اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے جاری، مزید 29 معصوم فلسطینی شہید

گزشتہ ہفتے کی صبح اسرائیلی فوج نے غزہ کے پناہ گزین کیمپوں پر بدترین حملے کیے، جس میں 29 فلسطینی شہید ہوگئے۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب اسرائیلی طیارے پناہ گزینوں کے خیموں اور کمزور علاقوں پر بمباری کر رہے تھے۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں شہریوں کی شہادت نے عالمی برادری کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان واقعات کے درمیان فلسطینی سول ڈیفنس اور فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں ان 14 فلسطینی ایمرجنسی ورکرز اور ایک اقوام متحدہ کے اہلکار کی شہادت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تنظیموں نے اسرائیل کے تحقیقات کے طریقہ کار کو مسترد کرتے ہوئے آزاد تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔ دوسری جانب یمن کے حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے امریکی جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا ہے، جو کہ امریکی فضائی حملوں کے ردعمل میں کیا گیا۔ اس حملے میں کم از کم 12 افراد شہید ہوئے تھے۔ غزہ میں اسرائیل کے حملوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور وہاں کی حکومت میڈیا آفس نے تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ 61,700 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور ان کی شہادت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں ہونے والے حملے میں 1,139 اسرائیلی مارے گئے اور 200 سے زائد اسرائیلی قید کیے گئے۔ ایک طرف غزہ خاک و خون میں نہایا ہے تو دوسری طرف لوگ جیتے جی مر رہے ہیں۔ غزہ آج صرف جنگ کا شکار نہیں، یہ انسانیت کا امتحان بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا نے یوکرین کی نیٹو رکنیت مسترد کردی
ایک لاکھ وفاقی ملازمین کی نوکریوں کو خطرہ کیوں ہے؟

پاکستان کے وفاقی اداروں میں گزشتہ کئی برسوں سے خدمات انجام دینے والے ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کی نوکریاں اچانک خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ ان میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 یا اس سے اوپر کے افسران بھی شامل ہیں جنہیں سابقہ حکومت کی پالیسی کے تحت ریگولرائز کیا گیا تھا۔ اب ایک حالیہ ہدایت نامے کے تحت ان تمام افسران کے کیسز دوبارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کو بھیجے جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی 19 مارچ 2025 کو جاری کردہ یادداشت نمبر 1/29/20-Lit-III کے ذریعے سامنے آئی جس میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی تشریح کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تمام ریگولرائز شدہ ملازمین کو دوبارہ FPSC کے امتحانات اور انٹرویوز سے گزرنا ہوگا۔ تاہم، اس فیصلے کے دائرہ کار اور اطلاق پر قانونی و عوامی سطح پر شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کئی وزارتوں اور اداروں میں دو دہائیوں سے خدمات انجام دینے والے ان ملازمین کو باقاعدہ طریقہ کار یعنی تحریری امتحانات، انٹرویوز اور وزارتوں کی سفارشات کے ذریعے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا۔ یہ بھی پڑھیں: یہ زمین صرف ہماری نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے، مریم نواز بعد ازاں وفاقی کابینہ کی منظوری سے ان کی ملازمتوں کو مستقل حیثیت دی گئی جس میں اس وقت کے وزیراعظم نے بھی منظوری دی تھی۔ اب جبکہ یہ ملازمین اپنی سروس کا ایک بڑا حصہ مکمل کر چکے ہیں اور ان میں سے اکثر کی عمریں 45 سے 55 سال کے درمیان ہیں، FPSC کے دوبارہ امتحانات دینا ان کے لیے کسی کربناک خواب سے کم نہیں۔ متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل ان کی سروس ختم کرنے کے مترادف ہے۔ وفاقی وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ احد خان چیمہ سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں معاملے کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ اس بیان نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا حکومت کے اندر بھی اس حساس مسئلے پر مکمل ہم آہنگی موجود ہے یا نہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے حالیہ اجلاس میں بھی یہ معاملہ چھایا رہا، جہاں کئی اراکینِ اسمبلی نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات اداروں میں بےچینی اور بداعتمادی کو جنم دیں گے۔ کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ “یہ صرف ملازمتوں کا مسئلہ نہیں، یہ ریاستی اعتماد کا مسئلہ ہے۔ ایک ملازم جو 25 سال سے ادارے کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے اور وہ کیسے دوبارہ وہی امتحان دے گا جو اُس نے ماضی میں پاس کیا تھا؟” متاثرہ ملازمین میں ہزاروں ماہر ڈاکٹرز، کنسلٹنٹس، سرجنز، انجینئرز، پروفیسرز، لیکچررز، نرسز، اور دیگر تکنیکی و پیشہ ور افراد شامل ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے کورونا وبا، دہشتگردی اور دیگر قومی بحرانوں کے دوران اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر ملک کی خدمت کی۔ لازمی پڑھیں: میرپورخاص کی پولیس لائنز میں دھماکہ، اسلحہ و گولہ بارود سمیت حساس ہتھیار تباہ ایک سینئر ڈاکٹر نے نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “کیا ہم نے صرف اس لیے قربانیاں دی تھیں کہ اب ہمیں نوکری سے فارغ کر کے دوبارہ امتحان میں بٹھا دیا جائے؟ یہ تو انصاف کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔” قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے اثرات کے ساتھ ان اداروں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے۔ مزید یہ کہ ہر ادارے کی نوعیت، کام، اور بھرتی کے طریقہ کار مختلف ہوتے ہیں اس لیے اس فیصلے کو “ان ریم” یعنی تمام اداروں پر یکساں لاگو کرنا قانونی طور پر بھی قابل اعتراض ہے۔ ملازمین نے وزیراعظم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیں اور ان ہزاروں خاندانوں کو بےیقینی کے بھنور سے نکالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی جوانیاں اور زندگی کے بہترین سال ریاست کی خدمت میں گزار دیے اور اب ان کی زندگی کا سکون چھیننا سراسر ناانصافی ہے۔ یہ معاملہ اب صرف سرکاری دفتروں کی فائلوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایک قومی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: کینال منصوبہ کے خلاف عدالتوں میں ہڑتال: ’لگتا ہے پورے سندھ کو موئن جوداڑو بنادیں گے‘
ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا

امریکا کی تاریخی ہارورڈ یونیورسٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف قانونی محاذ کھول دیا ہے۔ جس کی وجہ 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کی وفاقی فنڈنگ کی معطلی ہے۔ ہارورڈ کے 69 سالہ عبوری صدر ایلن گاربر نے ٹرمپ ٹیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وائٹ ہاؤس یونیورسٹی کی خودمختاری پر ’’بے مثال اور غیر آئینی کنٹرول‘‘ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے مطابق حکومت تعلیمی ادارے کو محض ایک پالیسی فالو کرنے والا ادارہ بنانا چاہتی ہے جو نہ صرف خطرناک ہے بلکہ امریکا کی اعلیٰ تعلیم کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ رواں ماہ 11 اپریل کو وائٹ ہاؤس کی ’’ٹاسک فورس برائے انسداد یہود دشمنی‘‘ کی طرف سے بھیجی گئی ایک ای میل نے ہارورڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ای میل میں جامعہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یہود مخالف بیانیے کا خاتمہ کرے، تنوع اور صنفی مساوات جیسے پروگرامز پر نظرِ ثانی کرے اور میرٹ پر مبنی داخلے کو یقینی بنائے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات قومی اتحاد اور سلامتی کے لیے ضروری ہیں مگر ہارورڈ اسے ایک سیاسی جبر تصور کر رہا ہے۔ گاربر کا مؤقف ہے کہ یہ مطالبات محض ظاہری اصلاحات نہیں، بلکہ تعلیمی خودمختاری پر براہِ راست حملہ ہیں۔ مزید براں، ای میل میں غیر ملکی درخواست دہندگان کے پسِ منظر کی کڑی جانچ امریکی اقدار کے مخالف عناصر کی روک تھام اور تعصب کے الزامات کے حامل پروگرامز میں اصلاحات کی سخت ہدایات شامل تھیں۔ ہارورڈ نے تمام تر مطالبات مسترد کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ آزادی اظہار، تحقیقی خودمختاری اور تنوع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اب یہ مسئلہ صرف ایک یونیورسٹی اور حکومت کے درمیان نہیں رہا بلکہ یہ امریکا کے تعلیمی نظام کے دفاع کی جنگ بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا میں چینی طلباء کے لیے تعلیمی دروازے بند، ویزے منسوخ، ملک بدری شروع
امریکا میں چینی طلباء کے لیے تعلیمی دروازے بند، ویزے منسوخ، ملک بدری شروع

ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد امریکا میں تعلیمی ماحول خاص طور پر چینی طلباء کے لیے خطرناک حد تک بدل گیا ہے۔ ویزوں کی منسوخی، تعلیمی اداروں کے بجٹ میں کٹوتیاں اور سب سے بڑھ کر چینی طلباء کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرنا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد 4,700 سے زائد طلباء کو امریکی امیگریشن ڈیٹا بیس سے حذف کر دیا گیا جو ان کی ملک بدری کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی چائنا پر خصوصی کمیٹی نے حال ہی میں چھ اعلیٰ یونیورسٹیوں کو خط لکھ کر ان سے استفسار کیا کہ وہ چینی طلباء کو جدید سائنسی اور تکنیکی پروگرامز میں داخلہ کیوں دیتی ہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین جان مولینار نے دعویٰ کیا کہ امریکی ویزہ سسٹم “بیجنگ کے لیے ایک ٹروجن ہارس” بن چکا ہے۔ اس سب کے بیچ، امریکی کانگریس میں پیش کیے گئے “Stop Chinese Communist Prying Act” جیسے بلز، چینی طلباء کے لیے تعلیم کے دروازے مکمل بند کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ بیجنگ نے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ “قومی سلامتی کے نام پر امتیازی اور محدود اقدامات” بند کرے۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا نے یوکرین کی نیٹو رکنیت مسترد کردی چین کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی تعلیم کی روح کے منافی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی تبادلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ڈیوک یونیورسٹی کے پروفیسر چن ییران نے کہا کہ “یہ سراسر غلط تاثر ہے کہ چینی طلباء یہاں آکر امریکا کی تحقیق چوری کرکے چین واپس چلے جاتے ہیں۔” اُن کے مطابق “زیادہ تر طلباء متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنی تعلیم پر کروڑوں یوان خرچ کرتے ہیں تاکہ یہاں رہ کر بہتر مستقبل بنا سکیں۔” نیویارک میں قائم غیر منافع بخش تنظیم “کمیٹی آف 100” نے بھی امریکی قانون سازوں کو متنبہ کیا ہے کہ ایسے اقدامات امریکا کی سائنسی و تکنیکی قیادت کو کمزور کریں گے۔ ایک طرف طلباء کی حفاظت پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو دوسری جانب مالی بوجھ بھی ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ویزہ منسوخ ہونے کے بعد طلباء کو اچانک ملک بدر کیے جانے کا خوف، کیمپسز میں امتیازی سلوک، اور اسکالرشپ کی عدم دستیابی نے اُنہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے خوابوں کو یا تو دفن کریں یا کہیں اور نئی امید کی تلاش کریں۔ 2023 میں چینی طلباء نے امریکی معیشت میں 14.3 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا۔ پندرہ سال تک امریکا میں سب سے بڑی بین الاقوامی طلباء کی کمیونٹی چین کی تھی مگر گزشتہ سال انڈیا نے یہ مقام حاصل کر لیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو امریکی تعلیمی ادارے اور معیشت دونوں کو طویل المدتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: فلسطین میں نسل کشی: روس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے ہیں، روسی قونصل جنرل
یہ زمین صرف ہماری نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے، مریم نواز

