگ بازی کے لیے مخصوص زونز بنائے یا محفوظ ڈور کی تیاری کو فروغ دے، تاکہ ثقافت اور حفاظت دونوں کو برقرار رکھا جا سکے۔”اگر حفاظتی اقدامات، جیسے کیمیکل ڈور پر پابندی، موٹر سائیکل سواروں کے لیے سیکیورٹی راڈز اور چھتوں پر حفاظتی گِرل، یہ سب اس کھیل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔کیا ہم لاہور کے کسی کھلے میدان کو صرف بسنت کے لیے مخصوص نہیں کر سکتے؟ جہاں ہر کوئی بچوں سے لے کر بزرگوں تک، محفوظ انداز میں پتنگ بازی سے لطف اندوز ہو سکے؟ بسنت ایک روایت ہے، ایک تہوار ہے ایک جذبہ ہے۔ مگر اس روایت کو صرف تب زندہ رکھا جا سکتا ہے جب ہم اسے محفوظ بنائیں۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ضابطے بنائے اور عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کی پاسداری کرے۔ ایڈوکیٹ  لاہور ہائیکورٹ احمد ادریس ڈوگر نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ اگر حکومت اور عوام مل کر کام کریں تو بسنت کو محفوظ طریقے سے منایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے مخصوص پارک بنائے جا سکتے ہیں جہاں صرف محفوظ ڈور استعمال کی اجازت ہو۔” انہوں نے مزید کہا کہ ” پتنگ بنانے والوں کو چاہیے کہ وہ ایسا مواد استعمال جس سے لوگوں کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نا ہو”. ان کا کہنا تھا کہ ” بسنت ہماری ثقافت کا اہم حصہ ہے اس لیے اسے مکمل ختم کرنے کی بجائے محفوظ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔” اگر ہم توازن برقرار رکھ سکیں، ثقافت اور حفاظت کا تو شاید وہ دن دور نہیں جب لاہور کی فضائیں ایک بار پھر رنگ برنگے پتنگ نظر آنے لگیں گے اور بسنت ایک بار پھر خوشی، رنگ اور امید کی علامت بن جائے۔