میٹا نے 90 ہزار سے زائد فلسطین نواز ویڈیوز، تصاویر اور پیغامات ڈیلیٹ کردیے

انٹرنیٹ کی دنیا میں سنسرشپ کا سب سے بڑا انکشاف سامنے آیا ہے، جس نے اظہارِ رائے کی آزادی پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ Drop Site News کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق معروف سوشل میڈیا کمپنی میٹا (Meta) نے اسرائیلی حکومت کی درخواست پر 90 ہزار سے زائد فلسطین نواز پوسٹیں اپنے پلیٹ فارمز سے ہٹا دی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میٹا نے اسرائیل کی جانب سے موصول ہونے والے مواد ہٹانے کی درخواستوں پر 94 فیصد تک عملدرآمد کیا، جو کہ ایک منظم سنسرشپ مہم کی عکاسی کرتا ہے۔ Drop Site نے اس کارروائی کو “جدید تاریخ کی سب سے بڑی سنسرشپ مہم” قرار دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معلومات کی تصدیق میٹا کے اندر موجود متعدد باخبر افراد سے کی گئی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل نے آن لائن فلسطینی حامی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک مربوط مہم چلائی۔ View this post on Instagram A post shared by AJ+ (@ajplus) رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ میٹا کے آٹومیٹڈ سسٹمز نے اسی مدت کے دوران 38.8 ملین اضافی پوسٹس کو بھی ہٹایا یا دبا دیا۔ ان میں سے بیشتر پوسٹس اسرائیل پر تنقید یا فلسطینی عوام کی حمایت پر مبنی تھیں۔ کمپنی ان ڈیلیٹ کی گئی پوسٹس کو اپنے AI سسٹمز میں شامل کرتی ہے، جو بعد میں اس جیسے مواد کی خودکار شناخت اور دباؤ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2023 کے آخر میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق فیس بک اور انسٹاگرام پر 1050 پوسٹس کو ہٹایا یا دبایا گیا، جن میں سے 1049 پوسٹس فلسطین کی پرامن حمایت پر مبنی تھیں۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی مظالم کے خلاف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی نے بھی پوسٹ شیئر کردی عرب مرکز جیسے حقوق کے گروپس برسوں سے خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو منظم انداز میں دبایا جا رہا ہے۔ ان گروپس کا کہنا ہے کہ یہ محض مواد کی اعتدال پسندی نہیں بلکہ ایک قسم کا سیاسی جبر ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب کوئی پوسٹ اسرائیلی حکام کی جانب سے رپورٹ کی جاتی تھی، تو اکثر اسے صرف 30 سیکنڈ کے اندر ہٹا دیا جاتا تھا۔ اس مہم سے مشرقِ وسطیٰ سمیت کئی ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ یہ انکشاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آزادیِ اظہار کے مستقبل پر گہرے سوالات اٹھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بحث بھی شدت اختیار کر گئی ہے کہ آیا بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں سیاسی دباؤ کے تحت انسانی حقوق کی آوازوں کو دبا رہی ہیں؟