ارتھ ڈے کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پیغام دیا کہ “زمین صرف ہماری نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے۔“ مریم نواز شریف نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف باتیں نہ کریں بلکہ عملی اقدامات سے زمین کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا بروقت سدباب نہ کیا گیا تو ہمارا کل، آج سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے انکشاف کیا کہ پنجاب حکومت نے زمینی ماحولیاتی تحفظ کو اپنی پالیسی کا مرکزی جزو بنا دیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ “ہم نے سرسبز پنجاب مہم کے تحت لاکھوں درخت لگا کر قدرتی حسن کو بحال کرنے کی ٹھوس کوشش کی ہے۔” ایک انقلابی قدم کے طور پر پنجاب میں پاکستان کی پہلی سمارٹ انوائرمنٹ فورس قائم کر دی گئی ہے جو صنعتی آلودگی پر نظر رکھے گی، جبکہ خودکار مانیٹرنگ سسٹمز سے کارخانوں کی نگرانی کا عمل مزید سخت کیا جا رہا ہے۔ مریم نواز نے مزید کہا کہ “فصلوں کی باقیات جلانے کی روک تھام کے لیے سپر سیڈرز فراہم کیے جا رہے ہیں اور یہ کہ پنجاب وہ پہلا صوبہ ہے جس نے جامع کلائمیٹ پالیسی متعارف کرائی ہے۔” ان کا واضع پیغام تھا کہ “ہمیں اپنی زمین کے لیے مل جل کر کام کرنا ہے۔ آئیں، عہد کریں کہ ہم ایک بہتر، سرسبز اور محفوظ پاکستان کے لیے متحد ہو جائیں۔” اگر سوچا جائے تو یہ ارتھ ڈے، صرف ایک دن نہیں، ایک تحریک ہے، ایک وعدہ ہے زمین سے، انسانیت سے اور آنے والی نسلوں سے۔ مزید پڑھیں: میرپورخاص کی پولیس لائنز میں دھماکہ، اسلحہ و گولہ بارود سمیت حساس ہتھیار تباہ
ہندوکش و ہمالیہ کی برف پگھلنے لگی، دو ارب انسانوں کے لیے خشک سالی کا خطرہ

کوہ ہندوکش اور ہمالیہ کی برف، جو صدیوں سے زندگی کا سرچشمہ رہی ہیں، اب کم ترین سطح تک پگھل چکی ہے۔ یہ انکشاف یورپی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ برف کے یہ دیو ہیکل ذخائر، جو افغانستان سے لے کر میانمار تک پھیلے ہوئے ہیں اب زمین کے قطبی علاقوں کے باہر میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ مانے جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کی رپورٹ کے مطابق، برف کے زمین پر جمنے کا دورانیہ معمول سے 23.6 فیصد کم رہا، جو گزشتہ 23 برسوں میں سب سے کم ہے۔ رپورٹ کے مصنف، محقق شیر محمد کے مطابق اس سال برف باری نہ صرف دیر سے شروع ہوئی بلکہ مجموعی طور پر بھی انتہائی کم رہی۔ مسلسل تیسرے سال یہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے بگڑتے ہوئے اثرات کا واضح ثبوت ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر وہ تقریباً دو ارب افراد ہیں جو ان پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے دریاؤں کے پانی پر زندہ ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: گوگل سرچ مارکیٹ پر قبضے کے لیے AI کا استعمال کر سکتا ہے، امریکی محکمہ انصاف ہندوکش-ہمالیہ خطے میں موجود 12 بڑے دریائی طاس جن میں گنگا، سندھ، برہمپترا، میکونگ اور سالوین شامل ہیں اور اپنے پانی کے لیے ان پہاڑی برفانی ذخائر پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن اب، ان دریاؤں کا بہاؤ بھی خطرے میں ہے۔ آئی سی آئی ایم او ڈی نے خبردار کیا ہے کہ ان علاقوں میں آنے والے مہینوں میں خشک سالی، زیر زمین پانی پر بڑھتا ہوا دباؤ اور فصلوں کی تباہی جیسے سنگین مسائل سامنے آسکتے ہیں۔ ان ممالک میں پہلے ہی خشک سالی کی وارننگز جاری کی جا چکی ہیں جبکہ گرمی کی طویل اور شدید لہروں نے انسانی صحت اور معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق میکونگ اور سالوین جیسے دریا جو چین اور میانمار کے لیے زندگی کا ذریعہ ہیں اور اپنی نصف برفانی تہہ کھو چکے ہیں۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ آنے والے مسائل کی گھنٹی ہے۔ آئی سی آئی ایم او ڈی کے ڈائریکٹر جنرل، پیما گیامٹسو کا کہنا ہے کہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پانی کے مؤثر انتظام، علاقائی تعاون، اور طویل المدتی ماحولیاتی پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق ایشیا موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ بن چکا ہے۔ گلیشیئرز کا پگھلاؤ پچھلے چھ سالوں میں خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے جو مستقبل کے لیے ایک خوفناک منظر پیش کر رہا ہے۔مزید پڑھیں: امریکا نے یوکرین کی نیٹو رکنیت مسترد کردی، ٹرمپ امن چاہتا ہے یا معاشی مفاد؟
میرپورخاص کی پولیس لائنز میں دھماکہ، اسلحہ و گولہ بارود سمیت حساس ہتھیار تباہ

میرپور خاص میں پولیس لائنز کے اندر واقع اسلحہ و گولہ بارود کے ذخیرے میں زور دار دھماکہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑک اٹھی۔ چند ہی لمحوں میں آنسو گیس کے گولے پھٹنے لگے اور سارا علاقہ زہریلے دھوئیں اور گیس سے بھر گیا، جس سے مقامی آبادی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ رہائشی کمپلیکس میں مقیم شہری سانس لینے میں دشواری محسوس کرنے لگے اور متعدد افراد کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ آنکھوں میں جلن، کھانسی اور گھبراہٹ نے علاقے کو میدانِ جنگ کا منظر دے دیا۔ پولیس، ریسکیو 1122، فائر بریگیڈ اور بم ڈسپوزل اسکواڈ فوری طور پر موقع پر پہنچے اور کئی گھنٹوں کی سخت جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ ذرائع کے مطابق آگ سے آنسو گیس کے گولوں، پروپیلر بندوقوں اور دیگر حساس ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ تباہ ہوچکا ہے۔ ایس ایس پی میرپورخاص، ڈاکٹر سمیر نور چنا نے نہ صرف امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی بلکہ علاقے کو فوری طور پر سیل کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے بی ڈی ایس نے جائے وقوعہ کا تفصیلی معائنہ شروع کر دیا ہے جبکہ پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ آپریشن کے دوران سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔ اس ہولناک واقعے نے سیکیورٹی اور ذخیرہ اندوزی کے طریقہ کار پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مزید پڑھیں: ‘لگتا ہے پورے سندھ کو موئن جوداڑو بنادیں گے’ کینال منصوبے کے خلاف آخر احتجاج کیوں کیا جارہا ہے؟
امریکا نے یوکرین کی نیٹو رکنیت مسترد کردی

امریکا کی جانب سے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا امکان مسترد کیے جانے کے بعد روس نے اطمینان کا سانس لیا ہے اور یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ کریملن کی دیرینہ خواہش پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امریکی مؤقف کو ’اطمینان بخش‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے واشنگٹن سے مختلف سطحوں پر یہ سنا ہے کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت خارج از امکان ہے۔ ظاہر ہ، یہ بات ہمارے موقف سے مطابقت رکھتی ہے اور ہمیں اس پر اطمینان ہے۔“ روس کے لیے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت ایک سرخ لکیر سمجھی جاتی رہی ہے اور صدر ولادیمیر پوتن نے اسی خطرے کو جواز بنا کر 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں سب سے بڑے تصادم میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مغربی دنیا اسے روس کا سامراجی اقدام قرار دیتی ہے لیکن ماسکو اسے ایک تاریخی موقع گردانتا ہے ایسا موقع جب وہ مغرب کی “توسیع پسندانہ پالیسیوں” کے خلاف کھڑا ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ وہ روس-یوکرین جنگ ختم کروا سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اُن کا یہ بیان کہ “یوکرین کی نیٹو میں شمولیت اب زیر غور نہیں” ماسکو کے لیے ایک واضح اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: فلسطین میں نسل کشی: روس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے ہیں، روسی قونصل جنرل ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی سوشل میڈیا ایپ “ٹروتھ سوشل” پر پوسٹ کی، اس میں انہوں نے کہا کہ “روس اور یوکرین کو اس ہفتے معاہدہ کرنا ہوگا۔ دونوں بعد میں امریکا کے ساتھ بڑا کاروبار کریں گے اور دولت کمائیں گے“۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “کیا ٹرمپ واقعی امن چاہتے ہیں، یا پھر ایک ایسا معاہدہ جس سے امریکا کو معاشی فائدہ ہو اور روس کو جغرافیائی؟ پوٹن کے ترجمان پیسکوف نے ٹرمپ کے ان بیانات پر براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا، مگر ساتھ ہی اشارہ دے دیا کہ ماسکو کسی بھی “پرامن حل” کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم امریکی فریق سے رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ یہ کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی۔ تاہم، امن معاہدے کی باتیں عوامی سطح پر نہیں کی جا سکتیں بلکہ مکمل رازداری میں کی جانی چاہئیں۔“ ضرور پڑھیں: پاکستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کو آگے بڑھائیں گے، شیخ عبداللہ بن زید اس دوران مالیاتی منڈیوں میں بھی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ روسی روبل نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں چھلانگ لگائی ہے اور جون 2024 کے بعد پہلی بار 80 روبل فی ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ مارکیٹ “امن کی امید” کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ جہاں ایک جانب ٹرمپ امن کی امید دلا رہے ہیں، وہیں رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ روس امن کی قیمت پر زمین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کریملن کا مؤقف واضح ہے کہ“یوکرین کو نیٹو سے دستبردار ہونا ہوگا اور روس کے زیرقبضہ علاقوں سے اپنی افواج واپس بلانی ہوں گی۔“ یہ مطالبات یوکرین کے لیے ناقابل قبول ہیں اور موجودہ حکومت کسی بھی ایسے معاہدے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی جو اس کی خودمختاری کو کمزور کرے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ “کیا واشنگٹن کا مؤقف بدلنا کسی بڑے معاہدے کی پیش بندی ہے؟” مزید پڑھیں: فلسطین میں نسل کشی: روس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے ہیں، روسی قونصل جنرل
کینال منصوبہ کے خلاف عدالتوں میں ہڑتال: ’لگتا ہے پورے سندھ کو موئن جوداڑو بنادیں گے‘

سندھ بار کونسل کی کال پر کراچی بار کی سٹی کورٹ میں ہڑتال کے دوران وکلاء کام بند کردیا، سٹی کورٹ کراچی کے وکلاء کے عدالتوں میں پیش نہ ہونے سے کارروائی ٹھپ ہوکر رہ گئی۔ سندھ بارکونسل نے نہروں کی تعمیرکے معاملے پرغیرمعینہ مدت کیلئے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جس کے باعث سٹی کورٹ میں ہڑتال کے دوران وکلا نےکورٹ کے داخلی دروازے بند کردیے۔ دوسری جانب عدالت کے باہر سائلین کا رش لگ گیا اور عدالتی کارروائی معطل کردی گئی ہے۔ سندھ بار کونسل کے مطابق وکلابرادری کے مطالبات تسلیم نہ ہونے تک عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔ دریائے سندھ پر وفاقی حکومت کی جانب سے کینال بنانے کے خلاف خیرپور ببرلو بائی پاس پر وکلا کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے۔ کراچی بار سمیت سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی وکلا احتجاج میں شریک ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے سابق سیکرٹری ایڈوکیٹ حسیب جمالی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت 1991 ایکارڈ کے مطابق سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہیں دے سکی ہے اور اب ایک غیر قانونی عمل کے نتیجے میں یہ سندھ کے وسائل حاصل کرنا چاہ رہے ہیں ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ دیہی اور شہری سندھ میں پانی کی شدید قلت ہے کراچی میں لوگ بھاری قیمت پر ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں اور اگر ایسی صورتحال میں کینال بنا کر دو لاکھ ایکڑ کو سیراب کرنے کی کوشش کی گئی تو سندھ کے لوگ پانی سے محروم ہوجائیں گے یہاں کا کسان کس طرح زندگی گزارے گا؟ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق بدین، ٹھٹھہ اور سجاول یہ وہ ضلع ہیں جہاں اگلے 12 برس میں زمین کاشت کاری کے قابل نہیں رہے گی۔ پہلے ہی کئی ایکڑ پر زمینیں سیم و تھور کا شکار ہیں جن پر حکومت کاشت کاری نہیں کرسکتی ایسی صورتحال میں کینال بنانا سندھ کی عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ مزید پڑھیں: ہر تنظیم اور گروپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ سڑکیں بند نہ کریں، شرجیل انعام میمن دنیا بھر میں زمینوں کی تقسیم کے حوالے سے مؤثر پالیسی ترتیب دی جاتی ہے۔ سندھ لینڈ کلونائزیشن 1912 اس کی مثال ہے جس کے تحت مکمل ضابطے اور مقررہ وقت کے تحت حکومت زمین لوگوں کو فراہم کرتی ہے جس میں اس کا مقصد بھی تحریر کیا جاتا ہے اور عمومی طور پر یہ سب زمینیں مقامی لوگوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ حسیب جمالی نے مزید بتایا کہ اس کینال کے منصوبے میں کسی بھی قسم کی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی اور نا ہی کوئی نوٹیفیکیشن فراہم کیا گیا ہے کوئی نہیں جانتا یہ زمینیں کن لوگوں کے حوالے کی جائیں گی۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے اس منصوبے کا افتتاح تو کردیا ہے مگر اس فیصلے سے پہلے عوام کے بارے میں نہیں سوچا گیا لگتا ہے یہ پورے سندھ کو موئن جو داڑو بنا دیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے کا ہر طبقہ ہمارے ساتھ شامل ہو یہ ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہے۔ وفاقی حکومت ملک میں زمینداری کے نظام کو لانا چاہتی ہے سندھ میں چھوٹے ہاری کی زمینیں پہلے ہی پانی سے محروم رہتی ہیں۔ جب تک حکومت اس فیصلے کو واپس نہیں لیتی یہ دھرنا جاری رہے گا۔ ہم اس احتجاج کے درائرہ کار کو مزید وسعت دیتے ہوئے بندرگاہوں کو بند کرنے کے معاملے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ ایڈوکیٹ اشتیاق جتوئی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے ہمارے مطالبات سندھ کی عوام کے لیے ہیں۔ سندھ میں کینالز بنانا مکمل طور پر ٖغیر قانونی ہے سب سے زیادہ متاثر کراچی کے لوگ ہوں گے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زمینداروں کو زمینیں فراہم کی جارہی ہیں یہ عام کسان کا معاشی استحصال ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے حکومت نے عدلیہ بھی اپنے زیر اثر کرلیا ہے۔ ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو ریلوے لائن بند کردیں گے۔ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے سیکرٹری ڈاکٹر معروف بن رؤف کے مطابق یہ دھرنا، سندھ کے زرعی، ماحولیاتی اور مقامی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا ۔ جامعات صرف تعلیم و تحقیق کے مراکز ہی نہیں بلکہ اسی کے ساتھ معاشرتی شعور، انصاف اور جمہوری قدروں کی نرسریاں بھی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم، مقامی خودمختاری اور ماحولیاتی توازن کا تحفظ صرف کسانوں، وکلا یا ماہرینِ ماحولیات کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہم سب کی مشترکہ قومی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید کہا دھرنے میں جامعات کے اساتذہ وفود بھی شرکت کر رہے ہیں سندھ کی علمی برادری اپنی زمین، پانی اور زبان کے تحفظ کے لیے ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرے گی۔ ہم تمام تعلیمی اداروں، اساتذہ اور طلبہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد کو صرف ایک احتجاج نہ سمجھیں، بلکہ اسے اپنی تاریخی، ثقافتی اور ماحولیاتی بقاء کی تحریک سمجھ کر اس کا حصہ بنیں۔ بطور صوبہ سندھ کے شہری، ہم ملک اور صوبہ کے اجتماعی مفاد میں ہر اس چیز کے ساتھ ہیں جو اس ملک اور صوبہ کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن سے مشیر وزیر اعظم رانا ثنا ء اللہ نے ٹیلوفونک رابطہ بھی کیا تھا اور معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ کہ کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کو نہیں دیا جا سکتا، پانی کی تقسیم انتظامی اورتکنیکی مسئلہ ہے، حل بھی انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر نکالا جائے گا۔کسی صوبے کی حق تلفی ممکن نہیں، صوبوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے، مشاورت کے عمل کو مزید وسعت دی جائے گی۔